• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقیہ بردار حنفیوں کا اصلی چہرہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
تقیہ بردار حنفیوں کا اصلی چہرہ


بعض لوگ اوربعض فرقے دو چہروں کے مالک ہوتے ہیں۔لیکن عام معصوم لوگ ان کے ظاہری چہروں کو دیکھ کر ہی دھوکہ کھا جاتے ہیں اور انکے ظاہر اور باطن کو ایک سمجھ کر ان ظاہری چہروں کے پیچھے چھپے ہوئے بھیانک ، خوفناک اور مکروہ چہروں کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔دو چہرے رکھنے والا آدمی تو صرف کسی کی دنیا ہی خراب کرتا ہے لیکن دو چہرے رکھنے والے فرقے لوگوں کی آخرت کی برباد ی سے کم پر بس نہیں کرتے۔ذاتی مقاصد اوردنیاوی مفادات کے لئے دو چہرے چاہے کسی مذہب کے ہوں یا انسان کے، شریعت انہیں انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ حدیث میں ایسے لوگوں،ایسے فرقوں اور ایسی جماعتوں کی سخت مذمت وار د ہوئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے برا لوگوں میں تم اس کو پاتے ہو جو دو چہرے رکھتا ہے۔ان لوگوں کے پاس ایک چہرہ لے کر آتا ہے اور ان لوگوں کے پاس دوسرا چہرہ لے کر جاتا ہے۔(صحیح مسلم)

ایک اور روایت میں ہے کہ ’’تجدون من شر الناس ذاالوجھین ‘‘ تم دو رخے(دوچہرے والے) شخص کو لوگوں میں سب سے زیادہ برا پاؤ گے۔(مسند الحمیدی بتحقیق الشیخ زبیر علی زئی : 1139)

کتاب وسنت میں دورخے، دوغلے اور ذوالوجہین کی شدید مذمت کے باوجود بھی کچھ ناعاقبت اندیش لوگ دو رخی ، دو غلے پن اور دو چہرے رکھنے سے باز نہیں آتے بلکہ باطل پر ہونے کی وجہ سے حق کا مقابلہ کرنے کے لئے یہی دوغلا ،دو رخا پن انکی مجبوری بنا رہتا ہے۔

ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ،کھانے کے اور، کی طرح حنفی مذہب اور اسکے حاملین بھی دو چہرے رکھتے ہیں۔ایک ظاہری چہرہ جس کویہ عام مسلمانوں کے سامنے رکھتے ہیں جو کہ بظاہر بہت خوشنما اور دلکش محسوس ہوتا ہے اور دوسرا پوشیدہ جو کہ ان کے مذہبی و فقہی مسائل اور تعلیمات پر مشتمل اصلی چہرہ ہے جسے یہ عام مسلمانوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔حنفی مذہب کایہ اصلی چہرہ توقع سے زیادہ مکروہ اور خوفناک ہے جس پر حنفی حضرات رافضیوں کی طرح تقیہ کا پردہ کئے رہتے ہیں۔لیکن لوگوں کی توجہ اپنے فقہی مذہب کے اصلی چہرہ سے ہٹانے کے لئے تقیہ کا الزام اہل حدیث پر عائد کرتے ہیں۔

اشرف علی تھانوی اہل حدیث پر تقیہ کا جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے: بہت سے عقائد باطلہ رکھتے ہیں کہ تفصیل و تشریح اس کی طویل ہے اور محتاج بیان نہیں بہت بندگان خدا پر ظاہر ہے خاص کر جو صاحب ان کی تصنیفات کو ملاحظہ فرماویں ان پر یہ امر اظہر من الشمس ہوجاوے گا۔پھر اس پر عادت تقیہ کی ہے موقع پر چھپ جاتے ہیں اکثر باتوں سے مکر جاتے ہیں اور منکر ہوجاتے ہیں۔(ھدیہ اھلحدیث،صفحہ 169)

دیوبندیوں کی یہ عادت انتہائی بری ہے کہ مخالفین پر الزام تو منہ پھاڑ کر لگا دیتے ہیں لیکن جب ان الزامات کو ثابت کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور لگتے ہیں بغلیں جھانکنے!!! اشرف علی تھانوی صاحب توان جھوٹے الزامات کے بارگراں کے ساتھ جس کی کوئی دلیل انہوں نے ذکر نہیں فرمائی، اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔اب ان کے مقلدین اور ہم مذہبوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اہل حدیث کا ایک ایسا عقیدہ بیان کریں جسے وہ تسلیم بھی کرتے ہوں اور پھر اس سے مکر بھی جاتے ہوں۔ہمیں یقین ہے کہ کوئی دیوبندی ہمارے اس مطالبے کو پورا نہیں کرسکے گا۔ان شاء اللہ۔ کیونکہ جب مخالفین کے لئے کذب بیانی اور جھوٹے الزامات کو دیوبندی فرقے نے اپنے مذہب کا لازمی جزبنالیا ہو تو آخر کس کس الزام کو ثابت کرینگے اور کس کس کذب بیانی کا جواب دینگے؟؟!!

اشرف علی تھانوی تقلیدی کے مکذبانہ دعویٰ کے برعکس اہل حدیث اپنے دین میں تقیہ نہیں کرتے کیونکہ ان کا ظاہر اور باطن ایک ہے ۔تقیہ کی حقیقی ضرورت تو انہیں پیش آتی ہے جن کے دو چہرے ہوں جیسے رافضی اور حنفی۔دیکھئے کس طرح یہ حنفی مذہب کی طرف منسوب دیوبندی اپنے ہم مذہبوں کو تقیہ کی تعلیم دے رہے ہیں۔

اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
ایک دن ایک شخص نے مسئلہ وحدت وجود کا سوال کیا فرمایا کہ یہ مسئلہ حق و صحیح مطابق للواقع ہے اس مسئلہ میں کچھ شک و شبہہ نہیں معتقد علیہ تمامی مشائخ کا ہے مگر قال و اقرار نہیں البتہ حال و تصدیق ہے یعنی اس مسئلہ میں تیقن اور تصدیق قلبی کافی ہے اور استتار اس کا لازم اور افشاء ناجائز ہے،کیونکہ اسباب ثبوت اس مسئلہ کے کچھ نازک ہیں بلکہ بحدّے دقیق کہ فہم عوام بلکہ فہم علماء ظاہر ہیں کہ اصطلاح عرفاء سے عاری ہیں۔(امداد المشتاق،صفحہ 43)

دیکھا آپ نے کہ اہل حدیث پر تقیہ کا ناحق اور جھوٹا الزام لگانے والے یہ دوغلے لوگ کس طرح وحدۃ الوجود کے خالص کفریہ اورشرکیہ عقیدے کو عوام الناس سے چھپانے کے لئے اپنے لوگوں کو تقیہ کا حکم دے رہے ہیں! پس معلوم ہوا کہ یہ لوگ وحدۃ الوجود کا غلیظ عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ اسے حق و صحیح جانتے ہیں لیکن اس ڈر سے کہ اس کفریہ اور شرکیہ عقیدے سے انکی عوام ان سے بد ظن ہوجائے گی تقیہ کرتے ہیں۔ورنہ جو مسئلہ و عقیدہ حق ہو اسے عوام سے چھپانے کا کیا مقصد ہے؟؟!! تقیہ کی ایجاد سے اگر شیعوں کے بعد کسی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے تو وہ یہی حنفی،دیوبندی اور بریلوی ہیں جو ہر مشکل مرحلے پراس ایجاد سے مستفید ہوتے ہیں۔

ویسے تو وحدت الوجودوہ واحد عقیدہ نہیں جس کے لئے حنفیوں کو تقیہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔انکے مذہب کے لاتعداد ایسے مسائل اور عقائد ہیں جن کے لئے یہ رافضیوں کے در کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے ان کے ایجاد کردہ تقیہ کا سہارا لینے پر مجبورہیں۔لیکن اس پر اپنے محسن روافض کا شکر گزار ہونے کے بجائے ان پر کفر کے فتوے لگا کراحسان فراموشی کا ثبوت دیتے ہیں۔ان لاتعداد مسائل میں سے اتمام حجت کے لئے فی الحال ہم صرف قرآن کریم کے ادب اور احترام کے بارے میں ان تقیہ بردار حنفیوں کا اصلی چہرہ آپ کو دکھاتے ہیں۔

حنفی دیوبندی حضرات اپنے مخالفین خاص طور پر اہل حدیث کو ادب و احترام پر اتنے زور دار لیکچر دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اگر انکی دوغلی باتوں پر یقین کر لیا جائے تو انسان حنفی مذہب کی طرف منسوب ان دیوبندیوں کوباادب تسلیم کر لینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہوجائے۔ جبکہ ان تقیہ بردار دیوبندیوں کا اصل مذہبی چہرہ دیکھنے پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ بدتمیز، بداخلاق، زبان دراز اور گستاخ تو کوئی بھی نہیں۔

قرآن مجید عظمت اور عزت والی کتاب ہے جس کی گواہی خود خالق کائینات نے دی ہے۔اللہ رب العالمین کا ارشاد پاک ہے: وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْم بے شک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم دیا ہے۔(سورۃ الحجر :87)

یہ قرآن کی عظمت ہی کی دلیل ہے کہ اس پر ایمان نہ لانے والے کفار بھی اسکی عظمت کے اعتراف پر مجبور ہیں۔

لیکن تف ہے کافروں سے بھی بدتر حنفیوں پر جو دعویٰ تو اسلام کا کرتے ہیں لیکن ان کا مذہب اور عقیدہ توہین قرآن اور تذلیل قرآن پر مبنی ہے۔یہ عاقبت نا اندیش قرآن کی کسی عظمت اور اعجاز کو تسلیم نہیں کرتے۔
آئیے! قرآن کے بار ے میں حنفی و دیوبندی مذہب کے اصلی چہرہ کی ایک جھلک آپ کو دکھاتے ہیں۔ دیکھئے اور ان لوگوں کے ادب و اخلاق اور عقیدہ اور ایمان کی داد دیجیے اور انصاف سے فیصلہ کیجئے کہ اپنے اصل عقائد چھپانے والے اور وقت پر ان سے مکر جانے والے تقیہ کی بد عادت میں مبتلا حنفی ہیں یا اہل حدیث؟؟؟

ہدایہ فقہ حنفی کی وہ معتبربنیادی کتاب ہے جس پرحنفی مذہب کا بڑی حد تک دارومدار ہے اور احناف کوبجا طور پراس کتا ب پر ناز ہے اسی لئے وہ اسکی تعریف اور توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ احناف جس قدر اپنی اس بنیادی کتاب کو اہمیت دیتے ہیں حقیقی اور علمی میدان میں اس کتاب کی اتنی حیثیت واہمیت ہے بھی یا نہیں؟ حنفیوں نے اپنی اس مذہبی کتاب کے بارے میں بہت زبردست اور بلند وبانگ دعویٰ کیا ہے جس نے انسانی عقل کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔دیکھئے:

01۔ ان الھدایۃ کالقران۔ یعنی ہدایہ قرآن کے مثل ہے۔(مقدمہ ہدایہ ، جلد سوم، صفحہ 2)

ہدایہ کو سرسری نظر سے دیکھنے والا شخص بھی اس سچائی کو بخوبی جان لے گا کہ یہ کتاب اغلاط کادفتر ہے جس میں خانہ ساز حنفی مذہب کو ثابت کرنے کی غرض سے خوف خدا سے عاری اور آخرت کی باز پرس سے بے نیاز مصنف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت اور تھوک کے حساب سے جھوٹ بولا ہے۔ ایسی کتاب کو جو ہمہ قسم کی خرافات کا مجموعہ ہے قرآن کے مثل قرار دے دینا انتہائی جراٗت اور کلام اللہ کی سخت بے ادبی ہے۔

قرآن وہ بے مثل کتاب ہے جس کے نزول سے آج تک کفار اس کا مثل پیش کرنے سے عاجز و ساکت ہیں۔جس کام میں کفار بے دست و پا ہوگئے اسی کا م کو کفار نما مسلمانی کے دعویداروں نے بزعم خویش پورا کردکھایا اورقرآن کا مثل پیش کرکے اللہ کے چیلنج کوختم کردیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جن و انس سے کوئی قرآن کی مثل نہیں لاسکتا اللہ رب العالمین کا یہ چیلنج قرآن کا اعجاز اور امتیاز ہے۔کلام اللہ کے اس اعجاز اور امتیاز کوکوئی ختم نہیں کرسکتاسورہ بنی اسرائیل میں اللہ نے جن و انس کی بے بسی اور قرآن کے کلام کی طرح کا کوئی کلام نہ لاسکنے کا اعلان فرمایاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے: قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَآٰی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا (اے پیغمبر!)اعلان کردیجئے: اگر تمام انسان اور جن مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو کبھی اس کی مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگاربھی بن جائیں۔(سورۃ بنی اسرائیل: 88)

قرآن کریم میں کم و بیش تین یا چار مرتبہ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو قرآن کا مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا ہے۔جو ثابت کرتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں۔لیکن ہدایہ کے بعد قرآن مجید کا یہ اعجاز کہاں برقرار رہا؟! دیگر کتابوں کی طرح اب تو قرآن بھی ایک عام کتاب ہوگئی کیونکہ قرآن جیسی کتاب تو حنفیوں نے بھی پیش کردی۔اور قرآن کریم سے متعلق رب العالمین کا یہ ارشاد کہ یہ خالق کائنات کی جانب سے نازل کردہ ہے اور یہ مخلوق کا کلام نہیں جیسا کہ اس آیت میں اسکا واضح اشارہ موجود ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے اور اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو و ہ اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے۔(سورۃ النساء 82) اب قابل اعتبارکیسے رہاکہ حنفیوں نے اپنے زعم باطل میں ہدایہ لکھ کر ثابت کردیا کہ انسان بھی قرآن جیسا کلام تیار کرسکتے ہیں۔اب احناف کو چاہیے کہ وہ کم از کم اپنے قرآنی نسخوں سے وہ آیات حذف کردیں جن میں اللہ رب العالمین نے جن و انس کوقرآن کا مثل لانے کا چیلنج دیا ہے یا ان قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا اعلان کردیں۔

کسی بھی عبارت کو باطل اور فاسد تاویلوں کے ذریعے اس کے اصل مفہوم سے پھیر دینا حنفیوں و دیوبندیوں کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اس لئے ایک اور عبارت پیش خدمت ہے جو ثابت کرتی ہے کہ دیوبندی اپنی مایہ ناز مذہبی کتاب ہدایہ کو قرآن کا مثل یا قرآن جیسا ہی سمجھتے ہیں۔

02۔ کتاب الھدایۃ یھدی الھدٰے الیٰ حافظیہ ویجلوالعٰمی
فلازمہ واحفظہ یاذا الجحیٰ فمن نالہ نال اقصی المنٰی

’’یعنی ہدایہ اپنے جاننے والوں کو ہدایت کی راہ دکھاتی ہے اور آنکھوں کو بینا بنا دیتی ہے۔اے عقلمند! اسے چمٹ جا اور حفظ کر لے اس کو پالیا تو تمام مرادیں پوری ہوگئیں۔‘‘ (مقدمہ ہدایہ، جلد سوم، صفحہ3)

الہامی اور غیر الہامی کتب میں یہ اعزاز تو صرف قرآن مجید ہی کو حاصل ہے کہ اسے حفظ کے ذریعے سینوں میں محفوظ کرنے اور اسکی تلاوت کرنے اور اس پر عمل سے دنیا وآخرت کی تمام مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔ حنفیوں کا ہدایہ کو حفظ کرنے کی ترغیب دینا اور اسے چمٹ جانے سے دو جہانو ں کی تمام مرادیں پوری ہوجانے کا اعتقاد رکھنا کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ انکے ہاں ہدایہ کا وہی مقام و مرتبہ ہے جو مسلمانو ں کے ہاں قرآن مجید کا؟؟؟!!!

اللہ تعالیٰ کا رشاد پاک ہے: اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور ان مومنوں کو، جو نیک کام کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ یقیناًان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔(سورۃ بنی اسرائیل: 9)

ذٰلِکَ ا لْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن یہ کتاب اس میں کوئی شک نہیں کہ کلام خدا ہے اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔(سورۃ البقرہ: 1)

کلام اللہ کی طرف حنفیوں کا بھی ہدایہ کے بارے میں یہی دعویٰ کہ یہ اپنے جاننے والوں ہدایت کا راستہ بتاتی ہے کیا اظہر من الشمس نہیں کرتا کہ ہدایہ حنفیوں کا قرآن ہے؟! کیا یہ قرآن کی کھلی توہین اور بے ادبی نہیں کہ ہدایہ جیسی بے حیائی کا راستہ بتانے والی کتاب کا تقابل قرآن جیسی پاکیزہ کتاب سے کیا جائے؟!

اللہ کے قرآن کے بار ے میں حنفیوں کا یہی عقیدہ اور یہی ادب و احترام ہے کہ یہ لوگ اپنی مذہبی کتابوں کے آگے نہ تو قرآن کا کوئی اعجاز تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی عزت اور احترام دینے کے لئے تیار ہیں لیکن عوام الناس کو مبتلائے دھوکہ کرنے کے لئے قرآن کے قصیدے ضرور پڑھتے ہیں اورمخالفین کو کلام اللہ کے ادب و احترام کے لمبے لمبے لیکچر دینا بھی نہیں بھولتے۔قرآن کے متعلق لوگوں سے اپنا اصل عقیدہ چھپانے اور اپنے مذہب کا اصلی چہرہ پوشیدہ رکھنے کے لئے مفسر قرآن بھی بن بیٹھتے ہیں۔ جبکہ ان کے مذہب میں قرآن کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں اصل اہمیت ان کی مذہبی کتابوں کی ہے، تو پھر انہیں مفسر قرآن ہونے کا ڈھونگ رچانے کی ضرورت ہی کیا ہے انہیں تو چاہیے کہ مفسر قرآن کے بجائے صرف مفسر ہدایہ بنیں۔کیونکہ ان کے نزدیک تو ہدایہ سے چمٹ جانا اور اسے حفظ کر لینا اور اس پر عمل ہی انکی نجات اور تمام مرادیں بر آنے کے لئے کافی ہے۔

03۔ اذاسال الدم من انف انسان یکتب فاتحۃ الکتاب بالدم علی جبھۃ وانفہ یجوز ذلک للاستشفاء والمعالجۃ و لو کتب بالبول ان علم ان فیہ شفاء لاباس بذلک لکنہ لم ینقل، وھذالان الحرمۃ ساقطۃ عند الاستشفاء، الاتری ان العطشعان یجوذلہ شرب الخمر والجائع یحل لہ اکل المیتۃ۔ (البحرالرائق، جلد ا، ص ۱۱۶)
یعنی اگر کسی انسان کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے ، اور اگر پیشاب سے لکھے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کے اندر میرے لئے شفاء ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہ بات منقول نہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ شفاء کے حصول کے وقت حرمت ساقط ہوجاتی ہے ، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پیاسے انسان کے لئے شراب پینا اور بھوکے انسان کے لئے مردار کا کھانا جائز ہے۔

پیشاب بڑی یا غلیظ نجاست ہے جیساکہ ہدایہ میں درج ہے: ہتھیلی کی چوڑائی کے برابر پاخانہ،پیشاب وغیرہ جیسی غلیظ نجاست اگر لگی ہو پھر بھی نماز ہوجائیگی۔(ہدایہ،صفحہ 58)
کسی بھی مسلمان کے لئے یہ اندازہ کرنا ہرگز مشکل نہیں کہ نجاست غلیظہ سے قرآن لکھنے کو جائز سمجھنے اور لوگوں کو اس شیطانی عمل کی اجازت دینے والے مسلمان ہیں یا اسلام کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے اور اسلام سے شدید بغض رکھنے والے مسلمانی کے بھیس میں کافر۔کیونکہ قرآن کی اس انداز سے توہین کہ اسے پیشاب سے لکھنا جائز سمجھا جائے کھلا اور واضح کفر ہے۔

حنفیوں کے توہین قرآن کا یہ مسئلہ اتنا صاف اور واضح ہے کہ یہ لوگ کسی بھی تلبیس کے ذریعے اپنے اس مذہبی عقیدہ پر تاؤیل کا پردہ نہیں ڈال سکتے۔حتی کہ فقہ حنفی میں یہ کوئی اختلافی ،شاذ یا ایسا مسئلہ نہیں کہ جس پر فتویٰ نہ دیا جاتا ہو بلکہ یہ حنفی مذہب کا مفتیٰ بہامسئلہ ہے اورحنفی فقہاء کا پیشاب سے قرآن لکھنے کے جواز پر اتفاق ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون ۔

کسی مسلمان کے لئے تو قرآن کے ساتھ یہ سلوک یقیناًبا عث شرم بلکہ ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن حنفیوں کے لئے نہیں کیونکہ انہوں نے شرم وحیا اپنے اندر سے ایسے نکال دی ہے جیسے دودھ میں سے مکھی ۔اور جب حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔اسی لئے حنفی بے حیائی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

حنفی مذہب میں قرآن کے ادب و احترام کے کئی نمونوں میں سے یہ صرف ایک نمونہ ہے۔اگر ان حنفی بدبختوں کو اپنے باپ یا اپنے امام اعظم کا نام پیشا ب سے لکھنے کو کہا جائے تو انکو غیرت اور شرم آئے گی اور اس مطالبے کو یہ لوگ اپنے باپ اور امام کے حق میں شدید توہین اور گستاخی سے تعبیر کریں گے لیکن افسوس صد افسوس کہ قرآن کو پیشاب سے لکھنے کی اجازت دیتے ہوئے انہیں زرا شرم اور غیرت محسوس نہیں ہوئی۔لہذا یہ بات واضح ہے کہ حنفی مذہب میں کلام اللہ (جو سب سے زیادہ قابل احترام اور قابل عزت ہے) کی اتنی بھی عزت اور توقیر نہیں جتنی عزت ایک بیٹے کے نزدیک اپنے باپ یا ایک مقلد کے نزدیک اسکے امام کی ہوتی ہے۔لعنت ہے ایسے تقلیدی مذہب پر جو رب کے کلام کی عزت بھی نہ سکھاتا ہو۔

04۔ اذا حمل المصحف او شیئاً من کتب الشریعۃ علی دابۃ فی جوالق ورکب صاحب الجوالق علی الجوالق لا یکرہ۔
اگر قرآن کریم یا دیگر دینی کتب کو بوری میں ڈالا جائے اور ان کو سواری پر لاد دیا جائے اور بوریوں والا بوریوں کے اورپر بیٹھ جائے تو جائز ہے۔(فتاویٰ عالمگیری 5/322، المحیط البرہانی 5/154 کتاب الاستحسان والکر اہیۃ)

حنفی مذہب میں کلام اللہ کی جتنی رعایت ہے یہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔اب بتائیں کہ حنفیوں میں جتنا قرآن کا’’ ادب اور احترام‘‘ ہے ایسا
’’ادب و احترام‘‘ آپ نے کسی اور مذہب کے ماننے والوں میں دیکھا ہے؟؟؟
یہ وہی دوغلے لوگ ہیں جو اہل حدیث پر معترض ہوتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن کا ادب و احترام نہیں کرتے اور بلا وضو بھی قرآن چھونے کو جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا خود انہوں نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ کس قدر قرآن کی محبت اور ادب و لحاظ میں غرق ہیں؟؟؟

05۔ اذا کتب اسم اللہ تعالی علی کاغذ ووضع تحت طنفسۃ یجلسون علیھا فقد قیل یکرہ و قیل لا یکرہ۔
اگر کسی کاغذ پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھ دیا جائے اور ایسے بستر کے نیچے رکھا جائے جس پر بیٹھا جاتا ہے کسی نے کہا کہ ایسا کرنا مکروہ ہے اور کسی نے کہا کہ مکروہ نہیں ہے۔(فتاویٰ عالمگیری،جلد 9، صفحہ 34)

حالانکہ اگر ان لوگوں کے دلوں میں اللہ اور اسکی کتاب کے احترام کی کوئی معمولی چنگاری بھی ہوتی تو یہ متفقہ اور یک زبان ہوکر ایسے عمل کو حرام کہتے۔لیکن یہ دو چہرے رکھنے والے لوگ اگر کسی کو عزت دیتے ہیں تو صرف اپنی مذہبی کتابوں کو اوراگر صحیح معنوں میں کسی کا احترام کرتے ہیں تو صرف اپنے نام نہاد امام کا۔ ہاں البتہ اگر انکے امام کا نام لکھ کر اس پر بیٹھنے کی بات ہوتی تو پھر آپ دیکھتے کہ مقلدین کا فتویٰ کیا ہوتا۔

06۔ رجل وضع رجلہ علی المصحف ان کان علی وجہ الاستخفاف یکفر والا لاآہ۔
اگر کسی نے توہین کی نیت سے قرآن پر پاؤں رکھا تو کافر ہے اور اگر نیت استخفاف (توہین) کہ نہ ہو تو کافر نہیں ہوتا۔(الدرالمختار 4/21، فتاویٰ عالمگیری،جلد 9، صفحہ 35)

سبحان اللہ! یہ حنفی اماموں کی فقاہت کے گھٹیا نمونے ہیں۔یعنی حنفی کا قرآن پر پیر رکھنافی نفسہ توہین نہیں ہے بلکہ اس کے لئے توہین کی نیت ضروری ہے۔ شایدنیت نماز کی طرح حنفی اس طرح نیت کرے گا:میں نیت کرتا ہوں قرآن کی توہین کی پھر وہ قرآن پر پیر رکھ دے تو کافر ورنہ نیت کے بغیر پیر رکھ دے تو پکا اور سچامومن۔ درست بات ہے جب حنفی مذہب میں قرآن کو پیشاب سے لکھنا جائز ہو اس پر بیٹھنا جائز ہو تو اس پر پیر رکھنا کیونکر توہین میں شمارہوسکتا ہے؟!

07۔ رجل امسک المصحف فی بیتہ ولا یقرا قالو ان نوی بہ الخیر والبر کۃ لا یاثم بل یرجی لہ.
پڑھنے کے لئے نہیں صرف خیر وبرکت کی نیت سے گھر میں قرآ ن رکھ چھوڑا تو ثواب ہوگا۔(فتاویٰ عالمگیری،صفحہ 322)

قرآن مجید کی بے ادبی کی خوب تعلیم دی جارہی ہے ۔ قرآن اس لئے تو نہیں کہ اسے طاقوں پر سجا دیا جائے اور اسے پڑھکر اس سے راہنمائی نہ لی جائے۔ ویسے حنفیوں کواس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ راہنمائی قرآن سے نہیں بلکہ اقوال ابوحنیفہ سے لیتے ہیں۔قرآن تو صرف تبرک کے لئے رکھتے ہیں۔

08۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی کا ادب قرآن ملاحظہ فرمائیں :
ڈاکٹر غلام محمد دیوبندی،اشرف علی تھانوی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: آپ کے مزاج میں شوخی بھی تھی اور اس نے ذہانت سے مل کر عجیب کیفیت پیدا کردی تھی ایک ہی واقعہ سے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے، ایک نابینا حافظ قرآن تھے اور ان کو کلام مجید خوب یاد تھا اور اس پر ان کو ناز بھی تھا۔ حکیم الامت کی نو عمری تھی ابھی ابھی حفظہ قرآن سے فارغ ہوئے تھے اور نابالغ ہونے کی وجہ سے نوافل میں قرآن پاک سنایا کرتے تھے، ایک دن حافظ جی سے فرمایا کہ آج آپ کو دھوکہ دونگا اور یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ فلاں آیت میں دھوکہ دونگا، حافظ جی نے بر بنائے ناز کہا۔ ’’جاؤ بھئی تم کیا مجھے دھوکہ دوگے بڑے بڑے حافظ نہ دے سکے!‘‘غرض جب آپ سنانے کھڑے ہوئے اور اس آیت پر پہنچے انما انت منذر ولکل قوم ھاد تو بہت ترتیل کے ساتھ پڑھا جیسا کہ رکوع کرنے کے قریب پڑھا کرتے ہیں۔اس کے بعد جب اس سے آگے اللہ یعلم، الخ پڑھنے لگے تو لفظ ’’اللہ‘‘ کو اس طرح کھینچ کر پڑھا گویا اب رکوع کریں گے، اور گویا’’اللہ اکبر‘‘ کہنے والے ہیں۔بس حافظ جی اسی تصور سے فوراً رکوع میں چلے گئے۔ادھر آپ نے آگے قرات شروع کردی یعلم ما تحمل، الخ حافظ جی لاچار پھر کھڑے ہوگئے اور آپ بے قابو ہو کر زور سے ہنس پڑے اور نماز توڑ کر الگ ہوگئے اور جب خوب ہنس چکے تو دوبارہ نیت باندھ لی۔(حیات اشرف،صفحہ 23)

اللہ نے قرآن کو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے۔ جیسا کہ رب العالمین کا ارشاد پاک ہے۔اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنِ اھْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَمَآ اَنْتَ عَلَےْھِمْ بِوَکِیْل۔(سورۃالزمر:۴۱)

لیکن دیوبندیوں نے اسے کھیل تماشے کی چیز بنا رکھا ہے۔اسکی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ جس مذہب کے ماننے والے ہیں اس مذہب ہی میں جب قرآن کاادب و احترام مفقود ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حنفی قرآن کو احترام کی کوئی چیز سمجھیں اسی لئے اشرف علی تھانوی کو ہنسی مذاق اور ٹھٹھا کرنے کے لئے قرآن ہی ملا یہ انکی مذہبی تربیت کا لازمی نتیجہ تھا۔

09۔ پورے قرآن پڑھنے سے فقہ پڑھنا افضل ہے۔(فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 317)

10۔ فقہ کا سیکھنا افضل ہے باقی قرآن سیکھنے سے۔(درمختار، کتاب الصلوٰۃ، جلد1،صفحہ 278)

مذکورہ بالا دونوں حوالہ جات سے ظاہر و باہر ہے کہ حنفیوں کے نزدیک انکی فقہ (جو انکے امام ابوحنیفہ کے بیمار خیالات کا مجموعہ ہے )قرآن مجید سے افضل ہے۔ایک ایسے شخص کی فقہ جس کی رائے،مسائل، فتوے باربار بدل جاتے ہوں اور اسے خود ہی معلوم نہ ہوتا ہو کہ کونسا خیال،فتویٰ و مسئلہ صحیح ہے اور کونسا غلط، کا مقابلہ اللہ کے پاک کلام جو ہر قسم کی غلطی اور خطاء سے مبراہے ،سے کرنا قرآن کریم کی بدترین توہین ہے ۔
خود امام ابوحنیفہ نے اپنے خیالات اور رائے کے بارے میں کہا:’’ ویحک یا یعقوب! لاتکتب کل ما تسمع منی فانی قداری الرای الیوم واترکہ غدًا و اری الرای غدًا واترکہ بعدغد‘‘ اے یعقوب (ابویوسف) تیر ی خرابی ہو، میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔(تاریخ یحییٰ بن معین،جلد2 ،صفحہ 607 ،تاریخ بغداد، جلد13 ،صفحہ424)

11۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی کا انداز تلاوت ملاحظہ فرمائیں اور بتائیں کہ یہ قرآن مجید کا ادب کرنے والے ہیں یا کلام اللہ کے بے ادب اور گستاخ: ایک اور مقام پر جہاں اہل نظر موجود تھے صبح کی نماز پڑھائی تو ایک صاحب نے کہا کہ موسیقی کے قاعدہ سے آپ کی قرات میں بھیرویں کی کیفیت تھی جو صبح کی ایک سہانی راگنی کا نام ہے۔(حیات اشرف،صفحہ 89)

ان صاحب کے اس بیان پر اشرف علی تھانوی صاحب نے کوئی نقد نہیں کیااور نہ ہی اپنے انداز تلاوت کے بارے میں کسی قسم کی وضاحت کی جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے فجر کی نماز میں گائیگی کے انداز میں تلاوت کی تھی۔یہ بلاشبہ قرآن مجید کی توہین ہے کیونکہ ایک حدیث میں اس عمل کو قیامت کی نشانی بتایا گیا ہے کہ قرب قیامت میں لوگ قرآن کی تلاوت موسیقی کے انداز پر کرینگے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
چھ باتوں سے پہلے اعمال میں جلدی کر لو۔
۱۔بیوقوفوں کی حکومت
۲۔پولیس کی کثرت
۳۔قطع رحمی
۴۔فیصلوں کا بکنا
۵۔خون کا بے وقعت ہونا
۶۔اور ایسی نو پود جو قرآن کو مزامیر بنا لیگی او راسکو اپنا امام بنائیگی جو ان سے بڑھ کر فقیہ نا ہوگا بلکہ اس لئے کہ وہ انھیں گا کر سنائیگا۔
(سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر ۹۷۹۔)

لیکن اسکے باوجود حنفی مذہب میں بعض فقہاء قرآن کو گانے کے انداز میں پڑھنے کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔
تالیفات رشیدیہ میں درج ہے: لہذا مراد تغنی بالقرآن سے حسن صوت بے تکلف بلازیادتی کمی الفاظ ہے یا بہ موسیقی و مطربان کیونکہ اقوال فقہاء مختلف ہیں۔بعض ممنوع مطلق کہتے ہیں بعض مطلق اجازت دیتے ہیں اگرچہ بقوانین موسیقی ہو۔(تالیفات رشیدیہ، صفحہ 157)

جنکا مذہب ہی قرآن کی توہین ہوان سے قرآن کے ادب کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔

12۔ لا یقراٗ القرآن فی المخرج والمغتسل والعمام الاخرفا حرفا
پیخانہ و غلسخانہ وحمام میں قرآن مجید نہ پڑھے لیکن اگر ایک ایک حرف توڑ توڑ کر پڑھے تو پڑھ سکتا ہے۔(فتاویٰ عالمگیری، جلد 9، صفحہ 24)

اسکے سراسر برعکس فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے: تکرہ قراۃ القران فی الطواف کذا فی الملتقط۔ طواف کی حالت میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد 9، صفحہ 24)

یہ فقاہت ہے یا قرآن دشمنی کہ پاک جگہ پر تو قرآن کی تلاوت کو حرام کہتے ہیں لیکن ناپاک جگہ حتی کہ ٹٹی خانہ میں بھی قرآن پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔کیا ایسے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ قرآن کے ادب و احترام کا ادنی سا بھی جذبہ اپنے دل میں رکھتے ہونگے؟؟ حاشا وکلا

13۔ کلام اللہ کے ’’ادب و احترام‘‘ کا ایک اور حنفی انداز ملاحظہ فرمائیں:
وکذالو کتب علی جلد میتۃ اذا کان فیہ شفاء کذافی خزانۃ المفتین۔
اسی طرح اگر مردارکی کھال پر لکھے تو بھی یہی (جواز کا ) حکم دیا ہے بشرطیکہ اس میں شفا ہو۔(فتاویٰ عالمگیری ،جلد9، صفحہ 85)

ان حنفیوں کو قرآن لکھنے کے لئے کوئی پاک چیز دستیاب نہیں ہوتی یا پھر انہیں پسند ہی نہیں کہ قرآن کا احترم کیا جائے ۔ انہیں قرآن لکھنے کے لئے یا تو پیشاب اور خون دستیاب ہوتا ہے یا پھر مردار کی کھال۔اور یہ تمام چیزیں یعنی پیشاب،خون اور مردار کی کھال خود انکے نزدیک بھی نجس ہیں۔

14۔ و اذاقراء الامام من المصحف فسدت صلاتہ عندابی حنیفۃ۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر امام مصحف(قرآن مجید) سے دیکھ کر قراء ت کرے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(ھدایہ، کتاب الصلوٰۃ 1/137)

مقلدین کے نزدیک مصحف دیکھ کر قراء ت کرنا اورقرآن کو ہاتھ میں اٹھا کر نماز پڑھناآسانی ہے جو ان کے ہاں انتہائی قابل اعتراض ہے حتی کہ ابو بلال جھنگوی دیوبندی اسے معاذ اللہ آوارگی کہتے ہیں۔ چناچہ ابوبلال دیوبندی لکھتے ہیں: یہ جملہ آسانیاں جو عوام چاہتی تھی وہ آپ نے فراہم کر چھوڑی ہیں۔ عوام پابندی والی زندگی چھوڑ کر غیر مقلد کیوں نہ ہو اس آوارگی کی اجازت اہل حق اہل السنت والجماعت تو کسی صورت میں بھی نہیں دیں گے۔(تحفہ اہل حدیث،جلد سوم، مسئلہ طلاق،صفحہ 11)

اس سے آپ اس غلط فہمی کا شکار ہر گز نہ ہونا کہ مقلدین شاید قرآن کا بہت زیادہ ادب و احترام کرنے والے ہیں۔ابوبلال جھنگوی، حنفی مذہب کا جو چہرہ پیش کررہے ہیں وہ ظاہر ی چہرہ ہے انکے مذہب کا اصلی اور بھیانک چہر ہ تو یہ ہے جوانکے قرآنی ادب کی قلعی کھول رہا ہے ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

امام ابن نجیم حنفی جنھیں ابوحنیفہ ثانی بھی کہا جاتا ہے قرآن سے اپنی’’ محبت اور عقیدت ‘‘کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولو نظرالمصلی الی المصحف وقرا منہ فسدت صلوتہ لا الی فرج امراۃ بشھوۃ۔
یعنی اگر قرآن کو دیکھ کر قرات کی تو نماز فاسد ہوجائیگی لیکن عورت کی شرمگاہ کو شہوت کی نظر سے دیکھاتو نماز فاسد نہیں ہوگی۔(الاشباہ والنظائر ، صفحہ 408، مطبع قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

حنفیوں کے نزدیک عورت کی شرمگاہ قرآن سے زیادہ محبوب اور پاکیزہ ہے۔ کیونکہ حنفیوں کا عورت کی شرمگاہ کوبنظر شہوت دیکھنا بھی نماز کو فاسد نہیں کرتا لیکن قرآن دیکھنا نماز فاسد کردیتا ہے۔ شاید ہی کسی نے قرآن کی اتنی توہین اور بے قدری کی ہو جتنی ان مقلدین نے کی ہے۔لیکن پھر بھی دوسروں کو بے ادب قرار دے کر بلا شرکت غیرے باادب ہونے کے دعویدار یہی لوگ ہیں۔ کیا اندھیر ہے!

15۔ دیوبندیوں کے محدث انورشاہ کشمیری لکھتے ہیں: واضح ہو کہ تحریف کے بارے میں تین آرا ء ہیں، ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ آسمانی کتابوں میں ہر طرح کی تحریف ہوئی ہے لفظی بھی اور معنوی بھی، اس رائے کی طرح ابن حزم مائل ہوا ہے۔ایک اور جماعت کی رائے یہ ہے کہ تحریف کم مقدار میں ہوئی ہے ، شاید حافظ ابن تیمیہ کا اس رائے کی طرف میلان ہے۔ایک جماعت نے تحریف لفظی کا سرے سے انکار کیا ہے ،پس جو بھی تحریف ہوئی ہے وہ ان کے نزدیک صرف معنوی ہے۔میرا قول یہ ہے کہ اس رائے کا لازمہ یہ ہے کہ قرآن بھی تحریف شدہ ہوکیونکہ اس میں تحریف معنوی بھی کچھ کم نہیں ہے اور میری تحقیق یہ ہے کہ قرآن میں لفظی تحریف بھی ہوئی ہے۔اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان (جامعین قرآن صحابہ)سے عمداً ایسا ہوا ہے یا کسی مغالطے کی وجہ سے ۔(فیض الباری علی صحیح البخاری ، جلد 4، صفحہ 98، کتاب الشھادات، باب 29، طبع بیروت)

ان مقلدوں نے کوئی ایسا انداز اور کوئی ایسا زاویہ نہیں چھوڑا جس سے انہوں نے قرآن کریم کی توہین نہ کی ہو اور اسلام سے اپنے خبث باطن کا اظہار نہ کیا ہو۔

قرآن مجید کو تحریف شدہ ماننا اور پھر اس تحریف پر صحابہ کرام کی مقدس جماعت کو مورد الزام ٹھہرانا ایسا صریح اور کھلا کفر ہے کہ اسی طرح کے کفر پر یہ حنفی و دیوبندی حضرات رافضیوں کو’’ کافر کافر شیعہ کافر ‘‘جیسے نعروں سے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے نہیں تھکتے۔لیکن خود اسی بدترین کفر میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی اہل سنت والجماعت اور اہل حق کا اسٹیکر صرف اپنے ماتھے پر سجائے پھرتے ہیں۔

دیکھا آپ نے! یہ حنفی کتنے بڑے تقیہ بردار منافق ہیں کہ جس عقیدہ پرشیعوں کو کافر کا سر ٹیفکیٹ بانٹتے ہیں وہی عقیدہ خود بھی رکھتے ہیں لیکن اسے چھپاتے ہیں۔ اللہ ان دہرے چہرے رکھنے والوں کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین

16۔ حنفی حضرات حائضہ اور جنبی کے لئے تلاوت قرآن کو اور بے وضو کے لئے قرآن چھونے کو بے ادبی تسلیم کرتے ہیں۔ اہل حدیثوں پر اعتراض کرتے ہوئے مفتی ابوصفوان دیوبندی لکھتے ہیں: (6) آداب و مستحابات کی رعایت نہیں: (ناپاکی کی حالت میں قرآن چھونا،پڑھنا ،قرآن کے احترام کی خلاف ورزی)
(i) ....خواتین ناپاکی کی حالت میں بھی قرآن چھوتی ہیں آیات پڑھتی ہیں۔قرآن کی کلاس میں قرآن کے اوپر/نیچے ہونے کا احساس نہیں۔
پھر حاشیہ میں لکھتے ہیں: جبکہ قرآن مجید کو خواتین کا ناپاکی (حیض و نفاس) کی حالت میں تلاوت کرنا اورقرآن مجید کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں۔
(مغربی جدت پسندی اور الہدیٰ انٹرنیشنل، صفحہ 82)

انوار خورشید دیوبندی رقم کرتا ہے: طہارت (وضو یا غسل) کے بغیر قرآن چھونا جائز نہیں۔(حدیث اور اہلحدیث،صفحہ231)

جن افعال کو یہ اہل حدیث کے حق میں قرآن کے احترام اور ادب کے منافی قرار دے رہے ہیں خود انکی فقہ شریف قرآن کی اس بے ادبی سے بھری پڑی ہے۔ملاحظہ ہو:

i) حیض و نفاس کی حالت میں دعا کی نیت سے الحمد پڑھے تو درست ہے۔(شرح وقایۃ: کتاب الطہارت، باب حیض، جلد 1، صفحہ 64)
ii) حالت جنابت میں آیت سے کم پڑھنا جائز ہے۔(بہشتی زیور ،حصہ 2، نفاس او ر حیض کے احکام،صفحہ 171)
iii) جنبی بطور دعا کے سورہ فاتحہ پڑھے تو کچھ ڈر نہیں۔(بہشتی زیور ،حصہ 2، نفاس او ر حیض کے احکام،صفحہ 171)

کیوں؟ کیا قرآن بطور دعا پڑھنے سے قرآن نہیں رہتا کہ پھربے ادبی کے سار ے ڈر ختم ہوجاتے ہیں؟!

جس عمل کو یہ اپنے منہ سے بے ادبی کہہ رہے ہیں انکا اسی عمل کے ارتکاب کے جواز کا فتویٰ دینا انکے بے ادب ہونے کی واضح دلیل ہے۔

جن لوگوں کے نزدیک پیشاب سے قرآن لکھنا ،اس پر بیٹھنا، قرآن کو مردار کی ناپاک کھال پر لکھنا وغیرہ جائز ہو ان لوگوں کا حنبی اور حائضہ کے قرآن پڑھنے پر اعتراض کرنا اور اسے قرآن کی بے ادبی سے تعبیر کرنا حیرت انگیزبلکہ اعلیٰ درجے کا دوغلا پن ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ حنفی حضرات ایسا صرف اہل حدیث کے بغض اور دشمنی میں کہتے ہیں ورنہ انکے مذہب میں قرآن کی رتی برابر بھی کوئی عزت نہیں۔

17۔ ان کل آیۃ تخالف قول اصحابنا فانہا تحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق۔
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب (فقہاء حنفیہ) کے قول کے خلاف ہوگی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کرکے اسے (فقہاء کے قول)کے موافق کر لیا جائے۔(اصول الکرخی،صفحہ 12)

قرآن کے بارے میں یہ حنفیوں کا مذہبی اصول ہے۔قرآن کریم کا مقام اور ادب تو یہ ہے کہ مسلمان اسکے احکامات کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرے۔ لیکن حنفی اللہ کی کتاب کا اسقدر گستاخ اور سخت بے ادب ہے کہ قرآن کی جبیں کو اپنے اماموں کی چوکھٹ پر جھکانے کی کوشش میں مگن ہے۔بجائے اسکے کہ انکے فقہاء قرآن کی مانیں ایسے اصول گھڑتے ہیں کہ قرآن سے اپنی ہر صحیح و غلط بات فاسد تاؤیل کے ذریعے منوانا چاہتے ہیں اور ایسا نہ ہوسکنے کی صورت میں قرآن کی آیتوں ہی کو منسوخ قرار دے دیتے ہیں۔انااللہ وانا الیہ راجعون!

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ثابت ہوا کہ حنفیوں کے ہاں قرآن کے احکامات کی اتنی بھی حیثیت نہیں کہ نبی کریمﷺ کے ادنی ترین امتیوں کے ناقص اور خلاف شریعت اقوال پر ہی قرآنی احکامات کو مقدم کرلیں۔مشہور شعر کا یہ مصرعہ مقلدوں پر انکی حرکتوں کی وجہ سے سو فیصد صادق آتا ہے۔

یہ وہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود​
18۔ مولانا زکریا دیوبندی کی مشہور زمانہ تصنیف فضائل اعمال سے قرآن کے ادب کے مختلف انداز دیکھئے:
حضرت خلیدؓ ایک مرتبہ نماز پڑھ رہے تھے کل نفس ذائقہ الموت پر پہنچے تو اس کو بار بار پڑھنے لگے تو تھوڑی دیر میں گھر کے ایک کونے سے آواز آئی کہ کتنی مرتبہ اس کو پڑھو گے تمہارے اس بار بار کے پڑھنے سے چار جن مرچکے ہیں۔ (فضائل اعمال، صفحہ 42، طبع کتب خانہ فیضی)

اللہ کے نبی ﷺ قرآن پڑھیں تواسے سن کر جن ایمان لے آتے ہیں لیکن جب دیوبندیوں کے بزرگ قرآن پڑھتے ہیں تواسے سن کر جن مرنے لگتے ہیں۔یہ کلام اللہ ہے یا آلہ قتل کہ جسکی تلاوت سے جن مرنے لگیں؟ اور یہ کتاب جن و انس کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے یا انہیں قتل کرنے کے لئے؟؟؟

19۔ ایک اور صاحب کا قصہ لکھا ہے کہ پڑھتے پڑھتے جب وردو االی اللہ مولھمہ الحق پر پہنچے تو ایک چیخ ماری اور تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ (فضائل اعمال، صفحہ 42، طبع کتب خانہ فیضی)

قرآن سن کر رونا تو مستحب ہے لیکن تڑپ تڑپ کر جان دے دینا تو بہت ہی عجیب بات ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ جن پر قرآن نازل ہوا اور صحابہ جو امت کا افضل ترین گروہ ہے ان نفوس قدسیہ کی توقرآن کی تلاوت سے کبھی ایسی حالت نہیں ہوئی۔شاید تبلیغی جماعت کے یہ بدعتی بزرگ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ سے بڑھکر اللہ کے عذاب سے خوف کھانے والے ہیں کہ تلاوت قرآن پر رسول اللہﷺ او ر صحابہ کے تو صرف آنسو گرتے تھے لیکن تبلیغی جماعت کے بزرگوں کی جان پر بن آتی ہے۔یہ حنفیوں کا عوام کو قرآن سے دور رکھنے کا ایک حربہ ہے کہ انہیں پہلے ہی سے ڈرا دیا جائے کہ اگر تم نے قرآن پر غوروفکر کیا اور سمجھ کر تلاوت کی تو اسی طرح تڑپ تڑپ کر مرجاؤ گے۔لہذا قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تاکہ ان بدعتیوں کی دوکانداری چلتی رہے اور یہ عوام کو اپنے اشاروں پر نچاتے رہیں ۔

اسی غرض سے مولانا زکریا نے فضائل اعمال میں قرآن کے بیان کے لئے سترہ (17) علوم کے جاننے کو ضروری قراردیا ہے جس میں سے سولہ علوم کو کسبی اور سترویں کو وہبی (اللہ کی طرف سے عطا کردہ) قرار دیا ہے تاکہ اگر کوئی کوشش کرکے سولہ علوم میں دسترس بھی حاصل کرلے تو سترویں علم کی وجہ سے قرآن کے بیان سے قاصر رہے۔ حالانکہ قرآن کے آداب میں سے ایک ادب قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور اس پر غور و تدبر کرنابھی ہے ۔تدبر کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا کیا وہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔(سورہ محمد: 24)
اورظاہر ہے کہ اس تدبر کے لئے قرآن کریم کو سمجھنا بھی انتہائی آسان ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اس غرض سے آسان فرمادیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِر اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے،تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟(سورۃ القمر:17)

لوگوں کو قرآن کی سمجھ سے دور رکھنے کے لئے فضائل اعمال میں مولانا ذکریا دیوبندی نے سورہ قمر کی آیت نمبر 17کا ترجمہ یہ کیاہے: کہ ہم نے قرآن پاک کو حفظ کرنے کے لئے سہل کر رکھا ہے کوئی ہے حفظ کرنے والا ۔ (فضائل اعمال، صفحہ 267، طبع کتب خانہ فیضی) یعنی قرآن میں معنوی تحریف کرتے ہوئے’’ سمجھ‘‘ کے لفظ کو ’’حفظ ‘‘کے لفظ سے بدل دیا۔

ایسی ہی ایک کوشش میں اشرف علی تھانوی نے بھی عوام کے لئے قرآن کا ترجمہ دیکھنا حرام قرارد یا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں: جیسے قرآن شریف کا ترجمہ کہ عوام کو تو پڑھنا خطرناک ہے....اس واقعہ کو دیکھ کر فتویٰ دیتا ہوں کہ تم کو ترجمہ دیکھنا حرام ہے .....قرآن شریف کے ترجمہ کا مطالعہ علوم دینیہ کے واقف کے لئے تو بہت مفید مگر جاہل کے لئے مضر...(ملفوظات حکیم الامت ، صفحہ 127)

ان عقل کے اندھوں سے کوئی یہ پوچھے کہ قرآن کا ترجمہ تم نے کیا کس کے لئے ہے؟ کیونکہ علماء کو تو اس کی ضرورت نہیں اب رہ گئی عوام جو عربی نہیں جانتی اسی کے لئے ترجمہ قرآن کیا جاتا ہے جب اسکے لئے بھی ترجمہ کو دیکھنا حرام ہوگا تو تمہیں اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ قرآن کا ترجمہ کرو؟ شاید اس میں انکی مجبوری یہ تھی کہ سب ہی لوگ اپنا اپنا ترجمہ قرآن کررہے تھے تو انہیں بھی کرنا پڑا تاکہ کوئی دیوبندی احمد رضا خان کا ترجمہ نہ پڑھے یا جوناگڑھی رحمہ اللہ وغیرہ کے ترجمہ کو نہ دیکھے۔اب نہ چاہتے ہوئے بھی ترجمہ کردیا تو عوام کو اس سے دور رکھنے کے لئے ایسے فتوے بھی دے دیے کہ ترجمہ دیکھنا حرام ہے اور ایسے قصہ بھی گھڑ لئے جس کی وجہ سے عوام قرآن میں تدبر سے باز آجائے تاکہ انکا شیطانی کاروبار چلتا رہے اور لوگوں کو ہدایت نصیب نہ ہو۔

قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ یہ تبلیغی دیوبندی ایسے واقعات گھڑ کر جن سے قرآن سمجھ کر تلاوت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اشرف علی تھانوی صاحب ایسے فتوے دے کر کہ جس سے عوام کو قرآن کا ترجمہ تک دینے کی ہمت نہ ہو قرآن کا ادب کررہے ہیں یا لوگوں کو اس کتاب سے دور کرکے بے ادبی کے مرتکب ہورہے ہیں؟

20۔ ایک تبلیغی دیوبندی بھائی قرآن سے اپنی ’’عقیدت‘‘ کا اس طرح اظہار کرتا ہے۔ مولانا عبدالرحمن دیوبندی کی کتاب انکشاف حقیقت سے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں: .....میں ہمیشہ درس قرآن دیتا رہا ہوں اور ان شاء اللہ دیتا رہونگامگر اس آدمی کو درس کے دوران اٹھ کر جانے کی ہمیشہ عادت تھی اور اس کے احساسات کا پتا تو چلتا رہتا تھا۔خیر ایک دن خود ہی یوں پھٹ پڑا کہ مولانا تم نے قرآن میں کیا دیکھا ہے کہ ہمیشہ قرآن کو ہی لئے ہوئے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ قرآن میں کیا نہیں ہے کہ میں قرآن کریم کو ہمیشہ نہ بیان کروں اور اسے چھوڑ دوں ۔تو اس جواب کو سننے کے بعد رائیونڈی (تبلیغی) نے کہاکہ میرے بس کی بات ہوتی تو میں اسے (قرآن کریم) گٹر میں پھینکتا ۔ میں نے کہا کس کو ؟ اس نے جواب میں کہا قرآن کو؟ (انکشاف حقیقت ،صفحہ 115)

میرے خیال سے اس واقعہ پر تبصرہ کی کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ تبلیغی دیوبندیوں کی قرآن سے ’’محبت‘‘ کو یہ واقعہ بہت اچھی طرح واضح کررہا ہے۔اس تبلیغی کا قرآن کو گٹر میں پھینکنے کی بات کرنا حیرت کا باعث نہیں کیونکہ جس فقہ اور جس مذہب کے یہ لوگ ماننے والے ہیں اس میں قرآن کریم کے بارے میں اسی طرح کی تعلیمات بکثرت موجود ہیں کہ اس کو نجاست غلیظہ (پیشاب)سے لکھو اس پر بیٹھ جاؤ وغیرہ ۔ ایسی صورت میں مقلدین سے قرآن مجید کی عزت و احترام کی امید رکھنا فضول ہے۔اگر یہ لوگ قرآن کی بے ادبی کرتے ہیں تو اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق یہ ’’حق‘‘ پر ہیں۔

21۔ ابن الہمام حنفی قرآن کے بارے میں اپنا مذہبی عقیدہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہے:’’الاصل السادس والسابع انہ تعالی متکلم بکلام قدیم قائم بذاتہ لیس بحرف ولا صوت زاد غیرہ لیس بعبری ولا سوری ولا عربی وانما العربی والسوری والعبری ممافیہ دلالات علی کلام اللہ تعالیٰ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے مگر اس کی کلام قدیم ہے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس سے جدا نہیں ہے اور اسکی کلام کے نہ حروف ہیں نہ آواز ہے۔اور اس کا کلام نہ عبرانی ہے نہ سوری ہے نہ عربی ہے۔ عربی سوری عبرانی کلام اس کی کلام پر دلالت کرتی ہیں اس کا اصل کلام نہیں۔(المسایرۃ،صفحہ 69/70)

اس بے ہودہ حنفی عقیدہ کے مطابق قرآن اللہ کا اصلی کلام نہیں ہے اور اللہ کلام تو کرتا ہے لیکن اسکی آواز نہیں ہے مطلب یہ کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ( نعوذباللہ ثم نعوذباللہ) گونگا ہے۔کفا ر تو یونہی بدنام ہیں کیا حنفیوں سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ اور کلام اللہ( قرآن) کی توہین کرنے والا ہے؟ حاشا وکلا

مذکورہ بالا عبارت حنفیوں کے عقیدے قرآن مخلوق ہے کا شاخسانہ ہے کیونکہ جب قرآن اللہ کا کلام نہیں تو پھر مخلوق ہوا۔ پس یہ کفریہ عقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کی تنقیص بھی ہے۔

22۔ کعبہ کا غلاف حائضہ اور جنبی پہنے تو جائز ہے۔(درمختار،جلد 1صفحہ619)

حنفیوں کی الٹی عقل کی سمجھ نہیں آتی کہ اگراہل حدیث کی جانب سے کسی پاک شخص کو جو کہ صرف بے وضو ہو، قرآن چھونے کی اجازت دے دی جائے تو یہ ’’باادب حنفی‘‘قرآن کی گستاخی کا شور مچادیتے ہیں لیکن خود ناپاک شخص کو غلاف کعبہ جس پر قرآن کی آیات لکھی ہوتی ہیں پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔در اصل قرآن کے یہ حقیقی گستاخ لوگ ہیں جو دوغلے پن کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔

23۔ احناف کا قرآن سے کفر دیکھئے:
بسم اللہ کا منکر کافر نہیں۔(درالمختار، کتاب الصلوٰۃ، جلد 1، صفحہ 251)

اگر قرآن کی آیت کا انکا ر کرنے والا کافر نہیں تو پھر کافر کون ہے؟
مولانا عبدالشکور قاسمی دیوبندی اپنے اسلاف کے مذہب سے بے خبر یا تقیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر کسی نے کسی آیت قرآنی کا انکار کیا یا اس کے ساتھ ٹھٹھا مخول کیا یا عیب لگایا تو ان تمام صورتوں میں وہ کافر ہوجائے گا۔(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات ،صفحہ 49) دیوبندیوں کے ایسے ظاہری فتووں سے ہر گز دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کیونکہ ان کا اصلی عقیدہ اور مذہب وہی ہے جو انکی فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔ایسے فتوے یہ لوگ محض اپنے مذہب سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے دیتے ہیں۔وگرنہ انہیں چاہیے کہ وہ ان فقہاء احناف کو بھی کافرقرار دیں جو بسم اللہ کے منکر کو کافر نہیں سمجھتے۔

24۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی کے عملیات خاص میں سے جو انکے معمول میں تھے ایک عمل ملاحظہ فرمائیں جو دردزہ کے بارے میں ہے ، لکھتے ہیں: کلمات و آیات ذیل کو گڑ پر پڑھکر کھلادیں یا لکھ کر سفید کپڑے میں باندھ کر حاملہ کی بائیں ران میں باندھ دیں اور بعد فراغت فوراً کھول دیں انشاء اللہ ولادت میں بہت سہولت ہوگی....الخ (اصلی بہشتی زیور، نواں حصہ، صفحہ 88)

قرآنی آیات کو حاملہ خاتون کی بائیں ران پر باندھنا علاج کا کون سا انداز ہے؟ قرآن بنی نوع کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے یا خواتین کی رانوں پر باندھنے کے لئے؟ جس کے دل میں قرآن مجید کی عظمت ہوگی قرآن مجید سے محبت ہوگی وہ تواشرف علی تھانوی کے اس خاص شیطانی عمل کو بطور علاج اختیار کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔قرآنی آیات کی توہین کی ایسی جرات یا تو جادوگروں کے حصے میں آئی ہے یا پھر حنفی مذہب کے ان سپوتوں کے حصے میں ۔

25۔ دیوبندی توحید دیکھئے:اشرف علی تھانوی رقم طراز ہیں: مولوی بحر العلوم صاحب پر توحید ایسی غالب ہوگئی تھی کہ مدارس میں بجائے قرآن کے مثنوی شروع کردی تھی۔(امداد المشتاق،صفحہ 111)

قرآن توحید کے بیان اور تشریح سے عبارت ہے لیکن نامعلوم ان صوفی دیوبندیوں کی توحید کون سی ہے جو انہیں قرآن میں نہیں ملتی اس کی تلاش کے لئے انہیں مثنوی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ عقل والوں کے لئے مقام عبرت ہے کہ جب توحید اللہ کے کلام میں بھی نہیں تو پھر کہاں ہے؟؟؟

قرآن و حدیث میں بیان شدہ توحید کو ماننے والا نیک اور پاکیزہ ہوتا ہے لیکن صوفی دیوبندیوں کی توحیدکی کتاب مثنوی پر ایمان لانے والا کیسا ناپاک اور نجس ہوتا ہے ۔اشرف علی تھانوی کے بیان کردہ اس واقعہ سے اندازہ لگائیں: فرمایا کہ ایک موحد سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا و غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گوہ کو کھالیا پھر بصورت آدمی ہو کر حلوا کھایا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے۔(امداد المشتاق، صفحہ 106)

قرآن کو پس پشت ڈال کر توحید کو جلال الدین رومی کی تصنیف مثنوی میں تلاش کرنا کیا قرآن کی زبردست توہین نہیں ہے؟!

نہ جانے ان دیوبندیوں کی توحید اور بزرگی کیسی چیز ہے جس میں سب سے بڑی روکاٹ اللہ کا قرآن ہے یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ان پر شیطانی توحید کا غلبہ ہوتا ہے یا انہیں بزرگی درکارہوتی ہے تو یہ اللہ کے قرآن کو ترک کردیتے ہیں۔فضائل اعمال کا یہ قصہ قابل غور ہے:

شیخ علوان حموی جو ایک متبحر عالم اور مفتی اور مدرس تھے سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سید صاحب کی ان پر خصوصی توجہ ہوئی تو ان کو سارے مشاغل درس تدریس فتویٰ وغیرہ سے روک دیا اور سارا وقت ذکر میں مشغول کردیا عوام کا تو کام ہی اعتراض اور گالیا ں دینا ہے لوگوں نے بڑا شور مچایا کہ شیخ کے منافع سے دنیا کو محروم کردیا اور شیخ کو ضائع کردیا وغیرہ وغیرہ کچھ دنوں بعد سید صاحب کو معلوم ہوا کہ شیخ کسی وقت تلاوت کلام اللہ بھی کرتے ہیں سید صاحب نے اس کو بھی منع کردیا۔تو پھر پوچھنا ہی کیا تھا ؟ سید صاحب پر زندیقی اور بے دینی کا الزام لگنے لگا لیکن چند ہی روز بعد شیخ پر ذکر کا اثر ہوگیا اور دل رنگ گیا۔تو سید صاحب نے فرمایا کہ اب تلاوت شروع کرو کلام پاک جو کھولا تو ہر لفظ پر وہ علوم و معارف کھلے کہ پوچھنا ہی کیا ہے ۔سید صاحب نے فرمایا کہ میں نے خدانخواستہ تلاوت کو منع نہیں کیا تھا بلکہ اس چیز کو پیدا کرنا چاہتا تھا۔(فضائل اعمال ، صفحہ 465 ، طبع کتب خانہ فیضی)

26۔ فضائل اعمال کے مصنف مولانا زکریا صاحب عجیب و غریب باتیں کرنے کے ماہر ہیں شاید اسکی وجہ انکے فضائل اعمال لکھتے وقت ذہنی توازن کا درست نہ ہونا ہے۔موصوف قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں: جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں آگیااور جو کلام پاک میں ہے وہ سب سورہ فاتحہ میں آگیا اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں آگیا اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ اس کی ’’ب‘‘ میں آگیا۔اس کی شرح بتلاتے ہیں کہ ’’ب‘‘ کے معنی اس جگہ ملانے کے ہیں اور مقصود سب چیز سے بندے کا اللہ جل شانہ کے ساتھ ملا دینا ہے بعض نے اس سے آگے اضافہ کیا ہے کہ ’’ب‘‘ میں جو کچھ ہے وہ اس کے’’ نقطہ ‘‘میں آگیا ۔(فضائل اعمال ، 260 تا 261، طبع کتب خانہ فیضی)

قرآن کے بارے میں یہ کلام ان لوگوں نے خود گھڑا ہے کہ قرآن کو ایک نقطہ تک محدود کردیا ۔جب انکے نزدیک ایسا ہی ہے تو پھرپورے قرآن کو پڑھنے او ر اسے سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے صرف ایک نقطہ کو سمجھ لیا جائے پورا قرآن سمجھ میں آجائے گا۔ یہ قرآن کے ساتھ دیوبندیوں کا سنگین مذاق ہے۔

27۔ حنفیوں کی معتبر کتاب فتاویٰ عالمگیری میں درج ہے: ایک روز میں قرآن ختم کرنا مکروہ ہے اور قرآن کی تعظیم کے واسطے تین روز سے کم میں ختم نہ کرے۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الکراہیۃ ، جلد 9، صفحہ 25)

اور ایک دن میں قرآن ختم کرنا ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ قرآن میں تدبر اور غوروفکر نہ ہوسکے گا جو کہ اصلاً مطلوب ہے اور یہ آداب قرآن کے بھی منافی ہے۔ اللہ نے قرآن کے آداب سکھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا اورقرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔(سورۃالمزمل: 4)
ایک دن میں قرآن ختم کرنا اسی صورت میں ممکن ہے جب اسے انتہائی تیز رفتار سے پڑھا جائے کہ نہ خود کو سمجھ میں آئے نہ کسی اور کے۔

حنفی دیوبندیوں کو قرآن کی تعظیم اور اسکے آداب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ملاحظہ ہو قرآن کے ساتھ دیوبندیوں کے بزرگان کا سلوک:

صالح بن کیسان جب حج کو گئے تو راستے میں اکثر ایک رات میں دو کلام مجید پورے کرتے تھے۔(فضائل اعمال،صفحہ 254، طبع کتب خانہ فیضی )

ii۔ منصور بن زاذان صلوۃ الضحیٰ میں ایک کلام مجید اور دوسرا ظہر سے عصر تک پورا کرتے تھے اور تمام رات نوافل میں گزارتے۔(فضائل اعمال،صفحہ 254، طبع کتب خانہ فیضی )

iii۔ بعض کا معمول تین ختم روزانہ کا تھا جس طرح سلیم بن عتر ہر شب میں تین ختم قرآن شریف کرتے تھے۔(فضائل اعمال،صفحہ 254، طبع کتب خانہ فیضی )

iv۔ زیادہ سے زیادہ مقدار جو تلاوت کے باب میں ہم کو پہنچی ہے وہ ابن الکاتب کا معمول تھا کہ دن رات میں آٹھ قرآن شریف روزانہ پڑھتے تھے۔(فضائل اعمال،صفحہ 254، طبع کتب خانہ فیضی )

28۔ جلا ل الدین رومی جو ترکی کا بہت بڑا صوفی تھا کی تصنیف مثنوی معنوی کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب فارسی زبان میں قرآن ہے۔ چناچہ مثنوی مولوی معنوی رومی کے سر ورق پر لکھا ہوا ہے : ہست قرآن درزبان پہلوی (یہ فارسی زبان میں قرآن ہے۔)

یاد رہے کہ صوفیوں کی ایک کثیر تعداد حنفیوں میں پائی جاتی ہے حتی کہ تمام دیوبندی اکابرین صوفی تھے۔اسی لئے اشرف علی تھانوی دیوبندی نے مثنوی کا اردو میں ترجمہ اور شرح بنام کلیدمثنوی24 جلدوں میں لکھی ہے ۔اس سے دیوبندیوں کے نزدیک فارسی میں اس باطل قرآن کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اسکے علاوہ یہ لوگ قرآن ہی کی طرح اس کی درس تدریس بھی کرتے ہیں۔

اشرف علی تھانوی صاحب رقم طرازہیں: مثنوی معنوی کے درس میں شیخ کامل کی صحبت کے فوائد کا بیان تھا۔(امداد المشتاق، صفحہ 125)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: فرمایا کہ میں دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوا۔ مجھے مثنوی معنوی کا بڑا شوق تھا اور حرم شریف میں چند مواضع میں درس مثنوی شریف ہوتا تھا۔(امداد المشتاق، صفحہ 127)

اور قرآن کی طرح اسے حرفاً حرفاً بار باربھی پڑھتے ہیں: اشرف علی تھانوی ،امداد اللہ مہاجر مکی کے بارے میں لکھتے ہیں: فرمایا کہ میں نے چھ بار حرفاً حرفاً مثنوی مطالعہ کی ہے۔( ا مداد المشتاق، صفحہ 104)

جس طرح بطور ادب لوگ قرآن کے ساتھ شریف کا لفظ لگاتے ہیں اسی طرح یہ دیوبندی صوفی بھی مثنوی کے ساتھ شریف کا لفظ جوڑتے ہیں۔دیکھئے: میں مضامین مثنوی شریف میں غرق تھا۔(امداد المشتاق، صفحہ 114)

سابق میں یہ حوالہ بھی گزر چکا ہے کہ دیوبندی صوفیوں کی شیطانی توحید بھی جلاالدین رومی کے اسی فارسی قرآن میں پائی جاتی ہے۔ دیوبندیوں کی توحید جاننے کے لئے ملاحظہ کریں کہ اس فارسی قرآن کا آغاز کس طرح ہوتا ہے :
بشنوازنے چوں حکایت می کند وزجدائیھاشکایت می کند
ترجمہ: بانسری سے سن! کیا بیان کرتی ہے اور جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے
صوفیوں کے اس قرآن کا آغاز موسیقی سننے کی ترغیب سے ہورہا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دیوبندیوں کو اس میں کس قسم کی توحید ملتی ہوگی۔

قرآن کو بالکل مہجور کردینا کہ نہ اس سے ہدایت حاصل کرنا نہ اسے سمجھنا بلکہ اسے وہ حیثیت اور مقام بھی نہ دینا جس کا یہ حقدار ہے۔ اس سے بڑھکر قرآن کی بے قدری ، بے ادبی اور توہین کیا ہوگی ؟ اور وہ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں جو اسلام کے دعویدار ہیں۔

29۔ دیوبندیوں کے ’’جہنمی زیور‘‘ میں اشرف علی تھانوی صاحب ناف نہ ٹلنے کا علاج بتاتے ہوئے قرآنی آیات کی سخت بے حرمتی کرتے ہیں، لکھتے ہیں: یہ آیۃ بسم اللہ سمیت لکھ کر ناف کی جگہ باندھیں ناف اپنی جگہ آجاویگی اور اگر بندھا رہنے دیں تو پھر نہ ٹلے گی۔(پھر قرآنی آیت لکھی ہے) (اصلی بہشتی زیور ، نواں حصہ ، صفحہ 84)

انسانی سترخصوصاً مردانہ ستر کا آغاز ناف سے ہوتا ہے ۔ستر یعنی جسم کے جس حصہ کو چھپانا فرض ہے اسی لئے ستر کو شرم گاہ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی مولوی اشرف علی تھانوی ناف ٹلنے سے بچانے کے لئے قرآنی آیات کو شرمگاہ پر باندھنے کا اعلان فرمارہے ہیں اور سا تھ میں یہ بھی کہ اگر مسلسل قرآنی آیات کو شرمگاہ پر بندھا رہنے دیا جائے تو ناف کبھی نہ ٹلے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ مولوی صاحب قرآن کی اس توہین سے ناف ٹلے نہ ٹلے لیکن مقلد کا ایمان یقیناًٹل جائے گا جس کی آپ کو تو کم ازکم کوئی فکر نہیں کہ آپکی ناپاک فقہ ایسی ہی باتوں اور نسخوں سے بھری پڑی ہے جس کے ذریعے قرآن کی بے عزتی کی جاتی ہے اور شفاء حاصل کی جاتی ہے۔نعوذ باللہ من ذالک

30۔ دیوبندیوں کے شیخ الہند، اسیر مالٹامحمود حسن خان دیوبندی تحریف قرآن کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کلام اللہ وحدیث میں بعض آیات وجملہ فرق ضالہ نے الحاق کئے ہیں۔(ایضاح الادلہ،صفحہ 191، بحوالہ تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث،صفحہ 108)

جبکہ اسے برعکس ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن تحریف لفظی سے محفوظ و مامون ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے خود اسکی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰٰفِظُوْن بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں۔(سورہ الحجر: 9)

دیوبندیوں کا قرآن میں لفظی تحریف کا عقیدہ قرآن سے کفر بھی ہے اور اسکی بے ادبی بھی۔

ویسے تو اسکے علاوہ بھی کئی حوالے ہیں جو قرآن کے ساتھ برتاؤ سے متعلق حنفیوں کے دوغلے پن کو آشکار کرتے ہیں اورانکے تقیہ کے پردے کو فاش کرتے ہوئے انہیں ذوالوجہین ثابت کرتے ہیں لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے ایسے بہت سے حوالے ہم نے ترک کردئے ہیں ۔جیسے مولانا زکریا دیوبندی فضائل قرآن میں ایک حدیث پیش کرکے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حدیث بالا میں چند امور ارشاد فرمائے ہیں ۔1 قرآن شریف سے تکیہ نہ لگاؤ۔ قرآن شریف سے تکیہ نہ لگانے کے دو مفہوم ہیں۔اوّل یہ کہ اس پر تکیہ نہ لگاؤ کہ یہ خلاف ادب ہے۔ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ قرآن پاک پر تکیہ لگانا، اس کی طرف پاؤں پھیلانا، اس کی طرف پشت کرنا، اس کو روندنا حرام ہے۔(فضائل اعمال، صفحہ 246، طبع کتب خانہ فیضی )

پس معلوم ہوا کہ مولانا زکریا دیوبندی کو بھی یہ اعتراف ہے کہ قرآن سے تکیہ لگانا قرآن کی بے ادبی ہے جو کہ حرام ہے۔ لیکن دیوبندیوں کا مذہب قرآن کی اس بے ادبی کی اجازت دیتا ہے۔ فقہ حنفی کی انتہائی معتبر کتاب میں درج ہے: سفر میں قرآن شریف کو سر کے نیچے رکھنا اگر بقصد حفاظت ہو تو ڈر نہیں۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، جلد 9، صفحہ 34)

اس کو کہتے ہیں چھپے رستم، کہاں دیوبندیوں کی قرآن کے ادب و احترام سے متعلق عوام کو بے وقوف بنانے والی جھوٹی باتیں جو انکے مذہب کا ظاہری اور دھوکے پر مبنی چہرہ تشکیل دیتی ہیں۔اور کہاں کلام اللہ کے بارے میں ان نام نہاد مسلمانوں کا عقیدہ اور ادب و احترام جو انکا اور انکے مذہب کا اصلی خبیث چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔

یہی ہے حنفیوں کا مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کے بارے میں عقیدہ اور رویہ اور یہی ہے اس بدعتی فرقے کا اصلی چہرہ جس پر تقیہ کا پردہ زیادہ دیر تک لوگوں سے حنفی مذہب کی اصلیت کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔
ان ناقابل تردید ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں ہر حنفی ، دیوبندی اور بریلوی پر لازم ہے کہ وہ فیصلہ کر لے اور اپنی مذہبی نسبت اور تعلق پرایک مرتبہ نظر ثانی کرلے شاید کہ وہ حق کی طرف پلٹ آئے۔

آخر میں عرض ہے کہ یہ حنفی دیوبندیوں کی تقیہ کی بری عادت کا نتیجہ ہے کہ انکی عوام حنفی مذہب کے عقائد اور مسائل سے بالکل بے خبر ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی حنفی کے سامنے فقہ حنفی کے ثابت شدہ مسئلہ کا اظہار یا نشاندہی کی جاتی ہے تو اسے سن کرایک عام حنفی تعجب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ کہتے ہوئے اس مسئلہ کا انکار کردیتا ہے کہ میں نہیں مانتا کہ ہماری کتابوں میں اس طرح کا مسئلہ درج ہوگا یا ہمارا کوئی عالم یا اکابر اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہوگا ۔

علمائے احناف اور علمائے دیوبند کی خدمت میں عرض ہے کہ رافضیوں کی اندھی تقلید ترک کرکے تقیہ کی عادت سے توبہ کریں اور اپنی عوام کو اصل حنفی مذہب سے آگاہ کریں ۔ انہیں دھوکہ میں مبتلا نہ رکھیں تاکہ وہ اس مذہب سے تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں خود کوئی فیصلہ کرسکیں۔علمائے احناف نے اپنی مرضی سے جس مذہب کا ڈھول اپنی گردن میں ڈالا ہے اب اسے پیٹنے یا بجانے میں شرم کیسی ؟؟؟
لیکن اگراس رسوائی کے ڈھول کو بجانے میں شرم آتی ہے اور کچھ غیرت ابھی باقی ہے تو اس گندے مذہب کا طوق اپنی گردن اور عوام کے گلے سے اتار کر پھینک کیوں نہیں دیتے؟؟؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلام!

میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس مضمون میں فتاوی عالمگیری کی اصل عبارات عربی میں پیش کی گئی ہیں لیکن اسکین شدہ صفحات مترجم فتاویٰ عالمگیری کےمنسلک کئے گئے ہیں اس لئے کچھ مقامات پر مضمون اور اسکین شدہ صفحات میں ترجمہ کا معمولی فرق واقع ہوگیا ہے۔ اگرچہ اس وضاحت کی ضرورت نہیں تھی لیکن دیوبندیوں کی عادت ہے کہ جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو انتہائی مضحکہ خیز اعتراضات کردیتے ہیں۔ جس بات کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں اسی بات کی دیوبندیوں کے نزدیک بہت اہمیت ہوتی ہے کیونکہ ڈوبنے والا تنکے کا سہار تلاش کررہا ہوتا ہے۔ اب وہ سہارا جتنا بھی کمزور ہو بحث برائے بحث کے لئے کافی ہوتا ہے۔ دیوبندیو‌ں سے عرض ہے کہ برائے مہربانی یہ فضول اعتراض مت اٹھائے گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم شاہد نذیر صاحب!
آپ نے جو بحرطویل میں یہ مضمون گھسیٹاہے۔ بڑے صبر کے ساتھ ’کیونکہ کافی طویل ہے‘پڑھا۔
اس بحرطویل میں لکھی گئی غزل کا جواب بھی بحرطویل میں ہی دیناہوگا جس کی اس وقت فرصت نہیں ہے۔
مختصرااتناعرض کردوں!
اکبرالہ آبادی کا ایک شعر ہے۔

سرتراشاان کا کاٹاان کا پائوں
شیخ کو یخ کردیا مومن کو موم​

مفہوم اسکا یہ ہے کہ شیخ کے شروع سے ش نکال دیاجائے تو وہ یخ ہوجاتاہے اوریخ برف اورٹھنڈک کو کہتے ہیں اورمومن کے آخر سے ن نکال دیاجائے تو وہ موم بن کر رہ جاتاہے
بس اس سارے مضمون میں یہی کیاگیاہے کہ سراتراشا پائوں کاٹا اوربے چارے شیخ کو یخ کرکے مومن کو موم کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی ہے۔
 

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
الحمدللہ شاہد نذیر بھائی. اسکے بعد بھی اگر کوئی دیوبندی (فضول)بحث کرے گا تو یقیناّ اسکا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہوگا- اور ویسے بھی یہ دلائل پھڑنے کے بعد انکا دماغ کہاں ٹھیک رہے گا- تھا لا لگا ہوا انکی عقل پر- اندھی تقلید نے واقعی اندھا کر دیا انکو- کل ایک دیوبندی بحث کر رہا تھا- اور کہنے لگا کہ میں تو خدا اور رسول کے بعد صرف شبیر احمد عثمانی اور تقی عثمانی کو مانتا ہوں- اور میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کے انکو دین کی سمجھ نہیں اور انکے منہ سے غلط بات نکلے گی. ارے حنفیوں بس کرو یار-
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم شاہد نزیر بھائی، ماشاء اللہ بہت زبردست مضمون لکھا ہے آپ نے، اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ سے احقاق حق اور ابطال باطل کا مزید کام لے، آمین۔
 
Top