پہلےتو میں شکریہ ادار کرو گا شیخ صاحب کا کہ انہوں ایک اچھا موضوع کو ہمت کرکے شروع کیا اللہ ان کو جزائے خیر دے ۔
معروف مقولہ ہے :
نماز سے نہ کہو کہ مجھےکام کرنا ہے بلکہ کام سےکہو کہ مجھے نماز پڑھنا ۔
کسی چیز کو کسی چیز پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم مرجَح ( جس کو ترجیح دیتے ہیں ) کو مرجَح علیہ ( جس پر ترجیح دیتے ہیں ) سے افضل یا فائدہ مند سمجھتےہیں ۔
جب ہم کسی کام میں جتے رہتے ہیں اور نمازمیں سستی اور تأخیر کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ ہم نماز سے دوسرے کاموں کو اہم سمجھتےہیں ۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان شخص کا ایمان ہے کہ نماز دیگر کاموں سے افضل ہے ۔
تو سوال یہ ہےکہ ہم نماز کو دیگر کاموں سے افضل سمجھتے ہوئے بھی کیونکہ اس کے ساتھ مفضول والا رویہ اختیار کرتےہیں ؟
اس کا ایک جواب جو میرے ذہن میں آتا وہی ہےجس کی طرف عامر بھائی نے توجہ دلائی کہ ہم اگر چہ عقیدتا نماز کو افضل سمجھتے ہیں ۔ لیکن دنیاوی فوائد و نقصانات چونکہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں اور نماز کے فوائد یا اس کو چھوڑنے کے جو نقصانات ہیں وہ ہمیں محسوس نہیں ہوتے اس لیے ہم وقتی فائدہ حاصل کرنے یا وقتی نقصان سے بچنے کے لیے حقیقی فائدہ کھودیتےہیں اور اصل خسارہ کا سودا کرتے ہیں ۔
یہأں یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ نماز میں جسطرح سستی دنیاوی کاموں کی وجہ سے ہوجاتی ہے اسی طرح شیطان دیندار لوگوں کو دوسرے طریقے سےبھی سست کرنےکی کوشش کرتا ہے مثال کے طور پر طالب علم نماز کے وقت پڑہتے رہتےہیں کہ چلو یا یہ بھی تو دین کا کام ہی ہے نا ۔
بات یہأں بھی وہی وقتی فائدے والی ہےکہ چونکہ بعض دینی کام ایسے ہیں جن کا فائدہ ہم فورا یا اگر چہ کچھ تاخیر ہوتی ہے لیکن اسی دنیا میں فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے ہم ان کو مقدم کردیتے ہیں ایسے کاموں پر جو آخرت میں فائدہ مند ہوتےہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
بل تؤثرون الحيوة الدنيا و الآخرة خير وأبقى
کہ تم دنیاوی زندگی کو (آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتےہو ) حالانکہ آخرت ( تمہارے لیے ) بہتر اور باقی رہنے والی ہے ( جبکہ دنیاوی زندگی تمہارے لیےبہتر بھی نہیں ہے اور باقی رہنے والی بھی نہیں ہے ۔ )
باقی حقیقی نفع و نقصان کو پہچاننا شاید اتنا مشکل نہیں ہوگا جتنا عملا اس کے حصول یا اس سے بچنے کے لیے تگ و دو کرنا مشکل ہے ۔ ان چیزوں کا تعلق تقوی کے ساتھ ہے جتنا تقوی اور زہد و ورع ہو گا اتنا ہی انسان دنیا سے کنارہ کشی کرکے آخرت کی طرف راغب ہو گا ۔
نماز پڑہنے کا ثواب بھی قرآن وسنت میں موجود ہے اور اس میں سستی کرنے والے کے لیے عقاب کی بھی وضاحت ہے ۔ اگرچہ دونوں چیزیں مؤثر ہیں لیکن میرے خیال سے نماز میں سستی کی جو سزائیں ہیں ان کا تصور کرنا بعض دفعہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے ۔ واللہ أعلم ۔
یہاں یہ بات بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ اس طرح کی چیزوں پر آپس میں گفتگو یا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے ۔ کیونکہ اگر چہ ہم لاکھ سنا سنایا یا پڑھا پڑھایا ہو نصحیت بہر صورت ہر حال میں فائدہ مند ہوتی ہے ۔
وذکر فإن الذکری تنفع المؤمنین نصیحت کیجیے نصیحت مؤمنوں کے لیے باعث فائدہ ہے ۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اگرچہ زہد و ورع اور تقوی کی معراج پر تھے لیکن ان سے بھی اس طرح کے اقوال ثابت ہیں کہ :
هلموا نزدد إيمانا ۔ ۔ ۔ آؤ ! ( وعظ و تذکیر کے ذریعے ) ایمان میں اضافہ کریں ۔