- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
ہمارے نظام تعلیم کا المیہ ہمارے قومی المیوں کی فہرست میں ایک اہم ایشو ہے۔ آج ہی ایک بھائی سے اس بات پر گفتگو ہوئی تو کچھ باتیں سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک المیہ تو یہ ہے کہ ہم اپنی مادری زبان میں سائنسی علوم نہیں پڑھاتے جبکہ ہر قوم اپنی مادری زبان میں ہی پڑھاتی ہے، ہمیں انگریزی کا ہوکا ہے۔
میں نے کہا: بعض علوم تو مادری زبان میں منتقل ہی نہیں کیے جا سکتے۔ اب میتھس تو انگریزی میں ہے ہی نہیں بلکہ اس کی اصل زبان تو لاطینی ہے یا یونانی ہے وغیرہ۔ اب آپ ایکویشنز کا کیسے اردو میں ترجمہ کریں گے؟ سائن تھیٹا اور کاز تھیٹا کا اردو میں ترجمہ ممکن ہے؟ اسی طرح فزکس میں نومیریکلز یا کیمسٹری میں آرگینک کو اردو زبان میں ترجمہ کیسے ممکن ہے؟ کم از کم جس نے یہ مضامین پڑھے، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ ہمارے یونیورسٹیوں میں سائنس کے یہ مضامین پڑھاتے ہوئے کتنی انگریزی بولی جاتی ہے، بلکہ پی ایچ ڈی پروفیسرز پنجابی میں پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ تو عملا تو ہم مادری زبان میں ہی سائنس کے مضامین پڑھتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک یہ کوئی ایشو نہیں ہے بشرطیکہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے جیسا کہ چل رہا ہے۔
باقی ہر مضمون کی کچھ اصطلاحات ہیں، اب ہماری زبان اردو میں انگریزی زبان کے اتنے الفاظ گھس گئے ہیں اور اس طرح اس زبان کا حصہ بن گئے ہیں کہ ان کا ترجمہ ہماری قوم کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کر دے گا۔ مثلا ہم بائیالوجی کے طالب علم کو بلڈ پریشر پڑھائیں تو شاید اسے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے بلکہ ایک دیہاتی کو بھی یہ لفظ سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہم اسے بلڈ پریشر کا بلند فشار خون سے ترجمہ کر کے بتلائیں تو یہ اس کے لیے انگریزی لفظ سے زیادہ مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اردو میں اگر آپ نے کوئی نئی اصطلاح لانی ہی ہے تو وہ یا تو فارسی سے لائیں گے یا عربی سے۔ اب کمپیوٹر کے لیے ترجمہ کہاں سے لائیں گے۔ اردو تو خود متنوع زبانوں کا مجموعہ ہے۔ آپ اس کے ترجمے کے لیے فارسی یا عربی کی طرف دیکھیں گے۔ عربی والوں نے آلۃ الحساب ترجمہ کیا ہے، آپ آلہ حساب کر لیں گے۔ لیا تو پھر بھی آپ نے غیر زبان ہی سے۔ تو اس سے بہتر ہے کہ اردو کے مصادر میں ترکی، فارسی، عربی، سنسکرت کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی اضافہ کر لیں۔
تو دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ ہے کہ سائنس کے مضامین میں اب ان کی اصطلاحات کو ہماری قوم انگریزی میں زیادہ بہتر سمجھتی ہے لہذا انہیں اردو میں ترجمہ کرنا مفید نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کلاس میں لیکچر انگریزی میں نہ ہونا چاہیے بلکہ اصلا مادری زبان میں ہو کہ جس میں انگریزی کا تڑکا ہو تو طلباء کے کچھ پلے پڑے گا اور اس کے کانسپٹس کلیئر ہوں گے۔
پھر نصاب پر بات چلی تو انہوں نے کہا کہ نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے یہاں تک کہ سائنس کے مضامین میں بھی۔ میں نے کہا یہ بات بالکل درست ہے۔ ہمیں کیمبرج یا آکسفورڈ کے سائنس کے مضامین فزکس، کیمسٹری، بائیالوجی، ریاضی وغیرہ کو ری رائٹ کرنے کی ضرورت ہے اور نظر ثانی کا مقصود صرف اتنا ہے کہ یہ پیور سائنس، پیور نہ رہے بلکہ خدا کی طرف لے جانے والی بن جائے یعنی سائنس پڑھنے والا الحاد کی بجائے خدا پر ایمان کی طرف راغب ہو۔ یہی کچھ ہمیں سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹرانومی، تھیوریٹکل فزکس، بائیالوجی اور میتھس تو خدا تک پہنچا کر رہتی ہے، اگر کوئی صاحب دل اس پر کام کرے تو۔ اور اسلام اینڈ سائنس یا قرآن اینڈ سائنس کے حوالے سے جو کام ہوا، اس کا مقصود بھی یہی ہے۔
پھر یہ بات چلی ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں رٹا سسٹم ہے یعنی ہم علم کو ری پروڈیوس کرتے ہیں اس کی ایپلیکیشن نہیں کرتے جبکہ یورپ میں علم کی ایپلیکیشن ہوتی ہے لہذا وہ ہم سے آگے ہیں۔ میں نے کہا: یہ تجزیہ بھی بالکل درست ہے۔ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں دینی مدارس کا بھی یہی المیہ ہے کہ وہاں علم ری پروڈیوس ہو رہا ہے، ایپلیکیشن نہیں ہو رہی اور قوم کی ذہانت علم کی ایپلیکیشن سے بڑھتی ہے نہ کہ اس کی ری پروڈکشن سے۔ میں نے کہا: یہ بھی درست ہے۔ انہوں نے کہا: ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب سے کسی نے انٹرویو کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ پاکستان میں تو ایک سو پچاس یونیورسٹیاں ہیں اور آپ کیا کہہ رہے ہی؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ کالجز ہیں، یونیورسٹی کوئی نہیں ہے کیونکہ یونیورسٹی کا کام علم کی تخلیق یعنی کری ایشن اور پیدائش یعنی پروڈکشن ہے جبکہ کالجز یہ کام کرتے ہیں کہ جو علم کری ایٹ ہو چکا ہو یا پروڈیوس ہو چکا ہو، اس کو ری پروڈیوس کرتے ہیں اور یہی کام ہمارے ہاں کی پاکستانی یونیورسٹیاں کر رہی ہیں۔
پھر مقاصد تعلیم کی بات چلی تو اس میں تو بیڑا ہی غرق ہے۔ ہم یہ کیوں پڑھنا چاہتے ہیں اور پڑھ کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کچھ معلوم نہیں۔ اس بارے راقم کے ذہن میں یہ مثال ہے کہ تعلیم کے مقاصد متعین نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟ سوال تو یہ ہے کہ کیا لڑکیوں کو انجینیئرنگ کی تعلیم کی ضرورت ہے؟ یا اگر وہ حاصل کر لیں گی تو ان کی مارکیٹ میں کیا کھپت ہو گی؟ مثلا اگر وہ گائنی کی تعلیم حاصل کر لیں یا چائلڈ سپیشلسٹ بن جائیں یا ہوم اکنامکس میں کچھ کر لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کریں گی۔ لیکن یہاں تو جیسے کچھ متعین ہی نہیں ہے کہ کس کو کیا پڑھنا چاہیے یا کس کے لیے کیا پڑھنا یا کون سی ڈگری حاصل کرنا مفید ہے۔ بس اسی ڈگری کے پیچھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں لگی ہیں کہ جس کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہے، یا ایڈورٹزمنٹ کے ذریعے اہم بنا دی گئی یا جس میں فیس کم ہے یا جس میں کم نمبروں کی وجہ سے ایڈمشن مل گیا وغیرہ
پھر یہ بات آئی کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہ کریں، وہ کریں۔ یہ کچھ کر لیا، وہ کر لیا لیکن نتائج نہیں نکلے۔ میں نے کہا: ایک بات تو ہے کہ جو کرنا ہے، وہ اپنے آپ کو وقف کر کے کرنا ہے اور ابھی بیوی بچے اور گھر وغیرہ کی ذمہ داریاں ہیں۔ تو جو نواجون کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ چالیس سال کی عمر کے بعد کچھ کریں۔ اس وقت تک بس اپنے گھر بار کو سنبھالیں، اپنی جاب کریں، اپنا وژن مکمل کریں، اپنی ٹیم بنانے کی کوشش کریں کیونکہ کوئی بھی بڑا کام ٹیم ورک کے بغیر نہیں ہوتا۔ ۳۷ سال سے چالیس سال عمر میں ہمیں تین سالوں میں اگلے تین سالوں کے لیے کچھ سیونگ کر لیں اور چالیس سال کے بعد کم از کم تین سال کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کا تجربہ کر لیں، اس کام کے لیے جو آپ بطور مشن کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان تین سالوں میں مصلے پر بیٹھ جائیں اور اللہ سے مانگیں اور اگر اللہ نے کسی رستے پر ڈال دیا تو اس کا شکر ادا کریں، اور اللہ تعالی آپ کے اخلاص پر ان شاء اللہ آپ کو ضائع نہیں کریں گے۔ کام اس خاص عمر کے بعد ہی ہوتے ہیں جبکہ آپ کی کچھ کریڈیبلٹی بن چکی ہو۔
پس ہماری امت کے نوجوانوں کو اس عمر میں جاگتے میں خواب ضرور دیکھنے چاہیے اور جب تک یہ خواب دیکھنے والے ہزاروں میں نہیں ہوں گے، اس وقت تک امت میں احیاء کا عمل شروع نہیں ہو گا۔ اور اپنے خوابوں کی تعبیر مکمل کرنے کے لیے مجھے تو یہی پلاننگ سمجھ میں آتی ہے کہ چالیس سال تک گھر بار کی خدمت کریں اور اس کے بعد دین یا کسی بھی دینی مشن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور ٹیم ورک کے ساتھ کوئی بڑا دینی کام کریں۔ اکیلا شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
آپ کوئی ٹیلی ویژن چینل کھولنا چاہتے ہیں یا کوئی اسلامی یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں یا آپ کوئی عالمی تحقیقی ادارہ قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا کوئی این جی او بنا کر ویلفیئر کا کام کرنا چاہتے ہیں یا کسی دعوتی اور تحریکی کام کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مناسب وقت چالیس کے بعد کا ہے، اس سے پہلے تو لوگ یہی کہیں گے کہ کیا منڈا کھنڈا ہے اور اتنے بڑے نعرے لگا رہا ہے۔ کم از کم آپ کی ڈاڑھی میں چند بال تو سفید ہوں کہ لوگ آپ کو میچیور خیال کریں۔ اور اگر کسی کو اس سے پہلے ہی کوئی اپرچونٹی مل جاتی ہے تو ضرور اویل کریں۔ واللہ اعلم بالصواب
میں نے کہا: بعض علوم تو مادری زبان میں منتقل ہی نہیں کیے جا سکتے۔ اب میتھس تو انگریزی میں ہے ہی نہیں بلکہ اس کی اصل زبان تو لاطینی ہے یا یونانی ہے وغیرہ۔ اب آپ ایکویشنز کا کیسے اردو میں ترجمہ کریں گے؟ سائن تھیٹا اور کاز تھیٹا کا اردو میں ترجمہ ممکن ہے؟ اسی طرح فزکس میں نومیریکلز یا کیمسٹری میں آرگینک کو اردو زبان میں ترجمہ کیسے ممکن ہے؟ کم از کم جس نے یہ مضامین پڑھے، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ ہمارے یونیورسٹیوں میں سائنس کے یہ مضامین پڑھاتے ہوئے کتنی انگریزی بولی جاتی ہے، بلکہ پی ایچ ڈی پروفیسرز پنجابی میں پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ تو عملا تو ہم مادری زبان میں ہی سائنس کے مضامین پڑھتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک یہ کوئی ایشو نہیں ہے بشرطیکہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے جیسا کہ چل رہا ہے۔
باقی ہر مضمون کی کچھ اصطلاحات ہیں، اب ہماری زبان اردو میں انگریزی زبان کے اتنے الفاظ گھس گئے ہیں اور اس طرح اس زبان کا حصہ بن گئے ہیں کہ ان کا ترجمہ ہماری قوم کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کر دے گا۔ مثلا ہم بائیالوجی کے طالب علم کو بلڈ پریشر پڑھائیں تو شاید اسے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے بلکہ ایک دیہاتی کو بھی یہ لفظ سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہم اسے بلڈ پریشر کا بلند فشار خون سے ترجمہ کر کے بتلائیں تو یہ اس کے لیے انگریزی لفظ سے زیادہ مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اردو میں اگر آپ نے کوئی نئی اصطلاح لانی ہی ہے تو وہ یا تو فارسی سے لائیں گے یا عربی سے۔ اب کمپیوٹر کے لیے ترجمہ کہاں سے لائیں گے۔ اردو تو خود متنوع زبانوں کا مجموعہ ہے۔ آپ اس کے ترجمے کے لیے فارسی یا عربی کی طرف دیکھیں گے۔ عربی والوں نے آلۃ الحساب ترجمہ کیا ہے، آپ آلہ حساب کر لیں گے۔ لیا تو پھر بھی آپ نے غیر زبان ہی سے۔ تو اس سے بہتر ہے کہ اردو کے مصادر میں ترکی، فارسی، عربی، سنسکرت کے علاوہ انگریزی زبان کا بھی اضافہ کر لیں۔
تو دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ ہے کہ سائنس کے مضامین میں اب ان کی اصطلاحات کو ہماری قوم انگریزی میں زیادہ بہتر سمجھتی ہے لہذا انہیں اردو میں ترجمہ کرنا مفید نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کلاس میں لیکچر انگریزی میں نہ ہونا چاہیے بلکہ اصلا مادری زبان میں ہو کہ جس میں انگریزی کا تڑکا ہو تو طلباء کے کچھ پلے پڑے گا اور اس کے کانسپٹس کلیئر ہوں گے۔
پھر نصاب پر بات چلی تو انہوں نے کہا کہ نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے یہاں تک کہ سائنس کے مضامین میں بھی۔ میں نے کہا یہ بات بالکل درست ہے۔ ہمیں کیمبرج یا آکسفورڈ کے سائنس کے مضامین فزکس، کیمسٹری، بائیالوجی، ریاضی وغیرہ کو ری رائٹ کرنے کی ضرورت ہے اور نظر ثانی کا مقصود صرف اتنا ہے کہ یہ پیور سائنس، پیور نہ رہے بلکہ خدا کی طرف لے جانے والی بن جائے یعنی سائنس پڑھنے والا الحاد کی بجائے خدا پر ایمان کی طرف راغب ہو۔ یہی کچھ ہمیں سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹرانومی، تھیوریٹکل فزکس، بائیالوجی اور میتھس تو خدا تک پہنچا کر رہتی ہے، اگر کوئی صاحب دل اس پر کام کرے تو۔ اور اسلام اینڈ سائنس یا قرآن اینڈ سائنس کے حوالے سے جو کام ہوا، اس کا مقصود بھی یہی ہے۔
پھر یہ بات چلی ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں رٹا سسٹم ہے یعنی ہم علم کو ری پروڈیوس کرتے ہیں اس کی ایپلیکیشن نہیں کرتے جبکہ یورپ میں علم کی ایپلیکیشن ہوتی ہے لہذا وہ ہم سے آگے ہیں۔ میں نے کہا: یہ تجزیہ بھی بالکل درست ہے۔ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں دینی مدارس کا بھی یہی المیہ ہے کہ وہاں علم ری پروڈیوس ہو رہا ہے، ایپلیکیشن نہیں ہو رہی اور قوم کی ذہانت علم کی ایپلیکیشن سے بڑھتی ہے نہ کہ اس کی ری پروڈکشن سے۔ میں نے کہا: یہ بھی درست ہے۔ انہوں نے کہا: ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب سے کسی نے انٹرویو کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ پاکستان میں تو ایک سو پچاس یونیورسٹیاں ہیں اور آپ کیا کہہ رہے ہی؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ کالجز ہیں، یونیورسٹی کوئی نہیں ہے کیونکہ یونیورسٹی کا کام علم کی تخلیق یعنی کری ایشن اور پیدائش یعنی پروڈکشن ہے جبکہ کالجز یہ کام کرتے ہیں کہ جو علم کری ایٹ ہو چکا ہو یا پروڈیوس ہو چکا ہو، اس کو ری پروڈیوس کرتے ہیں اور یہی کام ہمارے ہاں کی پاکستانی یونیورسٹیاں کر رہی ہیں۔
پھر مقاصد تعلیم کی بات چلی تو اس میں تو بیڑا ہی غرق ہے۔ ہم یہ کیوں پڑھنا چاہتے ہیں اور پڑھ کر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کچھ معلوم نہیں۔ اس بارے راقم کے ذہن میں یہ مثال ہے کہ تعلیم کے مقاصد متعین نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟ سوال تو یہ ہے کہ کیا لڑکیوں کو انجینیئرنگ کی تعلیم کی ضرورت ہے؟ یا اگر وہ حاصل کر لیں گی تو ان کی مارکیٹ میں کیا کھپت ہو گی؟ مثلا اگر وہ گائنی کی تعلیم حاصل کر لیں یا چائلڈ سپیشلسٹ بن جائیں یا ہوم اکنامکس میں کچھ کر لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کریں گی۔ لیکن یہاں تو جیسے کچھ متعین ہی نہیں ہے کہ کس کو کیا پڑھنا چاہیے یا کس کے لیے کیا پڑھنا یا کون سی ڈگری حاصل کرنا مفید ہے۔ بس اسی ڈگری کے پیچھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں لگی ہیں کہ جس کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہے، یا ایڈورٹزمنٹ کے ذریعے اہم بنا دی گئی یا جس میں فیس کم ہے یا جس میں کم نمبروں کی وجہ سے ایڈمشن مل گیا وغیرہ
پھر یہ بات آئی کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہ کریں، وہ کریں۔ یہ کچھ کر لیا، وہ کر لیا لیکن نتائج نہیں نکلے۔ میں نے کہا: ایک بات تو ہے کہ جو کرنا ہے، وہ اپنے آپ کو وقف کر کے کرنا ہے اور ابھی بیوی بچے اور گھر وغیرہ کی ذمہ داریاں ہیں۔ تو جو نواجون کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ چالیس سال کی عمر کے بعد کچھ کریں۔ اس وقت تک بس اپنے گھر بار کو سنبھالیں، اپنی جاب کریں، اپنا وژن مکمل کریں، اپنی ٹیم بنانے کی کوشش کریں کیونکہ کوئی بھی بڑا کام ٹیم ورک کے بغیر نہیں ہوتا۔ ۳۷ سال سے چالیس سال عمر میں ہمیں تین سالوں میں اگلے تین سالوں کے لیے کچھ سیونگ کر لیں اور چالیس سال کے بعد کم از کم تین سال کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کا تجربہ کر لیں، اس کام کے لیے جو آپ بطور مشن کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان تین سالوں میں مصلے پر بیٹھ جائیں اور اللہ سے مانگیں اور اگر اللہ نے کسی رستے پر ڈال دیا تو اس کا شکر ادا کریں، اور اللہ تعالی آپ کے اخلاص پر ان شاء اللہ آپ کو ضائع نہیں کریں گے۔ کام اس خاص عمر کے بعد ہی ہوتے ہیں جبکہ آپ کی کچھ کریڈیبلٹی بن چکی ہو۔
پس ہماری امت کے نوجوانوں کو اس عمر میں جاگتے میں خواب ضرور دیکھنے چاہیے اور جب تک یہ خواب دیکھنے والے ہزاروں میں نہیں ہوں گے، اس وقت تک امت میں احیاء کا عمل شروع نہیں ہو گا۔ اور اپنے خوابوں کی تعبیر مکمل کرنے کے لیے مجھے تو یہی پلاننگ سمجھ میں آتی ہے کہ چالیس سال تک گھر بار کی خدمت کریں اور اس کے بعد دین یا کسی بھی دینی مشن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور ٹیم ورک کے ساتھ کوئی بڑا دینی کام کریں۔ اکیلا شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
آپ کوئی ٹیلی ویژن چینل کھولنا چاہتے ہیں یا کوئی اسلامی یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں یا آپ کوئی عالمی تحقیقی ادارہ قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا کوئی این جی او بنا کر ویلفیئر کا کام کرنا چاہتے ہیں یا کسی دعوتی اور تحریکی کام کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مناسب وقت چالیس کے بعد کا ہے، اس سے پہلے تو لوگ یہی کہیں گے کہ کیا منڈا کھنڈا ہے اور اتنے بڑے نعرے لگا رہا ہے۔ کم از کم آپ کی ڈاڑھی میں چند بال تو سفید ہوں کہ لوگ آپ کو میچیور خیال کریں۔ اور اگر کسی کو اس سے پہلے ہی کوئی اپرچونٹی مل جاتی ہے تو ضرور اویل کریں۔ واللہ اعلم بالصواب