• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام شیعوں سے متعہ کے بارے میں سوال؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تمام شیعوں سے متعہ کے بارے میں سوال؟

میرا سوال تمام عقلمند شیعوں سے ہے کہ اگر متعہ آپ کے مطابق حلال ہے اور باعث ثواب ہے، تو کیا کوئی غیرت مند شیعہ اپنی بیٹی یا بہن یا بیوہ ماں کیلئے راضی ہو گا کہ وہ متعہ کرے؟

مہربانی کرکے جواب دیں اور برے الفاظ سے اجتناب کریں۔

ہمارا مقصد کسی شیعہ کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ سنت الرسول ﷺ پر لانا ہے جس پر اھل البیت رضی اللہ عنھم تھے۔


تبصرہ:

متعہ اسے کہتے ہیں یعنی عورت کی عارضی طور پر شرمگاہ کو حلال کرنا۔ جس میں مرد اور عورت راضی ہوں۔

چاہے ایک گھنٹے کیلئے، یا دو گھنٹے کیلئے یا ایک دن کیلئے یا اس سے زیادہ اور اس کے بعد طلاق ہو جائے گی۔

یاد رہے اسلام نے صرف اپنی بیوی اور لونڈی مرد کیلئے حلال کی ہے
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾
البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔
قرآن، سورت المؤمنون، آیت نمبر 07
بعض مفسرین نے متعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ممتوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں ۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ " بیوی " دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ " ان کے علاوہ کچھ اور " میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن " حد سے گزرنے والا " قرار دیتا ہے۔
یہ استدلال بہت قوی ہے مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا ہے، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمت متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فتح مکہ تک جائز رکھتے۔
لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کر دینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے۔ اول یہ کہ اس کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعہ قانون اسے نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھہرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے اس کے لیے تو بہرحال نصوص کتاب و سنت میں سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صرف اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔
ابن عباس، جن کا نام قائلین جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے ، اپنے مسلک کی توضیح خود ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ : ماھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں ) اور اس فتوے سے بھی وہ اس وقت باز آ گئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباس اور ان کے ہم خیال چند گنے چنے اصحاب نے اس مسلک سے رجوع کر لیا تھا یا نہیں، تو ان کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالت اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے۔ مطلق اباحت، اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممتوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوق سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمہ اہل بیت کو اس سے متہم کیا جائے۔
میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنا بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا خوش حال طبقے کے مردوں کا حق ہو ۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح کے غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی ؟

تفہیم القرآن از سید ابو الاعلٰی مودودیؒ ، جلد نمبر 03، صفحہ 267-266
نوٹ:- یہ میری ”رائے “ نہیں ہے۔
 
Last edited:
Top