اسلام علیکم
میں جب بھی دیکھتا ہوں مقلدین حضرات تقلید کی بحث میں بیچارے عامیوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔
عامیوں سے آپ کی ہمدردی قابل ستائش ہے اورکیوں نہ ہولگتاہے کہ آنجناب خود بھی اسی صف میں شامل ہیں ورنہ کفایت اللہ صاحب سے سوال کرنے کے بجائے خود تحقیق کرنے کی زحمت گوارہ کرتے۔
کوئی بندہ ان سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ ان کے شیخ الاسلام، شیخ الحدیث، مناظر اسلام وغیرہ اشخاص کی تقلید کے جواز کے لیے ان کے پاس کیا ہے؟؟؟؟
کیااس کوٹ کردہ جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حنفی حضرات اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں یاپھران کے شیخ الاسلام اورمناظر اسلام وغیرہ کیوں تقلید کرتے ہیں۔ امید ہے کہ وضاحت کریں گے
جب بھی دیکھو تو بس یہی کہتے رہتے ہیں عامی کو کیا پتہ، وہ تو بیچارہ ہے، دکھیارہ ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ لیکن بندہ پچھے شیخ السلام صاحب وغیرہ کہاں سے بیچارے ہوئے؟
اسی ردیف اورقافیہ میں جواب دیاجاسکتاہے کہ جب بھی دیکھو صرف فقہ میں ہی عامی کو مجتہد بنانے پر تلے رہتے ہیں۔ فن حدیث میں اگرکسی بے چارے نے اختلاف کرنے کی کوشش کی توفوراڈانٹ دیاجاتاہے کہ محدثین نے ایساکہاہے اس کی پیروی کرو ۔اپنی خود رائی مت جتائو۔
محمود الحسن دیوبندی نے دلیل کا علم ہوتے ہوئے بھی امام کے قول کو ترجیح دی۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شخص شیخ الہند کس طرح بنا؟؟؟
مجھے تویہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ بدیع الدین راشدی شیخ العرب والعجم کس طرح ہوگیا۔اس کا ایک معمولی کتابچہ پڑھاخداکی پناہ اتنے مغالطات۔
جہاں تک شیخ الہند کی جملہ کا تعلق ہے اردومجلس پرماقبل میں وضاحت کرچکاہوں۔کتاب وسنت فورم پربھی کرچکاہوں۔براہ کرم ایک نگاہ دیکھ لیں۔
ہی اعتراض ایک فورم پر قبل ازیں ایک صاحب راجپوت نامی نے کیاتھا۔وہاں ان کومیں نے جوجواب دیاتھاوہ ملاحظہ کیجئے۔
میں تویہ سمجھتاہوں کہ یہ ان کے عین انصاف کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہ بھی وسعت قلبی سے اعتراف کیاکہ اس مسئلے میں دوسرے امام کی رائے قوی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ حدیث کی رو سے امام شافعی کا مذہب راجح ہے یانہیں کہاکہ وہ صحیح ہے اورہمارامسلک غلط ہے ۔اگرصحیح اورغلط کی بات ہوتی توایک حد تک آنجناب کا اعتراض صحیح ہوسکتاہے لیکن یہاں صرف راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے۔
مثال کے طورپرایک شخص کو دلائل کی روشنی میں لگتاہے کہ آمین بالسر راجح ہے لیکن بعض وجوہات کی بناء پروہ آمین بالجہر پر عمل کرتاہے تواس کو کتاب وسنت کی مخالفت نہیں کہتے۔یہ وجوہات بہت سی ہوسکتی ہیں اورایک قوی وجہ تو یہی ہے کہ خواہ مخواہ اس کے اس نئے طرز عمل سے کوئی انتشار پھیلے۔جیساکہ اس کی صراحت حافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔
’’جیساکہ نچلے درجہ کا فقیہہ اورعامی جوقرآن کاحافظ یااکثر حصے کاحافظ ہے اس کیلئے قطعاًاجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔وہ کیوں کر اجتہاد کرے گا اورکیاکہے گا اورکس پر (اپنی باتوں کی) بنیاد رکھے گا اورکیسے اڑسکتاہے جب کہ اس پر ہی نہیں ہیں۔دوسری قسم فقہ میں گہرے رسوخ کا حامل،بیدارمغز،فہیم،محدث جس نے فروعات میں مختصرات کوحفظ کررکھاہواوراصول میں لکھی گئی کتابوں پر نگاہ ہو،اورنحوپڑھی ہواوران سب کے ساتھ اللہ کی کتاب کا حافظ ہو،اوراس کے معنی ومراد سے واقفیت ہو تویہ وہ ہے جواجتہاد مقید کے درجے پر فائز ہے اوریہ اس کی صلاحیت رکھتاہے کہ آئمہ کے دلائل میں غورکرے اورکسی مسئلہ جس جانب حق نظرآئے اوراس میں نص ثابت ہو،اوراس پر ائمہ میں سے کسی امام نے عمل کیاہو۔جیسے ابوحنیفہ،یاجیسے مالک یاثوری یااوزاعی یاشافعی یاابوعبیداوراحمداوراسحاق ،تووہ اس مین حق کی پیروی کرے اوررخصت کی راہ پر نہ چلے اورپرہیزگاری کاطریقہ اختیار کرے اوراس پر حجت قائم ہوجانے کے بعد تقلید کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔اگراس کو خوف ہو کہ کہ وقت کے فقہاء ا س کی روش پر شوروغوغاکرین تووہ اپنے نظریات کو چھپائے رکھے اوراپنے نظریات وخیالات کو عام نہ کرے‘‘ ۔(سیراعلام النبلاء8/191-192)
آپ نے غورکیایہاں حافظ ذہبی نچلے درجہ کے فقیہہ کو بذات خود اجتہاد کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اورنہ ہی اس کو ائمہ کے دلائل میں غورکرکے کسی ایک جانب عمل کی اجازت دے رہے ہیں بلکہ یہ مقام متبحر علماء بتارہے ہیں ۔ اب اگریہی بات شیخ الہند نے دوسرے پیرائے میں بیان کردی تو اس میں آسمان ٹوٹنے اورطنز وتشنیع کی کیابات ہے۔
خداجنہیں مقاصد دین کا فہم اورشریعت کی روح کا علم دیتاہے وہ سمجھتے ہیں کہ دوچیزوں میں کیافرق ہے۔انتشاربین المسلمین بہتر ہے یاپھر مذکورہ مرجوح مسئلہ اورپھر اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
بات اگرباطل اورغلط کی ہوتو پھر اس میں کسی لومہ لائم کی پرواہ نہیں کرتے لیکن اگر بات راجح اورمرجوح کی ہوتو شریعت کے بڑے مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں اورنوافل کیلئے فرائض قربان نہیں کرتے۔
اس کی بہترین مثال خود حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہے ۔آپ نے کفر وشرک اورحرام وحلال کے مسئلہ میں توذرہ اوربال برابر کوئی رعایت نہیں کی لیکن جب بات اس سے ہلکی ہوئی توباوجود خواہش کے حطیم کو کعبہ میں شامل نہیں کیااورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفسار پر جواب دیاکہ ابھی قریش کے لوگ نئے نئے ایمان لائے ہیں ۔
اورباوجود اس کے کہ امام مالک کو یہ حدیث معلوم تھی کہ حضور حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن دوسری وجہ سے کہ بادشاہ کعبہ کی تعمیر کو ایک کھیل بنالیں گے۔اپنے وقت کے بادشاہ شاید ابوجعفر منصور یاہارون رشید کو کعبہ کی دوبارہ تعمیر سے روک دیا۔
اگر ایسا شخص بھی مقلد ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عامی ہوئے، جاہل ہوئے، جانور ہوئے، اندھے ہوئے، لیکن عالم قطعی نہیں ہیں! ٹھیک کہا نہ، کیوں کہ مقلد کو تو انہی الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، اور خود مقلدین بھی یہی الفاظ مقلد کے لیے استعمال کرتے ہیں!!
ویسے تقلید پر ماقبل میں جومیں نے بحث کی ہے۔اس سے کچھ جملے کوٹ کردیتاہوں۔تاکہ ذہن شریف کچھ مجلااورمصفاہوجائے اوربات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی توفیق ملے۔
اولاتوضرورت ہے تقلید اوراجتہاد کی حقیقت سمجھنے کی۔ ایک شخص اگر مجتہد مطلق ہے اوردوسرا مجتہد فی المذہب ہے تووہ اپنے علم کے مطابق اجتہاد کرے گا اورجہاں تک اس کی رسائی نہیں ہے وہاں وہ تقلید کرے گا۔یہ ہر علم وفن میں ہوتاہے۔
علم کے مختلف مدارج ہوتے ہیں ۔ہرایک اپنے علم کی رسائی اورگہرائی اورگیرائی کے اعتبار سے ہی عمل کرتاہے۔ اسمیں کوئی اشکال نہیں ہے کہ ایک شخص وقت واحد میں مجتہد اوروقت واحد میں مقلد ہو۔ علم کے ایک درجے تک وہ مجتہدہو اوراس کے آگے کے مراحل میں مقلد ہو۔
نواب صدیق حسن خان حضرت امام شافعی کے متعلق کہتے ہیں۔
قال الشافعی فی مواضع من الحجج قلتہ تقلیدلعطاء(الجنۃ 68)حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات میں کہاہے کہ میں نے حضرت عطاء کی تقلید میں ایساکہاہے۔
امام احمد بن حنبل خود مجتہد ہیں۔ ایک مسئلہ کے جواب میں ایک سائل نے کہاکہ اس میں توکوئی حدیث موجود نہیں ہے۔ اس پر حضرت امام احمد بن حنبل نے جواباارشاد فرمایاکہ اگرحدیث موجود نہیں تونہ سہی اس میں حضرت امام شافعی کا قول موجود ہے اورامام شافعی کا قول بذات خود حجت اوردلیل ہے۔(تاریخ بغداد2/6/تہذیب9/28)ہم اس مسئلہ میں اتنے پرہی اکتفاء کرتے ہیں۔
اس سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ تقلید میں بھی مختلف مراتب اوردرجات ہین اورسب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنااورمقلدین سے سیدھے عامی مراد لے لینا صحیح نہیں ہے۔اس کاایک الزامی جواب ہی سنئے۔
اہل حدیث حضرات تقلید نہیں کرتے بلکہ اتباع کرتے ہیں۔
حضرت امام ابن تیمیہ کسی مسئلہ دلیل بیان کرتے ہیں۔ اس دلیل کی ایک عامی اتباع کرتاہے ۔اسی دلیل کی راجا صاحب ناصرصاحب اورابوالحسن علوی صاحب اتباع کرتے ہیں۔اسی دلیل کی ان حضرات کے اساتذہ کرام مولانا اسماعیل سلفی،مولانا عطاء اللہ حنیف اوردیگر کبار اہل حدیث علماء اتباع کرتے ہیں۔کیا سبھی اتباع میں متحد المراتب ہیں؟
حضرت ابن قیم فرماتے ہیں کہ مقلد اہل علم نہیں ہوتا۔ اس پر میں صاحب موافقات علامہ شاطبی کی ایک عبارت نقل کردیتاہوں اورآپ سے ہی جواب طلب کرتاہوں۔علامہ شاطبی ایک فتوی کے جواب میں فرماتے ہیں۔
انالااستحل-ان شاء اللہ-فی دین اللہ وامانتہ ان اجد قولین فی المذہب فافتی باحدھما علی التخیر مع انی مقلد ،بل اتحری ماھو المشہور والمعمول بہ فھوالذی اذکرہ للمستفتی،ولااتعرض لہ الی القول الاخر،فان اشکل علی المشہور ولم ارلاحد من الشیوخ فی احد القولین ترجیحاتوفقت(فتاوی الامام الشاطبی صفحہ94)میں اللہ کے دین میں اوراس کی امانت میں یہ حلال نہیں سمجھتا کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں مذہب (مسلک مالکی)میں دوقول پاؤں اوراپنی مرضی سے کسی ایک پر فتوی دے دوں باوجود اس کے کہ میں مقلدہوں۔ بلکہ میں غوروفکر کرتاہوں کہ مشہور اورمعمول بہ کون سامسلک ہے اوراسی کو میں فتوی پوچھنے والے کو بتاتاہوں اوردوسرے قول سے تعرض نہیں کرتا اگرمشہور قول میں کسی وجہ سے کوئی اشکال پیش آئے اورمشائخ میں سے کسی نے دوقول میں سے کسی ایک کو ترجیح نہ دی ہوتو میں توقف کرتاہوں۔
یہاں واضح رہے کہ حضرت امام شاطبی نے خود کو مقلد کہاہے۔ اب ہمیں راجا صاحب سے پوچھنایہ ہے کہ علامہ شاطبی کا شمار اہل علم میں ہے یانہیں۔
لہذا انہیں اور ان جیسے افراد کو عالم کہنے والا کیا خود جاہل نہیں؟
تقلید کے مختلف مراتب سے ناآشناشخص خودجاہل ہے
عامیوں کی تقلید کی بحث تو بہرحال بہت بعد میں آتی ہے، پہلے ان جیسے لوگ، جو علماء کہلاتے ہیں، کی تقلید پر تو بحث کر لیں!!بس اتنی سی گزارش ہے۔
بحث ضرور کرلیں لیکن اپنے دم خم پر ۔ امداد اوراستفادہ کے بل بوتے پر نہیں۔
والسلام