• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تنازع-2

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تنازع-2

اور یہ قانون ساز و قانون دان جو کہتے ہیں کہ خود ساختہ قوانین دنیا کی ضرورت ہیں، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، یہ حقیقت کے برعکس ہے اور شریعت محمدیہ ﷺ کے ساتھ محض بدگمانی اور روگردانی ہے۔

اس کا معنی یہ ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ قانون سازی کرنا ہمارے لئے ضروری ہے یا (وضعی) قوانین سے فیصلے کرانا چاہے، وہ کسی بھی معاملہ میں ہوں یعنی ہم قانون جزاء و سزا سے فیصلے کرائیں یا وہ فیصلے قانون مدنی یعنی شہری معاملات سے متعلق ہو یا ان کا تعلق تجارتی اور تجارتی اور مالی اُمور کے قانون سے ہو، جو بھی یہ کہتے ہیں وہ سوء ظن رکھتے ہیں، اور رسول اکرم ﷺ کی لائی ہوئی (شریعت) کی تنقیص کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اس کلام کا معنی اور لازمہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو یا تو اس چیز کا (نعوذ باﷲ) علم ہی نہ تھا کہ دور بدل جائے گا اور حالات تبدیل ہو جائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلندتر ہے۔ اور جس نے یہ کہا یا یہ عقیدہ رکھا، اس نے یقینا کفر کیا۔
یا پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کو علم تو تھا لیکن اس نے ایسے احکام نازل نہیں فرمائے جو ان حالات کے مناسب ہوں تو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے بڑے اُمور میں جن کے ہم محتاج تھے، ہمیں مہمل چھوڑ دیا اور اس کتاب (قرآن مجید) میں ہر چیز کی تفصیل موجود نہیں ہے۔
اس طرح یہ معاملہ کہ ہم ہر چیز کے فیصلے اللہ اور رسول ﷺ سے کرائیں اور ہر قسم کے تنازعات کو اللہ کی طرف لوٹائیں، بالکل لغو ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے تو ہمیں ہر قسم کے معاملات میں اپنی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ہمارے لئے تمام اُمور کے احکام نازل ہی نہیں فرمائے۔ اس تضاد کی تو کسی عقلمند انسان سے بھی اُمید نہیں کی جا سکتی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کیسے ممکن ہے؟ جبکہ وہ بہت بلند و برتر اور پاک ذات ہے اور وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے اور اس نے اس کتاب (قرآن مجید) کو مفصل نازل فرمایا ہے۔

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ(النحل:89)
ترجمہ: اور ہم نے آپ (ﷺ) پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو بیان کرنے والی ہے۔
اور اسی اللہ نے ہمیں معاملات میں اجتہاد اور غور و خوض کرنے کا حکم دیا ہے اور اجتہاد کر کے صحیح حل کو پا لینے والے مجتہد کے لئے دو اجر اور اجتہاد میں غلطی والے کے لئے بھی ایک اجر رکھا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس کتاب سے احکام کا استنباط کر سکیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آ سکے جس کا ذکر کتاب اللہ میں یا سنت رسول اللہ ﷺ میں نہ ہو۔ اس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔

اللہ کی شریعت کے بارے میں حکم لگانا کہ یہ لوگوں کے تنازعات کے حل کے لئے ناکافی ہیں، محض اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بیان کی تنقیص ہے، اور ایسے لوگوں کے لئے دنیا و آخرت کا انجامِ بد لازمی اور حتمی ہے۔

یعنی اس حال میں بُرا انجام ان کے لئے لازم ہے یا وہ اللہ کے حکم کے لئے مطیع ہو جائیں اور توبہ کر کے اللہ کی شریعت اور ’’ما انزل اﷲ‘‘ کی طرف لوٹ آئیں۔
دوسری آیت کے الفاظ پر بھی غور کرو جس کے الفاظ یہ ہیں:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا
سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ (ﷺ) کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ (ﷺ ) ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی یا ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ (النسآء:65)۔
میں بھی کس قدر عموم پایا جاتا ہے، کیونکہ اسم موصول اپنے صلہ کے ساتھ اصولبین (علماء اصول) کے نزدیک عموم کے صیغوں میں سے ہے اور یہ عموم و شمول جنس اور نوع کے اعتبار سے بھی ہے اور مقدار کے لحاظ سے بھی ہے۔

اس آیت میں اسم موصول ’’فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ‘‘ میں حرف ’’مَا‘‘ ہے اور اسم موصول اپنے صلہ کے ساتھ عموم کے صیغوں میں سے ہے۔ اور یہ عموم ہر نوع کو شامل ہے چاہے وہ معاملہ قتل کا ہو یا مال کا، عزت و ناموس کا ہو یا حقوق کا، جو بھی ہو، چاہے اس کا تعلق بین الاقوامی ہو یاکسی حکومت اور فرد سے متعلق ہو۔ دو جماعتوں سے تعلق رکھتا ہو یا دو افراد سے، ہر ایک ’’فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ‘‘ کے حکم میں داخل ہے کیونکہ یہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔

یعنی ایک نوع کا دوسری سے بھی کوئی فرق نہیں ہے جیسا کہ قلت و کثرت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کے ایمان کی نفی کر دی ہے جو رسول اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کروانا چاہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا(النسآء:60)
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔

یہاں شیخ رحمہ اللہ کی فقاہت اور دقت ِ استدلال ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلَمْ تَرَ‘‘ ایسا اسلوب ہے جو ذہن کو اس طرف متوجہ کرتا ہے گویا کہ کہا جا رہا ہے کہ اے مخاطب! دیکھ، غور کر، اے مخاطب تجھ پر تعجب ہے۔ اگرچہ اسی میں اصلاً خطاب نبی اکرم ﷺ سے ہے اور ایسے ہی ہر وہ آیت جس میں یہ اسلوب ہو اسی چیز کا فائدہ دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ(الفیل:1)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان:

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ(الفجر:6)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیا کیا؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے
’’اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ‘‘ یعنی حقیقت میں یہ لوگ مومن نہیں ہیں لیکن انہیں اپنے ایماندار ہونے کا زَعم و گمان ہے اور یہ زَعم و گمان جھوٹا ہے جو حرفِ ظن ہے۔ اور انسان جب حقیقت کے برخلاف اعتقاد رکھے تو یہ زَعم و گمان ہوتا ہے اور (مثل ہے کہ) فلاں یہ زَعم رکھتا ہے۔ یعنی وہ کہتا ہے لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور جو وہ کہتا ہے وہ درست نہیں ہے۔
بیشک اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ’’یَزْعُمُوْنَ‘‘ وہ یہ زَعم کرتے ہیں، ان کے ایمان کے دعوے کی تکذیب ہے کیونکہ ایمان اور نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے ہٹ کر تحاکم کسی انسان کے دل میں اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے بلکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی نفی کرتا ہے۔

تو اللہ عزو جل کا فرمان:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔ (النسآء:60)۔
یعنی وہ یہ دعویٰ رکھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا
’’يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ ‘‘ (یعنی) وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ (ذرا غور کریں کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ انہوں نے طاغوت کو اپنا حاکم بنا لیا ہے اور اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ اسی کی پیروی کرتے ہیں اور اسی کو اپنا دین بنا لیا ہے۔ لوگوں کے لئے بھی اس کو لازم کر دیا ہے اور قوت و طاقت کے ذریعے لوگوں کو اس پر مجبور کر دیا ہے۔ بلکہ کہا کہ ’’يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ ‘‘ کہ وہ اپنے فیصلے طاغوت سے کرانے کا خیال اور ارادہ کرتے ہیں، اور اس کو جائز سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں، گویا کہ وہ ابھی اس کی ابتدائی سطح پر ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ان کے ایمان کی نفی کر دی اور ان پر جو عیب لگایا ہے صرف اس بنا پر لگایا کہ وہ طاغوت سے تحاکم (فیصلہ کروانے) کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ معاملہ کا تعلق ارادہ سے ہے۔ تو گویا کبھی انسان کی تکفیر اس حال میں بھی ہوتی ہے جبکہ اس نے کفریہ فعل کا ارتکاب نہیں ہوتا کیونکہ انسان جب کفر کا ارادہ کرلے تو اس پر اس کی تکفیر کی جائے گی جبکہ اس نے اس کو حلال سمجھ لیا۔ مثال کے طور پر ایک انسان غریب و مسکین ہے، نہ اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ ہے اور نہ کوئی درہم و دینار/ روپیہ پیسہ اس میں ہے لیکن اگر وہ سود خوری اور بینکاری کا دفاع کرتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا توکوئی بینک اکاؤنٹ نہیں اور نہ اس نے سود کھایا ہے، بلکہ اسے اُن کا دفاع کرنا ہی ان کے حکم میں داخل کر دے گا۔ اور اگر وہ اس کو حلال جانتا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی اگرچہ اس نے سود نہیں کھایا۔
 
Top