• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ ﴿٢١٠﴾
اس قرآن کو شیطان نہیں لائے۔

وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٢١١﴾
نہ وہ اس کے قابل ہیں، نہ انہیں اس کی طاقت ہے۔

إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ ﴿٢١٢﴾
بلکہ وہ سننے سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں۔ (١)
٢١٢۔١ ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے، محفوظیت کا بیان ہے۔ ایک تو اس لیے کہ شیا طین کا قرآن لے کر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر و فساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سد باب ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے، تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنا دیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر برق خاطف بن کر گرتے اور بھسم کر دیتے۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ ﴿٢١٣﴾
پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے۔

وَأَنذِرْ‌ عَشِيرَ‌تَكَ الْأَقْرَ‌بِينَ ﴿٢١٤﴾
اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے۔ (١)
٢١٤۔١ پیغمبر کی دعوت صرف رشتے داروں کے لیے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو پوری نسل انسانی کے لیے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور يَا صَبَاحَاهُ کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعے سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہو گئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے؟ سب نے کہا ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا تبا لك اما دعوتنا الا لھذا تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے بلایا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورہ تبت نازل ہوئی (صحیح بخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو بھی فرمایا، تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کر لو، میں وہاں تمہارے کام نہیں آسکوں گا۔ (صحیح مسلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢١٥﴾
اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کر تیری تابعداری کرے۔

فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٢١٦﴾
اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں تو تو اعلان کر دے کہ میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّ‌حِيمِ ﴿٢١٧﴾
اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ ۔

الَّذِي يَرَ‌اكَ حِينَ تَقُومُ ﴿٢١٨﴾
جو تجھے دیکھتا رہتا ہے جبکہ تو کھڑا ہوتا ہے۔

وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ ﴿٢١٩﴾
اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان تیرا گھومنا پھرنا بھی۔ (١)
٢١٩۔١ یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٢٢٠﴾
وہ بڑا ہی سننے والا اور خوب ہی جاننے والا ہے۔

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ ﴿٢٢١﴾
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔

تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٢٢٢﴾
وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (١)
٢٢٢۔١ یعنی اس قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ شیطان تو جھوٹوں اور گنہگاروں (یعنی کاہنوں، نجومیوں وغیرہ) پر اترتے ہیں نہ کہ انبیا و صالحین پر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُ‌هُمْ كَاذِبُونَ ﴿٢٢٣﴾
(اچٹتی) ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں۔ (١)
٢٢٣۔١ یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کاہنوں کو آکر بتلا دیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور ملا لیتے ہیں (جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے۔) ملاحظہ ہو (صحيح بخاری، كتاب التوحيد ، باب قراءة الفاجر والمنافق وبدء الخلق ، باب صفة إبليس وجنوده، صحيح مسلم، كتاب السلام باب تحريم الكهانة وإتيان الكهان)، يُلْقُونَ السَّمْعَ۔ شیاطین آسمان سے سنی ہوئی بعض باتیں کاہنوں کو پہنچا دیتے ہیں، اس صورت میں سمع کے معنی مسموع کے ہوں گے۔ لیکن اگر اس کا مطلب حاسۂ سماعت (کان) ہے، تو مطلب ہو گا کہ شیاطین آسمانوں پر جا کر کان لگا کر چوری چھپے بعض باتیں سن آتے ہیں اور پھر انہیں کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَالشُّعَرَ‌اءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾
شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں۔

أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں۔

وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ﴿٢٢٦﴾
اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ (١)
٢٢٦۔١ شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ مدح و ذم میں، اصول و ضابطے کے بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں، اس لیے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں۔ اسی قسم کے اشعار کے لیے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ ”پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کردے، شعر سے بھرجانے سے بہتر ہے“۔ (ترمذی، ابواب الآداب و مسلم وغیرہ) یہاں اس کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا پیغمبر کاہن ہے نہ شاعر۔ اس لیے کہ یہ دونوں ہی جھوٹے ہیں۔ چنانچہ دوسرے مقامات پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ یٰسین:69، سورۃ الحاقہ: 40 - 43۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُ‌وا اللَّـهَ كَثِيرً‌ا وَانتَصَرُ‌وا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ﴿٢٢٧﴾
سوائے ان کے جو ایمان لائے (١) اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالٰی کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا، (٢) جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔ (٣)
٢٢٧۔١ اس سے ان شاعروں کو مستشنٰی فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایماندار، عمل صالح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر غلط شاعری، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط و تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سے عاری ہوں۔
٢٢٧۔٢ یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعراء کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کافروں کی ہجویہ شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو فرماتے کہ "ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں"۔ (صحیح بخاری) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی شاعری جائز ہے جس میں کذب و مبالغہ نہ ہو اور جس کے ذریعے سے مشرکین و کفار اور مبتدعین و اہل باطل کو جواب دیا جائے اور مسلک حق اور توحید و سنت کا اثبات کیا جائے۔
٢٢٧۔٣ یعنی أَيَّ مَرْجَع يَرْجِعُونَ یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لیے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ”تم ظلم سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہو گا“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورة النمل

(سورة النمل ۔ سورہ نمبر ۲۷ ۔ تعداد آیات ۹۳)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْ‌آنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿١﴾
طس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔
0 نَمْل،چیونٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورہ نمل کہا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
هُدًى وَبُشْرَ‌ىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٢﴾
ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں کے لیے۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٣﴾
جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (١)
٣۔١ یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہوں گے جو ہدایت کے طالب ہوں گے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کرلیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے؟ ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، دراں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ ﴿٤﴾
جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے انہیں ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے (١) ہیں، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ (٢)
٤۔١ یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لیے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لیے بدی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔
٤۔٢ یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔
 
Top