• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورة الحشر

(سورة الحشر ۔ سورہ نمبر ٥۹ ۔ تعداد آیات ۲٤)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
یہ سورت یہود کے ایک قبیلے بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی، اس لئے اسے سورۃ النضیر بھی کہتے ہیں۔ صحیح بخاری۔
سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١﴾
آسمان اور زمین کی ہرچیز اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہ غالب با حکمت ہے۔
هُوَ الَّذِي أَخْرَ‌جَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِ‌هِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ‌ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُ‌جُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّـهِ فَأَتَاهُمُ اللَّـهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّ‌عْبَ ۚ يُخْرِ‌بُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُ‌وا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ‌ ﴿٢﴾
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا (١) تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے (٢) پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا (٣) اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا (٤) اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے (۵) اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) ( ٦) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔ (۷)
٢۔١ مدینے کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، ہجرت مدینہ کے بعد نبی نے ان سے معاہدہ بھی کیا لیکن یہ لوگ درپردہ سازشیں کرتے رہے اور کفار مکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف رابطہ رکھا، حتیٰ کے ایک موقع پر جب کہ آپ ان کے پاس گئے ہوئے تھے، بنو نضیر نے رسول اللہ پر اوپر سے پتھر پھینک کر آپ کو مار ڈالنے کی سازش تیار کی، جس سے وحی کے ذریعے سے آپ بروقت اطلاع کر دی گئی، اور آپ وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ ان کی اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہ ان پر لشکر کشی کی، یہ چند دن اپنے قعلوں میں محصور رہے، بالآخر انہوں نے جان بخشی کی صورت میں جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا جسے رسول اللہ نے قبول فرما لیا، یہاں سے یہ خیبر میں جا کر مقیم ہوگئے، وہاں سے حضرت عمر نے اپنے دور میں انہیں دوبارہ جلا وطن کیا اور شام کی طرف دھکیل دیا جہاں کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کا آخری حشر ہوگا۔
٢۔٢ اس لئے انہوں نے نہایت مضبوط قعلے تعمیر کر رکھے تھے جس پر انہیں گھمنڈ تھا اور مسلمان بھی سمجھتے تھے کہ اتنی آسانی سے یہ قعلے فتح نہیں ہو سکیں گے۔
٢۔٣ اور وہ یہی تھا کہ رسول اللہ نے ان کا محاصرہ کرلیا تھا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
۲۔٤ اس رعب کی وجہ سے ہی انہوں نے جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا ورنہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین اور دیگرلوگوں نے انہیں پیغامات بھیجے تھے کہ تم مسلمانوں کے سامنے جھکنا نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی وصف عطا فرمایا تھا کہ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرعوب ہو جاتا تھا اس لیے سخت دہشت اور گھبراہٹ ان پر طاری ہوگئی اور تمام تر اسباب ووسائل کے باوجود انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور صرف یہ شرط مسلمانوں سے منوائی کہ جتنا سامان وہ لاد کر لے جاسکتے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت ہو، چنانچہ اس اجازت کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور شہتیر تک اکھیڑ ڈالے تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں
٢۔۵ یعنی جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب جلا وطنی ناگزیر ہے تو انہوں نے دوران محاصرہ اندر سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے بھی کام نہ رہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ سامان لے جانے کی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ اپنے اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کر لے جاسکتے تھے اپنے گھر ادھیڑ ادھیڑ کر وہ سامان انہوں نے اونٹوں پر رکھ لیا۔
۲۔ ٦ باہر سے مسلمان ان کے گھروں کو برباد کرتے رہے تاکہ ان پر گرفت آسان ہو جائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ادھیڑے ہوئے گھروں سے بقیہ سامان نکالنے اور حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مزید تخریب سے کام لینا پڑا۔
۲۔۷ کہ کس طرح اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالا دراں حالیکہ وہ ایک نہایت طاقتور اور باوسائل قبیلہ تھا لیکن جب اللہ تعالٰی کی طرف سے مہلت عمل ختم ہوگئی اور اللہ نے اپنے مواخذے کے شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر ان کی اپنی طاقت اور وسائل ان کے کام آئے نہ دیگر اعوان وانصار ان کی کچھ مدد کرسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَوْلَا أَن كَتَبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابُ النَّارِ‌ ﴿٣﴾
اور اگر اللہ تعالٰی نے ان پر جلا وطنی کو مقدر نہ کر دیا ہوتا تو یقیناً دنیا میں ہی عذاب دیتا (۱) اور آخرت میں (تو) ان کے لئے آگ کا عذاب ہے ہی۔
۳۔۱ یعنی اللہ کی تقدیر میں پہلے سے ہی اس طرح ان کی جلاوطنی لکھی ہوئی نہ ہوتی تو ان کو دنیا میں ہی سخت عذاب سے دوچار کر دیا جاتا جیسا کہ بعد میں ان کے بھائی یہود کے ایک دوسرے قبیلے بنو قریظہ کو ایسے ہی عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ ان کے جوان مردوں کو قتل کردیا گیا دوسروں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کا مال مسلمانوں کے لیے غنیمت بنا دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۖ وَمَن يُشَاقِّ اللَّـهَ فَإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٤﴾
یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا تو اللہ تعالٰی بھی سخت عذاب کرنے والا ہے۔
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَ‌كْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ﴿٥﴾
تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا۔ یہ سب اللہ تعالٰی کے فرمان سے تھا اور اس لئے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالٰی رسوا کرے (۱)۔
٥۔١ لینۃ۔ کھجور کی ایک قسم ہے جیسے عجوہ برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال و جائیداد میں جس طرح چاہے، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالٰی بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرارا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمَا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِ‌كَابٍ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُسَلِّطُ رُ‌سُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٦﴾
اور ان کا جو مال اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالٰی اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے (١) اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔
٦۔١ بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَ‌ىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾
بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالٰی تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔
لِلْفُقَرَ‌اءِ الْمُهَاجِرِ‌ينَ الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا وَيَنصُرُ‌ونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿٨﴾
(فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں (۱)۔
٨۔١ اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ‌ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ‌ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِ‌هِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُ‌ونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾
اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی (۱) اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے (۲) بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو (۳) (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے (٤)
۹۔۱ ان سے انصار مدینہ مراد ہیں جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے قبل امین بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے یہ انصار ایمان لا چکے تھے کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے یعنی من قبلھم کا مطلب من قبل ھجرتھم ہے اور دار سے دار الھجرۃ یعنی مدینہ مراد ہے ۔
٩۔۲ یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دے، اس پر حسد محسوس نہیں کرتے، جیسے فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔
۹۔۳ یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ تھا چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیات نازل فرمائی ہے۔ ویوثرون علی انفسھم۔ الایۃ صحیح بخاری۔ ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کر لے ۔ صحیح بخاری۔ کتاب النکاح۔
٩۔٤ حدیث میں ہے ' شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کرلیا ' (صحیح مسلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا اغْفِرْ‌ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَ‌بَّنَا إِنَّكَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٠﴾
اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال (۱) اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
۱۰۔۱ یہ مال فئی کے مستحقین کی تیسری قسم ہے یعنی صحابہ رضی اللہ عنھم کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقوی آگئے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار ومہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفی نصیب لعدم اتصافہ بما مدح اللہ بہ ھولاء فی قولھم رافضی کو جو صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالٰی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں (ابن کثیر)۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ امرتم بالاستغفار لاصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فسببتموھم سمعت نبیکم یقول :لا تذھب ھذہ الامۃ حتی یلعن آخرھا اولھا۔ رواہ البغوی۔ تم لوگوں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا مگر تم نے ان پر لعن طعن کی میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں ۔ حوالہ مذکور ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِ‌جْتُمْ لَنَخْرُ‌جَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَ‌نَّكُمْ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿١١﴾
کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے (١)، لیکن اللہ تعالٰی گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعًا جھوٹے ہیں (٢)۔
١١۔١ جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ منافقین نے بنو نضیر کو یہ پیغام بھیجا تھا۔
١١۔٢ چنانچہ ان کا جھوٹ واضح ہو کر سامنے آگیا کہ بنو نضیر جلا وطن کر دیئے گئے، لیکن یہ ان کی مدد کو پہنچے نہ ان کی حمایت میں مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لَئِنْ أُخْرِ‌جُوا لَا يَخْرُ‌جُونَ مَعَهُمْ وَلَئِن قُوتِلُوا لَا يَنصُرُ‌ونَهُمْ وَلَئِن نَّصَرُ‌وهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ‌ ثُمَّ لَا يُنصَرُ‌ونَ ﴿١٢﴾
اگر وہ جلا وطن کئے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ جائیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد بھی نہ کریں گے (١) اور اگر (با لفرض) مدد پر آبھی گئے (٢) تو پیٹھ پھیر کر (بھاگ کھڑے) ہوں (٣) پھر مدینہ نہ جائیں گے۔
١٢۔١ یہ منافقین کے گذشتہ جھوٹے وعدوں ہی کی مزید تفصیل ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، بنو قضیر، جلا وطن اور بنو قریظہ قتل اور اسیر کئے گئے، لیکن منافقین کسی کی مدد کو نہ پہنچے۔
١٢۔٢ یہ بطور فرض، بات کی جا رہی ہے، ورنہ جس چیز کی نفی اللہ فرما دے، اس کا وجود کیوں کر ممکن ہے، مطلب ہے کہ اگر یہود کی مدد کرنے کا ارادہ کریں۔
١٢۔٣ یعنی شکست کھا کر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لَأَنتُمْ أَشَدُّ رَ‌هْبَةً فِي صُدُورِ‌هِم مِّنَ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿١٣﴾
(مسلمانو! یقین مانو) کہ تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں (١) بہ نسبت اللہ کی ہیبت کے بہت زیادہ ہے، یہ اس لئے کہ یہ بےسمجھ لوگ ہیں (٢)۔
١٣۔١ یہود کے یا منافقین کے یا سب کے ہی دلوں میں۔
١٣۔٢ یعنی تمہارا یہ خوف ان کے دلوں میں ان کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے، ورنہ اگر سمجھدار ہوتے تو سمجھ جاتے کہ مسلمانوں کا غلبہ و تسلط، اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے، اس لئے ڈرنا اللہ تعالٰی سے چاہیے نہ کہ مسلمانوں سے۔
 
Top