• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
هُدًى وَرَ‌حْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ ﴿٣﴾
جو نیکوکاروں کے (١) لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے۔
٣۔١محسنین محسن کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ، دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار، تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اسطرح فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾
جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں (١)۔
٤۔١ نماز زکوۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض و سنت رسول کے مطابق پابندی سے کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّ‌بِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾
یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں (١)۔
٥۔١ فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ اور مومنون کا آغاز۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿٦﴾
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں (۱) کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں (۲) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (۳)۔
٦۔١ اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔
٦۔۲ان تمام چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
٦۔٢ ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرً‌ا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرً‌ا ۖ فَبَشِّرْ‌هُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٧﴾
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں (١) آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔
٧۔١ یہ اس شخص کا حال ہے جو مذکورہ لہو و لعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذاء محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کردے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ ﴿٨﴾
بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک کئے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں۔
خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّـهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٩﴾
جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا سچا وعدہ ہے، (١) وہ بہت بڑی عزت و غلبہ والا اور کامل حکمت والا ہے۔
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْ‌ضِ رَ‌وَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِ‌يمٍ ﴿١٠﴾
اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انہیں دیکھ رہے (١) ہو اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکے (۲) اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے (۳) اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے۔ (٤)
١٠۔١ تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہونگے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔
١٠۔٢ رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔
١٠۔۳یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔
١٠۔٤ زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
هَـٰذَا خَلْقُ اللَّـهِ فَأَرُ‌ونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١١﴾
یہ ہے اللہ کی مخلوق (١) اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ (کچھ نہیں) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔
١١۔١ ھٰذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کی ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گذشتہ آیات میں ذکر ہوا۔
١١۔۲یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور انہیں مدد کے لیے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان و زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہرچیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لیے پکارا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ‌ لِلَّـهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ‌ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ‌ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿١٢﴾
اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی (١) تھی کہ تو اللہ تعالٰی کا شکر کر (٢) ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالٰی بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔
١٢۔١ حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بےفائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر)
١٢۔٢ شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْ‌كَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾
اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا (١) بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ (۲)
١٣۔١ اللہ تعالٰی نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔
١٣۔۲ یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) 6۔ الانعام:82) کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ظلم عظیم ہے اور آیت ( ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31۔لقمان:13) کا حوالہ دیا۔ مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ‌ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٤﴾
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی (١) ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر (٢) اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے (٣) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
١٤۔١ توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔
١٤۔٢ اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔
١٤۔٣ اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
 
Top