ریحان احمد
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2011
- پیغامات
- 266
- ری ایکشن اسکور
- 707
- پوائنٹ
- 120
سورۃ بقرۃ
یہ مدنی سورة ہے اس میں دو سو چھیاسی آیات اور چالیس رکوع ہیں
1۔ اس سورت میں اگے چل کر گائے کا کا واقع بیان ہوا ہے اس لیے اس کو بقرہ (گائے کے واقع والی سورت کہا جاتا ہے )۔ حدیث میں اس کی ایک خاص فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ جس گھر میں یہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے البتہ اس کی بعض آیات جمعۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئیں ۔ بعض علما کے نزدیک اس میں ایک ہزار خبر،ایک ہزار احکام اور ایک ہزار منہیات وہ عمل جن کا کرنا منع ہیں (ابن کثیر)
2۔ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے , یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روائت نہیں ہے وَاللّہ ُ العالِمُ البتہ نبی ﷺ نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتاکہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف, میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔
3۔ اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے{ تَنْزِیْل الکِتابِ لا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ العٰلَمِیْنَ} علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صداقت میں , جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ، ان کے بر حق ہونے میں کوئی شک نہیں۔
4۔ ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدائت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے، لیکن اس چشمہ ٗ فیض سے سراب صرف وہ ہی لوگ ہونگے ، جو آبِ حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سر شار ہوں گے ۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بار گا ہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں ، اس کے اندر ہدائت کی طلب ، یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدائت کہاں سے اور کیونکر حا صل ہو سکتی ہے
3.1.. امور غیبیہ سے مراد وہ چیز یں ہیں جنکا ادراک عقل و ہواس سے ممکن نہیں ۔ جیسے ذات باری تعالیٰ،وحی،جنت دوزخ،ملائکہ،عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول ﷺ کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔
3.2.. اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا،ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔
3.3.. اَنْفَاق کا لفظ عام ہے ،جو صداقت واجبہ اور نافلہ دونوںکو شامل ہے ۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے ،بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے
4.1.. پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیا علیہم السلا م پر نازل ہوئیں ،وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں ،نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا ۔اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی ۔حدیث۔پر ہی کیا جائے گا۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت ﷺ پر ختم کر دیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا
5.1.. یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے ۔کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ ۔ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گرو ہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول ا سلام کی توقع ہی نہیں۔
6.1۔۔ نبی ﷺ کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہو جائیں اور اسی حساب سے آپ ﷺ کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی(جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ) ور نہ آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ سے بے شمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عر ب اسلام کے سایہ عا طفت میں آگیا۔
7.1۔۔ یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہو چکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لا سکتے ہیں؟ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اورآتا ہے ،جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغرفت کردگار حاصل کرتے ہیں ۔اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیںجس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے،اگر وہ توبہ کرکے گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہو جاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ ۔ نبی ﷺ نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے{ کَلّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قَلُوْ بِہِمْ مَا کَا نُوْ َٰکْسِبُوْنِ} یعنی ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیاہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔
8.1۔۔ یہاں سے تیسرے گروہ منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے،مگر وہ ایل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ،کیونکہ وہ تو سب کحچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کومستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے اگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کاسارا نقصان خود انہی کو پہنچتاکہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔
10.1.. بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری،جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔اس طرح جھوٹ بو لنا منافقین کی علامات میں سے ہے،جس سے اجتناب ضروری ہے.
1.. فساد، اصلاح کی ضد ہے۔ کفر و معصیت سے زمین میں فساد پھیلاتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن و سکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اصلاح اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
.. ان منافقین نے ان صحابہ کو بیوقوف کہا جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آج کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام دولت ایمان سے محروم تھے اللہ تعالیٰ نے جدید و قدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلےٰ تر مقصد کے لئے دینوی مفادات کو قربان کر دینا بےوقوفی نہیں، عین عقلمندی اور سعادت ہے۔ صحابہ کرام نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا۔ اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان انہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں گے (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا) 2۔ البقرۃ:137)
2.. ظاہر بات ہے کہ (فوری فائدے) کے لئے (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظر انداز کر دینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بےعلم رہے۔
1.. شیٰطین سے مراد سرداران قریش و یہود ہیں۔ جن کی ایماء پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے یا منافقین کے اپنے سردار۔
1.. اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتا یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورۃ حدید کی آیت (يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ) 57۔ الحدید:13) میں وضاحت ہے۔
1.. تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے۔ جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر ہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے ضروری نہیں کہ دنیا ہی میں اس گھاٹے کا انہیں علم ہو جائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل فہم سے عاری سمجھتے تھے۔
1.. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلدی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں دفعتا وہ روشنی بجھ گئی اور حسب سابق تاریکیوں میں گِھر گئے۔ یہ حال منافقین کا تھا پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے مسلمان ہوئے تو روشنی میں آ گئے۔ حلال و حرام کو پہچان گئے پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی (فتح القدیر)
1.. یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے۔ جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ شبہ و شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پس ان کے دل میں شک و شبہ اس بارش کی طرح ہے جو اندھیروں شکوک کفر اور نفاق میں اترتی ہے گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں حتٰی کے خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف و دہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا کیونکہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں لیکن پھر جب اسلام یا مسلمان پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران و سرگردان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔
2.. اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لیے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔
22.1.. ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جا رہی ہے۔ فرمایا جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو ۔
23.1.. توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جا رہا ہے ہم نے بندے پر کتاب نازل فرمائی ہے اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے تو اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ واقع یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے کلام الہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت مآب پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔
24.1.. یہ قراَن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقینا قیامت تک قاصر رہیں گے۔
24.2.. پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندگی کے پتھروں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ اصنام (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ (اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ) 21۔ الانبیاء:98) تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہونگے۔
24.3.. اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لیے تیار کی گئ ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں جیسا کہ بعض متجدد دین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔
25.1.. قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کر دیا کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان کا ثمر اور نہیں مل سکتا اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عند اللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا، جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود و مطرود ہیں۔
25.2.. مُتشَابِھَا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا ہے۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا (دیکھنا اور سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔
25.3.. یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔
25.4.. خُلُودُ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اے جنتیو اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا (صحیح مسلم)
26.1.. جب اللہ تعالیٰ نے دلائل سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کر دیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کر دیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الہٰی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور جسے حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اس میں حیا و حجاب بھی نہیں۔ فَوْقَھَا کے معنی اس سے بڑھ کر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کے ہونگے۔ لفظ فَوْقَھَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔
26.2.. اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ( نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى) 4۔ النساء:115) جس طرف کوئی پھرتا ہے ہم اس طرف اس کو پھیر دیتے ہیں فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت سے فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن بننے کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔
27.1.. مفسرین نے عَھْدَ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی باز رکھنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے مخلوق کو کی۔ وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا جو اولاد آدم کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ) 7۔ الاعراف:172) نقض عہد کا مطلب عہد کی پرواہ نہ کرنا (ابن کثیر)
27.2.. ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور دعوت دینے والوں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
28.1.. آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں بعض علماء کی رائے ہے کہ قبر کی زندگی (کَمَا ھِیَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔
29.1.. اس سے استدلال کیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے اصل حلت ہے الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت قرآن پاک کے واضح احکام سے ثابت ہو (فتح القدیر)
29.2.. بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول اللہ کی صفات میں سے ہے جن پر اسی طرح بغیر دلیل کے ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔
29.3.. اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ آسمان ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو آسمان سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان ٥٠٠ سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ) 65۔ الطلاق:12) اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہو جاتی ہے۔ جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے لیکن سورۃ نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا۔ (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا) 79۔ النازعات:30) (زمین کو اس کے بعد بچھایا) اس کی تجزی کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین کی ہی ہوئی ہے اور دَحْوَ (صاف اور ہموار کر کے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر)
30.1.. مَلاَئِکَۃُ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔
30.2.. خَلِیْفَۃُ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔
30.3.. فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر)
33.1.. اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص و اشیاء) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے حضرت آدم علیہ کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم علیہ السلام ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فورا سب کچھ بیان کر دیا جو فرشتے بیان نہ کر سکے۔ اسطرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کر دی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت بیان فرما دی جب یہ حکمت و اہمیت فرشتوں پر واضح ہوئی تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کر لیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔
34.1.. علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دوسری عزت ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں عاجزی اور گڑگڑانے کے اس کی انتہا ہے زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترندی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جس سے ان کی تکریم و فضیلت فرشتوں پر واضح کر دی گئی۔ کیونکہ یہ سجدہ و اکرام و تعظیم کے طور پر یہ تھا نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا
34.2.. ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ ابلیس حسب وضاحت قرآن جنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازا فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا اس لئے بحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس ہے۔
34.3.. یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔
35.1.. یہ حضرت آدم علیہ السلام کی تیسری فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔
35.2.. یہ درخت کس چیز کا تھا؟ اس کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کر دیا گیا ہے جو بے اصل بات ہے ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے
36.1.. شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر سجدے سے انکار کیا اسی طرح اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم (وَلَا تَقْرَبَا) کی تاویل کر کے حضرت آدم علیہ السلام کو پھسلانے میں کامیاب ہو گیا جس کی تفصیل سورۃ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔
36.2.. مراد آدم علیہ السلام اور شیطان ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
37.1.. حضرت آدم علیہ السلام جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ.. 7۔ الاعراف:23) بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے ۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی ،ولی ، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعایہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔
39.1.. قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا ہی میں رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم علیہ السلام کے واسطے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے۔ کہ انبیاء علیہم کے ذریعے سے میری ہدایت ( زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ ان پر خوف نہیں ہوگا۔ کا تعلق آخرت سے ہے ۔ ای فیما یستقبلونہ من امر الاخرۃ اور حزن نہیں ہوگاکا تعلق دنیا سے ۔ علی ما فاتھم من امورالدنیا(جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے آیت(فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي )20۔طہ 259)۔ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ( آخرت میں ) بدبخت۔ ابن کثیر ۔ گویا آیت ( لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ )10۔یونس:62) کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہے اور پھر مقام کا مفہوم بھی کچھ بیان کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی اولیاء اللہ ہیں ۔ اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں ۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق آسکتا ہے ۔
بمنعی عبداللہ) حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائِیْل کہا جاتا تھا یعنی یعقوب علیہ السلام کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔
41.1.. بِہِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کفر کیا (ابن کثیر)
41.2.. پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کر چکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔
45.1.. صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے (فتح القدیر)۔
45.2.. نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے ، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو کر دیتا اور آخرت سے بےفکری انسان کو بےعمل بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔
46.1.. یہاں سے دوبارہ اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی نہ معاوضہ دے کر چھٹکارہ ہو سکے گا، اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خیرامۃ کے لقب سے نوازا گیا ۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان وعمل سے محرومی پر سلب کرلئے جاتے ہیں ، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے خیرامۃ کے بجائے شرامۃ بنی ہوئی ہے ۔ ھداھا اللہ تعالی
یہود کو یہ دھوکا بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا۔ اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جواہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے ) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔
49.1.. آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے ( وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ) 8۔ الانفال:54) ہے (ہم نے ال فرعون کو غرق کر دیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں انشاء اللہ آئے گی۔
50.1.. سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۃ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔