• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیرقرآن میں قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی توجیہ

’’ولو تری یا محمد الذین ظلموا فی حال رؤیتھم للعذاب وفزعھم منہ واسعظامھم لہ لأقروا أن القوۃ اﷲ‘‘
’’اے محمدﷺ! کاش کہ آپ ظالم لوگوں کے احوال کو دیکھ لیں جب وہ عذاب کو دیکھ کر جزع فزع کریں گے اس وقت وہ جان لیں گے کہ ساری کی ساری قوت اللہ کے لئے ہے۔‘‘
یہاں أن کا عامل لأقروہ ہے جوکہ محذوف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری توجیہ

’’ولو تری یا محمد الذین ظلموا فی حال رؤیتھم للعذاب و فزعھم منہ لعلمت أن القوۃ ﷲ جمیعا‘‘
’’اے محمدﷺ! اگر آپ ظالم لوگوں کے احوال جان لیں جب وہ عذاب کو دیکھ کر جزع فزع کریں گے تو آپ جان لیں گے کہ تمام قوتیں اللہ کے لئے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری توجیہ

’’ولو تری الذین ظلموا إذا یرون العذاب یقولون: إن القوۃ ﷲ جمیعا‘‘
’’وہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں جب عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے : ساری کی ساری قوت اللہ جل جلالہ کے لئے ہے۔‘‘
امام حمزہ رحمہ اللہ، کسائی رحمہ اللہ، ابوعمرورحمہ اللہ، عاصم رحمہ اللہ اور ابن کثیررحمہ اللہ نے ’یا‘کے ساتھ پڑھا ہے، جس کی ایک تاویل یہ بیان کی گئی ہے:
’’ولو یری فی الدنیا الذین ظلموا حالھم فی الآخرۃ إذ یرون العذاب لعلموا أن القوۃ ﷲ جمیعا‘‘
’’اگر ظالم لوگ آخرت کے عذاب کو دنیا میں دیکھ لیں تو وہ جان لیں کہ ساری کی ساری قوت اللہ کے لئے ہے۔‘‘
(٣) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’إِنِّیْ وَضَعْتُہَا اُنْثٰی وَاﷲُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ‘‘ (آل عمران:۳۶)
اس آیت میں کلمہ ’وضعت‘ میں دو قراء تیں ہیں:
امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ، شعبہ رحمہ اللہ اور امام یعقوب رحمہ اللہ نے صیغہ واحد متکلم کے ساتھ ’وَضَعْتُ‘ جبکہ باقی سب قراء نے صیغہ واحد مؤنث غائب کے ساتھ ’وَضَعَتْ‘ پڑھاہے۔
جن لوگوں نے تاء کو ساکن کیا ہے ان کی قراء ت کی توجیہ یہ ہے کہ یہ اُم مریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے اور جنہوں نے ’تا‘کو ضمہ دیا ہے ان کی قراء ت کی توجیہ یہ بنتی ہے کہ یہ جملہ حکایت ہے اس سے جو اُم مریم نے اپنے بارے میں خبر دی۔
تفسیر زاد المیسّر میں ہے:
’’من قرأ بجزم التاء وفتح العین فیکون فی الکلام تقدیم وتأخیر، وتقدیرہ: انی وضعتہا انثی ولیس الذکر کالانثی واللہ أعلم بما وضعت۔ ومن قرأ بضم التاء فہو کلام متصل من کلام أم مریم‘‘ (زاد المیسّر: ۱؍۲۷۶)
’’ اگر صیغہ متکلم کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر واﷲ أعلم بما وضعتُ یہ اُم مریم کا مقولہ بن جائے گا اور پورا کلام متصل ہوگا۔گویا کلام کا سیاق یوں ہوگا: ’’إنی وضعتہا أنثی واﷲ أعلم بما وضعتُ‘‘’’میں نے لڑکی جنی ہے، اور اللہ جانتا ہے جو میں نے جنا ہے،لیکن اگر اس کو صیغہ غائب کے ساتھ پڑھا جائے تو کلام میں تقدیم و تاخیر ہوگی یعنی واﷲ أعلم بما وضعتْ ام مریم کا مقولہ نہیں ہوگا۔‘‘
گویا صیغہ غائب والی قراء ت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے تسلی ہے اور صیغہ متکلم والی قراء ت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان کو یقین تھا کہ یہ جو لڑکی پیدا ہوئی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جس کو وہی بہتر جانتا ہے۔
(٤) فرمان الٰہی ہے :
’’إنَّ اﷲَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اﷲ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ‘‘ (الحج:۳۸)
اس آیت میں کلمہ ’یدفع‘کے اندر دو قراء تیں ہیں:
ابن کثیررحمہ اللہ، ابوعمرو بصری رحمہ اللہ اور یعقوب رحمہ اللہ نے ’یَدْفَعُ‘جبکہ باقی سب قراء نے ’یُدٰفِعُ‘پڑھاہے۔
باب مفاعلہ میں چونکہ فعل جانبین سے پایا جاتاہے لہٰذا اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ یہاں مدافعت کا فاعل تو صرف اللہ تعالیٰ ہے، تو پھر باب مفاعلہ کا معنی کیسے ہوگا؟ اس کے بارے میں امام ابومحمد مکی قیسی رحمہ اللہ الکشف میں لکھتے ہیں:
’’لکن یحمل علی تکریر الفعل،أی یدفع عنہم مرۃ بعد مرۃ فیصح لفظ یدافع من واحد‘‘
’’اس کو فعل کے تکرار پر محمول کیا جائے گا یعنی وہ ان کا دفاع کرتاہے بار بار، لہٰذا یدافع کا ایک جانب سے استعمال ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ( الکشف: ۲؍ ۱۲۰)
تفسیر بحر المحیط میں ہے:
’’ومن قال یدفع، فمعناہ: یبالغ فی الدفع عنہم‘‘ (بحر المحیط: ۶؍ ۳۷۳)
’’ جس نے یدافع کہا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ دفاع میں مبالغہ یعنی شدت سے کام لیتا ہے۔‘‘
یعنی صیغہ مجرد والی قراء ت سے تو نفسِ مضمون حاصل ہوتا ہے، اور مفاعلہ والی قراء ت سے اللہ تعالیٰ کے فعل مدافعت کی قوت وقدرت کے کمال کی طرف اشارہ ہے۔
(٥) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’إنَّا اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ‘‘(البقرۃ:۱۱۹)
اس آیت میں کلمہ’ولا تسئل‘ میں دو قراء تیں ہیں:
امام نافع رحمہ اللہ اور یعقوب رحمہ اللہ نے’ وَلَا تَسْئَلْ‘لام کے جزم کے ساتھ، جب کہ باقی سب قراء نے لام کے ضمہ کے ساتھ ’ وَلا تُسْئَل‘ پڑھا ہے۔
تفسیر مظہری میں ہے :
’’ جمہور کی قراء ت کے موافق ’’ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ أصْحٰبِ الْجَحِیْمِ‘‘کے معنی یہ ہوں گے :
’’اے محمدﷺ! آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے۔ آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے۔ اور نافع کی قراء ت پر سوال سے نہی ( منع) شدت عذاب سے کنایہ ہوگی۔ ‘‘
امام قرطبی نفی والی قراء ت کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ والمعنی إنا أرسلنٰک بالحق بشیرا ونذیرا غیر مسئول عنہم‘‘ ( احکام القرآن : ۲ ؍۹۲)
’’اور معنی یہ ہے کہ بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا بنا کر بھیجاہے، اس حال میں کہ ان کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہ ہوگا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوردوسری قراء ت جس میں نہی کا جزم ہے، کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وفیہ وجہان: أحدہما أنہ نہی عن السؤال عمن عصیٰ وکفر من الأحیائ، لأنہ قد یتغیر حالہ فینقل عن الکفر ألی الإیمان وعن المعصیۃ إلی الطاعۃ، والثانی وہو الأظہر أنہ نہی عن السؤ ال عمن مات علیٰ کفرہ ومعصیتہ‘‘(ایضا)’’اس میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ یہ حکم زندوں میں سے گناہگار اور کفار کے بارے میں سوال سے روکنے کے لیے ہو، کیونکہ ان کا حال کفر سے ایمان کی طرف، اور گناہ سے طاعت کی طرف تبدیل بھی ہوسکتا ہے اور دوسرا جو کہ زیادہ ظاہر ہے، کہ یہ حکم کفر اور معصیت پر مرنے والے لوگوں کے بارے میں سوال سے روکنے کے لیے ہو۔‘‘
گویا اس آیت میں دو قراء توں کی وجہ سے دو پہلوؤں سے سوال کرنے سے روکنا ثابت ہوگیا۔ یعنی نہ تو نبی کریم ﷺ سے جہنم والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور نہ ہی آپ ﷺ ان کے بارے میں کوئی سوال کریں گے اس لیے کہ ان کی مغفرت کا کوئی اِمکان نہیں ہے اور اگر یہ سوال زندہ لوگوں کے بارے میں ہو تو ان کا حال تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔
(٦) اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
’’وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ہَذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّکَّرُوْا وَمَا یَزِیْدُہُمْ اِلَّا نُفُوْرًا‘‘ ( الاسراء: ۴۱)
اس آیت میں کلمہ’لیذکروا ‘ میں دو قراء تیں ہیں۔
امام حمزہ، کسائی اور خلف نے ’لِیَذْکُرُوْا‘ جب کہ باقی سب قراء کرام نے ’لیذَّکَّرُوْا‘ پڑھا ہے۔
تخفیف والی قراء ت ذِکرٌ سے مشتق ہے جو کہ نسیان کی ضد ہے۔ جب کہ تشدید والی قراء ت تذکُّر سے مشتق ہے جس کا معنی ہے:تدبّر اور اتّعاظ یعنی غور وفکر کرنا اور نصیحت حاصل کرنا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابو محمد قیسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ فالتشدید للتدبر والتخفیف للذکر بعد النسیان‘‘ ( الکشف: ۲؍۴۷)
’’تشدید تدبر کے معنی کے لیے اور تخفیف بھول کے بعد یاد کرنے کے معنی کے لیے ہے۔‘‘
تفسیر روح المعانی میں ہے:
’’ وقرأ حمزۃ والکسائی ہنا وفی الفرقان لیذکروا من الذکر الذی بمعنی التذکر ضد النسیان والغفلۃ،والتذکر علی القراء ۃ الأولیٰ بمعنی الاتّعاظ‘‘ ( روح المعانی:۱۵؍۸۲)
’’امام حمزہ رحمہ اللہ اور کسائی رحمہ اللہ نے اس کلمہ کو یہاں اور سورہ فرقان میں مادہ’ ذکر ‘سے پڑھا ہے، جو کہ تذکر کے معنی میں ہے،اور نسیان اور غفلت کی ضد ہے۔ تذکّر پہلی قراء ت کے مطابق نصیحت حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔‘‘
اس آیت میں دو قراء تیں ہونے کی وجہ سے حکم کے دو پہلو نکل آئے:
(١) قرآن کا ذکر یعنی اس کی تلاوت کرنا۔
(٢) قرآن سے وعظ ونصیحت حاصل کرنا۔
اور یہ دو معنی ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں پائے جا سکتے۔ یعنی ذکر کے بغیر نصیحت حاصل نہیں کی جاسکتی اور نصیحت کئے بغیر ذکر ناقص ہے۔ چنانچہ ان معانی کی تائید ایک اور آیت سے ہوجاتی ہے:
’’ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ‘‘ (القمر: ۱۷)
اس آیت میں بھی ان دونوں معانی کو جمع کیا گیاہے یعنی ذکر جو کہ نسیان کی ضد ہے اور اذتکار یا تذکر جو کہ غفلت کی ضد ہے لیکن مذکورہ بالا آیت میں یہ دونوں معانی ایک ہی کلمہ میں دو قراء توں کی بناء پر حاصل ہوگئے ہیں۔
(٧) فرمان الٰہی ہے:
’’مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ أوْ نُنْسِھَا نَأتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا أوْ مِثْلِھَا أَلَمْ تَعْلَمْ أنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیْرٌ‘‘ (البقرۃ:۱۰۶)
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت میں پائی جانے والی قراء ات کے متعدد معانی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أوْ نَنْسَأھَا‘‘اسے ابوعمرورحمہ اللہ اور ابن کثیررحمہ اللہ نے نون اور سین کے فتحہ کے سا تھ پڑھا ہے، جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ،عطاء رحمہ اللہ، مجاہدرحمہ اللہ، عبیدبن عمیررحمہ اللہ اور ابن محیصن رحمہ اللہ نے اسے تاخیر کے ساتھ پڑھا ہے، جس کا معنی یہ ہے: ’’نؤخر نسخ لفظھا أی نترکہ ‘‘
’’ہم اس کے نسخ کو مطلقاً چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
یہی قول امام عطاء رحمہ اللہ کا ہے۔ عطاء aکے علاوہ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ ’’أوننسأھا‘‘ کامعنی:’’أی نؤخرھا عن النسخ إلی وقت معلوم‘‘ یعنی نسخ کو ہم معینہ مدت تک مؤخر کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی لوگوں نے نون کے ضمہ کے ساتھ ’نُنْسِھَا‘ پڑھا ہے، جس کامعنی ترک کرنا ہے یعنی ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ اس میں ردّ وبدل کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی تنسیخ کرتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے: ’’نَسُوْاﷲَ فَنَسِیَھُمْ‘‘(التوبۃ:۶۷)
’’وہ اللہ کوبھول گئے پس اللہ نے ان کو بھلا دیا۔‘‘ یعنی انہوں نے اللہ کی عبادت کوترک کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب میں چھوڑ دیا۔‘‘
 
Top