سید و صمد میں معنوی مماثلت
شیشے یا بوتل کا منہ بند کرنے کے لئے جو چمڑا لگایا جاتا ہے وہ ’’صماد‘‘ کہلاتا ہے اور اس کا دوسرا نام ’’عفاص‘‘ ہے جس چیز کو موجودہ عرف میں کارک کہا جاتا ہے اور جو بوتل کے منہ میں داخل کی جاتی ہے اسے ’’صمام‘‘ کہتے ہیں۔ "عفصت القاروره" کے معنی یہ ہیں کہ قارورہ کے منہ پر چمڑا باندھا گیا۔
میں کہتا ہوں کہ صحیح حدیث میں نبی ﷺ سے لقطہ (راستے میں گری پڑی چیز) کے متعلق مروی ہے کہ اس کے عفاص (تھیلی) اور وکاء (بندھن) کو پہنچواؤ اور عفاص سے وہ چیز مراد ہے جس میں درہم وغیرہ ہوں۔ مثلاً کپڑے کا ٹکڑا جس میں روپے باندھے جاتے ہیں اور روکاء اس دھاگے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے اس کپڑے کا منہ باندھا جاتا ہے اور یہ عفاص قارورہ کی جنس سے ہوتا ہے۔ عفص، سید، صمد کے معنی باہم ملتے جلتے ہیں اور ان سب میں جمع اور قوت کے معنی پائے جاتے ہیں۔ "طعام عفص" یا "طعام فیہ عفوصۃ" اس کھانے کو کہتے ہیں جو قابض ہو اور اسی سے عفص ہے جس سے روشنائی بنائی جاتی ہے۔
جوہری کا قول ہے کہ لفظ عفص مولد ہے (مولد: اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی دوسری زبان سے معرب نہ ہو بلکہ عربی الاصل ہو لیکن کسی مناسبت کے باعث جدید مضمون میں مستعمل ہونے لگا ہو) اور بدؤں کی زبان میں یہ مستعمل نہیں ہے۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایسی چیز موجود ہی نہ تھی جس کا نام وہ عفص رکھتے۔ تاہم اصول کلام عرب میں اس کا استعمال جاری ہے اور اسی طرح جو چیز بوتل کے منہ میں داخل ہو جاتی ہے اسے ’’صمام‘‘ (کارک) کہتے ہیں کیونکہ اس مادے میں جمع اور قوت کے معنی ہیں۔ جوہری کا قول ہے کہ بوتل کی ’’صمام‘‘ (کارک) اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اس کا منہ بند ہو جائے۔
’’حجر اصم‘‘ اس پتھر کو کہتے ہیں جو سخت اور ٹھوس ہو۔ ’’رجل اصم‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو کان بند ہونے کے باعث کوئی بات سن نہ سکے۔ ’’رجل صمت‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو شجاع ہو۔ اور ’’صمت‘‘ سانپ کو بھی کہتے ہیں۔ ’’صمیم شے‘‘ اس شے کے خالص حصے کو کہتے ہیں جہاں کوئی ایسی اور چیز داخل نہ ہو سکے جو اس پر فائق و غالب ہو کر اسے ضعیف کر دے۔ چنانچہ ’’صمیم الحر‘‘ شدتِ گرمی کو اور ’’صمیم البرد‘‘ شدت سردی کو کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’فلان من صمیم قومہ‘‘ (فلاں شخص اپنی قوم میں شجاع و ممتاز ہے) صمصام اس شمشیر براں کا نام ہے جس کا منہ نہ مڑے۔ ’’الصمم فی السیر‘‘ تیز رو کو کہتے ہیں۔ ’’رجل صمم‘‘ فربہ و قوی ہیکل آدمی کو کہتے ہیں۔ بلحاظ اشتقاق اکبر صوم کا تعلق بھی اس لفظ سے ہے کیونکہ صوم (روزہ) امساک (بند رہنا) کو کہتے ہیں۔
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ طعام کلام یا چلنے سے باز رہنا صوم یعنی روزہ کہلاتا ہے، کیونکہ امساک میں اجتماع ہوتا ہے اور صائم (روزہ دار) کے پیٹ میں بھی کوئی چیز داخل نہیں ہوتی اور جب گھوڑا گھاس چارے کے بغیر رہے تو کہا جاتا ہے ’’صَامَ الْفَرْس‘‘ ۔ نابغہ کا قول ہے:
خیل صیام و خیل غیر صائمۃ
تحت العجاج و اخری تعلک اللجما
کچھ گھوڑے تو گھاس چارہ چھوڑے بیٹھے ہیں، کچھ کھا رہے ہیں اور کچھ لگامیں چبا رہے ہیں۔ الخ۔
اسی طرح سد، سداد، سددد اور سواد ہیں اور اسی طرح لفظ صمد میں جمع کے معنی ہیں اور جمع میں قوت ہوتی ہے کیونکہ جس چیز کے اجزاء باہم مجتمع ہوں اور ان میں کوئی خلل نہ ہو تو وہ اس چیز سے قوی تر ہوتی ہے، جس میں خلو ہو۔ مضبوط اور مرتفع مکان کو اسی لئے صمد کہتے ہیں کہ اس میں مضبوطی، تماسک اور اجتماعِ اجزاء ہوتا ہے۔ ’’رجل صمد‘‘ وہ سردار ہوتا ہے جس کی طرف لوگ جانے کا ارادہ کریں۔ ایسے آدمی کو مصمود، مقصود لہ اور مقصود الیہ بھی کہتے ہیں اور لوگ اپنی حاجتیں اس آدمی کے پاس لے کر جاتے ہیں جو انہیں پورا کرے اور لوگوں کی حاجتیں وہی شخص پوری کر سکتا ہے جو خود مجتمع، قوی اور ثابت قدم ہو۔ اور ایسا شخص سردار اور کریم کہلاتا ہے۔ اس کی ضد کو ہلوع و جزوع کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو لوگوں کی حاجات کی کثرت کے باعث پریشان ہو جاتا ہے، اس کی گرانباری کے نیچے دب جاتا ہے اور اس کے قویٰ اسے جواب دے جاتے ہیں، ایسا آدمی سردار صمد نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی طرف حاجتیں لے کر جائیں۔ سردار اس شخص کو کہتے ہیں جو صمد ہو۔ کیونکہ اس میں ایسے اوصاف ہوتے ہیں کہ لوگ اپنی ضروریات کے وقت اس کی طرف جاتے ہیں۔ ان کی زبان میں سید کے معنی دور یا نزدیک کی طرح اضافی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سید (سردار) کے ساتھ قائم ہے اور جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف آتے ہیں۔
سید، سدود اور سواد سے مشتق ہے۔ اور اشتقاقِ اکبر میں یہ لفظ سداد کی جنس سےہے۔ کیونکہ اہل عرب حرفِ علت کی جگہ حرف مضاعف اور حرفِ مضاعف کی جگہ حرفِ علت استعمال کر لیتے ہیں۔ چنانچہ تقضی البازی و تقضض لبازی کے ایک ہی معنی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر کا استعمال مقبول تر ہے کیونکہ مؤخر الذکر میں ثقل واقع ہوتا ہے اور ’’ساد‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری چیز کو ایسا درست کرے کہ اس میں خلو باقی نہ رہے۔
سداد، قاردہ اور سداد ثغر اسی سے مشتق ہے اور سداد بھی اسی سے ہے جس کے معنی درست کے ہیں اور قول سدید (درست بات) بھی اسی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: واتقوا الله و قولوا قولا سدیداً (اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔)
روایات مظہر ہیں کہ بعض لوگوں نے اس کے معنی قصد حق (سچا ارادہ)، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قصدِ صَواب (درست ارادہ)، قتادہ و مقاتل، عدل اور سدی نے مستقیم کئے ہیں۔ اور یہ سب اقوال صحیح ہیں۔ "قول سدید" مطابق و موافق قول کو کہتے ہیں۔ اور اگر وہ خبر ہو تو وہ صحیح اور مخبر کے قول کے مطابق ہو گی۔ اس میں کمی بیشی نہ ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ سداد کی تفسیر قصد سے اور قصد کی عدل سے ہوتی ہے۔
جوہری کا قول ہے کہ تسدید کے معنی سداد کی توفیق کے ہیں اور سداد قول اور عمل میں درستی و میانہ روی کا نام ہے۔ مسدد آدمی وہ ہوتا ہے جو درستی اور اعتدال سے کام کرے۔ مسدد کے معنی مقوم کے ہیں ’’سدد رمحہ‘‘ کے معنی ہیں اس نے اپنا نیزہ سیدھا کیا۔ ’’امر سدید‘‘ اور امر اسد" کے معنی بھی معتدل کام کے ہیں۔ ’’استد الشئ‘‘ کے معنی ہیں کہ وہ چیز سیدھی ہو گئی۔ شاعر کہتا ہے:
اعلمہ الرمایۃ کل یوم
فلما استدسا ساعدہ رمانی
میں ہر روز اسے تیر اندازی سکھاتا ہوں، اور جب اس کا ہاتھ صاف ہو جاتا ہے تو مجھے ہی آماجگاہ بنا لیتا ہے۔
بقول سعدی:
کس نیا موخت علم تیر ازمن
کہ مرا عاقبت نشانہ نہ کرو
اس شعر میں "استد ساعدہ" کے معنی ہیں۔ اس کا بازو سیدھا ہو گیا۔ یعنی اسے تیر اندازی کی مہارت ہو گئی۔
اصمعی کہتا ہے کہ بعضوں نے ’’اشتدساعدہ‘‘ کہا ہے لیکن اس کے کچھ معنی نہیں ہیں۔ سداد کو قصد سے جو تعبیر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ لفظِ قصد میں جمع اور قوت کے معنی ہیں اور قصد عدل کو کہتے ہیں اور سداد و صواب کے بھی یہی معنی ہیں اور عدل اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کمی بیشی نہ ہو اور اسی کو جامع و مطابق کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’علی الله قصد السبیل‘‘ قصد السبیل سے مراد سبیلِ قصد یعنی عدل کا راستہ ہے اور آیت کریمہ کے معنی یہ ہوئے کہ "عادل راہ اسی تک منتہی ہے۔" اسی طرح ’’اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی‘‘ سے مراد ’’الھدی الینا‘‘ یعنی تمام ہدایتیں ہم تک منتہی ہوتی ہیں۔
ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں جس قدر اقوال وارد ہوئے ہیں ان سب میں سے یہ قول زیادہ صحیح ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَالَ ھٰذَا صِرَاطِ عَلَی مُسْتَقِیْم (آل عمران:14)
اس سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ بلحاظ اشتقاق اوسط لفظ صدق بھی اسی لفظ سے مشتق ہے کیونکہ اس میں وہی حروف ہیں جو قصد میں ہیں۔ کسی بات میں سچا ہونے سے مراد بھی یہی ہے کہ وہ بات خبر دینے والے کے قول کے مطابق ہوئی ہے اور سدید کے بھی یہی معنی ہیں جن کا ذکر آ چکا ہے۔ صدق سخت نیزے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی مستوی بھی کئے گئے ہیں اور مستوی وہ ہوتا ہے جو معتدل اور سخت ہو اور اس میں خلل اور کجی نہ ہو۔ نیز صندوق کی جمع صنادیق ہے، اس سے مشتق ہے کیونکہ جو کچھ اس میں رکھا جاتا ہے، وہ اسے جمع رکھتا ہے۔