• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَيَوْمَ يَحْشُرُ‌هُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ﴿١٧﴾
اور جس دن اللہ تعالٰی انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے، انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا یا یہ خود ہی راہ سے گم ہوگئے (١)۔
١٧۔١ دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہونگے۔ اللہ تعالٰی غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کر کے گمراہ ہوئے تھے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ‌ وَكَانُوا قَوْمًا بُورً‌ا ﴿١٨﴾
وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے (١) بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وہ نصیحت بھلا بیٹھے، یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے۔
١٨۔١ یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کار ساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کی بجائے ہمیں اپنا ولی اور کار ساز سمجھو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْ‌فًا وَلَا نَصْرً‌ا ۚ وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرً‌ا ﴿١٩﴾
تو انہوں نے تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی (١) تم میں سے جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔
١٩۔١ یہ اللہ تعالٰی کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالٰی کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے صفائی کا اعلان کر دیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کر سکو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُ‌ونَ ۗ وَكَانَ رَ‌بُّكَ بَصِيرً‌ا ﴿٢٠﴾
ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے (١) اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے (٢) اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا (٣) کیا تم صبر کروگے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے (٤)۔
٢٠۔١ یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔
٢٠۔٢ یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب و تجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔
٢٠۔٣ یعنی ہم نے انبیاء کو اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھ، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے؛ اسی لئے آگے فرمایا، کیا تم صبر کرو گے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پارہ 19
وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْ‌جُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَ‌ىٰ رَ‌بَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُ‌وا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرً‌ا ﴿٢١﴾
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ (١) یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے (٢) ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کر لی ہے۔
٢١۔١ یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے، کسی فرشتے کو بنا کر بھیجا جاتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔
٢١۔٢ یعنی رب آ کر ہمیں کہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری ہے۔
۲۱۔۳ اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالٰی کی منشا کے خلاف ہیں اللہ تعالٰی تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالٰی ایسا کام کیونکر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ يَرَ‌وْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَ‌ىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِ‌مِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرً‌ا مَّحْجُورً‌ا ﴿٢٢﴾
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی (۱) اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے (۲)
۲۲۔۱ اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ) 8۔ الانفال:50)، (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ) 6۔ الانعام:93) میں ہے اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار جان کنی کے وقت یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جاں فزا سناتے ہیں جیسا کہ سورہ حم السجدۃ ۳۰،۳۲ میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے مسند احمد، ابن ماجہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں مومنوں کو رحمت ورضوان الہی کی خوشخبری اور کافروں کو ہلاکت وخسران کی خبر دیتے ہیں۔
۲۲۔۲ حِجْر کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کی بےوقوفی یا کم عمری کی وجہ سے اس کے اپنے مال کو خرچ کرنے سے روک دے تو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِیْ عَلٰی فُلَانِ قاضی نے فلاں کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے حطیم کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے طواف کرتے وقت اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سے ممتاز کر دیا گیا ہے اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسان کے لائق نہیں ہیں معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوشخبری متقین کو دی جاتی ہے یعنی یہ حراما محرما علیکم کے معنی میں ہے آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پر حرام ہیں اس کے مستحق صرف اہل ایمان وتقوی ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورً‌ا ﴿٢٣﴾
اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا (١)
٢٣۔١ ھَبَاَء ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کے اندر داخل ہونے والی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بےحیثیت ہونگے، کیونکہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہونگے اور موافقت شریعت کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بےحیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر جکی ہیں ملاحظہ ہو (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ) 2۔ البقرۃ:264) (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ) 14۔ ابراہیم :18)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ‌ مُّسْتَقَرًّ‌ا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا ﴿٢٤﴾
البتہ اس دن جنتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی (١)
٢٤۔١ بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہو جائیں گے اور جنت میں یہ اہل خاندان اور حور عین کے ساتھ دوپہر کو آرام فرما ہونگے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کر لینا (مسند احمد ٤۔٧٥)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا ﴿٢٥﴾
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا (١) اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے۔
٢٥۔١ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہو جائیں گے، اللہ تعالٰی فرشتوں کے جلو میں، میدان محشر میں، جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی، حساب کتاب کے لئے جلوہ فرما ہوگا، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت ٢١٠ سے واضح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّ‌حْمَـٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ عَسِيرً‌ا ﴿٢٦﴾
اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّ‌سُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾
اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ کی راہ اختیار کی ہوتی۔
يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴿٢٨﴾
ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا (١)
٢٨۔١ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیئے، اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لئے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کو ایک بہترین مثال سے و اضع کیا گیا ہے۔
 
Top