• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٩﴾
اور تمہارے بچے (بھی) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیے (١) اللہ تعالٰی تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے۔ اللہ تعالٰی ہی علم و حکمت والا ہے۔
٥٩۔١ ان بچوں سے مراد احرار بچے ہیں، بلوغت کے بعد ان کا حکم عام مردوں کا سا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی کے گھر آئیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْ‌جُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ‌ مُتَبَرِّ‌جَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ‌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٦٠﴾
بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اور خواہش ہی) نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں (١) تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے، (٢) اور اللہ تعالٰی سنتا اور جانتا ہے۔
٦٠۔١ ان سے مراد وہ بوڑھی اور راز کار رفتہ عورتیں ہیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لئے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے نہ وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں، نہ مرد ہی ان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے ' کپڑے اتار دیں سے مراد جو شلوار قمیض کے اوپر عورت پردے کے لئے بڑی چادر یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بناؤ سنگھار کے ذریعے سے ' اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیف پردہ کے حکم سے مستشنٰی ہوگی اور اس کے لئے مکمل پردہ کرنا ضروری ہوگا۔
٦٠۔٢ یعنی مذکورہ بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ بھی استعمال کرتی رہیں تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَ‌جٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَ‌جِ حَرَ‌جٌ وَلَا عَلَى الْمَرِ‌يضِ حَرَ‌جٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُبَارَ‌كَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٦١﴾
اندھے پر، لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر (مطلقاً) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کے کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ۔ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل شدہ، یوں ہی اللہ تعالٰی کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ‌ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ‌ لَهُمُ اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٦٢﴾
با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں توجب تک آپ سے اجازت نہ لیں نہیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں (١) پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالٰی سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
٦٢۔١ یعنی جمعہ وعیدین کے اجتماعات میں یا داخلی و بیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّ‌سُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾
تم اللہ تعالٰی کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں (١) سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
٦٣۔١ یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَلَا إِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْ‌جَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٦٤﴾
آگاہ ہو جاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالٰی ہی کا (١) ہے۔ جس روش پر تم ہو وہ اسے بخوبی جانتا ہے (٢) اور جس دن یہ سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اس دن ان کو ان کے کئے سے وہ خبردار کر دے گا۔ اللہ تعالٰی سب کچھ جاننے والا ہے۔
٦٤۔١ خلق کے اعتبار سے بھی، ملک کے اعتبار سے بھی اور ماتحتی کے اعتبار سے بھی۔ وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس چیز کا چاہے، حکم دے۔ پس اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کے کسی حکم کی مخالفت نہ کی جائے اور جس سے اس نے منع کر دیا ہے، اس کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اس لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔
٦٤۔٢ یہ مخالفین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ ہے کہ جو کچھ حرکات تم کر رہے ہو، یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ سے مخفی رہ سکتی ہیں۔ اس کے علم میں سب کچھ ہے اور وہ اس کے مطابق قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة الفرقان

(سورة الفرقان ۔ سورہ نمبر ۲٥ ۔ تعداد آیات ۷۷)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
تَبَارَ‌كَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْ‌قَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرً‌ا ﴿١﴾
بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالٰی جس نے اپنے بندے پر فرقان (١) اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے (٢) لئے آگاہ کرنے والا بن جائے۔
١۔١ فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔
١۔٢ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعاً) 7۔ الاعراف:158) (صحیح مسلم) ' پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ' رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِ‌يكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَ‌هُ تَقْدِيرً‌ا ﴿٢﴾
اس اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی (١) اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا (٢) نہ اس کی سلطنت میں کوئی ساتھی ہے (٣) اور ہرچیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایا (٤) ہے۔
٢۔١ یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔
٢۔٢ اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔
٢۔٣ اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔
٢۔٤ ہرچیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہرچیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کر دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّ‌ا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورً‌ا ﴿٣﴾
ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت و حیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں (١)۔
٣۔١ لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کر سکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَ‌اهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُ‌ونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورً‌ا ﴿٤﴾
اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی (١) ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
٤۔١ مشرکین کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض دوست (مثلاً ابو فکیہہ یسار، عداس اور جبرو غیرہ) سے مدد لی۔ جیسا کہ سورہ النحل آیت ١٠٣ میں اس کی ضروری تفصیل گزر چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَ‌ةً وَأَصِيلًا ﴿٥﴾
اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔
قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ‌ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٦﴾
کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے (١) بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
٦۔١ یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے؟ یقینا نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
 
Top