میں نے اس طرح کی پوسٹس پہلے بھی پڑہیں اور میرے خیال میں کسی اہل حدیث بھائي کو مندرجہ بالا اقتباس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا
مکرر عرض ہے کہ اہل حدیث اکابرین کی غلطیوں اور خامیوں کو اپنا مذہب نہیں بناتے اس لئے اگر تصوف پر کسی اہل حدیث کو قائل کرنا ہے تو قرآن و حدیث کے دلائل پیش کیجئے اور وہ بھی اپنے فہم کے ساتھ نہیں بلکہ سلف صالحین کے فہم کے ساتھ کیونکہ اہل حدیث اپنی عقل اور فہم سے قرآن و حدیث سمجھنے کو جب وہ فہم سلف صالحین کے فہم سے ٹکرا جائے گمراہی سمجھتے ہیں۔
یہاں دو باتیں معلوم ہورہی ہیں اور میں دونوں سے متفق ہوں اور میرے خیال میں کوئی اہل حدیث بھائی بھی ان دو پوائنٹ پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا
1- اگر اہل حدیث کے اکابر سے کوئی سہو یا اجتھادی غلطی ہوئی ہے وہ قابل اتباع نہیں اور وہ ( سہو یا اجتھادی غلطی) مسلک اہل حدیث کا جزو بھی نہیں کہلائے گی۔
2- اگر آج کوئی شخص اپنے فہم سے قرآن و حدیث سے کوئی ایسی بات نکالتا ہے جو اہل حدیث اکابرین اہل حدیث کے فہم سے ٹکراتی ہے تو ایسے شخص کا فہم رد ہے ۔
جو حضرات اس بات سے متفق نہیں ان سے ایک سوال
اگر آج کے دور میں کوئی شخص قرآن و حدیث میں سے کوئي ایسا مفہوم نکلے جو ہمارے اکابریں نے نہ لیا ہو تو یہ نیا مفہوم قابل قبول ہونا چاہئیے یا نہیں ؟
یہ میری مضمون کا پہلا حصہ ہے
اب آتے ہیں مضمون کے دوسرے حصہ کی طرف
تقلید شخصی ایک ایسا موضوع ہے جو اہل حدیث اور احناف کے درمیان موضوع بحث رہتا ہے اور حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے یہ موضوع بحث مستقبل میں بھی رہے گا ۔ لیکن یہاں میں نے ایک نقطہ اتفاق ڈھونڈا ہے تا کہ امت مسلمہ میں انتشار کم ہو
اللہ تبارک و تعالی میری اس سعی کو قبول فرمائے
میری تحقیق کے مطابق تقلید شخصی کے متعلق اہل حدیث حضرات میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تقلید شخصی کا مطلب یہ ہے کہ شرعی معاملات میں صرف ایک شخص کے اقوال پر عمل کیا جائے اور اگر کوئی اس شخص کا قول قرآن و حدیث سے ٹکراجائے تو قرآن و حدیث کو چھوڑ کر صرف اور صرف اس شخص کے اقوال کی پیروی کی جائے ۔میرے نذدیک اہل حدیث حضرات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔
تقلید شخصی کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف اپنے مسلک کے اکابریں کے فہم قرآن و حدیث کے مطابق زندگي گذاریں اور اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق قرآن و حدیث سے ایسے مسائل نہ اخذ کریں جو ہمارے مسلک کے اکابرین کی فہم سے ٹکرائے ۔
اب یہ وہی بات ہے جو پہلے حصہ میں اہل حدیث حضرات کے حوالہ سے ذکر کی گئی
اب میں اپنے مضون پر دو اعتراض کی توقع کر رہا ہوں ۔ اس لئیے مناسب سمجھتا ہوں ان کے متعلق بھی کچھ عرض کردوں ۔
پہلا متوقع اعتراض
اکابریں احناف کا فہم قرآن و حدیث کئی موقعوں پر غلط ہے ۔
جواب
جناب اگر اکابریں احناف کا قرآن و حدیث کا فہم آپ حضرات کے زعم میں غلط ہے تو ان مقامات کی نشاندہی ہونی چاہئیے جہاں آپ حضرات کے نذدیک اکابریں احناف غلطی پر ہیں ۔ تقلید شخصی پر اعتراضات چہ معنی دارد ۔
آپ حضرات کا اعتراض یہ ہونا چاہئیے کہ فلاں فلاں مقامات پر احناف کا فہم قرآن و حدیث درست نہیں اور اکابریں اہل حدیث حق پر ہیں نا کہ تقلید شخصی (جس کی وضاحت اوپر کردی کئی ہے ) پر اعتراض کیا جائے ، جب کہ عملا دونوں مسالک اس پر عمل کر رہے ہیں
دوسرا متوقع اعتراض
احناف کی کتب سے کانٹ چھانٹ کر اعتراض کیا جاتا ہے کہ فلاں کتب میں فلاں حنفی عالم کا قول ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تقلید شخصی کا مطلب ہے کہ صرف اور صرف امام کے قول پر عمل کیا جائے
جواب
اس بات میں کوئی شک نہیں احناف تقلید شخصی کے قائل ہیں ، لیکن اگر واقعی میں تقلید شخصی کا مطلب احناف کے ہاں یہی ہے جو اہل حدیث ثابت کرنا چاہتے ہیں یعنی صرف اور صرف امام کے قول پر عمل کیا جائے تو فقہ حنفی میں کوئی بھی مسئلہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول سے نہ ٹکراتا ۔
اہل حدیث تقلید شخصی کا جو مطلب اخذ کرتے ہیں وہ عملا احناف میں موجود نہیں ۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ اہل حدیث احناف کے بارے میں تقلید شخصی کے متعلق شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔
اگر تقلید شخصی کا مطلب صرف یہ ہے کہ صرف اور صرف امام کے قول پر عمل کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دو اہم شاگردوں امام یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے کئی امور میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ، تقلید شخصی جیسا کہ اہل حدیث سمجھتے ہیں وہاں بھی نہ تھی اور نہ اس کے بعد نظر آتی ہے ۔
کیا کوئی اہل حدیث بھائی ثابت کر سکتا ہے کہ کسی ایک بھی حنفی نے عملا ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر عمل کیا ہو ؟
ایسا عملی زندگي میں دکھانا نا ممکن ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ احناف تقلید شخصی کا وہ مطلب نہیں لیتے جو اہل حدیث حضرات سمجھتے ہیں بلکہ جس طرح اہل حدیث اپنے اکابریں کے فہم سلف کو مشعل راہ سمجھتے ہیں ، احناف بھی اپنے اکابریں کے فہم قرآن وحدیث کو مشعل راہ سمجھتے ہیں اور اسی پر عمل کو تقلید شخصی کہتے ہیں