• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی جامع تعریف

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
میں نے تو بتا دیا کہ ہر بات علماءسے پوچھ کر اور جب کسی بات کا پتہ ہی نہ ہو تو کسی سے دلیل کا مطالبہ چہ معنی دارد . میرا کونسپٹ کیا یہ میری مجبوری ہے ؟؟؟؟اور مجھ جیسے بہت سوں کی .
دلیل نہ مانگنے سے بندہ مقلد نہیں بنتا
مقلد اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات مانے
 

پاکستان

مبتدی
شمولیت
مئی 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
0
دلیل نہ مانگنے سے بندہ مقلد نہیں بنتا
مقلد اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات مانے
ہمیں کیا پتہ کہ قرآن و سنت کے منافی ہے یا نہیں ؟؟؟؟ جب علم نہیں تو یہ پتہ کیسا چلے گا .
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ہمیں کیا پتہ کہ قرآن و سنت کے منافی ہے یا نہیں ؟؟؟؟ جب علم نہیں تو یہ پتہ کیسا چلے گا .
پیارے پاکستان آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جب ان پڑھ آدمی کچھ بھی نہیں جانتا تو اس کو دلیل کی معرفت کیسے ہوگی اور وہ کیسے پہنچان سکے گا کہ یہ دلیل قرآن وحدیث کے منافی ہے یا نہیں؟ یعنی پس عام یا ان پڑھ آدمی تقلید ہی کرے۔اس کےعلاوہ اس کے پاس چارہ ہی نہیں۔
اچھا آپ مجھے یہ بتائیں ( کیونکہ کبھی سوال کا جواب سوال پر سوال کرنے سے بھی مل جاتا ہوتا ہے) کہ جب وہ عامی یا ان پڑھ تقلید کا پٹہ گلے میں ڈالتے ہوئے مولانا سے پوچھے گا تواس کو کیسے پتہ چلے گا کہ مولانا قرآن وحدیث سے مسئلہ بتارہے ہیں ؟ اگر مولانا اس عامی کو اپنا فلسفہ ہی بتادیں تو کیا عامی کےلیے جائز ہوجائے گا کہ وہ اس پر عمل کرے؟ یا وہ مولانا کی اپنی بیان شدہ بات عامی کےلیےدین بن جائے گا ؟
نوٹ:
حالانکہ تقلید کا جو تصور شیخ رفیق طاھر﷾ نے بیان کیا ہے۔شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی اور جو تصور تقلید کا آپ بیان کررہے ہیں اس کا تو حکم اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔اورپھر نص پر عمل کو آپ لوگ بھی تقلید کانام نہیں دیتے تو عامی اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کیسے مقلد ہوجائے گا ؟ اس لیے برادار تقلید کا جو تصور آپ پیش کررہے ہیں وہ تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔
 

پاکستان

مبتدی
شمولیت
مئی 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
0
پیارے پاکستان آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جب ان پڑھ آدمی کچھ بھی نہیں جانتا تو اس کو دلیل کی معرفت کیسے ہوگی اور وہ کیسے پہنچان سکے گا کہ یہ دلیل قرآن وحدیث کے منافی ہے یا نہیں؟ یعنی پس عام یا ان پڑھ آدمی تقلید ہی کرے۔اس کےعلاوہ اس کے پاس چارہ ہی نہیں۔
اچھا آپ مجھے یہ بتائیں ( کیونکہ کبھی سوال کا جواب سوال پر سوال کرنے سے بھی مل جاتا ہوتا ہے) کہ جب وہ عامی یا ان پڑھ تقلید کا پٹہ گلے میں ڈالتے ہوئے مولانا سے پوچھے گا تواس کو کیسے پتہ چلے گا کہ مولانا قرآن وحدیث سے مسئلہ بتارہے ہیں ؟ اگر مولانا اس عامی کو اپنا فلسفہ ہی بتادیں تو کیا عامی کےلیے جائز ہوجائے گا کہ وہ اس پر عمل کرے؟ یا وہ مولانا کی اپنی بیان شدہ بات عامی کےلیےدین بن جائے گا ؟
نوٹ:
حالانکہ تقلید کا جو تصور شیخ رفیق طاھر﷾ نے بیان کیا ہے۔شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی اور جو تصور تقلید کا آپ بیان کررہے ہیں اس کا تو حکم اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔اورپھر نص پر عمل کو آپ لوگ بھی تقلید کانام نہیں دیتے تو عامی اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کیسے مقلد ہوجائے گا ؟ اس لیے برادار تقلید کا جو تصور آپ پیش کررہے ہیں وہ تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔
یہ بات مجھے کلئیر نہیں ہوئی .تقلید اب اتباع کیسے بن گئی ؟؟ رفیق طاہر صاحب کی بات صحیح نہیں ہے ؟؟؟؟؟ میرا سوال اب بھی ہوئی ہے .یہی بات تو پوچھنی ہے کہ عالم جو مرضی کہے . ہمیں دلائل کا جب پتہ نہیں وہ اپنا فلسفہ بتائے یا دین سوال یہ ہے کہ کیا مقلد ہو یا غیر مقلد اس کو ہر بات کی دلیل کا پتہ ہوتا ہے ؟؟ بلکہ عام مولانا صاحبان کو تو خود دلیل کا پتا نہیں ہوتا .تو اتباع کیا ہے . تقلید کیا ہے اور اس کا حکم کیا ہے . یہی تو مسئلہ ہے کہ بندے کو صرف اپنی بات ہی صحیح لگ رہی ہوتی ہے باقیوں کی نہیں .
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم جب آپ سے پوچھا گیا کہ تقلید کے بارے میں آپ کے ذہن میں کیا کونسپٹ ہے۔تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو کہ آپ تقلید کو کیا سمجھتے ہیں۔تو آپ نے فرمایا
میں نے تو بتا دیا کہ ہر بات علماءسے پوچھ کر اور جب کسی بات کا پتہ ہی نہ ہو تو کسی سے دلیل کا مطالبہ چہ معنی دارد . میرا کونسپٹ کیا یہ میری مجبوری ہے ؟؟؟؟اور مجھ جیسے بہت سوں کی .
عامی علماء سے سوال کرے یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔اگر اس پر مزید آپ نے بحث ومباحثہ دیکھنا ہو تو آپ اس تھریڈ میں آجائیں۔اور ایک بار پورا پڑھ لیں۔ان شاءاللہ سب اشکالات دور ہوجائیں گے۔دلیل کیا ہے؟
مزید آپ کے اس جواب پر شیخ رفیق طاہربھائی نے بھی کہا کہ
دلیل نہ مانگنے سے بندہ مقلد نہیں بنتا
مقلد اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات مانے
علمائے مقلدین کے ہاں بھی حقیقت یہی ہے کیونکہ مقلدین جب تقلید کی تعریف کرتے ہیں۔تو کہتے ہیں نص پر عمل تقلید نہیں۔اور عامی کو علماء سے سوال کا حکم نص سے ثابت ہے۔اس مختصر مگر واضح اور آسان فہم بات کو سمجھنے کے بجائے آپ نے کہا
ہمیں کیا پتہ کہ قرآن و سنت کے منافی ہے یا نہیں ؟؟؟؟ جب علم نہیں تو یہ پتہ کیسا چلے گا .
آپ کی اس بات کا جواب آپ سے ہی لینے کےلیے یوں سوال کیا گیا
اچھا آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب وہ عامی یا ان پڑھ تقلید کا پٹہ گلے میں ڈالتے ہوئے مولانا سے پوچھے گا تواس کو کیسے پتہ چلے گا کہ مولانا قرآن وحدیث سے مسئلہ بتارہے ہیں ؟ اگر مولانا اس عامی کو اپنا فلسفہ ہی بتادیں تو کیا عامی کےلیے جائز ہوجائے گا کہ وہ اس پر عمل کرے؟ یا وہ مولانا کی اپنی بیان شدہ بات عامی کےلیےدین بن جائے گا ؟
اس عبارت کی مزید وضاحت نقل کردیتا ہوں کہ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان پڑھ کےلیے دلائل کی معرفت اور صحت وغلط کا ادراک کرنا ممکن نہیں تو پھر اس کو تقلید کیوں نہیں کرنے دیتے ؟ تو جناب تقلید کرکے وہ کونسا پہاڑ سر کرلے گا ؟ کیا تقلید کرنے سے وہ صحیح راستے پر آجائے گا ؟ اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں جس آدمی کی تقلید کررہا ہوں وہ مجھے قرآن وحدیث کے مطابق ہی مسائل بتاتا جارہا ہے ؟ اگر وہ مولوی اس کو قرآن وحدیث کے خلاف مسائل بتانا شروع کردے تو تقلید یہاں کیا فائدہ دے گی ؟ آپ مجھے بتائیں
میں کہتاہوں دلیل طلب اس لیے کرے کیونکہ عامی جب دلیل طلب کرے گا اور عالم اس کے سامنے دلیل پیش کرے گا تو عامی کی نیت میں یہ تو ہوگا ناں کہ وہ دلیل پر عمل کررہا ہے۔لیکن جب وہ دلیل طلب کیے بغیر عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرنا شروع کردے گا تو اس کی نیت میں شیطان فتور ڈال سکتا ہے۔اور پھر اعمال کادارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔اس لیے یہ بات ٹھیک ہے کہ عامی دلیل کی معرفت نہیں رکھتا لیکن دلیل طلب کرنا عامی کےلیے جائز ہی نہیں یہ بات درست نہیں۔
میری وضاحت کے باوجود بھی آپ نے یوں کہا
یہ بات مجھے کلئیر نہیں ہوئی .تقلید اب اتباع کیسے بن گئی ؟؟ رفیق طاہر صاحب کی بات صحیح نہیں ہے ؟؟؟؟؟ میرا سوال اب بھی ہوئی ہے .یہی بات تو پوچھنی ہے کہ عالم جو مرضی کہے . ہمیں دلائل کا جب پتہ نہیں وہ اپنا فلسفہ بتائے یا دین سوال یہ ہے کہ کیا مقلد ہو یا غیر مقلد اس کو ہر بات کی دلیل کا پتہ ہوتا ہے؟؟ بلکہ عام مولانا صاحبان کو تو خود دلیل کا پتا نہیں ہوتا .تو اتباع کیا ہے . تقلید کیا ہے اور اس کا حکم کیا ہے . یہی تو مسئلہ ہے کہ بندے کو صرف اپنی بات ہی صحیح لگ رہی ہوتی ہے باقیوں کی نہیں .
گزارشات پیش ہیں
تقلید اب اتباع کیسے بن گئی ؟؟
نص پر عمل تقلید ہے کہ نہیں؟ ہاں یا ناں میں جواب
رفیق طاہر صاحب کی بات صحیح نہیں ہے ؟؟؟؟؟
کیسے ؟
سوال یہ ہے کہ کیا مقلد ہو یا غیر مقلد اس کو ہر بات کی دلیل کا پتہ ہوتا ہے؟؟
ہر بات کی دلیل کا پتہ ہونا عالم کےبس کی بات تو ہوسکتی ہے لیکن عام مقلد یا غیر مقلد کے بس کی بات نہیں۔اور مجھے یہ یقین ہے کہ اس پر آپ کہیں گے کہ جب غیر مقلدین کو بھی ہر بات پر دلیل کا معلوم نہیں ہوتا تو پھر وہ بھی علماء سے پوچھتے ہوئے تقلید کرتے ہیں۔تو ان غیر مقلدین کو مقلد کیوں نہیں کہا جاسکتا ؟ محترم اس طرح کے غیر مقلدین اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔جب آپ میرے اس سوال کا جواب کہ نص پر عمل تقلید ہے کہ نہیں جواب دیں گے۔ اس بات کا جواب خود مل جائے گا۔
اتباع کیا ہے . تقلید کیا ہے اور اس کا حکم کیا ہے
آپ ان تھریڈ کا تفصیلی مطالعہ کریں۔امید ہے تمام اشکالات دور ہوجائیں گے۔
1۔دلیل کیا ہے ؟
2۔تقلید کیا ہے ؟
3۔ اتباع کسے کہتے ہیں؟
4۔ دین میں تقلید کا مسئلہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ہمیں کیا پتہ کہ قرآن و سنت کے منافی ہے یا نہیں ؟؟؟؟ جب علم نہیں تو یہ پتہ کیسا چلے گا .
جب مقلد کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا تو یہ علم کیسے ہوتا ہے کہ دین پر عمل کے لئے تقلید کرنی ہے؟
ہزاروں اماموں میں سے اسے کیسے معلوم ہوتا ہے کہ میں نے صرف اور صرف ابوحنیفہ کی تقلید کرنی ہے؟
اتنے سارے اماموں میں سے مقلد کے پاس ابوحنیفہ کی تقلید کی ترجیح کی کیا دلیل ہوتی ہے؟
جب اسے کچھ علم ہی نہیں ہوتا تو لاعلمی اور جہالت میں وہ تقلید کے لئے کسی غلط شخص کا انتخاب کیوں نہیں کرتا؟

وہ پہلا شخص جو مقلد کو ان سوالات کا جواب دیتا ہے یا ابوحنیفہ کی تقلید کی جانب رہنمائی کرتا ہے وہ عامی شخص سب سے پہلے اسی شخص کا مقلد ہوتا ہے اور تمام عمر اسی شخص کا مقلد رہتا ہے۔ بیچارہ بلاوجہ ابوحنیفہ کے مقلد ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک حنفی ابوحنیفہ کا نام نہاد مقلد بن کر کسی مجتہد کی نہیں بلکہ مقلد ہی کی تقلید کررہا ہوتا ہے کیونکہ ابوحنیفہ میں اجتہاد کی کوئی شرط سرے سے موجود نہیں تھی لیکن یہ بات مقلدین کو کیسے معلوم ہو کیونکہ انہیں تو کچھ بھی علم نہیں ہوتا!!! یہ بات تو صرف ایک محقق اہل حدیث ہی جان سکتا ہے۔الحمداللہ
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسلام علیکم،
میں جب بھی دیکھتا ہوں مقلدین حضرات تقلید کی بحث میں بیچارے عامیوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ کوئی بندہ ان سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ ان کے شیخ الاسلام، شیخ الحدیث، مناظر اسلام وغیرہ اشخاص کی تقلید کے جواز کے لیے ان کے پاس کیا ہے؟؟؟؟ جب بھی دیکھو تو بس یہی کہتے رہتے ہیں عامی کو کیا پتہ، وہ تو بیچارہ ہے، دکھیارہ ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ لیکن بندہ پچھے شیخ السلام صاحب وغیرہ کہاں سے بیچارے ہوئے؟
محمود الحسن دیوبندی نے دلیل کا علم ہوتے ہوئے بھی امام کے قول کو ترجیح دی۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شخص شیخ الہند کس طرح بنا؟؟؟
اگر ایسا شخص بھی مقلد ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عامی ہوئے، جاہل ہوئے، جانور ہوئے، اندھے ہوئے، لیکن عالم قطعی نہیں ہیں! ٹھیک کہا نہ، کیوں کہ مقلد کو تو انہی الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، اور خود مقلدین بھی یہی الفاظ مقلد کے لیے استعمال کرتے ہیں!!
لہذا انہیں اور ان جیسے افراد کو عالم کہنے والا کیا خود جاہل نہیں؟
عامیوں کی تقلید کی بحث تو بہرحال بہت بعد میں آتی ہے، پہلے ان جیسے لوگ، جو علماء کہلاتے ہیں، کی تقلید پر تو بحث کر لیں!!
بس اتنی سی گزارش ہے۔
والسلام۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اسلام علیکم
میں جب بھی دیکھتا ہوں مقلدین حضرات تقلید کی بحث میں بیچارے عامیوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔
عامیوں سے آپ کی ہمدردی قابل ستائش ہے اورکیوں نہ ہولگتاہے کہ آنجناب خود بھی اسی صف میں شامل ہیں ورنہ کفایت اللہ صاحب سے سوال کرنے کے بجائے خود تحقیق کرنے کی زحمت گوارہ کرتے۔
کوئی بندہ ان سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ ان کے شیخ الاسلام، شیخ الحدیث، مناظر اسلام وغیرہ اشخاص کی تقلید کے جواز کے لیے ان کے پاس کیا ہے؟؟؟؟
کیااس کوٹ کردہ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حنفی حضرات اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں یاپھران کے شیخ الاسلام اورمناظر اسلام وغیرہ کیوں تقلید کرتے ہیں۔ امید ہے کہ وضاحت کریں گے
جب بھی دیکھو تو بس یہی کہتے رہتے ہیں عامی کو کیا پتہ، وہ تو بیچارہ ہے، دکھیارہ ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ لیکن بندہ پچھے شیخ السلام صاحب وغیرہ کہاں سے بیچارے ہوئے؟
اسی ردیف اورقافیہ میں جواب دیاجاسکتاہے کہ جب بھی دیکھو صرف فقہ میں ہی عامی کو مجتہد بنانے پر تلے رہتے ہیں۔ فن حدیث میں اگرکسی بے چارے نے اختلاف کرنے کی کوشش کی توفوراڈانٹ دیاجاتاہے کہ محدثین نے ایساکہاہے اس کی پیروی کرو ۔اپنی خود رائی مت جتائو۔
محمود الحسن دیوبندی نے دلیل کا علم ہوتے ہوئے بھی امام کے قول کو ترجیح دی۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شخص شیخ الہند کس طرح بنا؟؟؟
مجھے تویہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ بدیع الدین راشدی شیخ العرب والعجم کس طرح ہوگیا۔اس کا ایک معمولی کتابچہ پڑھاخداکی پناہ اتنے مغالطات۔
جہاں تک شیخ الہند کی جملہ کا تعلق ہے اردومجلس پرماقبل میں وضاحت کرچکاہوں۔کتاب وسنت فورم پربھی کرچکاہوں۔براہ کرم ایک نگاہ دیکھ لیں۔
ہی اعتراض ایک فورم پر قبل ازیں ایک صاحب راجپوت نامی نے کیاتھا۔وہاں ان کومیں نے جوجواب دیاتھاوہ ملاحظہ کیجئے۔
میں تویہ سمجھتاہوں کہ یہ ان کے عین انصاف کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہ بھی وسعت قلبی سے اعتراف کیاکہ اس مسئلے میں دوسرے امام کی رائے قوی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ حدیث کی رو سے امام شافعی کا مذہب راجح ہے یانہیں کہاکہ وہ صحیح ہے اورہمارامسلک غلط ہے ۔اگرصحیح اورغلط کی بات ہوتی توایک حد تک آنجناب کا اعتراض صحیح ہوسکتاہے لیکن یہاں صرف راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے۔
مثال کے طورپرایک شخص کو دلائل کی روشنی میں لگتاہے کہ آمین بالسر راجح ہے لیکن بعض وجوہات کی بناء پروہ آمین بالجہر پر عمل کرتاہے تواس کو کتاب وسنت کی مخالفت نہیں کہتے۔یہ وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں اورایک قوی وجہ تو یہی ہے کہ خواہ مخواہ اس کے اس نئے طرز عمل سے کوئی انتشار پھیلے۔جیساکہ اس کی صراحت حافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔
’’جیساکہ نچلے درجہ کا فقیہہ اورعامی جوقرآن کاحافظ یااکثر حصے کاحافظ ہے اس کیلئے قطعاًاجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔وہ کیوں کر اجتہاد کرے گا اورکیاکہے گا اورکس پر (اپنی باتوں کی) بنیاد رکھے گا اورکیسے اڑسکتاہے جب کہ اس پر ہی نہیں ہیں۔دوسری قسم فقہ میں گہرے رسوخ کا حامل،بیدارمغز،فہیم،محدث جس نے فروعات میں مختصرات کوحفظ کررکھاہواوراصول میں لکھی گئی کتابوں پر نگاہ ہو،اورنحوپڑھی ہواوران سب کے ساتھ اللہ کی کتاب کا حافظ ہو،اوراس کے معنی ومراد سے واقفیت ہو تویہ وہ ہے جواجتہاد مقید کے درجے پر فائز ہے اوریہ اس کی صلاحیت رکھتاہے کہ آئمہ کے دلائل میں غورکرے اورکسی مسئلہ جس جانب حق نظرآئے اوراس میں نص ثابت ہو،اوراس پر ائمہ میں سے کسی امام نے عمل کیاہو۔جیسے ابوحنیفہ،یاجیسے مالک یاثوری یااوزاعی یاشافعی یاابوعبیداوراحمداوراسحاق ،تووہ اس مین حق کی پیروی کرے اوررخصت کی راہ پر نہ چلے اورپرہیزگاری کاطریقہ اختیار کرے اوراس پر حجت قائم ہوجانے کے بعد تقلید کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔اگراس کو خوف ہو کہ کہ وقت کے فقہاء ا س کی روش پر شوروغوغاکرین تووہ اپنے نظریات کو چھپائے رکھے اوراپنے نظریات وخیالات کو عام نہ کرے‘‘ ۔(سیراعلام النبلاء8/191-192)
آپ نے غورکیایہاں حافظ ذہبی نچلے درجہ کے فقیہہ کو بذات خود اجتہاد کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اورنہ ہی اس کو ائمہ کے دلائل میں غورکرکے کسی ایک جانب عمل کی اجازت دے رہے ہیں بلکہ یہ مقام متبحر علماء بتارہے ہیں ۔ اب اگریہی بات شیخ الہند نے دوسرے پیرائے میں بیان کردی تو اس میں آسمان ٹوٹنے اورطنز وتشنیع کی کیابات ہے۔
خداجنہیں مقاصد دین کا فہم اورشریعت کی روح کا علم دیتاہے وہ سمجھتے ہیں کہ دوچیزوں میں کیافرق ہے۔انتشاربین المسلمین بہتر ہے یاپھر مذکورہ مرجوح مسئلہ اورپھر اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
بات اگرباطل اورغلط کی ہوتو پھر اس میں کسی لومہ لائم کی پرواہ نہیں کرتے لیکن اگر بات راجح اورمرجوح کی ہوتو شریعت کے بڑے مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں اورنوافل کیلئے فرائض قربان نہیں کرتے۔
اس کی بہترین مثال خود حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہے ۔آپ نے کفر وشرک اورحرام وحلال کے مسئلہ میں توذرہ اوربال برابر کوئی رعایت نہیں کی لیکن جب بات اس سے ہلکی ہوئی توباوجود خواہش کے حطیم کو کعبہ میں شامل نہیں کیااورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفسار پر جواب دیاکہ ابھی قریش کے لوگ نئے نئے ایمان لائے ہیں ۔
اورباوجود اس کے کہ امام مالک کو یہ حدیث معلوم تھی کہ حضور حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن دوسری وجہ سے کہ بادشاہ کعبہ کی تعمیر کو ایک کھیل بنالیں گے۔اپنے وقت کے بادشاہ شاید ابوجعفر منصور یاہارون رشید کو کعبہ کی دوبارہ تعمیر سے روک دیا۔

اگر ایسا شخص بھی مقلد ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عامی ہوئے، جاہل ہوئے، جانور ہوئے، اندھے ہوئے، لیکن عالم قطعی نہیں ہیں! ٹھیک کہا نہ، کیوں کہ مقلد کو تو انہی الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، اور خود مقلدین بھی یہی الفاظ مقلد کے لیے استعمال کرتے ہیں!!
ویسے تقلید پر ماقبل میں جومیں نے بحث کی ہے۔اس سے کچھ جملے کوٹ کردیتاہوں۔تاکہ ذہن شریف کچھ مجلااورمصفاہوجائے اوربات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی توفیق ملے۔
اولاتوضرورت ہے تقلید اوراجتہاد کی حقیقت سمجھنے کی۔ ایک شخص اگر مجتہد مطلق ہے اوردوسرا مجتہد فی المذہب ہے تووہ اپنے علم کے مطابق اجتہاد کرے گا اورجہاں تک اس کی رسائی نہیں ہے وہاں وہ تقلید کرے گا۔یہ ہر علم وفن میں ہوتاہے۔
علم کے مختلف مدارج ہوتے ہیں ۔ہرایک اپنے علم کی رسائی اورگہرائی اورگیرائی کے اعتبار سے ہی عمل کرتاہے۔ اسمیں کوئی اشکال نہیں ہے کہ ایک شخص وقت واحد میں مجتہد اوروقت واحد میں مقلد ہو۔ علم کے ایک درجے تک وہ مجتہدہو اوراس کے آگے کے مراحل میں مقلد ہو۔
نواب صدیق حسن خان حضرت امام شافعی کے متعلق کہتے ہیں۔
قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلیدلعطاء(الجنۃ 68)حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات میں کہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے۔
امام احمد بن حنبل خود مجتہد ہیں۔ ایک مسئلہ کے جواب میں ایک سائل نے کہاکہ اس میں توکوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ اس پر حضرت امام احمد بن حنبل نے جواباارشاد فرمایاکہ اگرحدیث موجود نہیں تونہ سہی اس میں حضرت امام شافعی کا قول موجود ہے اورامام شافعی کا قول بذات خود حجت اوردلیل ہے۔(تاریخ بغداد2/6/تہذیب9/28)ہم اس مسئلہ میں اتنے پرہی اکتفاء کرتے ہیں۔
اس سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ تقلید میں بھی مختلف مراتب اوردرجات ہین اورسب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنااورمقلدین سے سیدھے عامی مراد لے لینا صحیح نہیں ہے۔اس کاایک الزامی جواب ہی سنئے۔
اہل حدیث حضرات تقلید نہیں کرتے بلکہ اتباع کرتے ہیں۔
حضرت امام ابن تیمیہ کسی مسئلہ دلیل بیان کرتے ہیں۔ اس دلیل کی ایک عامی اتباع کرتاہے ۔اسی دلیل کی راجا صاحب ناصرصاحب اورابوالحسن علوی صاحب اتباع کرتے ہیں۔اسی دلیل کی ان حضرات کے اساتذہ کرام مولانا اسماعیل سلفی،مولانا عطاء اللہ حنیف اوردیگر کبار اہل حدیث علماء اتباع کرتے ہیں۔کیا سبھی اتباع میں متحد المراتب ہیں؟
حضرت ابن قیم فرماتے ہیں کہ مقلد اہل علم نہیں ہوتا۔ اس پر میں صاحب موافقات علامہ شاطبی کی ایک عبارت نقل کردیتاہوں اورآپ سے ہی جواب طلب کرتاہوں۔علامہ شاطبی ایک فتوی کے جواب میں فرماتے ہیں۔
انالااستحل-ان شاء اللہ-فی دین اللہ وامانتہ ان اجد قولین فی المذہب فافتی باحدھما علی التخیر مع انی مقلد ،بل اتحری ماھو المشہور والمعمول بہ فھوالذی اذکرہ للمستفتی،ولااتعرض لہ الی القول الاخر،فان اشکل علی المشہور ولم ارلاحد من الشیوخ فی احد القولین ترجیحاتوفقت(فتاوی الامام الشاطبی صفحہ94)میں اللہ کے دین میں اوراس کی امانت میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں مذہب (مسلک مالکی)میں دوقول پاؤں اوراپنی مرضی سے کسی ایک پر فتوی دے دوں باوجود اس کے کہ میں مقلدہوں۔ بلکہ میں غوروفکر کرتاہوں کہ مشہور اورمعمول بہ کون سامسلک ہے اوراسی کو میں فتوی پوچھنے والے کو بتاتاہوں اوردوسرے قول سے تعرض نہیں کرتا اگرمشہور قول میں کسی وجہ سے کوئی اشکال پیش آئے اورمشائخ میں سے کسی نے دوقول میں سے کسی ایک کو ترجیح نہ دی ہوتو میں توقف کرتاہوں۔
یہاں واضح رہے کہ حضرت امام شاطبی نے خود کو مقلد کہاہے۔ اب ہمیں راجا صاحب سے پوچھنایہ ہے کہ علامہ شاطبی کا شمار اہل علم میں ہے یانہیں۔
لہذا انہیں اور ان جیسے افراد کو عالم کہنے والا کیا خود جاہل نہیں؟
تقلید کے مختلف مراتب سے ناآشناشخص خودجاہل ہے
عامیوں کی تقلید کی بحث تو بہرحال بہت بعد میں آتی ہے، پہلے ان جیسے لوگ، جو علماء کہلاتے ہیں، کی تقلید پر تو بحث کر لیں!!بس اتنی سی گزارش ہے۔
بحث ضرور کرلیں لیکن اپنے دم خم پر ۔ امداد اوراستفادہ کے بل بوتے پر نہیں۔
والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جہاں تک شیخ الہند کی جملہ کا تعلق ہے اردومجلس پرماقبل میں وضاحت کرچکاہوں۔کتاب وسنت فورم پربھی کرچکاہوں۔براہ کرم ایک نگاہ دیکھ لیں۔
ہی اعتراض ایک فورم پر قبل ازیں ایک صاحب راجپوت نامی نے کیاتھا۔وہاں ان کومیں نے جوجواب دیاتھاوہ ملاحظہ کیجئے۔
میں تویہ سمجھتاہوں کہ یہ ان کے عین انصاف کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہ بھی وسعت قلبی سے اعتراف کیاکہ اس مسئلے میں دوسرے امام کی رائے قوی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ حدیث کی رو سے امام شافعی کا مذہب راجح ہے یانہیں کہاکہ وہ صحیح ہے اورہمارامسلک غلط ہے ۔اگرصحیح اورغلط کی بات ہوتی توایک حد تک آنجناب کا اعتراض صحیح ہوسکتاہے لیکن یہاں صرف راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے۔
آفرین ہے جمشید صاحب آپ پر کہ کسی اچھے کام کی تو آپ کو کبھی توفیق نہیں ہوتی البتہ اپنے علماء کے کھلے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے پر ہی آپ مقلدین کی ساری توانائیاں خرچ ہوتی ہیں۔اللہ اس قبیح اور گھاٹے کے سودے سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔آمین

جمشید صاحب آپ لوگوں کو دھوکہ اور مغالطہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئے اس لئے کہ آپ کے’’شیخ الہند‘‘ کی پوری عبارت دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ راجح اور مرجوع کا مسئلہ نہیں بلکہ وجوب تقلید کا مسئلہ ہے۔ پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ (تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

اس صاف اور واضح عبارت میں محمود الحسن دیوبندی اپنے نزدیک راجح مسئلہ پر صرف اس لئے عمل کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان پر ابوحنیفہ کی تقلید کو کس نے واجب کیا ہے؟؟؟؟ چونکہ قرآن وحدیث میں ہم ابوحنیفہ کی تقلید کے واجب ہونے کا کوئی حکم نہیں پاتے اس لئے یقینی طور پرشیطان ہی نے حنفیوں پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ لیکن یہ لوگ شرم کے مارے عوام کو حقیقی اور درست بات نہیں بتاتے۔

چونکہ بااعتراف محمود الحسن دیوبندی کہ مقلدین پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے اور واجب کا چھوڑنا گناہ ہے اس لئے ابوحنیفہ کا مسلک و مذہب چاہے مرجوع ہو، قرآن وحدیث کے خلاف ہو، عقل و دانش پر بھی پورا نہ اترتا ہو اور اجماع کے خلاف ہو۔ ہر حال میں مقلدین ابوحنیفہ کی تقلید کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہر مسئلے میں انکی تقلید حنفیوں پر واجب ہے۔ یہ ہے وہ اصل مسئلہ اور تقلید کی نحوست جس کی بنا پر ہم تقلید کو شرک کہتے ہیں کیونکہ اگر ایک مقلد یہ جان بھی لے کہ اسکا مذہب مرجوع اور خلاف قرآن وحدیث ہے لیکن پھر بھی وہ صرف اس لئے قرآن وحدیث کی مخالفت سے باز نہیں آتا کیونکہ وہ اپنے امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب جانتا ہے۔

تقلیدی مذہب وہ شیطانی مذہب ہے جس میں جہنم کا حصول یقینی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس تقلیدی شیطانی مذہب سے خود بھی بچیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی بچائیں۔
 
Top