• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقریب بخاری 2016جامعہ لاہور الاسلامیہ نیو گارڈن ٹاؤن لاہور کے زیراہتمام!! از قلم ((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
تقریب بخاری جامعہ لاہور الاسلامیہ نیو گارڈن ٹاؤن لاہور کے زیراہتمام!!
جامعہ لاہور الاسلامیہ 91 بابربلاک نیو گارڈن ٹاؤن لاہور نزد برکت مارکیٹ کے زیر اہتمام 5مئی 2016بروز سوموار بعد از نماز مغرب تقریب تکمیل بخاری کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصداس سال فراغت حاصل کرنے والے طلباء کو نیک دعاؤں اور نصیحتوں کے ساتھ رخصت کرنا تھا اور ان کو ان کی زندگی کے اصل مقصدو حقیقی کامیابی کی طرف توجہ دلانا اور دعوتی و عملی میدان میں پیش آمدہ مصائب و آلام سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مشکلات پر صبر کرنے اور استقامت فی الدین کی طرف تلقین کرنا تھا تاکہ وہ میدان عمل میں مایوسی اور کمتری کا شکار ہو کر اصل مقصدو منہج سے ہٹ کر گمراہی اوربے دینی کی نظر نہ ہو جائیں بلکہ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیں تاکہ پیش آمدہ مسائل ونئے جنم لینے والے فتنوں کا انسدادصحیح معنوں میں کر سکیں۔
پروگرام کا آغاز مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوا جس کی تفصیل کچھ یو ں ہے۔
1۔پروگرام میں کمپیئرنگ(نقابت) کے فرائض استاد محترم استاد العلماء مولانا محمداسحاق طاہر صاحب نے سر انجام دیئے ۔
2۔پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت رابعہ کلیہ (ب) آٹھویں کلاس سے سند فراغت حاصل کرنے والےہونہار طالب علم (قاری عبد القدوس صاحب )نے حاصل کی جو کہ مسجد خالد بن ولید فیصل ٹاؤن میں امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔

خطاب:
شیخ الحدیث ‘ وکیل الجامعہ الرحمانیہ استاد الاساتذہ مولانا محمد رمضان سلفی صاحب موضوع گفتگوں (حدیث کے حصول کے لیے محدثین کی خدمات)
3۔ تلاوت کلام پاک کے بعد استاد محترم مولانا محمد اسحاق طاہر صاحب نے شیخ الحدیث ‘ وکیل الجامعہ الرحمانیہ استاد الاساتذہ مولانا محمد رمضان سلفی صاحب کے مختصر تعارف کے بعد استاد محترم کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی جن کا موضوع گفتگوں (حدیث کے حصول کے لیے محدثین کی خدمات) استاد محترم نے حمدو ثناء کے بعد اپنی گفتگوکا آغاز قرآن مجید کی اس آیت سے کیا۔
فلولانفرمن کّل فرقۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لعلّھم یحذرون۔۔(قرآن))
اس کے بعد استاد محترم نے حدیث کے علم کی باقی علوم دیناسے فضیلت کو بیان کرنے کےلیے کہا کہ علم شریعت کو جاننے کے لیے بہت سارے علوم ہیں مگر ان سب علوم میں سے سب سے زیادہ محنت طلب
علم حدیث کا علم ہے اور حدیث کا علم کوئی بھی شخص اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے آپ کو اس کے حصول کے لیے وقف نہ کر دے اور سہولیات کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات ایک نہیں کر دیتا اس وقت تک وہ حدیث کا علم رتی برابر بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔

ابراھیم بن ادھم کا واقع:
استاد محترم نے مزید اپنے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے ابراھیم بن ادھم کا واقع ذکر کیا کہ ابراھیم بن ادھم اس دور کے محدثین میں سے ہیں جب محدثین ایک حدیث کی خاطر کئی دنوں کے طویل سفر طے کر کے دوسری جگہ جاتے اور حدیث کا علم حاصل کرتے ۔
ابراھیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ جن اعمال کی وجہ سے امت مسلمہ سے مصیبتیں رفع کرتے ہیں ان میں سے ایک عمل محدثین کی علم حدیث کے حصول کے لیے محنت کرنا ہے ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ کا واقع:
حضرت جابر بن عبد اللہ بن عبد اللہ مدینہ منورہ میں تھے کہ ان کو کسی واسطے سے حضرت عبد اللہ بن انیس جو کہ شام کے شہر دمشق میں رہتے تھے ان سے ایک حدیث ملی(بخاری شریف کتاب التوحید
( : یحشر اللہ النّاس............. علی الملک علی الدیان) تو دل میں خیال آیا کہ یہ بغیر واسطے کے نبی اکرم ﷺ کے صحابی سے جا کر سنوں تو آپ نے ایک اونٹ خریدہ اور ایک مہینے کا سفر طے کر کے شام کے شہر دمشق پنچنے میں کامیاب ہوئے جا کر حضرت عبد اللہ بن انیس کے غلام کو کہہ کہ حضرت عبد اللہ بن انیس کو کہوکہ ایک مسافر ملنے کے لیے آیا ہےغلام نے پیغام دیا تو کہا ان نام پوچھوں نام کیا ہے غلام نے نام دریافت کیا تو فرمایا :
میرا نام جابر بن عبد اللہ ہے مدینہ منورہ سے آیا ہوں غلام کے بتاتے ہی فوری باہر آئے گلے ملے پیشانی پہ بوسا دیا حال احوال دریافت کرنے کے بعد پوچھا کیسے آنا ہوا ؟
جواب میں کہنے لگے کہ میں نے آپ سے کسی واسطے کے ساتھ حدیث سنی ہے تو دل میں خیال آیا کے برائے راست اللہ کے رسول کے صحابی عبد اللہ بن انیس سے جا کر اس حدیث کو سنوں تو اس مقصد کے لیے حاضر ہوا ہوں یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن انیس نے حدیث سنائی ۔
(
یحشر اللہ النّاس ................علی الملک الدیان(بخاری شریف : کتاب التوحید)
اس حدیث میں اللہ کی صفت کلام کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ لوگوں کو اکھٹا فرما کر کلام کریں گے اور یہ کلام حروف اور آواز پر مشتمل ہو گی ‘ اس سے عشریہ کا رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ اللہ کی کلام نفسی ہے ( دل میں آنے والے خیالات کا مجموعہ ) اور یہ حروف اور آواز کے بغیر ہوتا ہے تو امام بخاری ﷫ بھی کتاب التوحید میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کو ثابت کرنے اور عشریہ کا رد کرنے کے لیے لائے ہیں ۔
ایک قول ذکر کیا :
طلب سند العالی عادت السلف۔
ایک دیہاتی کا واقع:
حضور اکرم ﷫ نے ایک صحابی کو کسی علاقے کی طرف قاصد بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے آگاہ کرے اور دین کی بنیادی باتوں کی تعلیم دے ‘۔
اس قاصد نے اصول اسلام و ارکان اسلام کی تبلیغ کی غرض سے اس علاقے کا سفر طے کیا اور دین کی تعلیم سے لوگوں کو آگاہ کیا تو ایک دیہاتی وہاں سے اللہ کے رسول کی خدمت میں اس قاصد کی باتوں کی تصدیق کے لیے پیش ہو کر کہنے لگا کہ آپ کے قاصد نے ہمیں بتایا ہے کہ مجھے اللہ کے آخری بنی حضرت محمد ﷺ نے بھیجا ہے تو اس دیہاتی نے اللہ کے رسول سے کہا کہ وہ یہ کہتا ہے ۔
حضرت محمد ﷺ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں کیا یہ بات واقعتاً ٹھیک ہے ( أ الله ارسلكم؟)حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جی میں واقعتاً ہی اللہ کا سچا رسول ہوں۔
پھر اس دیہاتی نے کہا کہ آپ کے قاصد نے ہمیں بتایا ہے کے دن رات میں پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں مسلمانوں پر؟ تو اس پر آپﷺ نے فرمایا جی اس قاصد نے سچ فرمایا ہے ۔
پھر اس قاصد نے کہا کہ آپ کے قاصد نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مالداروں پر زکوٰۃ فر ض ہے جو کہ لے کر غرباء میں تقسیم کر دی جائے گی ؟ تو آپ ﷺ نے یہ سن کر کہا کہ اس قاصد نے سچ کہا ہے ۔
اس طرح کے کچھ اور سوالوں کے جواب پوچھنے کے بعد وہ چلا گیا اور وہ بھی مسلمان ہی تھا مگر وہ صرف اس قاصد کی باتوں پر اکتفاء نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ تحقیق و تصدیق کی غرض سے آیا تھا تاکہ برائے راست حضور اکرم ﷺ سے سہ باتیں بغیر اس قاصد کے واسطے کے سنے۔

ابو عیوب انصاری کا واقع:
ابو عیوب انصاری ﷫ مدینہ منورہ میں تھے کہ ان کو حضرت عقبہ بن عامر الجوہنی جو مصر میں رہتے تھے ان سے کسی کے واسطے سے حدیث ملی تو زادہ راہ تیار کیا اور مدینہ سے مصر کا سفر طے کر کے حضرت عقبہ بن عامر الجوہنی کی خدمت میں حاضر ہوئے پوچھا کیسے آنا ہوا کہا کہ آپ کی طرف سے مجھے ایک حدیث پہنچی ہے تو میں نے خیال کیا کہ بغیر واسطے کے
آپ سے سنو ں تو یہ بات سنتے ہیں حضرت عقبہ بن عامر الجوہنی ﷜ نے فرمایا:وہ حدیث یہ ہے ۔

( من ستر المؤمن ستر اللہ یوم القیامۃ.............................)
حضرت علقمہ و حضرت اسود رضی اللہ عنھما کا واقع:
حضرت علقمہ ﷜ اور حضرت اسود ﷜ کوفے میں تھے کہ کسی نے ان کے واسطے سے حضرت عمر فاروق ﷜ کو حدیث پہنچائی تو حضرت عمر فاروق ﷜ مدینہ کا سفر طے کر کے کوفے میں حضرت علقمہ ﷜ اور حضرت اسود﷜ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
حضرت امام بخاری ﷫ کا حصول علم حدیث کی خاطر سفر!
جہاں امام بخاری ﷫ نے علم حدیث کو حاصل کرنے کے لیے جلا وطنی اختیار کی وہاں کئی مشقتیں بھی برداشت کیں ‘جیسا کہ 10 سال کی عمر تھی کہ :
امام بخاری ﷫کو بخارہ کے عالم دین جو کہ امام بخاری کے استاد تھے العلامہ داخلی انہوں نے ایک سند امام بخاری کو بیان کی (سفیان عن زبیر عن ابراھیم ) یہ سند سن کر امام بخاری ﷫ نے فرمایا کہ:
آپ نے یہ سند غلط بیان کی ہے حالانکہ اس سند میں ( ابو زبیر راوی کی جگہ زبیر بن عدی راوی ہے ) استاد تھے غصّہ آیا فرمانے لگے ایسے ہی ہے امام بخاری ی نے فرمایا آپنا مسودہ دیکھوں جب مسودہ دیکھا تو امام بخاری ﷫ کی بیان کردہ سند صحیح پائی تو فورا اس غلطی کو درست کیا
(فاخذ القلم والصّلح المسودۃ)۔
امام بخاری ﷫کے استاد عادم بن ابی عیاص﷫ بیان کرتے ہیں!
امام بخاری کے استاد عادم بن ابی عیاص ﷫ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ امام بخاری ی حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے کہیں دور دراز کے علاقے میں گئے تو کئی دن کا سفر تھا خرچ ختم ہو گیا تو امام بخاری ﷫ باہر جا کر خفیہ طریقے سے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے رہے اور علم کے حصول میں بھوک کو آڑے نہیں آنے دیا۔
معلوم ہوا کہ ان مشقتوں میں سے گزرنے کے بعد بخاری شریف کو ( اصّح الکتب بعد کتاب اللہ ) کا درجہ نصیب ہوا ۔

منکرین حدیث کے اعتراض کا جواب !
منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ:
امام بخاری﷫ نے ادھر ادھر سے لیے کر بخاری شریف میں احادیث کو جمع کر دیا ہے اس سے قبل نہ احادیث کی کتب تھیں نہ حدیث لکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
اعتراض کا جواب !
1۔ امام بخاری ی کے استاد امام احمد بن حنبل ﷫ کی (مسند احمد) 40ہزار احادیث پر مشتمل 40 جلدوں میں کتاب بخاری شریف سے قبل موجود تھی۔
2۔ امام احمد بن حنبل ﷫ کے استاد اما شافعی﷫ کی (کتاب الأم) مسند احمد سے پہلے موجود تھی ۔
3۔ امام شافعی ﷫ کے استاد امام مالک ی کی کتاب( مؤطا امام مالک) امام شافعی ﷫ کی کتاب الام سے پہلے موجود تھی۔
نوٹ۔تو یہ کہنا کہ امام بخاری﷫ نے ادھر ادھر سے لے کر احادیث جمع کر دی ہیں اور بخاری شریف سے قبل احادیث کی کوئی کتاب موجود نہیں تھی ‘جہالت اور ال علمی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

ماضی قریب کے محدثین کی کتب حدیث!
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ﷫و شمس الحق ﷫ کی کتاب ( غایۃ المقسود 32) جلدوں پر مشتمل سنن ابی داؤد کی شرح ہے جس کا اختصار( شرح عون المعبود ) کے نام سے معروف ہے ۔
2۔ محمود احمد غازی ﷫ فرماتے ہیں ‘میں اگر کہو کہ( تحفۃ الاحوذی ) کا مقام (فتح الباری ) کے برابر ہے تو اس میں مبالغہ نہیں ہو گا . تو یہ مقام (تحفۃ الاحوذی ) کو اس وجہ سے ملا کہ عبد الرحمان مبارکپوری ﷫ بہت محنت سے تحفۃ الاحوذی کو لکھتے اور جس مکان میں بیٹھ کر لکھتے میں نے خود ان کے علاقے میں جا کر دیکھا ہے بلکل کچا سا مکان اور لائٹ وغیرہ کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔

آخر میں چند نصیحتیں فرمائیں۔
1۔جس طرح اس علم دین کو حاصل کیا ہے اسی طرح ہی آگے بھی پہنچائیں ۔
2۔دعوت و ارشاد کا کام جاری رکھیں مصائب کی پرواہ نہ کریں ۔
3۔ علم دین کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں ۔
4۔ نماز کی پابندی کریں ذکر میں مشغول رہیں ۔
5۔ معصیات کو چھوڑ دیں تب حافظہ تیز ہو گا۔
6۔ علم حاصل کرنے میں جہاں تک ہو سکے محنت کریں ۔
7۔علم حاصل کرنے میں شرم محسوس نہ کریں۔
8۔اساتذہ کا احترام کریں۔

اسحاق طاہر صاحب !
استاد محترم کے خطاب کے بعد استاد محترم اسحاق طاہر صاحب نے بھی نصیحت کے طورپر کہا کہ:
محدثین کے حالات و واقعات اور مقام کا جائزہ لینا چاہیے کہ کن حالات سے گزر کر انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے یہ حقائق بھر مبنی باتیں ہیں کوئی افسانے نہیں ہیں
 
Last edited:
Top