• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید حاکمیت اور فاسق وظالم حکمرانوں کی تکفیر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
حصہ دوم
مسئلہ تکفیر

کتاب وسنت کی روشنی میں

مسئلہ تکفیر کی اصولی بنیادیں
سلفی علماء مسئلہ تکفیر میں کچھ بنیادوں کو اس شدت اور صراحت سے نکھارتے ہیں کہ اس کے بعد کسی تفصیل یا وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ ان اصولی بنیادوں کو اس لیے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تکفیر کے مسئلہ میں اصولی اختلافات ہی کی وجہ سے خوارج اور معتزلہ گمراہ ہوئے ہیں۔جب تک کوئی شخص ان اصولوں کا تھامے رہے گا تو وہ سلف صالحین کے منہج پر قائم رہے گا لیکن جیسے ہی اس نے کسی اصول کو ترک کیا تو وہ خوارج اور معتزلہ کے منہج پر گامزن ہو جائے گا۔ ہم یہاں یہ بھی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ متقدمین سلف صالحین میں اصولوں کے بیان میں اجمال ہے جبکہ متاخرین نے اس اجمال کو تفصیلی شکل دے دی ہے۔ ہماری ناقص رائے کے مطابق جو اجمال متقدمین کے ہاں پایا جاتا ہے اسی کو برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ اجمال کی تفصیل میں اہل علم کا اختلاف ممکن ہے ۔ مثلاً امام ابن قیم رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کو انتہائی اجمال کے ساتھ تین صورتوں میں مقید کر دیاہے جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے جبکہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے ان اصولوں کی تفصیل بیان کر کے ان کو پھیلا دیا ہے جس سے بعض لوگوں کوان کی تحریروں کے فہم میں غلطی لگی ہے ۔ یہی معاملہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی ہے کہ انہوں نے 'تحکیم بغیر ما أنزل اللہ'کو اصولی طور پر چھ حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس سے بعض اصحاب کوکئی ایک غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور انہیں بالآخر اپنے قول سے رجوع کرنا پڑا۔سلف صالحین نے اس مسئلے کو اجمال کے ساتھ دوقسموں میں تقسیم کیا ہے: یعنی کسی شخص نے یہ فعل حلال سمجھتے ہوئے کیا یا نہیں کیا ہے؟
اسی طرح سلف صالحین نے توحید کی اجمال کے ساتھ تین قسمیں بیان کی تھیں ۔ اب بعض معاصر سلفی علماء نے جب ان کی تفصیل کرنی چاہی اور توحید حاکمیت کے نام سے ایک اور قسم متعارف کروائی تو اختلافات کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے جب نواقض اسلام کی تفصیل کی توبعض کبار حنفی علماء نے مسئلہ تکفیر میں ان سے شدید اختلاف کیا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول متقدمین سلف صالحین عقیدہ کی بنیادوں کو متاخرین سے بہت بہتر سمجھتے ہیں ۔ لہذاہماری رائے بھی یہی ہے کہ توحید اور تکفیر کے اصولی اور بنیادی مسائل میں متقدمین سلف کی اجمالی تقسیم، متاخرین کی تفصیلات کی نسبت راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔اس بحث میں ہم متقدمین میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اصولی تقسیم اور مباحث کو شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے نواقض اسلام کی تفصیل پر قابل ترجیح سمجھتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی نواقض اسلام کی بجائے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب 'تارک الصلاة وحکمھا' کو بطور عقیدہ پڑھانااور ذہنوں میں راسخ کرنا چاہیے ۔ نواقض اسلام کے بیان میں امام ابن قیم رحمہ اللہ یا سلف صالحین کے اس اجمالی منہج کو معاصر سلفی علماء نے بھی قبول کیا ہے اور برقرار رکھا ہے جیسا کہ علامہ عبد اللہ بن عبد العزیز الجبرین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب'تسھیل العقیدة السلامیة'میں نواقض اسلام کو اجمال کے ساتھ تین قسموں میں بند کیا ہے۔ اعتقادی کفر' اعتقادی شرک اور اعتقادی نفاق۔ اب انہوں نے آگے چل کر اس اجمال کی تفصیل بیان کی ہے۔
اجمال کی تفصیل میں نواقض اسلام کی چار سو قسمیں بھی بیان کی جا سکتی ہیں ' اس میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ہمارا کہنے کا اصل مقصود یہ ہے کہ جس طرح أئمہ اربعہ وغیرہ نے قرآن وسنت کے اجمالات کی تشریحات کی ہیں اور بعد کے آنے والے زمانوں میں قرآن وسنت کے ان اجمالات کے ساتھ ساتھ أئمہ کی تشریحات کو مقدس نصوص کا درجہ دے دیا گیا بعینہ یہی کام ہمارے زمانے میں عقیدے کے مسئلے میں بھی ہوا۔ قرآن وسنت میں بعض عقائد اجمالی طور پر بیان ہوئے ہیں لہذا اصولا ً ان عقائد کو اجمالا ٍ ہی بیان کرناچاہیے جیسا کہ سلف صالحین کا منہج بھی یہی ہے۔ ہاں! ان اجمالی نصوص کی تشریحات بھی کی جا سکتی ہیں لیکن ان تشریحات کو جب مقدس کتابوں کی مانند سمجھا جانے لگے جیسا کہ امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی کتاب'نواقض اسلام' سے اختلاف کو ہمارے بعض سلفی بھائی قرآن وسنت سے اختلاف کی مترادف قرار دیتے ہیں' تو ایسی صورت میں متاخرین کی اس تقسیم کی بجائے سلف کی تقسیم کی طرف لوٹ جانا ازبس ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
معین اور غیر معین تکفیر
سلفی علماء نے تکفیر کے مسئلے میں د وبنیادوں کو نمایاں کیا ہے ۔ پہلی بنیاد معین اور غیر معین کی تکفیر کے مابین گھومتی ہے۔ سلفی علماء کے ہاں تکفیر کی دو قسمیں ہیں: ایک تکفیر معین اور دوسری تکفیر غیر معین۔سلفی علماء تکفیر غیر معین کے قائل ہیں بلکہ مسلمانوں میں سے کسی کا بھی اس میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔ تکفیر غیر معین ہر کوئی کر سکتا ہے ۔ اسی طرح سلفی علماء تکفیر معین کے بھی قائل ہیں لیکن چونکہ تکفیر معین میں' تحقیق المناط' ہوتی ہے جو اجتہاد کی ایک قسم ہے لہذا یہ کام درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء کی ایک جماعت ہی کر سکتی ہے' ہر ایرے غیرے کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ سلفی علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہوں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عامة الناس کے لیے ایسے تکفیری حضرات کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے۔ شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ولھذا ینبغی للمسلم أن لا یتعجل فی الحکم علی الشخص المعین أو الجماعة المعینة بالکفر حتی یتأکد من وجود جمیع شروط الحکم علیہ بالکفر وانتفاء جمیع موانع التکفیر فی حقہ وھذا یجعل مسألة التکفیر المعین من مسائل الاجتھاد التی لا یحکم فیھا بالکفر علی شخص أو جماعة أو غیرھم من المعینین لا أھل العلم الراسخون فیہ لأنہ یحتاج ا لی اجتھاد من وجھین : الأول معرفة ھذا القول أوا لفعل الذی صدر من ھذا المکلف مما یدخل فی أنواع الکفر الأکبر أو لا؟ والثانی : معرفة الحکم الصحیح الذی یحکم بہ علی ھذا المکلف وھل وجدت جمیع أسباب الحکم علیہ بالکفر وانتفت جمیع الموانع من تکفیرہ أم لا...کما أنہ یحرم علی العامة وصغار طلاب العلم أن یحکموا بالکفر علی مسلم أو علی جماعة معینة من المسلمین أو علی أناس معینین من المسلمین ینتسبون الی مذھب معین دون الرجوع فی ذلک الی العلماء کما أنہ یجب علی مسلم أن یجتنب مجالسة الذین یتکلمون فی مسائل التکفیر وھم ممن یحرم علیھم ذلک لقلة علمھم.''(تسھیل العقیدة الاسلامیة : ص ٢٩٣۔٢٩٧)
''اس لیے مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ کسی معین شخص یا معین جماعت کی تکفیر میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اس معین شخص یا جماعت میں کفر کا حکم لگانے کے لیے جمیع شروط موجود ہوں اور تکفیر کے وجود میں تمام موانع ختم ہو جائیں ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکفیر معین کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور کسی معین شخص یا جماعت یا معین ادارے وغیرہ پر کفر کا حکم وہی لگا سکتے ہیں جو راسخون فی العلم ہیں کیونکہ اس قسم کی معین تکفیر میں دو اعتبارات سے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے:اس بات کو معلوم کرنا کہ معین مکلف سے جو قول یا فعل صادر ہوا ہے وہ کفر اکبر میں داخل ہے یا نہیں ؟اور دوسرا اس پہلو سے کہ اس صحیح حکم کی معرفت حاصل کرنا جس کا اس مکلف پر اطلاق کرنا ہے اور اس بات کو معلوم کرنا کہ اس مکلف پر کفر کا حکم جاری کرنے کے جمیع اسباب پائے جاتے ہیں اور اس کی تکفیر میں جمیع موانع ختم ہو گئے ہیں یا نہیں؟...اسی طرح عامة الناس اور چھوٹے درجے کے کسی مذہب کی طرف منسوب دینی طلباء کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان یا مسلمانوں کی معین جماعت یا مسلمانوں میں سے متعین لوگوں کی تکفیر کریں یہاںتک کہ وہ اس بارے اپنے علماء کی طرف رجوع نہ کرلیں۔ اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیری مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر تکفیر کے مسئلے میں گفتگو ان کے قلیل علم کی وجہ سے حرام ہے۔''
تکفیر غیر معین کی مثال یوں سمجھیں کہ آپ کہتے ہیں:
٭ جوبھی مردوں سے استغاثہ کرتا ہے ' وہ مشرک ہے۔
٭ جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ' وہ کافر ہے۔
ایسی تکفیر جائز ہے اور ہر کوئی کر سکتا ہے بلکہ ایسی تکفیر تو ہر وہ شخص کر رہا ہوتا ہے جو قرآن کی تلاوت یا سنت کا مطالعہ کر رہا ہو۔ مثال کے طور پر جب ایک شخص قرآن کی آیت 'ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' کا مطالعہ کرے گا تو وہ ایک اعتبارسے اللہ کے کلام کی تلاوت کے ساتھ تکفیربھی کررہا ہوتا ہے۔
سلفی علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ نے اس آیت کو مطلق بیان کیا ہے لہذا اس آیت کا مطلق معنی و مفہوم یہی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو وہ کافر ہے ۔ اب بعض صورتوں میں عملی اور مجازی کافر ہوگا یعنی ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوگا اور بعض صورتوں میں وہ حقیقی کافر ہوگا یعنی ملت اسلامیہ سے خارج ہو گا۔ پس کافر تو وہ ہے لیکن یہ تعین کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ وہ مجازی اور عملی کافر ہے یا حقیقی کافر ہے ۔شریعت کی بعض دوسری نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں وہ عملی اور مجازی کافر ہوگا اور بعض میں حقیقی ہو گا۔پس اگر کوئی شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والے حاکم یا جج کو کافر کہے اور اس کی مراد عملی اور مجازی کفر ہو تو ایسا کہنا جائز ہو گا لیکن عرف میں چونکہ کافر کے لفظ سے کفر حقیقی مراد ہوتا ہے لہذا قائل کو یہ وضاحت ضرور کرنی چاہیے کہ اس کی مراد مجازی اور عملی کفر ہے۔
تکفیر معین کو اصل میں سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے تکفیر کے مسئلے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ معین کی تکفیر تین قسم کی ہو سکتی ہیں : فرد' نوع یا جنس کی تکفیر۔ عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ معین کی تکفیر سے مراد صرف فرد واحد کی تکفیر ہے حالانکہ معین کی تکفیر میں معین نوع یا جنس یا جماعت یا گروہ کی تکفیر بھی شامل ہے۔ اصول فقہ میں ایک اصطلاح 'خاص' کی ہے جس کی اپنے معنی و مفہوم پر دلالت قطعی ہوتی ہے اور خاص کی تین قسمیں ہیں : خاص فردی' خاص نوعی اور خاص جنسی۔ پس معین کی تکفیر میں شخص' جماعت' ادارہ یا گروہ وغیرہ بھی شامل ہے جیسا کہ اوپر شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ کا قول اس بارے گزر چکا ہے ۔
پس معین کی تکفیر کی مثال یوں ہوگی:
٭ یا تو آپ فرد واحد کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ علامہ طالب جوہری یا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کافر ہیں۔
٭ یا معین جماعت اور گروہ کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ شیعہ یا ہماری پارلیمنٹ یا پاکستانی حکمران یا ہماری عدلیہ یا افواج پاکستان کافر ہیں ۔
اگر ایسی تکفیر عوام الناس یا گلی گلی پھرنے والے مفتی یا نام نہاد مفکرین اور مصلحین کریں تو ہمارے نزدیک یہ ایک فتنہ ہے' جس سے امت مسلمہ کو بچانا چاہیے۔ ہاں! اگر درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء کی کوئی جماعت ایسی معین تکفیر کرے تو وہ اس کے اہل بھی ہیں اور مستحق بھی۔ لیکن علماء کی اس جماعت سے معین کی تکفیر میں کسی دوسرے صاحب علم و فضل کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے(٢٠)۔ معین کی تکفیر چونکہ ایک اجتہادی معاملہ ہے اور اجتہاد میں قطعیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ امت کا اس پر اجماع ہو جائے اور جب تک معین کی تکفیر پر اجماع نہ ہو اس وقت تک درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی معین کی تکفیر علم ظن کا فائدہ دے گی لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تکفیر معین بھی 'عند العلماء' ہو گی اور 'عند اللہ ' وہ معین شخص یا گروہ کافر ہے یا نہیں ' اس کا تعین اللہ کے سوا کسی کو کرنے کا اختیار نہیں ہے اور یہ قیامت ہی کے دن واضح ہو گا(٢١)۔
جب آپ کہتے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں تو شاہ عبد القادر جیلانی نے شیعہ کے تقریباً ٣٢ فرقوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ہر ایک کے عقائد اور نظریات دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض اہل سنت کے قریب ہیں مثلا زیدیہ فرقہ۔ اسی طرح شیعہ کے علماء اور جہلاء کے عقائد میں بھی فرق ہے لہٰذا یہ اسلوب تکفیر درست نہیں ہے۔ ہاں!یوں کہا جا سکتا ہے :
٭ جو شیعہ قرآن کو اللہ کی مکمل کتاب نہیں مانتاوہ کافر ہے۔
یہ تکفیر درست ہے لیکن یہ غیر معین کی تکفیر ہے ۔ یعنی اصولوں کی روشنی میں غیر معین کی تکفیر کی جا سکتی ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں:
٭ جوعدلیہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی اور اپنے اس فعل کو حلال سمجھتی ہے ' وہ کافر ہے۔
یہ بھی غیر معین کی تکفیر ہے اور یہ بھی کی جا سکتی ہے لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستان کی عدلیہ کافر ہے تو یہ معین گروہ کی تکفیر ہو جائے گی جو درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی جماعت کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ علماء کی جماعت جب کسی معین شخص یا گروہ کی تکفیر کرتی ہے تو اس کے عقیدے کے بارے میں مکمل تحقیق کرتی ہے۔ شروط و موانع تکفیر کا لحاظ رکھتی ہے۔ ظاہر و تاویل کا فرق رکھتی ہے وغیرہ ذلک۔
مثال کے طور پر آپ یہ کہتے ہیں:
٭ جو شاہ عبد القادر جیلانی سے استغاثہ کرے تو وہ مشرک ہے۔
یہ غیر معین کی تکفیر ہے لیکن بریلوی مشرک ہے یہ کہنا غلط ہے کیونکہ یہ معین کی تکفیر ہے۔ بریلویوں میں بعض ایسے حضرات بھی ہم نے دیکھے ہیں جو سلفی عقائد کے حامل ہوتے ہیں لیکن بریلوی کے نام سے اپنے تشخص کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ ویسے تو سید أحمد شہید بریلوی بھی اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگاتے تھے۔ بعض عوام الناس سلفیہ کا یہ کہنا کہ حنفی مشرک ہیں ' قطعاًدرست نہیں ہے کیونکہ یہ بات معلومات ضروریہ میں سےہے کہ حنفیہ میں عقیدے میں تقلید حرام ہے۔ اسی لیے حنفیہ میں معتزلی بھی ہوتے ہیں جیسا کہ صاحب کشاف اور سلفی بھی جیسا کہ ابن أبی العز حنفی رحمہ اللہ ہیں۔ ماتریدی بھی جیسا کہ ان کی اکثریت ہے اور أشعری بھی جیسا حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ۔ اس لیے کسی سلفی کا یہ کہنا کہ حنفی مشرک ہیں درست نہیں ہے الا یہ کہ آپ ایک ایک حنفی کے پاس جا کر اس سے اس کے عقیدے کی تصدیق کر لیں۔ یہاں سلفی حضرات اصل میں' تحقیق مناط' میں غلطی کر رہے ہیں۔وہ استخراجی منطقdeductive logicسے کام لے رہے ہیں جو یونانیوں کا طریقہ تھا یعنی انہوں نے ایک بھینس کالے رنگ کی دیکھی تو یہ دعوی کر دیا کہ دنیا کی سب بھینسیں کالے رنگ کی ہوتی ہیں حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ دنیا میں کوئی بھینس کالے رنگ کی نہ ہو۔ہمارے ہاں عام طور معاشرے میں اسی منطق سے کام لے کر تکفیر کی جاتی ہے۔ کسی ایک بریلوی عالم دین کا ایک قول لے کر پوری جماعت پر فتوی جڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے ایک ممبر کے افعال و اقوال کو بنیاد بناتے ہوئے ساری پارلیمنٹ پر کفر کا فتوی تھوپ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ بات ہم سب کے علم میں ہے پارلیمنٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے لوگ بھی ہیں اور جماعت اسلامی کے اکابر بھی' جو نفاذ اسلام اور اعلائے کلمة اللہ کے دعویدار ہیں اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نمائندہ بھی پارلیمنٹ میں بعض اوقات شامل ہوتے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو تو چھوڑیں ' خود سیاسی جماعتوں کے عقائد و نظریات میں فرق پایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کی گمراہی اور معصیت اس قدر نہیں جس قدر پیپلز پارٹی کی ہے تو دونوں کا حکم ایک کیسے ہو سکتا ہے؟۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
کفر عملی کی تفصیل
تکفیر کا دو سرا مسئلہ جسے سلفی علماء نے شدت سے نمایاں کیاہے وہ یہ اصول ہے کہ کفر بعض صورتوں میں اعتقادی اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ صرف کفریہ فعل ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتااگرچہ اس فعل کے مرتکب کے لیے کتاب وسنت میں کفر یا کافر کا لفظ ہی کیوں نہ وارد ہواہے۔ دوسری قسم یعنی کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں کافی دقیق اور لطیف بحثیں کی ہیں جن کا خلاصہ ہم یہاں کر رہے ہیں۔ پہلی قسم یعنی اعتقادی کفر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا ہم اس کی تفصیل یہاں نہیں بیان کر رہے ہیں۔

پہلا نکتہ
امام صاحب نے کفر کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک کفر اعتقادی جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور دوسرا کفر عملی۔کفر عملی کو انہوں نے مزید دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : ایک وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد ہو یعنی اس کفر عملی اور ایمان کا اجتماع ممتنع اور ناممکن ہو اور دوسرا وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد نہ ہو یعنی اس کا اور ایمان کا اجتماع ممکن ہو۔پہلی قسم کے کفر عملی کے بارے سلف صالحین کا موقف یہ ہے کہ یہ ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے جبکہ دوسری قسم کا کفر عملی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث اور سبب نہیں ہے لیکن امام صاحب یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ دوسری قسم کے کفریہ فعل کا مرتکب عملی کافر ضرور کہلائے گا کیونکہ جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر کہا ہو تو اسے کافر کہنے میں کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ جس معنی میں اللہ اور اس کے رسول نے اس کو کافر کہا ہے اسی معنی میں اس کو کافر کہا جا رہا ہو ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' وھھنا أصل آخر وھو الکفر نوعان : کفر عمل وکفر جحود وعناد. فکفر الجحود : أن یکفر بما علم أن الرسول جاء بہ من عند اللہ جحودا وعنادامن أسماء الرب وصفاتہ وأفعالہ وأحکامہ وھذا الکفر یضاد الایمان من کل وجہ.وأما کفر العمل : فینقسم ا لی ما یضاد الایمان والی ما لا یضادہ فالسجود للصنم والاستھانة بالمصحف وقتل النبی وسبہ یضاد الایمان وأما الحکم بغیر ما أنزل اللہ وترک الصلاة فھو من الکفر العملی قطعا ولایمکن أن ینفی عنہ اسم الکفر بعد أن أطلقہ اللہ ورسولہ علیہ فالحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافر وتارک الصلاة کافر بنص الرسول ولکن ھو کفر عمل ولایطلق علیھما اسم کافر وقد نفی رسول اللہ الایمان عن الزانی والسارق وشارب الخمر وعمن لایأمن جارہ بوائقہ وذا نفی عنہ اسم الیمان فھو کافر من جھة العمل وانتفی عنہ کفر الجحود والاعتقاد وکذلک قولہ لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض فھذا کفر عمل وکذلک قولہ من أتی کاھنا فصدقہ أو امرأة فی دبرھا فقد کفر بما أنزل علی محمد وقولہ ا ذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا أحدھما...وھذا التفصیل ھو قول الصحابة الذین ھم أعلم الأمة بکتاب اللہ وبالاسلام والکفر ولوازمھما فلاتتلقی ھذہ المسائل لا عنھم فن المتاخرین لم یفھموا مرادھم فانقسموا فریقین فریقا اخرجوا من الملة بالکبائر وقضوا اصحابھا بالخلود فی النار وفریقا جعلوھم مؤمنین کاملی الایمان فھؤلاء غلوا وھؤلاء جفوا وھدی اللہ أھل السنة للطریقة المثلی والقول الوسط الذی ھو فی المذاھب کالاسلام فی الملل فھا ھنا کفر دون کفر ونفاق دون نفاق وشرک دون شرک وفسوق دون فسوق وظلم دون ظلم.'' (الصلاة وحکم تارکھا' فصل فی نوعی الکفر: ص٧٢ تا٧٤' دار ابن حزم' بیروت)
'' اور یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی ہے اور وہ یہ کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک عملی کفر اور دوسرا انکار اور دشمنی کا کفر۔ پس کفر انکار یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے اسماء، صفات، افعال اوراحکام میں سے کسی ایسی شیء کا سرکشی اور ہٹ دھرمی سے انکار کر دے کہ جس کے بارے اسے علم ہو کہ اللہ کے رسول وہ شیء اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ یہ ایسا کفر ہے جو ہر پہلو سے ایمان کے منافی ہے۔ جہاں تک کفر عملی کا معاملہ ہے تو یہ بھی دو قسم پر ہےایک یہ کہ وہ یعنی عملی کفرایمان کے منافی ہو اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان کے منافی نہ ہو۔ پس بت کو سجدہ کرنا، قرآن مجید کی اہانت کرنا، نبی کو قتل کرنا یا اس کو گالی دینا ایسا کفر عملی ہے جو اس کے ایمان کے منافی ہے جبکہ ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا اور نماز کو چھوڑ دینا قطعی طور پر کفر عملی ہے اور ایسے کفرکو اللہ اور اس کے رسول کے کفر کہنے کے بعد بھی کفر نہ کہنا ممکن نہیں ہے۔ پس ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا کافر ہے اور نماز کو ترک کرنے والابھی اللہ کے رسول کی نص کے مطابق کافر ہے لیکن یہ عملی کفر ہے اور ان پر کافر حقیقی کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول نے زانی، چور، شراب نوشی کرنے والے اور پڑوسی کو ایذا پہنچانے والے سے ایمان کی نفی کی ہے۔ پس جب آپ نے ایمان کی نفی کر دی تو ایسا شخص عملی اعتبار سے کافر ہے لیکن اس میں انکار اور اعتقاد کا کفر نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کا قول کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا بھی کفر عملی کی مثال ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو کسی کاہن کے پاس آیا اور اس نے اس کی تصدیق کی یا اس نے اپنی بیوی سے دبر میں مباشرت کی تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد عربی پر نازل کی گئی ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے :اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے یعنی یا تو جسے کہا جا رہا ہے وہ کافر ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے تو یہ بھی کفر عملی ہی ہے...(کفر کے بارے )یہی تفصیل ان صحابہ کے اقوال میں موجود ہے جو امت میں اللہ کی کتاب، اسلام، کفر اور اس کے لوازمات کے بارے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ پس تم یہ مسائل صرف انہی سے حاصل کرو کیونکہ متاخرین ان کی مراد کو نہ سمجھ سکے اور دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک فریق نے کبیرہ گناہ کی بنیاد پر لوگوں کو ملت اسلامیہ سے خارج اور دائمی جہنمی قرار دینا شروع کر دیا اور دوسرے گروہ نے گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو مومن کامل کہا۔ پس پہلا گروہ غالی ہے اور دوسرا ظالم ہے۔ پس اللہ تعالی نے اپنے مثالی طریقہ اور معتدل قول کی طرف اہل سنت والجماعت کی رہنمائی فرمائی جیسا کہ متفرق مذاہب میں اسلام کا مقام ہے۔ اور یہ معتدل قول یہ ہے کہ یہاں کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر بھی ہے اور نفاق اکبر یعنی اعتقادی نفاق سے چھوٹا نفاق یعنی نفاق عملی بھی موجود ہے اور شرک اکبر چھوٹا شرک یعنی شرک اصغر بھی ہے اور گناہ کبیرہ سے چھوٹا گناہ یعنی صغیرہ بھی ہے اور ظلم اکبر سے چھوٹا ظلم بھی موجود ہے۔''
دوسرا نکتہ
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس اصول کوبھی اچھی طرح واضح کیا ہے کہ ایک شخص میں کفر اور ایمان اور توحید اور شرک جمع ہو سکتی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں :

'' وھھنا أصل آخر وھو أن الرجل قد یجتمع فیہ کفر وایمان وشرک وتوحید تقوی وفجور نفاق وایمان ھذا من أعظم أصول أھل السنة وخالفھم فیہ غیرھم من أھل البدع کالخوارج والمعتزلة والقدریة ومسألة خروج أھل الکبائر من النار وتخلیدھم فیھا مبنیة علی ھذا الأصل وقد دل علیہ القرآن والسنة والفطرة وجماع الصحابة. قال تعالی ومایؤمن أکثرھم باللہ ا لا وھم مشرکون فأثبت لھم ایمانا بہ سبحانہ مع الشرک قال تعالی قالت الأعرب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا أسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم وان تطیعوا اللہ ورسولہ لا یلتکم من أعمالکم شیئاا ن اللہ غفور رحیم فأثبت لھم اسلاما وطاعة اللہ ورسولہ مع نفی الایمان عنھم.''(أیضاً : ص٧٨)
'' یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی شخص میں کفر اور ایمان، شرک اور توحید، تقوی اور فسق وفجور، نفاق اور ایمان اکٹھا ہو سکتا ہے۔ یہ اہل سنت کے اصولوں میں سے ایک بہت اہم اصول ہے جبکہ اہل بدعت میں سے خوارجیوں، معتزلہ اور قدریہ وغیرہ میں اس اصول میں اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔ کبیرہ گناہ کے مرتکبین کا جہنم سے نکلنا یا جہنم میں دائمی طور پر رہنے کا اختلاف اس اصولی اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ اہل سنت کے اس اصول کی دلیل قرآن، سنت، اجماع اور فطرت ہے۔اللہ کا فرمان ہے: اکثر لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کے ساتھ [کسی نہ کسی نوع کا] شرک بھی کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالی نے ان کے لیے شرک کے ساتھ ایمان کا بھی اثبات کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: بدوؤں نے یہ کہا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، آپ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تعالی تمہارے اعمال[کے اجر و ثواب ] میں سے کچھ کمی نہ کرے گا، بے شک اللہ تعالی معاف کرنے والا رحیم ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے بدوؤں کے لیے اسلام کا اثبات کیا ہے اور ان کی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو بھی قبول کیا ہے جبکہ ساتھ ہی ان کے ایمان کی بھی نفی کر دی ہے۔ ''
تیسرا نکتہ
کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ اصول بھی بیان کیا ہے کہ بعض اوقات ایک شخص میں ایمان کی کوئی شاخ ہوتی ہے لیکن اس کو مؤمن نہیں کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض اوقات ایک شخص میں کفر کی کوئی قسم پائی جاتی ہے لیکن اس پر لفظ کافر کا اطلاق نہیں ہوتاہے کیونکہ اسم الفاعل کا اطلاق اس صورت میں ہوتا ہے جبکہ کوئی شخص کثرت سے وہ کام کر تا ہو جیساکہ لفظ ضارب کااطلاق یا اس کے غالب اجزاء اور پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا ہو جیساکہ لفظ عالم کا اطلاق ۔امام صاحب فرماتے ہیں:

'' ھنا أصل آخر وھو أنہ لایلزم من قیام شعبة من شعب الایمان بالعبد أن یسمی مؤمنا وان کان ما قام بہ ا یمانا ولا من قیام شعبة من شعب الکفر بہ أن یسمی کافرا وان کان ما قام بہ کفرا کما أنہ لا یلزم من قیام جزء من أجزاء العلم بہ أن یسمی عالما ولا من معرفة بعض مسائل الفقہ والطب أن یسمی فقیھا ولاطبیبا ولایمنع ذلک شعبہ الایمان ایمانا شعبة النفاق نفاقا وشعبة الکفر کفرا وقد یطلق علیہ الفعل کقولہ فمن ترکھا فقد کفر ومن حلف بغیر اللہ فقد کفر ... فمن صدر منہ خلة من خلال الکفر فلا یستحق اسم کافر علی الطلاق وکذا یقال من ارتکب محرما نہ فعل فسوقا ونہ فسق بذلک المحرم ولایلزمہ اسم فاسق لا بغلبة ذلک علیہ.''(أیضاً : ص٨٠)
'' یہاں ایک اور اصول بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کی شاخوں میں سے کسی شاخ پر قائم ہو تو لازم نہیں ہے کہ اس پر لفظ مومن صادق آئے۔ اگرچہ جس چیز کے ساتھ وہ کھڑاہو وہ ایمان ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کفرکی شاخوں میں سے کسی شاخ کے ساتھ کھڑا ہے تو لازم نہیں ہے کہ اسے کافر کہا جائے، اگرچہ جس کے ساتھ وہ کھڑا ہو وہ کفر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ اگر کسی شخص کو علم کے اجزاء میں سے ایک جزء حاصل ہو جائے تو اسے عالم نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی کو فقہ یا علم طب کے بعض مسائل کی معرفت ہو تو اس سے وہ فقیہ یا طبیب نہیں بن جاتا۔لیکن یہ قاعدہ اور اصول اس بات میں مانع نہیں ہے کہ ہم اس شخص میں ایمان کی شاخ کو ایمان، نفاق کی شاخ کو نفاق اور کفر کی شاخ کو کفر کا نام دیں یعنی اسم الفاعل کا نام اس وقت دیا جائے گا جبکہ کوئی شخص اس فعل کو بار بار کرنے والا ہو یا اس کی جمیع اجزاء کا احاطہ کرنے والا ہو۔ بعض اوقات اس پر صرف فعل کا اطلاق ہو گا جیسا کہ آپ نےفرمایا جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے کفر کیایعنی کفریہ فعل کیا ہے اور اس میں ایمان کی شاخوں کے ساتھ ساتھ کفر کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی ہے۔اور جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر کیا...پس جس سے کفر کی صفات میں سے کوئی صفت صادر ہو تو اس کو مطلق طور پر کافر کہنا جائز نہیں ہے۔ہاں! مقید طور پر کافر مجازی یا کافر عملی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے کوئی حرام کام کیا تو اس نے اس حرام کام کے ارتکاب کی وجہ سے فسق و فجورتو کیاہے لیکن اس پر فاسق کے لفظ کا اطلاق درست نہیں ہے الا یہ کہ وہ اس حرام کام کو کثرت سے کرے ۔''
چوتھا نکتہ
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے عملی کفر کا یہ اصول بھی واضح کیا ہے کہ کتاب وسنت میں جن افعال کے مرتکبین کے اسلام یا ایمان کی نفی کی گئی ہے تو ہم بھی ان کے اسلام اور ایمان کی نفی کریں یعنی ہم انہیں مومن یا مسلم نہیں کہیں گے اور اس سے ہماری مراد ان کی تکفیر نہیں ہے بلکہ شرع کی اتباع میں ہم ایسا کریں گے اگرچہ ان اشخاص میں ایمان یا اسلام کی دوسری شاخیں موجود ہوں گی اور اس وجہ سے ان کو کافر حقیقی نہیں قرار دیا جائے گا ۔ امام صاحب فرماتے ہیں:

'' وھکذا الزانی والسارق والشارب والمنتھب لایسمی مؤمنا وان کان معہ ایمان کما أنہ لایسمی کافرا وان کان ما أتی بہ من خصال الکفر وشعبہا ذ المعاصی کلھا شعب من شعب الکفر کما أن الطاعات کلھا من شعب الایمان.أن سلب الایمان من تارک الصلاة أولی من سلبہ عن مرتکب الکبیرة وسلب اسم الاسلام عنہ أولی من سلبہ عمن لم یسلم المسلمون من لسانہ ویدہ فلا یسمی تارک الصلاة مسلما ولامؤمنا وان کان شعبة من شعب الاسلام والیمان.''(أیضاً : ص٨٠۔٨١)
'' اسی طرح کا معاملہ زانی، چور، شرابی اور لٹیرے وغیرہ کا بھی ہےیعنی ان پر ان ناموں کا اطلاق اسی وقت درست ہو گا جب ان سے یہ افعال کثرت سے صادر ہوں اور اگر کبھی کبھار ہوں تو پھر یہ تو کہا جائے گا کہ فلاں نے زنا کیا یا چوری کی یا ڈاکہ ڈالا یا شراب پی لیکن انہیں زانی، شرابی، ڈاکو یا چور نہیں کہا جائے گا۔ پس ان یعنی چور، زانی، شرابی اور لٹیرے کو نہ تو مومن کہا جائے گا (کیونکہ اللہ کے رسول نے حدیث میں ان کے مومن ہونے کی نفی ہے)۔اگرچہ ان کے پاس ایمان موجود بھی ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں کافر کہاجائے گا اگرچہ جن افعال کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے وہ کفر کے قسموں میں سے ایک قسم ہیں کیونکہ تمام کے تمام گناہ کفر کی مختلف شاخیں ہیں اور تمام قسم کی اطاعتیں ایمان کی شاخیں ہیں۔گناہ کبیرہ کے مرتکبین سے ایمان کی نفی کے مقابلہ میں (جیسا کہ زانی ، شرابی اور چور سے ایمان کی نفی کی گئی ہے)تارک صلاة سے ایمان کی نفی کرنا بالأولی ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ نہ ہوں، سے اسلام کی نفی کے مقابلہ میں(جیسا کہ حدیث میں ثابت ہے) تارک صلاة سے اسلام کی نفی کرنا بالأولی ثابت ہوتی ہے۔ پس تارک صلاة کونہ تو مومن کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلمان، اگرچہ وہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے بعض شاخوں پر قائم ہوتا ہو۔''

پانچواں نکتہ
جب کتاب وسنت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایک شخص میں ایمان اور کفر اور توحید اور شرک اکھٹی ہو سکتی ہے تو کیا کسی شخص کو روز آخرت عملی کفر کی موجودگی میں اس کا ایمان یا عملی شرک کی موجودگی میں اس کی توحید کام دے گی ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں بنتی ہیں۔
اگرتو کسی شخص کا عملی کفر ایسا ہے جو بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درج نہیں رکھتا ہے تو بقیہ ایمان اس کو آخرت میں فائدہ دے گا اور اگر تو اس کا عملی کفر بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے تو اس کا بقیہ ایمان آخرت میں اس کے لیے نفع بخش نہ ہو گا۔
اس کو اس مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اور کفریہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا اسے اس کے روزوں یا صدقہ و زکوة وغیرہ جسے دوسرے نیک اعمال کا فائدہ ہو گا یا کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ہے اور عملی طور پر کافر ہے تو کیا اسے اس کے نماز روزے کا اجر وثواب ملے گا یا ایک شخص مسجد میں جا کر پانچ وقت نماز بھی پڑھتا ہے اور مندر میں جا کر بت کے سامنے ماتھا بھی ٹیکتا ہے تو کیا اس کی نماز اس کے لیے نفع بخش ہو گی یا ایک شخص نماز روزہ تو کرتا ہے لیکن اللہ کے نبی کو گالی بھی دیتا ہے تو کیا اس کا نماز روزہ اس کے کام آئے گا ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' نعم یبقی أن یقال فھل ینفعہ ما معہ من الایمان فی عدم الخلود فی النار فیقال ینفعہ ان لم یکن المتروک شرطا فی صحة الباقی واعتبارہ وان کان المتروک شرطا فی اعتبار الباقی لم ینفعہ ولھذا لم ینفع الایمان باللہ ووحدانیتہ وأنہ لا لہ لا اللہ ھو من أنکر رسالة محمد ولا تنفع الصلاة من صلاھا عمدا بغیر وضوء فشعب الایمان قد یتعلق بعضھا ببعض تعلق المشروط بشرطہ وقد لا یکون کذلک.''(أیضاً : ص٨١)
'' پس اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تارک صلاة کے پاس جو ایمان ہے وہ اسے دائمی جہنمی بنانے میں مانع ہو گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تارک صلاة کا وہ ایمان اس کے دائمی جہنمی ہونے میں رکاوٹ بن سکتا ہے بشرطیکہ جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے(مثلا ً نماز)وہ بقیہ ایمان کی صحت کے لیے شرط اور معتبر نہ ہو ۔ اگر تو جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے(مثلا ً نبی کا اقرار کرنا)وہ بقیہ ایمان کے معتبر ہونے میں شرط ہو تو پھر بقیہ ایمان اس کو فائدہ نہ دے گا۔ پس یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے محمد کی نبوت کا انکار کر دیا تو اسے ایمان باللہ اور اللہ کی توحید یا لا الہ الا اللہ کچھ فائدہ نہ دے گا(کیونکہ یہاں اس نے ایک ایسے فعل یعنی محمد کی رسالت کے اقرار کو ترک کیا ہے جو ایسا کفر ہے جو اس کے بقیہ ایمان کے لیے بھی ایک معتبر شرط کی حیثیت رکھتا تھا لہذا شرط کے مفقود ہونے سے مشروط یعنی بقیہ ایمان بھی مفقود ہو گیا لہذا بقیہ ایمان قابل فائدہ نہ رہا)۔اسی طرح اس شخص کو اس نماز کوئی فائدہ نہ دے گی جو جانتے بوجھتے بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہے ۔ پس ایمان کی شاخوں میں بعض کا بعض سے تعلق بعض اوقات شرط اور مشروط کا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے بارے سلف صالحین کی رائے
ان اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ جمیع سلف صالحین نے ما انزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو عملی یا مجازی کفر قرار دیا ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث نہیں بنتا ہے جب تک کہ فاعل اس فعل کو حلال اور جائز نہ سمجھتا ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 'ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' کی تفسیر میں مروی ہے:

'' عن علی ابن أبی طلحة عن ابن عباس ...قال : من جحد ما أنزل اللہ فقد کفر ومن أقر بہ ولم یحکم فھو ظالم فاسق.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٤٤)
'' حضرت علی بن ابی طلحہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے آیت تحکیم کی تفسیر میں کہا: جس نے جانتے بوجھتے ما أنزل اللہ کا انکار کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے ما أنزل اللہ کو تو مان لیا لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ' جیدفی الشواہد ' کہا ہے۔(السلسلة الصحیحة : ١١٠٦)۔
بعض لوگ اس روایت کو اس بنیاد پر ضعیف قرار دیتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طلحہ کا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ شیخ سلیم الہلالی نے اس اثر کے صحیح ہونے میں ایک کتاب 'قرة العیون فی تصحیح تفسیر عبد اللہ بن عباس' کے نام سے تالیف کی ہے کہ جس میں اس اثر کے بارے شبہات کا کافی وشافی رد موجود ہے۔

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ان اللہ تعالی عم بالخبر بذلک عن قوم کانوا بحکم اللہ الذی حکم بہ فی کتابہ جاحدین ' فأخبر عنھم أنھم بترکھم الحکم علی سبیل ما ترکوہ کافرون' وکذلک القول فی کل من لم یحکم بما أنزل اللہ جاحدا بہ' ھو باللہ کافر؛ کما قال ابن عباس.''(تفسیر طبری : المائدة : ٤٥)
'' بلاشبہ اللہ تعالی نے اس حکم کے ذریعے اس خبر کو عام کیا ہے کہ اہل کتاب اللہ کے اس حکم کا جانتے بوجھتے انکار کرنے والے تھے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا تھا۔ پس اللہ تعالی نے ان کے بارے یہ خبر دی ہے کہ جس طرح انہوں نے اللہ کے حکم کو چھوڑا ہے (یعنی انکار کے رستے سے)تو اس سے وہ کافر ہو گئے ہیں۔ پس اسی طرح کا معاملہ ہر اس شخص کا بھی ہے جو اللہ کے حکم کا جانتے بوجھتے انکار کر دے تواس کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے جیسا کہ ابن عباس کا قول ہے۔''
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون یحتج بظاہرہ من یکفر بالذنوب وھم الخوارج ! ولا حجة لھم فیہ لأن ھذہ الآیات نزلت فی الیھود المحرفین کلام اللہ تعالی کما جاء فی الحدیث وھم کفار فیشارکھم فی حکمھا من یشارکھم فی سبب النزول.''(المفھم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم' کتاب الحدود' باب قامة الحد ملی من ترافع لینا من زناة أھل الذمة)
'' اور جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ کافر ہیں۔ اس آیت مبارکہ کو خوارج نے اپنے اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جس کے ذریعے وہ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی تکفیر کرتے ہیں حالانکہ اس آیت میں خوارجیوں کے موقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ آیات ان یہود کے بارے نازل ہوئی ہیں جو اللہ کے کلام میں تحریف کرنے والے تھے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اور ایسے یہود بلاشبہ کافر ہیں ۔ پس ان یہود کے حکم (یعنی کفر)میں وہ شخص ان کا شریک ہو گا جو ان کے ساتھ سبب نزول(یعنی اللہ کی آیت کی تحریف)میں بھی شریک ہو۔''
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' والصحیح : أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ یتناول الکفرین : الأصغر والأکبر بحسب حال الحاکم فانہ ا ن اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللہ فی ھذہ الواقعة وعدل عنہ عصیانا مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبة فھذا کفر أصغر وان اعتقد أنہ غیر واجب وأنہ مخیر فیہ مع تیقنہ أنہ حکم اللہ فھذا کفر أکبر ان جھلہ وأخطأہ فھذا مخطیء لہ حکم المخطئین.''(مدارج السالکین' باب فی أجناس ما یتاب منہ ولایستحق العبد اسم التائب حتی یتخلص منھا،دار الکتاب العربی' بیروت)
''صحیح قول یہ ہے کہ ما أنزل اللہ کے بغیر فیصلہ کرنا دو قسم کے کفر پر مشتمل ہوتا ہے: کفر اصغر اور کفر اکبر۔(ان دونوں میں کسی ایک کا حکم) فیصلہ کرنے والے کے حالات کے مطابق عائد ہو گا۔ پس اگر کوئی حکمران کسی مسئلہ میں ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ کو واجب سمجھتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتااور اپنے آپ کو گناہ گار بھی سمجھتا ہے تواس حکمران کا کفر ' کفر اصغر ہے ۔ اور اگر حکمران کا عقیدہ یہ ہو کہ ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا لازم نہیں ہے یا اختیاری معاملہ ہے ' چاہے وہ اسے یقینی طور پر اللہ کا حکم ہی سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہے ۔ اور اگر حکمران نے کوئی فیصلہ جہالت (یعنی شرع حکم سے عدم واقفیت)کی بنیاد پر کیا تو وہ خطاکار ہے اور اس کے لیے خطاکاروں کا حکم ہے(یعنی اگر مجتہد تھا تو ایک گناہ اجر وثواب ملے گا ورنہ خطا کی جزا ہو گی)۔''
امام سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' واعلم أن الخوارج یستدلون بھذہ الآیة ویقولون: من لم یحکم بما أنزل اللہ فھو کافر وأھل السنة قالوا: لا یکفر بترک الحکم وللآیة تاویلان: أحدھما معناہ ومن لم یحکم بما أنزل اللہ ردا وجحدا فأولئک ھم الکفرون والثانی معناہ ومن لم یحکم بکل ما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون والکافر ھو الذی یترک الحکم بکل ما أنزل اللہ دون المسلم.''(تفسیر سمعانی : المائدة : ٤٤)
'' یہ جان لیں!کہ خوارج اس آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں : جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ جبکہ اہل سنت کا یہ قول ہے کہ صرف ما أنزل اللہ کو ترک کر دینے سے کافر نہیں ہوگا(جب تک اس کا عقیدہ نہ رکھے)۔اور اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ جو شخص ماأنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار اور رد کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرے تو یہ کافر ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ جو ماأنزل اللہ کے مطابق کلی طور پر فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے کیونکہ کافر اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کو کلی طور پر چھوڑ دیتا ہے جبکہ مسلمان کا معاملہ ایسا نہیں ہوتاہے۔''
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' أن من لم یحکم بما أنزل اللہ جاحدا لہ وھو یعلم أن اللہ أنزلہ کما فعلت الیھود فھو کافر ومن لم یحکم بہ میلاا لی الھوی من غیر جحود فھو ظالم فاسق.''(زاد المسیر : المائدة : ٤٤)
'' جو ما أنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرے ' جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اس حکم کو اللہ نے نازل کیا ہے جیسا کہ یہود کا معاملہ تھا تو وہ کافر ہے اور جو ما أنزل اللہ کے مطابق اپنی خواہش نفس کی اتباع میں فیصلہ نہ کرے اور اس کا انکار کرنے والا نہ ہو تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔''
امام ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''ان حکم بما عندہ علی أنہ من عند اللہ فھو تبدیل لہ یوجب الکفر و ن حکم بہ ھوی ومعصیة فھو ذنب تدرکہ المغفرة علی أصل أھل السنة فی الغفران للمذنبین.''(أحکام القرآن : المائدة : ٤٤)
''اگر تو کسی حکمران نے اپنی کسی رائے اس طرح فیصلہ کرے کہ اسے اللہ کی طرف منسوب کرتا ہو تو یہ اللہ کی شریعت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور سبب ِکفر ہے۔ اور اگر اس نے اپنی خواہش یا نافرمانی میں ماأنزل اللہ کے بغیر فیصلہ کیا تو یہ ایسا گناہ ہے جو قابل مغفرت ہے جیسا کہ گناہ گاروں کے لیے مغفرت کے بارے اہل سنت کا اصول ہے۔''
امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ مستھینا بہ منکرا لہ فأولئک ھم الکفرون.'' (تفسیر بیضاوی : المائدة : ٤٤)
'' اور جس نے ماأنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار کرتے ہوئے اور اسے حقیر سمجھتے ہوئے فیصلہ نہ کیاتو وہ لوگ کافر ہیں ۔''
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
'' ولھذا قال ھناک ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون لأنھم جحدوا حکم اللہ قصدا منھم وعنادا وعمدا.''(تفسیر ابن کثیر : المائدة : ٤٤)
'' یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں یہ کہا ہے کہ جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے کیونکہ انہوں(یعنی اہل کتاب)نے اللہ کے حکم کا جانتے بوجھتے' عمداً اور سرکشی سے انکار کیا دیاتھا۔''
ابو البرکات نسفی حنفی، شیخ أبومنصور ماتریدی رحمہما اللہ کی اس مسئلے میں رائے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' قال الشیخ أبو منصور رحمہ اللہ : یجوز أن یحمل علی الجحود فی الثلاث فیکون کافرا ظالما فاسقا لأن الفاسق المطلق والظالم المطلق ھو الکافر وقیل ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فھو کافر بنعمة اللہ ظالم فی حکمہ فاسق فی عملہ.''(تفسیر نسفی : المائدة : ٤٤)
'' شیخ ابو منصور ماتریدی کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے کہ ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کو تینوں مقامات(یعنی کافرون' ظالمون اور فاسقون)پر انکار کے ساتھ فیصلہ نہ کرنے پر محمول کیا جائے۔ پس اس صورت میں فیصلہ نہ کرنے والا کافر ، ظالم اور فاسق تینوں صفات کا حامل ہو گا کیونکہ مطلق طور پر فاسق اور ظالم سے مراد بھی کافر ہی ہوتی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ جو ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ اللہ کی نعمت کا کافر (یعنی ناشکرا)اور اپنے حکم میں ظالم اور اپنے عمل میں فاسق ہے۔''
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' المسألة الثانیة : قالت الخوارج : کل من عصی اللہ فھو کافر وقال جمھور الأئمة : لیس الأمر کذلک. أما الخوارج فقد احتجوا بھذہ الآیة وقالوا: انھا نص فی أن کل من حکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کافر وکل من أذنب فقد حکم بغیر ما أنزل اللہ فوجب أن یکون کافرا وذکر المتکلمون و المفسرون أجوبة عن ھذہ الشبھة ...والخامس : قال عکرمة : قولہ ومن لم یحکم بما أنزل اللہ ا نما یتناول من أنکر بقلبہ وجحد بلسانہ أما من عرف بقلبہ کونہ حکم اللہ وأقر بلسانہ کونہ حکم اللہ لا أنہ أتی بما یضادہ فھو حاکم بما أنزل اللہ ولکنہ تارک لہ فلا یلزم دخولہ تحت ھذہ الآیةوھذا ھو الجواب الصحیح واللہ أعلم.''(تفسیر رازی : المائدة : ٤٤)''
(اس آیت میں) دوسر امسئلہ یہ ہے کہ خوارج کا کہنا یہ ہے کہ جس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی وہ کافر ہے۔ جبکہ جمہور أئمہ کا قول یہ ہے کہ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ خوارج نے اپنے موقف کے حق میں اس آیت کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس بارے نص ہے کہ جو شخص بھی ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا (چاہے وہ اپنی نجی زندگی میں ہی ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو اور اللہ کا نافرمان ہو)تو وہ کافر ہے اور جس نے بھی کوئی گناہ کا کام کیا (یعنی اللہ کی شریعت کی بجائے اپنی خواہش نفس کو حَکم بنا لیا)تو اس نے ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔ پس ایسے شخص کا کافر ہونا لازم ٹھہرا۔ متکلمین اور مفسرین ان خوارج کے اس استدلال کے کئی ایک جوابات نقل کیے ہیں...(ان جوابات میں سے)پانچواں جواب یہ ہے کہ حضرت عکرمہ نے کہا ہے اللہ تعالی کا قول کہ جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا، اس کے بارے ہے جو اپنے دل سے اللہ کے حکم کا انکار کردے اور اپنی زبان سے بھی منکر ہوجائے۔ پس جو شخص اپنے دل اور زبان سے اسے اللہ کا حکم مانتا ہو اور پھر بھی اس کے خلاف چلے تو یہ ما أنزل اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اگرچہ وہ ما أنزل اللہ کو چھوڑنے والا ضرور ہے۔ پس ایسا شخص اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں ہے اور یہی جواب صحیح ہے ۔ واللہ أعلم۔''

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فرماتے ہیں:
'' والخلاصة : أن التکفیر ھو لمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ وأنکر بالقلب حکم اللہ وجحد باللسان فھذا ھو کافر أما من لم یحکم بما أنزل اللہ وھو مخطیء ومذنب فھو مقصر فاسق مؤاخذ علی رضاہ الحکم بغیر ما أنزل اللہ.'' (التفسیر المنیر: المائدة : ٤٤)
'' خلاصہ کلام یہی ہے تکفیر اس شخص کی ہو گی جوما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو حلال سمجھتا ہو اور دل و زبان سے اللہ کے حکم کا انکاری بھی ہو تو پس ایسا شخص کافر ہے ۔ اور (اس یعنی انکار کے علاوہ) جو شخص ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ گناہ گار 'خطارکار اور فاسق ہے اور اس سے اس بات کا مواخذہ ہو گا کہ وہ ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے پر کیوں راضی تھا۔''

علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ناظرین ! اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرة گناہوں میں سے ہے۔ جسے امام ذہبی نے 'الکبائر' ص ١٤٦' گناہ نمبر ٣١ میں بیان کیا ہے۔ لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ اپنے اس کیے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا۔''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف : ص ٢٧)
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ماشاء اللہ! سبحان اللہ! کیا بات ہے!!! میری ساری مشکلات اب دور ہو گئی ہیں۔ اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے اور آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے، آمین! بھت ہی اچھا مضمون ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ظالم وفاسق حکمرانوں کی تکفیر کی شرعی بنیادیں
ہمارے علم کی حد تک اس وقت تین بڑی بنیادیں ہیں کہ جن کی وجہ سے ظالم وفاسق حکمرانوں کی تکفیر کی جاتی ہے۔
آیت تحکیم
پہلی بنیاد آیت مبارکہ( وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ)ہے ۔یعنی جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ' وہی لوگ کافر ہیں۔حکمران چونکہ غیر اللہ کے قانون کو نافذ کرتے ہیں لہٰذا دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
ہمارے نزدیک حکمرانوں کی تکفیر میں اس آیت سے کیا جانے والا استدلال ائمہ اہل سنت کے منہج کے خلاف ہے۔ائمہ اہل سنت نے ہر حال میں اس فعل کے مرتکب کو کافر قرار نہیں دیاہے۔احادیث مبارکہ میں بہت سے کبیرہ گناہوں پر بھی کفر کا اطلاق کیا گیا ہے اوران گناہوں کے مرتکبین کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((سِبَابُ الْمُسْلِم فُسُوق وَقِتَالُہ کفر))اور((من حلف بغیر اللہ فقد کفر)) اور ((مَنْ اَتٰی کَاھِنًا فصدقہ او اتی امراة فی دبرھا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا انزل عَلٰی مُحَمَّد)) اور ((بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاة)) اور((اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ یَا کَافِر فَقَدْ بَاء بِھَا اَحَدُھُمَا))اور(( لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کفارا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رقاب بعض)) اور ((لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِن))وغیرہ جیسی احادیث مبارکہ۔
ایسی تمام روایات کی توجیہ و تاویل میں ائمہ اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ بعض اوقات کفر کا لفظ معصیت کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔اسی لیے اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا کام کرنے والا شخص ایسا کافر نہیں ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے اور دائمی جہنمی ہو۔اہل سنت کی ایک جماعت اس کو 'کفر دون کفر'' قرار دیتی ہے اور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کا کفر' عملی کفر' ہے۔ائمہ ثلاثہ امام مالک ' امام شافعی ' امام احمدرحمہم اللہ اور محدثین کا قول یہی ہے۔جبکہ اہل سنت کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ کفر مجازی ہے یعنی حقیقی نہیں ہے امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کا یہی قول ہے ۔لہٰذ ایسے شخص کو عملی کافر کہیں یا مجازی کافر ' بہر حال اس بات پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ایسا شخص کافر حقیقی نہیں ہے کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو یا آخرت میں دائمی جہنم کا مستحق ہو۔اہل سنت و الجماعت یہ کہتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے کافر کہا ہے توہماری کیا مجال ہے کہ ہم اسے کافر نہ کہیں لیکن وہ 'عملی کافر'یا'مجازی کافر'ہے نہ کہ'حقیقی کافر' کہ جو دائرہ اسلام سے خارج'واجب القتل اور دائمی جہنمی ہو۔ اس کے برعکس خوارج اور معتزلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے گناہ کبیرہ کامرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ امام اہل سنت ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ'عقیدة طحاویة ' کی شرح میں لکھتے ہیں:
'' أن اھل السنة متفقون کلھم علی أن مرتکب الکبیرة لا یکفر کفرا ینقل عن الملة بالکلیة کما قالت الخوارج... وأھل السنة أیضا متفقون علی أنہ یستحق الوعید المرتب علی ذلک الذنب کما وردت بہ النصوص...ثم بعد ھذا الاتفاق تبین أن أھل السنة اختلفوا خلافاً لفظیاً' لا یترتب علیہ فساد' وھو: أنہ ھل یکون الکفر علی مراتب، کفرا دون کفر؟ کما اختلفوا : ھل یکون الایمان علی مراتب،ایمانا دون ایمان؟ وھذا الاختلاف نشأ من اختلافھم فی مسمی 'الایمان' : ھل ھوقول وعمل یزید وینقص، أم لا ؟ بعد اتفاقھم علی أن من سماہ اللہ تعالی ورسولہ کافرا نسمیہ کافرا،اذ الممتنع أن یسمی اللہ سبحانہ وتعالی الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافرا' ویسمی رسولہ من تقدم ذکرہ کافرا و لا نطلق علیھما اسم 'الکافر'۔ ولکن من قال : ان الایمان قول وعمل یزید وینقص قال : ھو کفر عملی لا اعتقادی،والکفر عندہ علی مراتب ' کفر دون کفر' کالیمان عندہ۔ ومن قال: ان الایمان ھو التصدیق ولایدخل العمل فی مسمی الایمان ' و الکفر ھو الجحود، ولا یزیدان ولا ینقصان قال : ھو کفر مجازی غیر حقیقی، ذ الکفر الحقیقی ھو الذی ینقل عن الملة.'' (شرح عقیدہ طحاویة : ص ٣٠١ ۔ ٣٠٤، الرئاسة لعامة لدارات البحوث العلمیة والفتاء والدعوة والرشاد، الریاض،١٣١٤ھ)
'' جمیع اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ایسا کفر نہیں کرتا کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے کلی طور پر خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج کا قول ہے...اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مرتکب کبیرہ اپنے اس گناہ کبیرہ پراس وعید کا مستحق ہے جو نصوص میں وارد ہوئی ہے...پھر اس اتفاق کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں باہمی اختلاف لفظی اختلاف ہے اور اس سے کوئی فساد پیدا نہیں ہوتا۔اہل سنت کا باہمی اختلاف اس میں ہے کہ کیا کفر کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً کفر دون کفر وغیرہ جیسا کہ اہل سنت کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ایمان کے بھی مختلف درجات ہیں مثلاً ایمان دون ایمان؟اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ایمان کے 'مسمی' یعنی تعریف میں ان کا اختلاف ہے۔کیا ایمان قول و عمل کا نام ہے جو گھٹتا ہے اور بڑھتا ہے یا ایسا نہیں ہے؟اہل سنت کا اس بات میں بھی اتفاق ہے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے تو ہم بھی اسے کافر ہی کہیں گے کیونکہ یہ ناممکن امر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو کافر قرار دیں یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمبعض افعال کے مرتکبین کو کافر کہیں ' جیسا کہ پہلے احادیث گزر چکی ہیں' تو ہم ان افعال کے مرتکبین پر لفظ کافر کا اطلاق نہ کریں۔پس جس کا کہنا یہ ہے کہ ایمان قول و عمل کانام ہے اور یہ گھٹتا بڑھتا ہے تو اس کے نزدیک یہ 'کفر عملی 'ہے نہ کہ اعتقادی،اور ان علماء کے ہاں ایمان کی طرح کفر کے بھی کئی درجات ہیں جیسا کہ' کفردون کفر' ہے۔ اور جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ ایمان، تصدیق کا نام ہے اور عمل ایمان کے مسمی یعنی تعریف میں داخل نہیں ہے اور کفر،انکار کا نام ہے اور یہ دونوں کم یا زیادہ نہیں ہوتے تو انہوں نے کہا: یہ مجازی کفر ہے نہ کہ حقیقی، جبکہ حقیقی کفر وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے۔''
امام ابن أبی العز الحنفی رحمہ اللہ نے اس بحث کو بھی خوب اچھی طرح نکھارا ہے کہ 'حکم بغیر ما انزل اللہ' ہر صورت میں ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا نہیں ہوتا۔امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی حکمران ساری شریعت اسلامیہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالی نے شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلے کرنے کو واجب قرار نہیں دیا ہے یا وہ شریعت اسلامیہ کو تیقن کے ساتھ شریعت اسلامیہ سمجھتے ہوئے اس کااستہزاء و مذاق اڑاتا ہو تو اس صورت میں وہ ایسے کفر کا مرتکب ہو گا کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اور اگر کوئی حکمران شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنے کو واجب سمجھتے ہوئے ' اس کے مطابق فیصلے نہ کرے تو وہ کافر حقیقی نہیں بلکہ مجازی یا عملی کافر ہے ۔اور اسی طرح وہ قاضی یا حکمران جو اپنے اجتہاد میں خطاء کی بنیا د پر اللہ کے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو یہ مجتہد مخطی اور عند اللہ ماجور ہے۔امام صاحب لکھتے ہیں:
'' وھنا أمر یجب أن یتفطن لہ وھو : أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ قد یکون کفراینقل عن الملة وقد یکون معصیة کبیرة أو صغیرة ویکون کفرا : امامجازیا واما کفرا أصغر علی القولین المذکورین.وذلک بحسب حال الحاکم : فانہ ان اعتقد أن الحکم بما أنزل اللہ غیر واجب، و أنہ مخیر فیہ، أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم (اللہ) فھذا کفر أکبر.وان اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللہ وعلمہ فی ھذہ الواقعة وعدل عنہ مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبة، فھذا عاص و یسمی کفرا مجازیا أو کفرا أصغر.ومن جھل حکم اللہ فیھا مع بذل جھدہ واستفراغ وسعہ فی معرفة الحکم وأخطأ فھذا مخطی لہ أجر علی اجتھادہ وخطؤہ مغفور.'' (شرح عقیدہ طحاویة : ص ٣٠٤۔ ٣٠٥)
'' یہاں ایک اہم نکتے کو سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنا بعض اوقات ایک ایسا کفر ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے اور بعض اوقات یہ گناہ کبیرة یا گناہ صغیرة ہوتا ہے اور ان دو صورتوں میں اس کو مجازی کفر یا کفر اصغر کہیں گے اور اس کا فیصلہ حکمران کے حالات کے مطابق ہو گا۔اگر کسی حکمران کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا غیر واجب ہے یا اختیاری ہے یا اس نے کسی حکم شرعی کو تیقن کے ساتھ اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے اس کا مذاق اڑایاتو یہ تمام صورتیں کفر اکبر ہیں۔اور اگر کسی حکمران نے کسی واقعے میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کو تو واجب سمجھا لیکن اس نے اس شرعی حکم کے ساتھ اس مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جبکہ وہ اس بات کا معترف بھی ہو کہ وہ اپنے اس عمل کی بنا پر سزا کا مستحق ہے تو ایسا حکمران گناہ گار ہے اور اس کے کفر کو مجازی کفر یا کفر اصغر کہیں گے۔اسی طرح جو حکمران اپنی مقدور بھر کوشش اور طاقت صرف کرنے کے باوجود اللہ کا حکم معلوم نہ کر سکا اور اپنے اجتہاد میں خطا کی بنا پر اللہ کے حکم کے مطابق اس نے فیصلہ نہ کیا تو یہ حکمران مجتہد مخطی ہے اور اسے اپنے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور اس کی خطا قابل معافی ہے۔''
یہ واضح رہے کہ شیخ کے قول'ان الحکم بما أنزل اللہ غیر واجب،وأنہ مخیر فیہ'سے مراد مکمل شریعت کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنا ہے کہ اس میں اختیار ہے جبکہ بعض شرعی احکام میں تو اختیار خود شریعت نے خود دیا ہے ۔اباحت شرعی حکم ہی کی ایک قسم ہے اور کئی ایک شرعی احکام میں تخییر اللہ سبحانہ و تعالی ہی کی طرف سے ابتداء اًموجود ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ'أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم اللہ‘کے مطابق اہل سنت کے نزدیک شرعی احکام کا مذاق و استہزاء اس وقت ملت ِاسلامیہ سے خارج کرے گا جبکہ حکمران کو اس بات کا یقین ہو کہ جس کا وہ مذاق اڑا رہا ہے وہ ایک شرعی حکم ہے۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ حکمران کسی حکم شرعی کا مذاق اس بنا ہر اڑا رہا ہوتا ہے کہ وہ اسے اللہ کا حکم نہیں سمجھ رہا ہوتا ہے ۔پس اس صورت میں حکمران کی تکفیر میں اس کی جہالت مانع ہوگی۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی اکثریت احکام شریعہ سے جاہل بلکہ اجہل ہے ۔
(ا) لہٰذا ان حالات میں اگر کسی حکمران کے منہ سے کوئی ایسا جملہ نکل جائے تو اسےپہلے تنبیہ کی جائے ۔اللہ کا حکم اس پر واضح کیا جائے اور اس کے استہزاء پر اس کا جو دینی مقام(status) ہو گا وہ بھی مفتیان کرام کو واضح کرنا چاہیے ۔اس سب کے باوجود بھی اگر حکمران کسی شرعی حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے پر مصر ہو تو۔
(ب) پھر یہ دیکھا جائے گا کہ حکمران کسی تاویل کا سہارا تو نہیںلے رہا ہے اور اس تاویل کی وجہ سے اس شرعی حکم کو منسوخ یا مباح یا عارضی و وقتی حکم تو نہیں سمجھ رہا ہے۔اگر وہ کسی تاویل کا سہارا لے کر کسی شرعی حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کر رہا ہے تو اس کی تاویل کا علمی جواب دیا جائے گا۔
(ج)حکمران کی تاویل کے علمی جواب کے بعد بھی اگر وہ حکمران کسی شرعی حکم کا استہزاء کرے یا اس کے مطابق فیصلہ نہ کرنے پر اصرار کرے تو اب جمیع مکاتب فکر کے اکابر علماء کی ایک جماعت اس پر کفر کا فتوی لگائے نہ کہ گلی گلی پھرنے والے مفتی حضرات یا جذباتی نوخیز نوجوان۔ اگر حکمران کی تکفیر پر جمیع مکاتب فکر کے علماء کا اتفاق نہ ہو تو پھر ہر عالم دین کو اپنی اجتہادی رائے کے مطابق فیصلہ دینے کا اختیار ہو گا لیکن ایسے حکمران کو قطعی کافر یا قطعی دائمی جہنمی کہنا جائزنہیں ہو گا کیونکہ اس حکمران کی تکفیر اب ایک اجتہادی اور اختلافی مسئلہ ہے اور اجتہادی و اختلافی مسائل میں عموماً علم ظنی حاصل ہوتا ہے۔پس حکمران کی تکفیر میں علماء کے اختلاف سے شبہ پیدا ہو گیا ہے اور شبہ کی وجہ سے علم ظن حاصل ہوا۔
تکفیر سے پہلے اہل علم کی جماعت اس کی وضاحت حاصل کر لیں کہ حکمرانوں میں سے کون ایسا ہے جو شریعت اسلامیہ کو کلی طور پر غیر ضروری سمجھتا ہے یا اس کے احکام کا استہزاء اڑاتا ہے۔اور اگر کسی حکمران نے کسی شرعی حکم کا مذاق اڑایا ہو یا کسی غیر شرعی حکم کے مطاق قانون سازی کی ہو تو پھر یہ غور ہو گا کہ اس کی تکفیر میں جہالت'تاویل یا خوف مانع ہے یا نہیں؟ اور علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے ایسے حکمران کی جہالت دور کریں ' اس کی تاویل باطل کا جواب دیں ' اس کو وعظ و نصیحت اور أمر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں اور اس شرعی حکم کے انکار کے نتائج و عواقب سے ڈرائیں اور اگر پھر بھی وہ حکمران اپنے کفر پر اڑا رہے تو ان بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اکابر علماء کااجتماعی و اتفاقی فتوی ہی اس حکمران کی قطعی تکفیر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تکفیر کی یہی وہ کڑی شرائط ہیں کہ جن کی وجہ سے بعض اہل علم مثلاً حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ نے 'ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' کومطلق طور پر 'کفر دو ن کفر' یعنی ایسا کفر جو حقیقی کفر نہیں ہے' پر محمول کیا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
'' قال ابن عباس رضی اللہ عنھما: نہ لیس بالکفر یذھبون لیہ نہ لیس کفرا ینقل عن الملة (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ) کفر دو ن کفر.'' (مستدرک حاکم، جلد٢،ص ٣٤٢،دار الکتب العلمیة،بیروت)
'' حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا: جس کو وہ اختیار کرتے ہیں وہ کفر نہیں ہے۔بے شک وہ ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے۔ اور آیت مبارکہ 'و من لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' میں کفر دون کفر یعنی ایسا کفر جو کفر حقیقی نہیں ہے' کا ذکر ہے۔‘‘
امام حاکم اور امام ذہبی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(ایضاً)تفسیر طبری میں یہ قول عطاء اور طاؤس سے بھی مروی ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ تقریباً ناممکن ہے کہ ایک مسلمان حکمران جانتے بوجھتے اللہ کے حکم کا مذاق اڑائے یا اس کو غیر ضروری سمجھے۔جب بھی کوئی مسلمان حکمران اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو یا تو اس میں جہالت مانع ہو گی یا کوئی اور ایسادنیاوی عذر مثلاً دشمن کا ڈر و خوف وغیرہ ہو گاجو اس کے اس کفریہ فعل کو کفر حقیقی کے درجے سے نکال کر کفر مجازی اور کفر عملی میں داخل کر دے گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
آیت ولایت
مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کی دوسری بڑی بنیاد یہ آیت مبارکہ ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)(المائدة : ٥١)
'' اے اہل ایمان! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ' وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میںسے ان سے دوستی رکھے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ۔''
اس آیت مبارکہ سے حکمرانوں کی تکفیر پر ظاہری استدلال بوجوہ ناقص ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت میں یہ بات بالکل واضح موجود ہے کہ یہ خطاب اعتقاد یمنافقین سے ہے۔کیونکہ اگلی آیت مبارکہ کے الفاظ ہیں:
(فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة)(المائدة : ٥٢)
'' پس آپ ۖ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی یہود و نصاری میں گھستے چلے جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔''
اسی طرح اس سے اگلی دو آیات میں بھی منافقین ہی کا تذکرہ ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھٰؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ )۔(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافرِیْنَ)(المائدة : ٥٣۔٥٤)
'' اور اہل ایمان(ایک دوسرے سے )کہتے ہیں: کیا یہ ہیں وہ لوگ( یعنی منافقین) جنہوں نے اللہ کے بارے میں سخت قسمیں کھاکر کہا تھا کہ وہ لازماً تمہارے (یعنی مسلمانوں) کے ساتھ ہیں۔ان(منافقین) کے اعمال ضائع ہو گئے اور وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے۔اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا(مثلاً منافق ہو جائے گا) تو اللہ تعالی ایسی قوم کو لائیں گے جو اللہ سے محبت کرتی ہو گی اور اللہ اس سے محبت کرتے ہوں گے اور یہ قوم اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہو گی۔ ''
اسی لیے امام المفسرین' امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیات منافقین ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
'' غیر أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر لأن الآیة التی بعدہ ھذہ تدل علی ذلک وذلک قولہ : فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٥١)
'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایسے منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے بارے میں آنے والے زمانے کے حالات کے خوف سے کسی یہودی یا عیسائی کو قلبی دوست بنا لیتا تھا۔اس آیت مبارکہ کے بعد والی آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ آیت ہے:فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی أن تصیبنا دائرة۔''
پس اب ہم اس آیت کے قطعی و ظنی مفہوم کی تنقیح کی طرف آتے ہیں۔
پہلا نکتہ
اگر تو ہمارے حکمران اعتقادی منافق ہیں یعنی وہ یہود و نصاری کے مذہب کو باطل نہیں سمجھتے یا اپنے مذہب کی حقانیت کا انہیں یقین نہیں ہے اور پھربھی یہود و نصاری سے دوستی لگاتے ہیں تو ان کی تکفیر جائز ہے ۔لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ آپۖ کے زمانے کے اعتقادی منافقین کے عقیدے کے بارے تو بذریعہ وحی آپ کو علم ہو جاتا تھا لیکن آج کل کے اعتقادی منافقین کے نفاق کے بارے علم کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ اور بعض سلف صالحین کا کہنا یہ ہے کہ اعتقادی نفاق صرف آپۖ کے زمانے میں ہی تھا اس کے بعد عملی نفاق ہے جس کا احادیث میں تذکرہ ہے۔کیونکہ آپۖ کے زمانے میں عقیدے کا نفاق بذریعہ آیات قرآنیہ معلوم ہوتاتھا اور آج ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ہم کسی کے باطن میں جھانک کر یا کسی کا دل چیر کر یہ معلوم کر سکیں کہ اس کے دل میں بھی نفاق ہے یا نہیں ۔پس ظالم وفاسق مسلمان حکمرانوں پر عملی نفاق کا فتویٰ تولگے گا کیونکہ ان میں عملی نفاق کی ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں لیکن اعتقادی نفاق کا نہیں۔
بلاشبہ آج بھی اعتقادی منافق ہو سکتے ہیں لیکن بحث یہ ہو رہی ہے کہ کسی کے اعتقادی نفاق کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ شخص خود بتلائے کہ میں اعتقادی منافق ہو۔ پس جب کوئی حکمران یا عامی اپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہو تو اس کو اعتقادی منافق قرار دینا ناممکن' ناقابل فہم اورخلاف نصوص ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا) (النساء:٩٤)
'' جو تمہارے سامنے اپنے سلام (یعنی السلام علیکم کہے یا کلمہ شہادت)کو ظاہر کرے تو اس کو یہ نہ کہو: تم مومن نہیں ہو''۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں صریح ہے جو حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھتے ہیں اور وہ مسلمان عقیدے کے منافق بھی ہوں۔ اگر کوئی مسلمان حکمران حربی یہود و نصاریٰ سے دوستی تو رکھتا ہے لیکن ان کے مذہب کو باطل اور مذہب اسلام کو حق سمجھتا ہے تو ایسی دوستی اگرچہ حرام اورممنوع تو ہے لیکن اس کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایاجائے گا۔امام رازی اور امام ابن عادل الحنبلی لکھتے ہیں:
'' موالاة الکافر تنقسم ثلاثة أقسام : الأول : أن یرضی بکفرہ، ویصوبہ،ویوالیہ لأجلہ،فھذا کافر،لأنہ راض بالکفر ومصوب لہ. الثانی : المعاشرة الجمیلة بحسب الظاھر، وذلک غیر ممنوع منہ. الثالث : المولاة : بمعنی الرکون ا لیھم والمعونة والنصرة امابسب القرابة واما بسبب المحبة مع اعتقاد أن دینہ باطل فھذا منھی عنہ ولا یوجبہ الکفر.'' (اللباب فی علوم الکتاب : آل عمران : ٢٨) (تفسیر الرازی : آل عمران : ٢٨)
'' کافر سے تعلق ولایت تین قسم پر ہے: پہلی قسم تو یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس کے کفر پر راضی ہو اور اس کے کفر کی تصویب کرتا ہو اور اسی وجہ سے اس سے قلبی تعلق رکھتا ہو تو ایسا شخص بھی کافر ہے کیونکہ یہ کفر پر راضی بھی ہے اور کفر کی تصدیق بھی کرتا ہے۔دوسری قسم اس تعلق کی ہے کہ جس میں کسی کافر سے ظاہری طور پر اچھے طریقے سے معاشرت اختیار کرنا مقصود ہواور ایسا تعلق ممنوع نہیں ہے۔تیسری قسم اس تعلق کی ہے کہ جس میں کافروں پر اعتماد ' ان کی اعانت اور نصرت ہواور اس کا سبب یا تو قربات داری ہو یا پھران کی محبت ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عقیدہ بھی ہو کہ ان کا دین باطل ہے تو ایسا تعلق اگرچہ ممنوع ہے لیکن موجب کفر نہیں ہے۔''
دوسرا نکتہ
دوسری بات یہ ہے کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ سے دوستیاں اس وجہ سے کرتی ہے کہ وہ ان سے ڈرتے ہیں۔یعنی یہود و نصاریٰ کی ٹیکنالوجی کا ڈر' عیش پرستی' کاہلی و سستی ' موت کا خوف، مال اور عہدے کی محبت وغیرہ ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے حکمران حربی یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں۔پس اس صورت میں یہ حکمران فاسق و فاجر اور عملی منافق تو قرار پائیں گے لیکن ایسے کافر نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہوں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کے طور پر ان سے ظاہری دوستی کی اجازت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاةً) (آل عمران : ٢٨)
''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
حکمرانوں کے دلوں میں کافروں اور یہود و نصاری کا جو خوف ، دبدبہ اور رعب بیٹھا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ وہ ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اس آیت مبارکہ کایہ استثناء بہر حال یہود و نصاریٰ سے دوستی کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر میں ایک صریح مانع ہے۔اس آیت مبارکہ میں'تقاة'سے مراد سلف صالحین نے تقیہ اور خوف دونوں لیے ہیں۔امام شنقیطیالمالکی فرماتے ہیں کہ اگر دشمن کے خوف کے سبب سے کوئی مسلمان ان سے تعلق ولایت کا اظہار کرے تو یہ جائز ہے۔وہ 'یأیھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری أولیاء ' کے تحت لکھتے ہیں:
'' وبین فی مو ضع آخر : أن محل ذلک،فیماا ذا لم تکن الموالاة بسبب خوف وتقیة ون کانت بسبب ذلک فصاحبھا معذور وھو قولہ تعالی : لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْتَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة.'' (أضواء البیان : المائدة : ٥١)
'' ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہود و نصاری سے یہ تعلق ولایت کسی خوف یا بچاؤ کے سبب سے نہ ہو' اور اگر یہود و نصاری سے تعلق ولایت اس سبب( یعنی خوف یا ان کی اذیت سے بچاؤ) کے تحت ہو تو ایسا شخص معذور ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کا قول ہے:''پس اہل ایمان' اہل ایمان کو چھوڑتے ہوئے کافروں کودوست نہ بنائیں اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم (یعنی اہل ایمان) ان کافروں (کی اذیت )سے بچنا چاہو کچھ بچنا''۔
امام نسفی الحنفی نے بھی یہی معنی بیان فرمایا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
'' (اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقَاة) الا أن تخافوا من جھتھم أمرا یجب اتقاؤہ أی لا أن یکون للکافر علیک سلطان فتخافہ علی نفسک ومالک فحینئذ یجوز لک ا ظھار الموالاة وابطان المعاداة.'' (تفسیر نسفی : آل عمران : ٢٨)
'الا أن تتقوا منھم تقاة' کا معنی یہ ہے کہ تمہیں ان کی طرف سے کسی ایسے امر کا اندیشہ ہو کہ جس سے بچنا لازم ہویعنی یہ کہ کسی کافر کو تم پر غلبہ حاصل ہو اور تمہیں اس کافر سے اپنے جان اور مال کا خوف لاحق ہو تو اس وقت تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کافر سے دوستی کا اظہار کرو اور اس سے دشمنی کو چھپا لو۔''
امام بیضاوی الشافعی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے کہ خوف کے وقت دشمن کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔وہ لکھتے ہیں:
'' منع عن موالاتھم ظاھرا وباطنا فی الأوقات کلھا لا وقت المخافة فن اظھار الموالاة حینئذ جائز.''(تفسیر بیضاوی : آل عمران : ٢٨)'
'اللہ تعالیٰ نے جمیع حالات میں کفار سے ظاہری یا باطنی تعلق ولایت قائم کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے خوف کی حالت کے ' کیونکہ اس حالت میں کافر سے تعلق ولایت کا اظہار جائز ہے۔''
تیسرا نکتہ
یہ واضح رہے کہ(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) میں اصلاً مراد اعتقادی منافقین ہیں جیسا کہ آیت کے ْسیاق و سباق سے واضح ہے اور اس آیت کا قطعی مفہوم یہی ہے۔لیکن تبعاً اس خطاب میں مسلمان بھی شامل ہیں۔پس اگر اعتقادی منافق مسلمان، یہود و نصاری سے دوستی رکھے تو اس کی تکفیر ہو گی جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور اگر کوئی ظالم وفاسق مسلمان حربی یہود و نصاری سے دوستی رکھے تو پھر(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)سے مراد تحذیر میں شدت(یعنی ڈرانے اور دھمکانے میں مبالغہ) ہے۔جیسا کہ قرآن کی آیت(فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ)اور حدیث مبارکہ((مَنْ حمل عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا)) میں اصل مقصود شدت تحذیر ہے نہ کہ ملت سے اخراج۔امام رازی (وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) قال ابن عباس : یرید کأنہ مثلھم وھذا تغلیظ من اللہ وتشدید فی وجوب مجانبة المخالف فی الدین ونظیرہ قولہ ( ومن لم یطعمہ فنہ منی).'' (تفسیر رازی : المائدة : ٥١)
'' و من یتولھم منکم فنہ منھم کا معنی حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ بیان کیا ہے کہ گویا کہ وہ شخص انہی یعنی کفار کی مانند ہو گا۔اور یہ اللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنارہ کشی کے وجوب کے بارے ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے اور اس کی مثال اللہ تعالی کا قول'ومن لم یطعمہ فنہ منی'ہے ۔''
امام بیضاوی نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔ (تفسیر بیضاوی : المائدة : ٥١)۔
امام نسفی الحنفی کا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔امام صاحب(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
'' من جملتھم وحکمہ حکمھم وھذا تغلیظ من اللہ وتشدید فی وجوب مجانبة المخالف فی الدین.''(تفسیر نسفی : المائدة : ٥١)
'' یعنی وہ شخص من جملہ انہی میں سے ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو ان کا حکم ہے اور یہاللہ کی طرف سے دین اسلام کی مخالفت کرنے والے کفار سے کنار ہ کشی کے وجوب کے بارے میں ایک سختی اور شدت کا اسلوب ہے۔''
ابن عاشور المالکی نے تو اس بات پر امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کافر یا غیر مسلم سے تعلق ولایت رکھتا ہے، کفار سے محبت رکھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے لیکن ان کے مذہب کو صحیح نہیں سمجھتااور اسلام کو دین حق سمجھتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور ضال تو ہے لیکن بالاتفاق کافر نہیں ہے۔ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ(وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) سے مراد یا تو تحذیر و تشدید ہے یا پھر کافر کے دین کو صحیح سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ولایت کا تعلق قائم کرنے پر یہ وعید ہے اور مختلف علماء نے اس آیت کی ان دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔وہ فرماتے ہیں:
'' (وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ) من شرطیة تقتضی أن کل من یتولاھم یصیر واحدا منھم...وقد تأولھا المفسرون بأحد تأویلین : ما بحمل الولایة فی قولہ ومن یتولھم علی الولایة الکاملة التی ھی الرضی بدینھم والطعن فی دین الاسلام ولذلک قال ابن عطیة : ومن تولاھم بمعتقدہ ودینہ فھو منھم فی الکفر والخلود فی النار وأما بتاویل قولہ : فنہ منھم علی التشبیة البلیغ أی فھو کواحد منھم فی استحقاق العذاب قال ابن عطیة : من تولاھم بأفعالہ من العضد ونحوہ دون معتقدھم ولا خلال بالیمان فھو منھم فی المقت والمذمة الواقعة علیھم... وقد اتفق علماء السنة علی أن ما دون الرضا بالکفر وموالاتھم علیہ من الولایة لا یوجب الخروج من الربقة السلامیة ولکنہ ضلال عظیم وھو مراتب فی القوة بحسب قوة الموالاة وباختلاف أحوال المسلمین.'' (التحریر والتنویر: المائدة : ٥١)
'' ومن یتولھم منکم فنہ منھم میں 'من' شرطیہ ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ جس نے بھی ان کفار سے تعلق ولایت قائم کیا وہ انہی میں سے ایک ہو گا...لیکن مفسرین نے اس آیت کی دو میں سے کوئی ایک تاویل کی ہے۔یا تو اللہ تعالی کے قول 'ومن یتولھم'میں ولایت سے مراد ولایت کاملہ یعنی کافروں کے دین پر راضی ہو جانا اور دین اسلام پر طعن کرناہے ۔اسی لیے ابن عطیہ نے کہا ہے:جس نے کفار سے تعلق ولایت اپنے عقیدے اور دین کی وجہ سے رکھاتو ایسا مسلمان کفر اور دائمی جہنمی ہونے کے اعتبار سے انہی کفار کی مانند ہے۔اس آیت کی دوسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ یہ تشبیہ بلیغ ہے]تشبیہ بلیغ اس کو کہتے ہیں کہ جس میں حرف تشبیہ محذوف ہو[ یعنی مراد یہ ہے کہ مسلمان عذاب کا مستحق ہونے میں انہی کفار جیسا ہے۔ابن عطیہ نے کہا ہے:جس مسلمان نے ان کفار سے تعلق اپنے افعال مثلاً ان کی مدد ونصرت وغیرہ کے ذریعے رکھا لیکن انکے جیسا اس کا عقیدہ نہیں ہے اور نہ ہی ان افعال کی وجہ سے اس کا ایمان غائب ہوا ہو تو ایسا مسلمان اللہ کے اس غصے اور مذمت کا مستحق ہے جو ان کفار کے بارے میں وارد ہوئی ہے...علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب تک کفر پر رضامندی کے بغیر اور کفار سے کسی معاہدے کی بنا پر اس سے تعلق ولایت صادر ہوتو ایسا تعلق اسلام کے دائرے سے اخراج کا باعث نہیں ہے لیکن ایک بڑی گمراہی ضرور ہے اور اس گمراہی کے مراتب بھی کفار سے تعلق ولایت کی شدت اور مسلمانوں کے احوال و ظروف کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔''
چوتھا نکتہ
یہ بھی ضمناً واضح رہے کہ حربی کفار اورحربی یہود و نصاری کے ساتھ تعلق ولایت جائز نہیں ہے لیکن ان کے ساتھ معاہدات اورمعاملات وغیرہ جائز ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاری کے ساتھ معاہدات کیے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ تجارت کی۔اسی طرح مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ آپۖ کا قرض کا معاملہ چلتا رہتا تھایہاں تک کہ آپۖ کی وفات ہوئی اور آپۖ ایک یہودی کے مقروض تھے۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر،باب ما قیل فی درع النبیۖ)
پانچواں نکتہ
غیر حربی کفار اور یہود و نصاری کے ساتھ احسان و حسن سلوک بھی جائز ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
'' (لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْنَ).'' (الممتحنة : ٨)
''اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمہیں منع نہیں کرتا کہ تم ان کافروں سے حسن سلوک کرو یا انصاف کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔''
چھٹا نکتہ
غیر حربی کفار اور یہود و نصاری کے ساتھ تعلق ولایت( قلبی تعلق) رکھنے کے بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں۔ایک قول تو یہ ہے کہ غیر حربی کفار کے ساتھ بھی تعلق ولایت رکھنا حرام ہے۔اس قول کے دلائل وہ تمام آیات ہیں کہ جن میں کفار کے ساتھ تعلق ولایت قائم کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِکُمْ لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَائُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ) (آل عمران : ١١٨)
'' اے اہل ایمان! تم اپنے علاوہ (کافروں) کو رازدان نہ بناؤ جبکہ وہ تمہاری خرابی وتباہی میں کوئی کمی نہیں کرتے اور وہ چاہتے ہیں (وہ چیز)جو تمہیں مشقت میں ڈالے۔تحقیق ان کی دشمنی و عداوت ان کی باتوں سے ظاہر ہو گئی ہے اور جو ان کے سینے چھپاتے ہیں وہ (بغض) تو اس سے بھی بڑا ہے(جس کو وہ ظاہرکرتے ہیں)۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَخَّذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَائَ) (المائدة : ٥٧)
'' اے اہل ایمان! نہ تم ان کافروں اور اہل کتاب کو قلبی دوست بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل تماشہ بنا لیا۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُّبِیْنًا) (النساء : ١٤٤)
''اے اہل ایمان! تم اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو قلبی دوست نہ بناؤ۔کیا تم چاہتے ہو کہ تم اللہ کے لیے اپنے خلاف کوئی واضح دلیل بناؤ۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (التوبة: ٢٣)'
'اے اہل ایمان! اپنے آباء و اجدار اور بھائیوں کو قلبی دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے ان سے تعلق ولایت رکھے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ)(المجادلة : ٢٢)
''(اے نبیۖ!) آپۖ ہر گز نہ پائیں گے اس قوم کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوں، چاہے وہ (مخالفین) ان کے آباء و اجداد یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ) (الممتحنة : ١)
'' اے اہل ایمان!تم میرے اور اپنے دشمنوں کو قلبی دوست نہ بناؤ۔تم ان کی طرف محبت و الفت کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ وہ اس کا انکار کر چکے جو ان کے پاس حق بات چکی ۔وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تمہیں صرف اس وجہ سے (تمہارے گھروں سے) نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاھَرُوْا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ)(الممتحنة : ٩)
'' سوا اس کے نہیں اللہ تعالی تم کو منع کرتا ہے کہ تم ان کفار سے قلبی تعلق رکھو جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال کیا اور تمہیں ' تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے پرمدد کی ۔اور جوکوئی ان کفار سے تعلق و لایت قائم کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَة حَسَنَة فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اِذَا قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَآئُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہ)(الممتحنة : ٤)
'' تمہارے لیے حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی زندگی میں بہترین أسوہ ہے جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو' بری ہیں ۔ہم نے تمہارا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے مابین دشمنی اور بغض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ظاہر ہوگیا یہاں تک کہ تم اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لاؤ۔''
جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس مسئلے میں تفصیل ہے ۔ہمارا رجحان اسی رائے کی طرف ہے۔اس قول کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ جن آیات میں کفار اور یہود و نصاری سے تعلق ولایت قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے ' انہی آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کفار اور یہود و نصاری سے حربی کافر'دین اسلام کے دشمن' اسلام سے نفرت و بغض کا اظہار کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے مرادہیں۔ آیت مبارکہ (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (التوبة : ٢٣) میں جن کافر رشتہ داروں سے تعلق ولایت رکھنے سے منع کیا گیا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے کفار ہیں جیسا کہ دوسری آیت اس کی وضاحت کر رہی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ)(المجادلة : ٢٢)
اسی طرح آیت قرآنی(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَائَ)(المائدة : ٥٧)میں دین کا مذاق اڑانے والے کفار و اہل کتاب اور آیت قرآنی (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَائُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ) (آل عمران: ١١٨) میں دین اسلام سے بغض کا اظہار کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرنے والے کفار اور آیت قرآنی (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ) (الممتحنة : ١) میں مسلمانوں سے جنگ اور ان پر ظلم کرنے والے کفار اور آیت قرآنی(لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ)(المجادلة : ٢٢) میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن کفار اور آیت قرآنی(اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاھَرُوْا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ)(الممتحنة :٩) میں حربی کفار اور ان کے معاونین اور آیت قرآنی (قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَة حَسَنَة فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اِذَا قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَآئُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہ)(الممتحنة : ٤) میں ہر ایسے مشرک سے کہ جس کا شرک صریح اور اکبر ہو اوروہ تصور توحید و وحدانیت ہی کا انکاری ہو'سے تعلق ولایت رکھنے سے منع کیا گیا ہے جیساکہ ہندوؤں اور اہل یونان کا معاملہ ہے۔ایسے کفار اگر قریبی رشتہ دار بھی ہوں تو پھر بھی ان سے تعلق ولایت رکھنا جائزنہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (التوبة : ٢٣)
یہ وہ کفار تھے جو تصور توحید کے سرے ہی سے قائل نہ تھے جیسا کہ ان کا آپۖ پر اعتراض ہی یہ تھاکہ آپ توحید کی دعوت کیوں دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کافروں کے عقیدے کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(اَجَعَلَ الْآلِھَةَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئ عُجَاب) (ص : ٥)
''کیا اس (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم!)نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا ہے۔بے شک یہ تو ایک بہت ہی عجیب بات ہے۔''
اس طرح وہ فلاسفہ' دہریے اور سیکولرطبقہ جو سرے سے خدا کے وجود کا ہی قائل نہیں ہے' ان سے بھی کسی قسم کا تعلق ولایت رکھنا قرآن کی درج بالا آیات کے منشاکے خلاف ہو گا۔
اس کے برعکس مسلمانوں کے جمیع فرق اور اہل کتاب کی اکثریت ایسی ہے جو تصور توحید اور اللہ کی وحدانیت کے عقیدے کے تو قائل ہیں اور اپنے مذہب کو دین توحید کا نام بھی دیتے ہیں لیکن تاویلات باطلہ کے ذریعہ شرک صریح اور شرک اکبر وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔پس جو مسلمان یا کتابی کسی شرک اکبر کا مرتکب ہو تو ایسے مشرکین، یعنی توحید ووحدانیت کے قائل مشرکین سے تعلق ولایت رکھنے سے منع نہیں کیا گیاہے۔اس کی دلیل قرآن کی وہ آیت ہے کہ جس میں اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیّبٰتِ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلّ لَّھُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَا آتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ) (المائدة: ٥)
''آج کے دن تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمارے لیے حلا ل ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن پاکدامن عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں اور اہل کتاب کی پاکدامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جبکہ تم انہیں ان کا حق مہر دے دو۔''
جب اہل کتاب کی عورت کو بیوی بنانے کی قرآن نے اجازت دی ہے تو بیوی کے بارے میں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اس سے تعلق ولایت قائم نہ ہو۔پس اس سے معلوم ہوا کہ تعلق ولایت قائم نہ کرنے کا حکم ہر کافر کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کافر اور مشرک کے بارے ہے جو تصور توحید کا منکر ہو یا دشمن اسلام یعنی حربی کافر ہو۔
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہر اس شخص سے تعلق ولایت رکھنا حرام ہے جو دین اسلام کا مذاق اڑاتا ہو جیسا کہ بعض کفار نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے کی کوشش کی یا وہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والا ہو یا وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے والا ہو یا اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہو یا دین اسلام کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کرنے والا ہے جیسا کہ اکثر یہود و ہنود کا معاملہ ہے یامسلمانوں کے خلاف لڑنے والے کفار کا معاون ہو یاوہ شرک اکبر اور شرک صریح میں مبتلا ہو اورتصورتوحیدیعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت کا سرے سے ہی انکاری ہو جیسا کہ ہنود کا معاملہ ہے۔ان تمام افراد سے تعلق ولایت یعنی دلی محبت رکھنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
عقیدہ الولاء والبراء
مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کی تیسری بڑی بنیاد عقیدہ 'الولاء و البراء' ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں صریح الفاظ میں اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کے دشمنوں سے قلبی محبت رکھنے' ان کو رازدان بنانے اور ان کو اپنا قریبی دوست بنانے وغیرہ سے منع فرمایا ہے۔پس آیت مبارکہ
١) (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا وَّدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَائُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُرْوُھُمْ اَکْبَرُ) (آل عمران : ١١٨)کے تحت کسی مسلمان کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی حربی کافر کو اپنا رازدان بنائے۔
٢) اسی طرح آیت مبارکہ (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُّبِیْنًا) (النساء : ١٤٤)کے تحت ایک مسلمان کے لیے کسی حربی کافر کو اپنا قلبی دوست بنانا حرام ہے۔
٣) اسی طرح (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ) (المائدة : ٥٧)کے تحت مذہب اسلا م کا مذاق اڑانے والے یہود و نصاری اور کفار سے تعلق ولایت رکھنا یعنی ان کے ساتھ ایسے گھل مل کر رہنا جیسے مسلمانوں کے ساتھ رہا جاتا ہے ' ایک مسلمان کے لیے حرام ہے۔
٤) اسی طرح(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ) (الممتحنة : ١)کے تحت حربی کفار سے تعلق ولایت یا ان کی مسلمانوں کے خلاف مدد یا جاسوسی کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے حرام ہے۔
٥) اسی طرح مسلمانوں کے لیے اپنے ان باپ' دادا سے بھی تعلق ولایت یعنی اہل ایمان جیسا تعلق رکھنا حرام ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ)(المجادلة : ٢٢)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (التوبة : ٢٣)۔ہاں ایسے کافر والدین سے حسن سلوک جائز ہے جیسا کہ بعض روایات میں اشارہ ہے۔حضرت اُم المؤ منین نے اپنے والد ابو سفیان کے بارے میں' جبکہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا'آپۖ سے سوال کیا تھا تو آپۖ نے ان سے حسن سلوک کی اجازت دی تھی۔
٦) اسی طرح مسلمانوں کے لیے حربی کفار سے کسی قسم کا بھی قلبی تعلق' محبت یا مودت رکھنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ وَلَوْ کَانُوْا آبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَائَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ) (المجادلة : ٢٢)
٧) مسلمانوں کے لیے حربی کفار سے کسی قسم کا حسن سلوک کرنا بھی حرام ہے سوائے اس کے وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ترک کر دیں یا اسلام قبول کر لیں۔ارشاد باری تعالی ہے(لاَ یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاھَرُوْا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تُوَلُّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (الممتحنة : ٨۔٩)
٨) اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے اس بنا پر تعلق ولایت رکھتا ہے کہ وہ اس کافر کے باطل دین پر دل سے راضی ہے یا دین اسلام کو حق دین نہیں سمجھتا تو اس عقیدے کے ساتھ یہود و نصاری سے تعلق ولایت رکھنا موجب کفر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ) (الممتحنة: ١٣)۔ اسی طرح ارشاد فرمایا(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)(المائدة : ٥١)
٩) مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ ایسے مشرکین اور کفار سے اعلان برات کریں جوتصور توحید کے قائل نہیں ہیں اور ان مشرکین وکفار کے ساتھ اپنے دل میں بغض' نفرت اور عداوت رکھیں یہاں تک کہ وہ اپنے اس کفر اور شرک سے باز آ جائیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے (قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَة حَسَنَة فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اِذَا قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَآئُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہ)(الممتحنة : ٤)
١٠) اگر کوئی مسلمان مذکورہ بالا احکامات پر عمل نہیں کرتا اور حربی کفار کے دین کو غلط اور اپنے دین کو حق سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ تعلق ولایت قائم کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ، فاسق و فاجر اور ضال تو ہے لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہے اور اس پر تقریباً علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے ۔علامہ ابن عاشور مالکی فرماتے ہیں:
'' وقد اتفق علماء السنة علی أن ما دون الرضا بالکفر وممالاتھم علیہ من الولایة لا یوجب الخروج من الربقة الاسلامیة ولکنہ ضلال عظیم وھو مراتب فی القوة بحسب قوة الموالاة وباختلاف أحوال المسلمین.'' (التحریر والتنویر : المائدة : ٥١)
'' علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب تک کفر پر رضامندی کے بغیر اور کفار سے کسی معاہدے کی بنا پر اس سے تعلق ولایت ہوتو ایسا تعلق اسلام کے دائرے سے اخراج کا باعث نہیں ہے لیکن ایک بڑی گمراہی ضرور ہے اور اس گمراہی کے مراتب بھی کفار سے تعلق ولایت کی شدت اور مسلمانوں کے أحوال و ظروف کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔''
ان آیات میں سے کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جو حربی کفار کے ساتھ دوستی رکھنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہے بلکہ ان آیات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ ایسے فعل کے مرتکب مسلمان گمراہ، ایک حرام فعل کے مرتکب، فاسق اور ظالم ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
خلاصہ کلام
1۔مخصوص، استثنائی اور ناگزیر حالات میں تکفیر ایک شرعی حکم ہے لیکن عام حالات میں تکفیر کی عمومی تحریکیں چلانا ایک تخریبی عمل ہے نہ کہ تعمیری۔ بلاشبہ 'نقض توحید کفر وشرک ہے' لیکن ہر ناقض توحید کو کافر ومشرک حقیقی بنا دینا دین اسلام کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔
2۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید اسماء وصفات کے ناقض معتزلہ، اشاعرہ یعنی شافعیہ اور مالکیہ، ماتریدیہ یعنی حنفیہ کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید الوہیت کے ناقض بریلوی اور وحدت الوجود کے قائل صوفیااور ان کے سلاسل اربعہ ، دیوبندی مکتبہ فکر میں وحدت الوجود کے قائل دیوبندی علماء کافر قرار پاتے۔اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا توسلفیہ کے نزدیک توحید حاکمیت کے ناقض مسلمان حکمران، ان کی اسمبلیاں، ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام، ان کی عدالتیں اور ان عدالتوں میں مقدمات کا دفاع کرنے والے وکلا، ان وکلا کو تعلیم دینے والے کالجز اور یونیورسٹیاں، ان کالجز اور یونیورسٹیوں میں لاء کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبااور تعلیم دینے والے اساتذہ، ان عدالتوں سے فیصلہ کروانے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' کے تحت کافر قرار پاتے ہیں۔اگر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہے تو سلفیہ کے نزدیک 'اتخذوا أحبارھم ورھبانھم أربابا من دون اللہ' کے تحت توحید ربوبیت کے ناقض مقلدین یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے ہیں۔
3۔۔'نقض توحید' کا قاعدہ تو بعد کی بات ہے لوگوں کو اگر کافر بنانا ہی مقصود ہے تو 'تارک صلوة' کے کافر حقیقی ہونے کے بارے کبار سعودی سلفی علماء کا فتوی ہی کافی ہے۔٩٨ فی صد عوام بے نماز ہونے کی وجہ سے ویسے ہی کافر وہ جائے گی لہذا لوگوں کو کافر بنانے کے لیے کسی توحید حاکمیت وغیرہ کے اصول کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
4۔علمی دیانت کاتقاضا یہ ہے کہ جو سلفی توحید حاکمیت کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کے قائل ہیں انہیں تکفیر کی ان تمام صورتوں میں یکساں طور پر تکفیر کا حکم لگانا چاہیے اور حکمرانوں کے ساتھ عوام اور مقلدین کی بھی تکفیر کرنی چاہیے اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی طرح ان بریلویوں، دیوبندیوں، مقلدوں، وجودیوں، صوفیوں، اشاعرة ، ماتریدیہ اور طاغوتوں کو مباح الدم قرار دیتے ہوئے ان سب سے قتال کرنا چاہے تاکہ ان کی اپنے نظریہ توحید میں صداقت واضح ہو سکے ۔اور غور کریں تو 'جماعة المسلمین' نے یہی تو کام کیا ہے اور آج یہی'جماعت المسلین' چار دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہاہے۔یہی حال اس وقت عالم عرب اور یورپ میں سلفیہ کا بھی ہے۔توحید حاکمیت کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے مسئلے میں سلفیہ کے تین گروپس بنے اور یہ تینوں سلفی گروپس ایک دوسرے کی بھی تکفیر کر رہے ہیں اور بڑے بڑے سلفی محققین ما شاء اللہ تکفیر کی یہ دینی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزار رحمہ اللہ نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ١٤ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے جتنے اس ایک صدی میں کافر بنا دیے ہیں۔یہ وصف ہمارے لیے فخر کا باعث ہے یا ندامت وشرمندگی کا؟ اس کا فیصلہ ہم میں سے ہر ایک نے خود کرنا ہے۔یعنی اللہ تعالی مجھ سے قیامت کے دن یہ سوال کرے کہ میرے بندے دنیا میں میرے دین کی کیا خدمت کی ہے؟ تو میں جواب دوں:یا اللہ!تیرے اتنے بندوں کو کافر بنا کے آیا ہے!!!
5۔ہمارے خیال میں فی زمانہ تکفیر سے زیادہ معاشرے کی اصلاح کے لیے دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت ہے جبکہ حکمرانوں کے ظلم وستم کے خلاف پرامن آئینی، قانونی، تحریکی ،انقلابی اور احتجاجی جدوجہدکی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں اس دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی میں ظلم کو ظلم ،فسق کو فسق، کفر کو کفر اور شرک کو شرکہر حال میں کہنا چاہیے اور اس پر کوئی مداہنت نہ ہو۔ اسی طرح اپنی دعوت میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے کفر اور شرک کے مرتکبین کو مجازاً کافر اور مشرک کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ہم کسی کو اپنی زبان میں 'بے ایمان' کہہ دیتے ہیں حالانکہ 'بے ایمان' کہنے سے ہماری مراد اس کی تکفیر ہر گز نہیں ہوتی ہے۔جہاں تک ایسی تکفیر کا معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے کسی مسلمان فرد یا جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا مقصود ہو توایسی تکفیر راقم کی رائے میں اسی صورت درست ہے جبکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اس تکفیر پر اتفاق ہو جائے۔
6۔باقی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے لیکن آج کس کے پاس ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا علم وبصیرت یافہم وفقاہت یا تقوی وتدین یا حکمت وفراست ہے؟ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تکفیر بھی کوئی عمومی تکفیر نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اصلاً کفریہ وشرکیہ افکار ونظریات کا کفر وشرک واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت میں چند ایک افراد پر فتوی بھی لگا دیا۔اہل سنت کے اس امام کے بارے ان کے سلفی متبعین میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کسی آیت مبارکہ کی تفسیر یا اہم رائے کے اظہار سے پہلے سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور اگرپھر بھی دل مطمئن نہ ہوتا تو صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دمشق کی ویران مساجد کی مٹی میں اپنے گالوں کو رلا دیتے تھے۔ فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سورة فاتحہ کی تکرار کے ذریعے صراط مستقیم کے طلب گار رہتے ۔ یاحی یا قیوم کہنے پر ان کی روح وجد میں آ جاتی اور اپنی جنت اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔آج ایسا خوف خدا یا تقوی وتدین کس مفتی کے پاس ہے؟
7۔باقی رہی قرآن وسنت کی نصوص، تو ان میں کسی متعین شخص یا جماعت کی تکفیر نہیں کی گئی ہے بلکہ ان میں اطلاق ہے اور ان نصوصکی تطبیق (application) کر کے ہی کسی شخص یا جماعت کی تکفیر ممکن ہے اور قرآن وسنت کی نصوص کاتطبیق کا نام ہی' اجتہاد' ہے اور اجتہاد سے حاصل شدہ علم ظنی ہوتا ہے الا یہ کہ اس اجتہاد پر اجماع ہو جائے۔ آج اگر کوئی علم وفضل اور تقوی وللہیت میں ان جیسا ہے تو اسے تکفیر کر لینی چاہیے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس مسلمان معاشرے میں اصلاح باطن ، تزکیہ نفس، دعوت الی اللہ اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکا کام نبوی اخلاص،جذبے،منہج، ایثار وقربانی اور محنت و مشقت کے ساتھ ہو رہا ہو اس معاشرے میں تکفیر کی کبھی سوچ اور خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا تھا:
ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔
یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین !
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
حواشی
1۔خلافت عثمانیہ میں 1850ءمیں فرانسیسی قانون کے مطابق 'قانون تجارت' وضع کیا گیابعد میں 1875ء'قانون اراضی' نافذ ہوا۔ اس کے بعد فرانسیسی قانون کے نمونے پر' قانون فوجداری' وضع کیا گیا۔ لیکن بعد میں اطالوی قانون زیادہ مفید نظر آیا' تو اس کے مطابق ترمیمیں کر لی گئیں۔1816ءتجاری عدالتوں کا' قانون اساسی' نافذ ہوا۔ 1886ءبحری تجارت کا قانون اور 1880ء میں عدالت ہائے دیوانی کا' قانون اساسی' بنایا گیا' اور 1911ء میں س کا تکملہ وضع ہوا۔ 1960ء میں 'قانون اجرا' جاری ہوا۔ ان کے علاوہ دوسرے قوانین بھی وضع کیے گئے۔ جیسے یتیموں کے مال کی تنظیم' اور احکام صلح کا قانون اور شرعی عدالتوں کا قانون اساسی وغیرہ۔
2۔مدخلی سلفی سے مراد 'شیخ محمد ربیع المدخلی الیمنی'کے پیروکار ہیں۔ انہیں 'شیخ محمد امان الجامی الاثیوبی' کی نسبت سے 'جامی سلفی'کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 'شیخ مقبل بن ھادی الوداعی' نے اس سلفی مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی۔ اس کے دیگر نمائندہ علما میں سے 'شیخ علی الحلبی اردنی' اور 'شیخ محمد البنا مصری' وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے۔ جہادی سلفی ان پر 'مرجئی سلفی' کا لیبل بھی چسپاں کرتے ہیں۔
جہادی سلفی سے مراداسامہ بن لادن، ایمن الظواہری،تنظیم القاعدہ اور اس کے متبعین ہیں۔ان کے نمائندہ علمی رہنماں میں 'شیخ ابو محمد المقدسی' اور 'شیخ ابو قتادہ فلسطینی'اور'شیخ ابو بصیر طرطوسی' وغیرہ ہیں۔اس گروپ کو ان کے مخالفین 'تکفیری سلفی' اور 'خوارجی سلفی' کا نام بھی دیتے ہیں۔
شیخ ڈاکٹر سفر الحوالی اور شیخ ڈاکٹر سلمان العودہ کو جدید سلفیت کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اور ان کے متبعین کو 'جدید سلفی' کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ ان کے افکار جہادی سلفیوں سے بہت مختلف ہیں۔
'علمی سلفی' کویت کی ایک سلفی تحریک ہے جس کے نمائندہ علما میں 'شیخ عبد الرحمن عبد الخالق' اور شیخ 'عبد الرحمن الشایجی' اور 'شیخ حامد العلی ' وغیرہ شامل ہیں۔یہ واضح رہے کہ یہ بھی جہادی سلفی نہیں ہیں بلکہ ان سے علیحدہ ایک گروپ ہے۔
بعض اہل علم نے انتخابات میں حصہ لے کر نظام کی تبدیلی کا نظریہ رکھنے والوں سلفیوں کو'حزبی سلفی' کا نام دیاہے ۔ انہیں بعض ممالک میں 'سروری سلفی' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے جیساکہ بحرین کے سلفیہ کی ایک جماعت جو 'شیخ محمد زین العابدین بن سرور' کی طرف منسوب ہے'سروری سلفی' کہلاتی ہے۔'اخوانی سلفی'سے مرادمصر کی جماعت'الاخوان المسلمون' سے تعلق رکھنے والے سلفی حضرات ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ اور ان کے متبعین علما و سلفیہ کی جماعت 'البانین سلفی' کہلاتی ہے انہیں جہادی سلفی'مرجئی سلفی' کا الزام دیتے ہیں۔ جہادی سلفیہ کے نزدیک جو سلفی وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں تو وہ 'مرجئی سلفی' ہیں۔
'قطبی سلفی' سے مراد وہ سلفی ہیں جو اپنی تحریروں میں سید قطب شہید سے بہت زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔ 'سعودی سلفی' سے مراد سعودی عرب کے سلفی علما اور ان کے متبعین ہیں۔اس کے علاوہ بھی'اصلی سلفی' اور 'یورپی سلفی' اور 'برمنگھمی سلفی' وغیرہ کے نام سے سلفیوں کی کئی ایک قسمیں معروف ہیں ۔
http://www.islamonline.net/Arabic/contemporary/2004/07/article01l.shtml
4۔شیخ بن باز رحمہ اللہ نے سید قطب کے صحابہ کے بارے طعن کو سن کر کہا : یہ خبیث کلام ہے اور سید قطب کی ایسی کتابوں کو پھاڑدینا چاہیے۔ انبیا کے بارے سید قطب کے غیر مناسب کلمات سن کر شیخ بن باز رحمہ اللہ نے ان کے اس فعل کو ارتداد قرار دیا۔اسی طرح استوا علی العرش کے بارے سید قطب کا کلام سن کر شیخ بن باز رحمہ اللہ نے انہیں 'مسکین ضائع فی التفسیر' کا لقب دیا۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سید قطب کے بارے کہا: انہیں نہ تو دین اسلام کے اصولوں کا علم تھا اور نہ ہی فروعات کااور وہ دین اسلام سے منحرف تھے۔شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے وحدت الوجود کے بارے سید قطب کا کلام سن کر کہا:سید قطب نے بہت بڑی بات کی ہے اور یہ اہل سنت و الجماعت کی مخالفت ہے۔ اسی طرح شیخ نے ایک دوسرے مقام پر سید قطب کی تفسیر کے بارے کلام کرتے ہوئے کہا : ان کی تفسیر کو پڑھنے کی نصیحت نہیں کی جا سکتی۔ شیخ حماد انصاری نے کہا : اگر سید قطب زندہ رہتے تو ان سے توبہ کروائی جاتی اور اگر وہ توبہ نہ کرتے تو ان کو ارتداد کی حد میں قتل کر دیا جاتا۔ شیخ صالح الفوزان نے کہا : سید قطب کو عالم کہنا جائز نہیں ہے ' وہ صرف ایک مفکر ہیں اور اگر سید قطب کی جہالت مانع نہ ہوتی تو ہم ان کے الحادی کلام کی وجہ سے ان کی تکفیر کرتے۔ شیخ صالح اللحیدان نے کہا: ان کی کتابیں اہل سنت کے عقیدے کے مخالف مواد سے بھری پڑی ہیں اور سید قطب عالم دین نہیں تھے۔ شیخ عبد اللہ الدویش نے سید قطب کی تفسیر میں ان کے بعض اقوال کے بارے فرمایا:یہ اہل اتحاد ملحدین کا قول ہے جن کا کفر یہود و نصاری کے کفر سے بڑھ کر ہے۔علمائے ازہرنے سید قطب شہید کی کتاب 'معالم فی الطریق' سے دور رہنے کی تلقین کی ہے ۔ سعودی سلفی علما میں سے شیخ ربیع المدخلی ' شیخ ابن غدیان ' شیخ محسن العباد' شیخ صالح آل الشیخ اور شیخ عبد اللہ عزام وغیرہ نے بھی سید قطب شہید کے افکار و نظریات پر نقد کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:
http://www.fatwa1.com/anti-erhab/Qutb/index.html
h ttp://www.4non.net/showthread.php?p=92848
سلفی علما میں سے شیخ سلیمان العود نے سید قطب کا کسی قدر دفاع کیا ہے اور وہ سید قطب پر نقد کرنے میں معتدل نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے بھی سید کی بعض اخطا کا اقرار کیا ہے مثلا استوا علی العرش کی تاویلات باطلہ ' جبکہ بعض اقوال کی ان کی طرف نسبت کو خطا قرار دیا ہے جیسا کہ وحدت الوجود کا قول اور بعض اقوال پر خاموشی اختیار کی ہے جیسا کہ صحابہ کے بارے سید قطب کے نظریات۔تفصیل کے لیے دیکھیں :
http://www.islamonline.net/Arabic/contemporary/2004/07/article01e.shtml
5۔1857ء میں مصری حکومت نے ایک فرانسیسی وکیل استاذ مونوری ' جو مصر میں مقیم تھے' کو مختلط عدالتوں کے لیے فرانسیسی قانون سازی کے طرز پر قوانین وضع کرنے کا کام سونپا۔پس استاذ مونوری نے فرانسیسی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے مصر کے مدنی قوانین' بری و بحری تجارت کے قوانین' دعوی دائر کرنے کے قوانین 'جرائم کی سزا اور ان کی تحقیق کے قوانین وضع کیے۔یہ قانون 'مخلوط قانون مدنی' کے نام سے ٥٧٨١ میں جاری ہوا۔(الاسلام وتقنین الاحکام فی البلاد السعودی:ص٩٤٢)
6۔تکفیر کی تحریک سے ہماری مراد متعین طور پر مسلمان حکمرانوں اور معاشروں کی تکفیر کی تحریک ہے جبکہ توحید حاکمیت کی بنا پر تکفیر کی اصولی بحثیں کرنا جیسا کہ قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں' وہ تقریبا ہر دور میں رہی ہیں اگرچہ ان اصولی ابحاث کو بیان کرنے والے علما بھی بہت کم رہے ہیں۔
7۔ہم نے اپنے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالہ 'عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ' کے ایک باب میں اس موضوع سے متعلق فریقین کے دلائل تفصیل سے جمع کر دیے ہیں اور ہماری رائے میں سعودی علما کا یہ موقف راجح ہے کہ مجتہد فیہ اور اختلافی مسائل میں قانون سازی شرعا جائز نہیں ہے' چاہے کسی مروجہ فقہ کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔
8۔شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ نے جہاد افغانستان کے حق میں تو فتوی دیا تھا لیکن وہ مسلمان ممالک میں مسلمان حکومتوں کے خلاف جہاد کے سخت مخالف تھے۔شروع میں شیخ اسامہ بن لادن ' شیخ عزام کے افکار سے متاثر تھے اور ان کے شاگرد بھی رہے۔شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ نے ٤٨٩١ میں 'مکتب الخدمات للمجاھدین' نامی ادارے کی پشاور میں بنیاد رکھی اور اسامہ بن لادن کو افغان مجاہدین کی خدمت کی دعوت دی۔شیخ اسامہ نے اس دعوت کو قبول کیا۔ لیکن 1988ءمیں شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ اوراسامہ بن لادن کے مابین اختلاف کا آغاز ہوا اور اسی سال اسامہ بن لادن افغانستان چلے گئے جہاں انہوں نے ڈاکٹر ایمن الظواہری سے تعلق قائم کر کے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ایمن الظواہری سے تعلق قائم ہونے کے بعد شیخ اسامہ بن لادن پر تکفیری اثرات غالب آگئے۔شروع میں شیخ بن لادن بھی اپنے استاذ شیخ عبد اللہ عزام کی طرح مسلمان حکمرانوں کی تکفیر یا ان کے خلاف خروج کے قائل نہ تھے لیکن بعد میں یہی اسامہ بن لادن تکفیر میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے بعض مجاہدین کی بھی تکفیر شروع کر دی۔ شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ اور اسامہ بن لادن کے ان اختلافات کی تفصیل شیخ عزام کی اہلیہ اور ان کے داماد شیخ عبد اللہ انس الجزائری نے بیان کی ہیں۔شیخ عبد اللہ انس الجزائری؎80ءکی دہائی میں شمالی افغانستان میں عرب مجاہدین کے قائد بھی رہے ہیں۔ان دونوںحضرات کے تفصیلی انٹرویوز درج ذیل ویب سائیٹس پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
جريدة البينة الجديدة
زوجة الشيخ عبدالله عزام:قتل مسعود وصمة كبرى في تاريخ ابن لادن | دنيا الوطن
9۔ان علما میں سے ایک ابو بصیر طرطوسی ہیں۔ان حضرت نے شیخ الازہر علامہ سید طنطاوی' مصری عالم دین سید رمضان بوطی اور علامہ یو سف قرضاوی کی تکفیر کی ہے۔مسلمان علما کی تکفیر کے سلسلے میں ان کی کتاب 'قوافل زنادقةالعصر' اور' لماذا کفرت الشیخ یوسف القرضاوی' کا مطالعہ کریں ۔انہوں نے اپنے مقالہ 'هيئة كبار العلما والسیاسة میں کبار سعودی علما اور 'فتاوی اللجنةالدائمة/ARB] پر بھی انتہائی سطحی طعن کیاہے۔ان کی اتباع میں آج کاپاکستانی جہادی نوجوان شیخ بن باز ' شیخ صالح العثیمین اور شیخ صالح الفوزان جیسے جلیل القدر ائمہ اہل سنت کو سرکاری اور درباری مولوی قرار دیتا ہے۔ان کی نادر تحقیقات کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ جہمیہ میں سے تھے۔اپنی اس تحقیق کا اظہار انہوں نے اپنے مقالے 'مذاہب الناس فی الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی' میں کیا ہے۔ان کی کتاب 'زنادقةالعصر' کے مطابق تقریبا آدھی سے زیادہ امت کافر قرارپاتی ہے۔ اور یہ صاحب خود لندن میں برطانوی طاغوتی حکومت کی زیرسرپرستی 'مستامن' کی اصطلاح کا حیلہ کر کے امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 7، 7 کے لندن دھماکوں کا شروع میں شیخ طرطوسی صاحب نے شدت سے انکار کیا تھااور اسے ایک شرمناک فعل قرار دیا ۔یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی شخص برطانیہ میں اس وقت تک داخل اور مقیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ان کے طاغوتی آئین یا قانون کو سپریم لا نہ مان لے اور اس بات کا اقرار نہ کر لے کہ وہ ان کے ملک میں قیام کے دوران ان کے طاغوتی قانون کا فرمانبردار ہو گا۔ ان بنیادوں کو سامنے رکھیں اور شیخ ابو بصیر کے منہج تکفیر کو استعمال کریں تو سب سے پہلے خود شیخ کی تکفیر لازم آتی ہے کیونکہ مسلمان ممالک کے قوانین میں تو کفر اور اسلام دونوں موجود ہیں جس وجہ سے ان کا کفر علما کی ایک جماعت کے ہاں مشتبہ اور اختلافی امر ہے جبکہ برطانیہ اور امریکہ کے آئین یا قانون کے کفر اور طاغوت ہونے میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے لہذا قطعی طور پر ثابت شدہ کفریہ آئین اور قانون کی تابعداری کا حلف اٹھانے والا اور انہیں سپریم لا ماننے کااقرار کرنے والا شخص شیخ ابو بصیر طرطوسی کی نظر میں کافر کیوںنہیں ہے؟ ابو بصیرطرطوسی صاحب اپنے اس کفریہ فعل کی تاویل پیش کرسکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پھر شیخ قرضاوی ' طنطاوی ' بوطی یا مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی تاویلات کیوں قابل قبول نہیں ہیں؟ شیخ طرطوسی کے تکفیر کے فتاوی کے لیے دیکھیں:
|
http://www.abubaseer.bizland.com/index.htm
Abd-al Mun'em Mustafa Halima Abu Basir - Wikipedia, the free encyclopedia
10۔شیخ محمد بن ابراہیم اس عملی کفر کو اعتقادی کفر کی ایک قسم قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا حکمران اور جج وضعی قوانین کو عملامصدر شریعت کا مقام دے رہا ہوتا ہے ۔شیخ محمد بن ابراہیم کے اس اصول کے مطابق تمام مسلمان ممالک کے حکمران'قانون وضع کرنے والی اسمبلیاں'ان قانون وضع کرنے کا حق دینے والے عوام' ان قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدلیہ اور ججز' ان قوانین کا دفاع کرنے والے وکلا' ان قوانین اور دساتیر پر اعتماد کا اظہار کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور ان قوانین کے مطابق عدالتوں سے فیصلے کروانے اور ان فیصلوں پر رضامندی کا اظہار کرنے والے عوام الناس بھی کافر قرار پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان مسلمان ممالک سے ہجرت کرنے کو فرض قرار دیا ہے جن میں وضعی قانون کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں ۔ قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے حکمرانوں کی تکفیر سے متعلقہ فتوی کو نقل کرنے والے ان کے ہجرت کے اس فتوی کو نقل نہیں کرتے۔ شیخ فرماتے ہیں:
ھل تجب الھجرة من بلاد المسلمین التی یحکم فیھا بالقانون ؟ فاجاب : البلد التی یحکم فیھا بالقانون لیست بلد اسلام تجب الھجرة منھا.( فتاوی ورسائل الشیخ محمدبن ابراہیم آل الشیخ : ٦٨٨١)
11۔علاوہ ازیں شیخ محمد بن ابراہیم کے اس فتوی کی بنیاد پر ان کے زمانے میں ہی ان میں اوربعض کبار سلفی علما میں شدید وحشت کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اور یہاں تک بعض شیوخ اپنی تحریروں اور تقاریر میں ان کا پورا نام بھی نہ لیتے تھے بلکہ 'ابن ابراہیم' کہتے ہیں جو ایک نامناسب طرز عمل ہے لیکن اس سے سلفی علما کے اس مسئلے میں شیخ محمد بن ابراہیم سے اختلاف کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ (صیحة النذیر بخطر التکفیر: ص٩٩)
12۔تفصیل کے لیے کتاب ' اقوال العلما المعتبرین فی تحکیم القوانین' کا مطالعہ فرمائیں۔ جو درج ذیل ویب سائیٹس پر عربی اور اردو میں دستیاب ہے:
http://www.fatwa1.com/anti-erhab/Hakmeh/Qwaneen.html
www.AsliAhleSunnet.com
category&id=44&Itemid=58
13۔[Database Error جريدة الغد -سفر الحوالي.. والسلفية الإصلاحية
14۔www.AsliAhleSunnet.com
=category&id=66&Itemid=92
15۔ http://www.asliahlesunnet.com/index.php?option=com_content&
view=category&id=44&Itemid=58
16۔www.AsliAhleSunnet.com
=category&id=55:2009-10
-15-03-50-08&Itemid=69&layout=default
17۔ حنبلی علما بھی تقلید کے خلاف ہیں 'فتاوی اللجن الدائم 'کی پانچویں جلد کے مقدمہ میں لجن کا جومنہج تحقیق بیان کیا گیا ہے وہ عدم تقلید اور قرآن وسنت کی اتباع کا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اہل الحدیث مذاہب اربعہ اوردیگرائمہ ' فقہا اور علما کی اتباع اور ان سے رہنمائی لینے کے قائل ہیں لیکن تقلید جامد کے نہیں۔ اہل الحدیث علما کے لیے اجتہاد کے قائل ہیں جبکہ عوام الناس کے لیے تقلید(یعنی بغیر دلیل معلوم کیے پیروی) کی بجائے اتباع(یعنی دلیل معلوم کرنے کے بعد پیروی کرنے کے)قائل ہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق علما رہنما ہیں نہ کہ منزل یعنی رستہ دکھانے والے ہیں۔
18۔قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ اس ویب سائیٹ کے ایڈیٹر طارق علی بروہی صاحب نے جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی شخصیت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ایک منصف مزاج عالم دین جانتا ہے کہ ان حضرات میں خیر کا پہلو بہت غالب ہے۔
19۔مثال کے طور پر حجاج بن یوسف کی حدود حر م اور بیت اللہ میں محصور عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب پر سنگ باری کو کفریہ فعل کا نام نہ دیاجائے تو اوراسے کیا کہا جائے گا؟۔تاریخ کی مستند کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ اس سنگ بار ی کے نتیجے میں بیت اللہ کی دیواریں بھی متاثر ہوں ۔ (تاریخ الطبری:جلد3، ص 361،دار الکتب العلمية' بیروت) بنو امیہ کے خلاف خروج میں ابن اشعث کے ساتھ علما اور قرا کی ایک بہت بڑی جماعت بھی شامل تھی۔اس جماعت کے معروف فقیہ عبد الرحمن ابی لیلی نے اپنے ساتھیوں کو بنوامیہ کی افواج کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے جو تقریر کی' اس میں انہوں بنو امیہ کے حکمرانوں پر 'المحلین المحدثین المبتدعین' کا الزام لگایا۔(ایضا: ص٥٣٦)اسی طرح حضرت نفس زکیہ نے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے خلاف خروج سے پہلے جو اسے خط لکھاتھا' اس خط کی ابتدا ہی قرآن کی آیت 'ان فرعون علا فی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائف منھم یذبح ابنائھم و یستحی نسائھم نہ کان من المفسدین و نرید ان نمن علی الذین استضفوا فی الارض و نجعلھم ائم و نجعلھم الوارثین و نمکن لھم فی الارض و نری فرعون و ھامان و جنودھما منھم ما کانوا یحذرون'سے کی تھی۔(ایضا:جلد٤' ص١٣٤) حضرت نفس زکیہ نے اپنے ایک خطبہ میں ابو جعفر المنصور کو طاغوت اور اللہ کا دشمن قرار دیااوراسے فرعون سے تشبیہ دی اور اس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا لیا ہے۔(ایضا:ص٥٢٤)
اسی وجہ سے علما کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس میں جو خروج ہوئے تھے ' اس کی وجہ اس وقت کے حکمرانوں کا صرف فسق و فجور نہیں تھا بلکہ ان حکمرانوں کی طرف سے شریعت اسلامیہ کو تبدیل کردینا' حرام کو حلال بنانا اور کفر کا اظہاردر اصل ان کے خلاف خروج کی وجہ تھا۔ (شرح النووی:جلد12۔ ص 229،دار حیا التراث العربی' بیروت)۔یہ تو بنو امیہ کے زمانے کے قصے ہیں بنوعباس میں سے ابو العباس سفاح نے بنوامیہ کے خاندان کو چن چن کر قتل کروایا بلکہ ان کی قبروں سے ان کی ہڈیاں نکال کر جلائی گئیں۔ فاطمی خلفا کن کفریہ عقائد کے حامل تھے وہ تاریخ کے کسی طالب علم سے مخفی نہیں ہے۔ اندلس کے مسلمان امرا
ان معاصر عیسائی سلطنتوں کی مدد سے مدتوںاپنے مسلمان بھائیوں کی گردنیں اڑاتے رہے۔بعض عثمانی سلاطین نے اپنی خلافت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کروایا۔ برصغیر میں مغل حکومت کی دینداری اور خاص طور دین اکبری کے بارے تو مذہب کا ایک ادنی سا طالب بھی وافر معلومات رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اصل خلافت ' خلافت راشدہ ہی تھی اور بنوامیہ کے آخری دور میں حکمرانوں میں اس قدر اخلاقی اور دینی بگاڑ آچکاتھا کہ اس وقت سے لے کر عثمانی خلافت تک بادشاہ کا حکم وہی تقدس رکھتا تھا جو آج کل کی مسلمان ریاستوں میں آئین کو حاصل ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو خلافت بنوعباس' سلطنت عثمانیہ اور مغل حکومتوں کے دور میں حنفی فقہ اور اندلس کی خلافت میں فقہ مالکی اور ظاہری فقہ نافذ تھی لیکن اصل فیصلہ کن حیثیت ان فقہوں کی بجائے بادشاہ کے کلام کو تھی اور جب بادشاہ کسی کا خون حلال کرناچاہتا تھا تو اس وقت اسے کوئی فقہ' قاضی یا عدالت نہ روک سکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ان ادوار میں اصل آئین بادشاہ کے الفاظ تھے ۔فافھم وتامل۔البتہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے فاطمی خلفا کی تکفیر کی ہے۔(مجموعة التوحید : ص ٧١١)
20۔یہی وجہ ہے کہ بعض شرکیہ اور کفریہ اعمال کی بنیاد پر شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی طرف سے حنفی عوام و علما کی تکفیر اور ان حنفی عوام و علما سے قتال سے حنفیہ کے خاتمةالمحققین ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے اختلاف کیا ہے۔ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''مطلب فی اتباع عبد الوھاب الخوارج فی زماننا...کما وقع فی زماننا فی اتباع عبد الوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین واتوا ینتحلون مذھب الحنابلة لکنھم اعتقدوا انھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقادھم مشرکون واستباحوا بذلک قتل اھل السنة وقتل علمائھم حتی کسر اللہ شوکتھم وخرب بلادھم وظفر بھم عساکر المسلمین عام ثلاث وثلاثین ومائتین والف.''(رد المحتار' کتاب الجھاد' باب البغا)
علامہ ابن عابدین کا یہ حوالہ نقل کرنے سے یہ مقصود ہر گز نہیں ہے کہ ان کے ان عتراضات کی تحسین کی جا رہی ہے بلکہ مقصود کلام یہ ہے کہ اس طرح کی تکفیر یا سختی رد عمل پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف سے بھی تکفیر اور خوارجیت اور ضلالت کے فتاوی کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔
21۔قادیانی جو کہ غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں ' ان کی تکفیر میں جمیع مسالک و مکاتب فکر کا اتفاق ہے لہذا ان کی تکفیر قطعی طور پر ثابت ہے۔
الحمد للہ رب العلمین!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top