عبدہ بھائی میں عمومی طور پر ان موضوعات کے بارے میں اتنا نہیں جانتا جتنا کہ جاننا چاہیے پھر بھی اپنی معلومات کو یہاں لکھ دیتا ہوں
آپ نے جو بات لکھی اس میں سب سے پہلے تو اصطلاح تقلید کا صحیح مفہوم اور اس کے حدود اربعہ کا تعین ہونا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر کچھ بھی کہنا حتمی نہیں ہو سکتا
کیا ہر وہ شخص جسے کسی مسئلے کا علم نہ ہو اگر وہ کسی صاحب علم سے دریافت کر لے تو کیا یہ تقلید ہو گی؟
میرا خیال ہے اسے کوئی بھی شخص تقلید نہیں کہے گا کہ اس کی طرف خود قرآن مجید نے توجہ دلائی : اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو (قرآن)
قرون اولی میں اس کی کثرت سے مثالیں پائی جاتی ہیں بلکہ صحابہ کرام میں بھی یہ اسلوب موجود تھا۔
اس سے معلوم یہ ہوا کہ ہر شخص کے پاس شریعت کی معلومات نہیں ہو سکتی یا کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماہر شریعت نہیں ہو سکتالہذا اس کیفیت میں بے علم باعلم سے پوچھے گا اور کم علم والا زیادہ علم والے سے پوچھے گا اور یہ رویہ صرف شریعت ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر معاملے میں اختیار کیا جاتا ہے۔
لیکن دو پہلو اس میں قابل توجہ ہیں:
کہ سوال پوچھنے والا صرف اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پوچھتا تھا اس کے علاوہ کسی خاص شخص کی رائے دریافت کرنا میرا خیال ہے اس کی کوئی واضح اور صریح مثال نہیں ہے
جس سے مسئلہ پوچھا جا رہا ہوتا تھا وہ بھی اپنے علم کے مطابق کتاب و سنت کے احکام ہی بیان کرتا تھا اگر اسے علم نہیں ہوتا تھا تو کسی اور عالم کی طرف بھیج دیتا تھا
یہ دونوں امور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں
سب سے پہلے تو اس رویہ کو کوئی نام دے دیں کہ کیا اسے اصطلاحی طور پر تقلید کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟
میری ذاتی رائے میں تو اس کیفیت میں سائل مسئول سے بسااوقات نہیں بلکہ ہمیشہ دلیل بھی پوچھتا ہے اسی لیے میں اس اسلوب کو اتباع اور اطاعت کی طرف لے جانے والا ذریعہ کہتا ہوں کیونکہ اس میں اصل فکر کتاب و سنت کے دلائل کو دریافت کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہوتا ہے
اب آجائیں اس مسئلہ کے انطباقی پہلو کی طرف
ابھی بھی اگر کسی سائل کا مسئول سے پوچھنے کا انداز یہی ہواور ایسا ہوتا بھی ہے کم از کم میرے علم اور تجربات کے مطابق ہمارے عوام ہم سے ہماری رائے نہیں دریافت کرتے بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ دریافت کرتے ہیں
لہذا اس رویہ کو تو تقلید نہیں کہا جا سکتا