• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی شرعی حیثیت-ایک منصفانہ جائزہ

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہاں پر ایک اشکال پایا جاتا ہے کہ ایک عامی اہل حدیث شخص کو کس طرح یہ یقینی علم ہے کہ اہل حدیث عالم ہی صحیح مسئلہ بتائے گا ؟
کیا کسی عام آدمی کو یہ تدبر حاصل ہے کہ وہ علماء کی صحت کا پہچان کرے ۔؟
محترم بھائی ایک بات ہوتی ہے کہ ہم خود کو مطمئن کریں اور ایک بات ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کو بھی تقلید میں مطمئن کر سکیں پس آپ نے جو باتیں لکھی ہیں میں انہیں باتوں کے حل کے لئے ہی اپنے بھائیوں سے تحقیق کر رہا ہوں تاکہ پھر محترم @اشماریہ بھائی سے بات کر سکوں
لیکن آپ کی اوپر بات کے جواب کے لئے مجھے لازمی پہلے اپنی اوپر تیسری بات کا جواب چاہیے اور اسکے علاوہ باقی اوپر پہلی اور دوسری باتوں کا بھی جواب ایک ایک کر کے چاہیے اگر آپ یا کوئی اور بھائی محترم @محمد فیض الابرار دے دیں تو بہت مشکور ہوں گا جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
2۔دوسری بات
دوسری بات بھی اہل حدیث بھائیوں سے پوچھنی ہے کہ اس فورم پر چند دنوں پہلے ایک بھائی نے ایک پوسٹ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تقلید نہ کرنے والے 100 محدثین کے حوالے سے ایک کتاب لگائی تھی جس میں غالبا صفحہ 26 یا 29 پر لکھا تھا کہ اہل تقلید کو ہم نے 100 حوالے دیئے ہیں تقلید نہ کرنے کے وہ ہمیں 10 حوالے محدثین کے بتا دیں جس میں کسی معین امام کی تقلید کرنا واجب کہا گیا ہو

اس پر میرا سوال یہ ہے کہ یہاں جو چیلنج دیا گیا ہے وہ تقلید شخصی کے واجب ہونے کی دلیل دینے کا ہے یعنی تقلید مطلق کے واجب ہونے یا تقلید مطلق کے جائز ہونے کا چیلنج نہیں تھا تو کیا یہ دونوں چیلنج بھی دیئے جا سکتے ہیں یا نہیں
(جس بھائی نے وہ تھریڈ لگایا تھا ان سے گزارش ہے کہ وہ مجھ سے غائب ہو گیا ہے وہ یہاں لگا دیں تاکہ میں اسکو دیکھ کر بات کر سکوں
سلف صالحین اور تقلید


تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ





ڈاؤن لوڈ لنک:


http://download1642.mediafire.com/…/salaf+Saliheen+or+Taqle…
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
كيا تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اس ميں كئى اقوال ہيں:

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

پہلا:

تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ علم كے ساتھ نہيں، اور بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے، لوگوں كے اس ميں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا كہ تقليد علم نہيں، اور يہ كہ مقلد پر عالم كے نام كا اطلاق نہيں ہوتا، اكثر اصحاب اور جمہور شافعيہ كا قول يہى ہے.

دوسرا:

اس كى اپنى ذات كے ليے يہ جائز ہے، اس كے ليے كسى دوسرے علماء كى تقليد كرنا جائز ہے، جب يہ فتوى اس كے اپنے ليے ہو، جو فتوى كسى دوسرے كے ليے دے اس ميں اسے عالم كى تقليد كرنى جائز نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابن بطہ وغيرہ كا قول يہى ہے.

ا
ور قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابن بطہ نے برمكى كى جانب لكھے ہوئے مكتوبات ميں ذكر كيا ہے:

مفتى سے جو سنا ہے اس كا فتوى دينا اس كے ليے جائز نہيں، بلكہ اس كے خود اس كى تقليد كرنا جائز ہے، ليكن وہ كسى دوسرے كو تقليد كا فتوى دے تو يہ جائز نہيں.

تيسرا قول:

ضرورت اور كسى مجتھد عالم دين كى عدم موجودگى كے وقت جائز ہے، يہ صحيح ترين قول ہے، اور عمل بھى اسى پر ہے، قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابو حفص نے اپنى تعليقات ميں ذكركيا ہے كہ:

" ميں نے ابو على حسن بن عبد اللہ النجاد كو كہتے ہوئے سنا:

ميں نے ابو الحسين بن بشران سے سنا وہ كہہ رہے تھے: ميں اس شخص پر عيب جوئى نہيں كرتا جو امام احمد سے پانچ مسائل ياد كرے اور مسجد كے كسى ستون كے پاس بيٹھ كر فتوى دے " .

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 37 - 38 ).

http://islamqa.info/ur/14076


 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عبدہ بھائی میں عمومی طور پر ان موضوعات کے بارے میں اتنا نہیں جانتا جتنا کہ جاننا چاہیے پھر بھی اپنی معلومات کو یہاں لکھ دیتا ہوں
آپ نے جو بات لکھی اس میں سب سے پہلے تو اصطلاح تقلید کا صحیح مفہوم اور اس کے حدود اربعہ کا تعین ہونا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر کچھ بھی کہنا حتمی نہیں ہو سکتا
کیا ہر وہ شخص جسے کسی مسئلے کا علم نہ ہو اگر وہ کسی صاحب علم سے دریافت کر لے تو کیا یہ تقلید ہو گی؟
میرا خیال ہے اسے کوئی بھی شخص تقلید نہیں کہے گا کہ اس کی طرف خود قرآن مجید نے توجہ دلائی : اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو (قرآن)
قرون اولی میں اس کی کثرت سے مثالیں پائی جاتی ہیں بلکہ صحابہ کرام میں بھی یہ اسلوب موجود تھا۔
اس سے معلوم یہ ہوا کہ ہر شخص کے پاس شریعت کی معلومات نہیں ہو سکتی یا کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماہر شریعت نہیں ہو سکتالہذا اس کیفیت میں بے علم باعلم سے پوچھے گا اور کم علم والا زیادہ علم والے سے پوچھے گا اور یہ رویہ صرف شریعت ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر معاملے میں اختیار کیا جاتا ہے۔
لیکن دو پہلو اس میں قابل توجہ ہیں:
کہ سوال پوچھنے والا صرف اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پوچھتا تھا اس کے علاوہ کسی خاص شخص کی رائے دریافت کرنا میرا خیال ہے اس کی کوئی واضح اور صریح مثال نہیں ہے
جس سے مسئلہ پوچھا جا رہا ہوتا تھا وہ بھی اپنے علم کے مطابق کتاب و سنت کے احکام ہی بیان کرتا تھا اگر اسے علم نہیں ہوتا تھا تو کسی اور عالم کی طرف بھیج دیتا تھا
یہ دونوں امور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں
سب سے پہلے تو اس رویہ کو کوئی نام دے دیں کہ کیا اسے اصطلاحی طور پر تقلید کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟
میری ذاتی رائے میں تو اس کیفیت میں سائل مسئول سے بسااوقات نہیں بلکہ ہمیشہ دلیل بھی پوچھتا ہے اسی لیے میں اس اسلوب کو اتباع اور اطاعت کی طرف لے جانے والا ذریعہ کہتا ہوں کیونکہ اس میں اصل فکر کتاب و سنت کے دلائل کو دریافت کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہوتا ہے
اب آجائیں اس مسئلہ کے انطباقی پہلو کی طرف
ابھی بھی اگر کسی سائل کا مسئول سے پوچھنے کا انداز یہی ہواور ایسا ہوتا بھی ہے کم از کم میرے علم اور تجربات کے مطابق ہمارے عوام ہم سے ہماری رائے نہیں دریافت کرتے بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ دریافت کرتے ہیں
لہذا اس رویہ کو تو تقلید نہیں کہا جا سکتا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تقلید کی یہ تعریف کی جاتی ہے کہ
العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجۃ
جسکا ترجمہ مقلدین کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ
ایسے شخص کے قول پر دلیل کا مطالبہ کیے بغیر عمل کرنا ہے جسکا قول (شریعت میں) حجت نہیں
محترم بھائی ! ہمیں نہیں پتا کہ آپ نے یہ تعریف کے یہ عربی الفاظ کہاں سے نقل فرمائے ؛
تاہم؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
یہ اس کا ترجمہ ہی غلط ہے ،اس لئے اس غلط کی بنا پر جو محل تعمیر کیا جاتا ہے ، وہ بھی غلط ہی ہوتا ہے ؛
اس کا سیدھا سا ترجمہ تو یہ ہے کہ :
’‘ جس کی بات (شرعی ) دلائل میں سے کوئی دلیل نہ ہو ،اس کے قول کو بلا دلیل مان کر عمل کرنا ،تقلید کہلاتا ہے ’‘
اس تعریف کا اصل مدعا تو یہ ہے کہ ::
(( آپ جس کے قول کو اپنا رہے ہیں ،،،شرعاً اس کا قول ۔۔دلیل ۔۔کا درجہ نہیں رکھتا ،،،لیکن آپ اس کی بلا دلیل بات
کو شرعی امور میں ۔۔
حکم کا درجہ ۔۔دیکر تسلیم کر رہے ہو ،،،
اور آپ کی پوسٹ میں تعریف کا ترجمہ کرتے ہوئے ،((
دلیل کا مطالبہ کئے بغیر )) کے جو الفاظ بڑھائے گئے ہیں ،ان کا مقصد تو یہ ہے کہ ::
جس کی تقلید کی جاتی ہے ،ان کی بات تو دلیل پر مبنی ہوتی ہے ،لیکن ان کا قول ماننے کےلئے اس دلیل کا مطالبہ اور ملاحظہ نہیں کیا جاتا ۔
یعنی مجتہد کی کوئی بات بلا دلیل ہوتی نہیں ،،،البتہ مقلد اپنی جہالت کے سبب اس کا فہم نہیں رکھتا ،اس لئے وہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقلید کی تعریف و تحدید کےلئے علامہ ابن حاجب کی ’’ المختصر ‘‘ اور اس کی کوئی سی بھی شرح ضرور دیکھیں (اس وقت اس کی چار شروح مارکیٹ میں ہیں )
اور اگر ممکن ہو تو ۔۔التقرير والتحبير على تحرير الكمال۔۔ بھی سامنے رکھیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمل واقع سے ہٹ کرکتب اصول کی حد تک ۔تقلید ۔۔صرف عملی اجتہادی ۔۔امور میں کی جاتی ہے ،مسائل منصوصہ میں نہیں ؛
اس کا یہ پہلو بھی سامنے رکھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آیت کریمہ :
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ )) کو تقلید کی دلیل کے طور پر پیش کرنا ،انتہائی عجیب ہے ،
کیونکہ تقلید کا مطلب ہے کسی کی بات کو بہرحال ماننا ،،اور اس آیت کے سیاق و سباق کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے ،تو اس میں صرف ۔۔سوال ۔۔کا حکم ہے ،
اور کون نہیں جانتا کہ صرف سوال کبھی ۔۔تقلید ۔۔اطاعت ۔۔اتباع ۔۔نہیں کہلاتا ۔فتدبر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تقلید کیا ہے؟
اس کا حکم کیا ہے؟
موجودہ مقلدین کا تقلیدی رویہ کیا ہے ؟؟
اس کے نتائج کیا ہیں ؟وغیرہم
ان سوالوں کے جواب اس لئے نہیں دئے کہ ابھی دوستوں نے اس میدان میں اپنے دلائل پیش کرنے ہیں
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
میرے محترم بھائی ۔۔ علم الگ شی ہے اور تدبر الگ شی ۔۔اہلحدیث عوام اور مقلد عوام میں زمین وآسمان کا فرق ہے مقلد عوام نرا جاہل ہوتاہے جبکہ اہلحدیث عوام ایسا نہیں ہوتا ۔ اہلحدیث اچھی طرح جانتا ہے کہ مقلد عالم بھی جاہل ہوتا ہے اسلئے اس سے مسئلہ نہیں پوچھے گا وہ اپنے اہلحدیث عالم سے ہی مسئلہ پوچھے گا وہ اہلحدیث عالم قرآن و حدیث سے جواب دے گا ۔۔۔پھر اہلحدیث عوام کو اسلئے یقین ہے کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ قرآن و حدیث کا علم صرف اہلحدیث عالم کے پاس ہوتا ہے اگر مقلد عالم کےپاس بھی قرآن وحدیث کا علم ہوتا اور وہ اپنے عوام کو قرآن و صحیح حدیث کا مسئلہ بتاتے تو پھر دونوں میں اختلاف کیوں ہوتا۔۔۔۔۔۔ اور رہا علماء کی صحت کا پہچان ۔تو یہ تو واضح بات ہے کہ جو عالم قرآن کا مفہوم بغیر کسی تاویل کے سلف صالح کے فہم کے مطابق اورصحیح احادیث کے مطابق مسئلہ بتاے گا وہ صحیح عالم ہوگا اور جو اسکے مطابق نہ بتاے بلکہ مروجہ فقہ کے مطابق بتاے وہ عالم صحیح نہیں ہوگا۔۔۔۔ اور سنیے اگر مقلد عالم قرآن وصحیح احادیث کے مطابق مسئلہ بتاتے تو انکی عوام شرک و بدعت میں ملوث نہ ہوتی ۔واللہ اعلم بالصواب
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اگر ہم صرف "تقلید" کے لفظ پر ہی غور کرلیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ اس قبیح فعل کی تو دین اسلام میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے -

قرآن کریم تقلید کا لفظ توان جانوروں کے لئے استمعال کیا گیا ہے جن کے گلے میں پٹہ دلال جاتا ہے -ارشاد پاک ہے -

جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سوره المائدہ ٩٧

الله نے کعبہ کو جو بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کر کعبہ کو لے جائیں یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے-

یہاں لفظ "الْقَلَائِدَ" تقلید کے معنی میں استمعال ہوا ہے-
 
Top