• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قُلْ مَن رَّ‌بُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ قُلِ اللَّـهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّ‌ا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ‌ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ‌ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَ‌كَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ‌ ﴿١٦﴾
آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجئے! اللہ (١) کہہ دیجئے! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اور کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود بھی اپنی جان کے بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے (٢) کہہ دیجئے کہ اندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے؟ یا کیا اندھیری اور روشنی برابر ہوسکتی ہیں (٣) کیا جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو، کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے (٤) اور زبردست غالب ہے۔
١٦۔١ یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔
١٦۔٢ یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمائتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔
١٦۔٣ یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہو سکتے۔
١٦۔٤ یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہوگئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہرچیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِ‌هَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّ‌ابِيًا ۚ وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ‌ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِ‌بُ اللَّـهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِ‌بُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ ﴿١٧﴾
اسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہ نکلے پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھی جھاگ کو اٹھا لیا (١) اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں زیور یا سازو سامان کے لئے اسی طرح کی جھاگ ہیں (٢) اسی طرح اللہ تعالٰی حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے (٣) اب جھاگ تو نکارہ ہو کر چلی جاتی ہے (٤) لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے۔ وہ زمین میں ٹھری رہتی ہے (٥) اللہ تعالٰی اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے (٦)۔
١٧۔١ بقدرھا وسعت کے مطابق کا مطلب ہے نالے یعنی وادی دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جاع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھرتا ہے جس طرح قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔
١٧۔١ اس جھاگ سے جب پانی اوپر آجاتا ہے اور جو ناکارہ ہو ختم ہو جاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہو جانے والا ہے۔
١٧۔٢ یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہو جاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔
١٧۔٣ یعی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ ناکارہ اور ختم ہو جاتا ہے۔
١٧۔٤ یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے باقی رہتا ہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔
١٧۔٥ یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرۃ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔
۱۷۔ ٦ یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورہ نور، آیات ٣٩،٤٠ میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَ‌بِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٨﴾
جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں (١) یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہے (٢) اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔
١٨۔١ یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔
١٨۔٢ کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہوگا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) آئینہ دار ہوگا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ‌ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿١٩﴾
کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو (١) نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں ہیں جو عقلمند ہوں (۲)
١٩۔١ یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے
۱۹۔۲ یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کر لیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ ﴿٢٠﴾
جو اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں (١) اور قول و قرار کو توڑتے نہیں۔(۲)
٢٠۔١ یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام
(اوامر و نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورہ اعراف میں گزر چکی ہے۔
٢٠۔٢ اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ‌ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَ‌بَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ﴿٢١﴾
اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں (١) اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں۔
٢١۔١ یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ صَبَرُ‌وا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٢﴾
اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں (١) اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں (٢) اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں (٣) اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں (٤) ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے (٥)۔
٢٢۔١ اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔
٢٢۔٢ ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔
٢٢۔٣ یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔
٢٢۔٤ یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو و درگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا ' (اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ) 41۔حم السجدۃ:34۔ برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہو جائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے '۔
٢٢۔٥ یعنی جو اعلٰی اخلاق کے حامل اور مزکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿٢٣﴾
ہمیشہ رہنے کے باغات (١) جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیوی اور اولادوں میں سے بھی جو نیکوکار ہونگے (٢) ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے۔
٢٣۔١ عدن کے معنی ہیں اقامت۔ یعنی ہمیشہ رہنے والے باغات۔
٢٣۔٢ یعنی اس طرح نیک قرابت داروں کو آپس میں جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتٰی کہ ادنٰی درجے کے جنتی کو اعلٰی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابت دار کے ساتھ جمع ہو جائے۔ فرمایا (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀) 52۔ الطور:21) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں، اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیک رشتے داروں کو اللہ تعالٰی جنت میں جمع فرما دے گا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایمان اور عمل صالح کی پونجی نہیں ہوگی، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، چاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دار جنت میں چلے گئے ہوں۔ کیونکہ جنت میں داخلہ حسب نسب کی بنیاد پر نہیں، ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا۔ (من بطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم۔ جسے اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْ‌تُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٤﴾
کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔
وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ‌ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۙ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ‌ ﴿٢٥﴾
اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے (١)
٢٥۔١ یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ‌ ۚ وَفَرِ‌حُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَ‌ةِ إِلَّا مَتَاعٌ ﴿٢٦﴾
اللہ تعالٰی جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے (١) یہ دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے (٢) حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے (٣)۔
٢٦۔١ جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انہیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فروانی، اس بات کی دلیل؛ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی اس پر ناراض ہے۔
٢٦۔٢ کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔
٢٦۔٣ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے؟ (صحیح بخاری) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحیح مسلم)
 
Top