• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٩٤﴾
واقع تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم جیسے ہی بندے ہیں (١) سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہیے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو۔
١٩٤۔١ یعنی جب وہ زندہ تھے، بلکہ اب تو تم خود ان سے زیادہ کامل ہو، اب وہ دیکھ نہیں سکتے، تم دیکھتے ہو، وہ سن نہیں سکتے، تم سنتے ہو۔ وہ کسی بات کو سمجھ نہیں سکتے، تم سمجھتے ہو، وہ جواب نہیں دے سکتے، تم دیتے ہو اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین، جن کی مورتیاں بنا کر پوجتے تھے، وہ بھی پہلے اللہ کے بندے یعنی انسان ہی تھے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پانچ بتوں کی بابت عقیدہ رکھتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری میں صراحتا موجود ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَهُمْ أَرْ‌جُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ قُلِ ادْعُوا شُرَ‌كَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُ‌ونِ ﴿١٩٥﴾
کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے سنتے ہوں (١) آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو (٢)۔
١٩٥۔١ یعنی اب ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس موجود نہیں۔ مرنے کے ساتھ ہی دیکھنے سننے، سمجھنے اور چلنے کی طاقت ختم ہوگئی۔ اب ان کی طرف منسوب یا تو پتھر یا لکڑی کی خود تراشیدہ مورتیاں ہیں۔ یا گنبد، قبے اور آستانے ہیں جو ان کی قبروں پر بنالیے گئے اور یوں استخواں فروشی کا کاروبار فروغ پذیر ہے۔
١٩٥۔٢ یعنی اگر تم دعوے میں سچے ہو کہ یہ تمہارے مددگار ہیں تو ان سے کہو کہ میرے خلاف تدبیر کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّـهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ﴿١٩٦﴾
یقیناً میرا مددگار اللہ تعالٰی ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ‌كُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُ‌ونَ ﴿١٩٧﴾
اور جن لوگوں کو اللہ چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے ہیں (١)
١٩٧۔١ جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہو وہ بھلا دوسروں کی مدد کیا کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَ‌اهُمْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُ‌ونَ ﴿١٩٨﴾
اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں (١) اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔
١٩٨۔١ اس کا وہی مفہوم ہے جو آیت ١٩٣ کا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾
آپ درگز اختیار کریں (١) نیک کام کی تعلیم دیں (٢) اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں (٣)۔
١٩٩۔١ بعض علماء نے اس کے معنی کئے ہیں ' ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو ' اور یہ زکوۃ کی فضیلت سے قبل کا حکم ہے، لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام بن جری اور امام بخاری وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے،چنانچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر تنقید کرنے لگے کہ آپ زکوۃ میں نہ پوری عطاء دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر غضب ناک ہوئے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھتیجے تھے) حضرت عمر سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا تھا (درگزر اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے پرہیز کیجئیے ' اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔ ' جس پر حضرت عمر نے درگزر فرمایا اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کر دینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
١٩٩۔٢ عُرْف،ُسے مراد معروف یعنی نیکی ہے۔
١٩٩۔٣ یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠﴾
آپ کو اگر کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے (١) بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
٢٠٠۔١ اور اس موقع پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُ‌وا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُ‌ونَ ﴿٢٠١﴾
یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں (١)
٢٠١۔١ اس میں اہل تقویٰ کی بابت بتلایا گیا ہے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہتے ہیں۔ طائف یا طیف، اس تخیل کو کہتے ہیں جو دل میں آئے یا خواب میں نظر آئے۔ یہاں اسے شیطانی وسوسے کے معنی میں استعمال کیا گیا، کیونکہ وسوسہ شیطانی بھی خیالی تصورات کے مشابہ ہے۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُ‌ونَ ﴿٢٠٢﴾
اور جو شیاطین کے طابع ہیں وہ ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وہ باز نہیں آتے (١)
٢٠٢۔١ یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان انکو لے جانے میں کوتاہی میں کمی نہیں کر تے۔ یعنی لَا یَقْصِرُوْنَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور اِخْوَان الْکُفَّاِرِ شیاطین بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّ‌بِّي ۚ هَـٰذَا بَصَائِرُ‌ مِن رَّ‌بِّكُمْ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠٣﴾
اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے (١) آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں (٢)
٢٠٣۔١ مراد ایسا معجزہ جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطا بات سورہ بنی اسرائیل، آیت ٩٠۔٩٣ میں بیان کئے گئے ہیں۔
٢٠٣۔٢ لَوْلَا اَجْتَبْیتَھَا کے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے۔ یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر (دلائل و براہین) اور ہدایت و رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا قُرِ‌ئَ الْقُرْ‌آنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٢٠٤﴾
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (١)۔
٢٠٤۔١ یہ ان کافروں کو کہا جارہا ہے، جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے ( لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ) 41۔فصلت:26) یہ قرآن مت سنو اور شور کرو، ان سے کہا گیا کہ اس کی بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالٰی تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ۔
 
Top