• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید کا مطلب اور اس کی اقسام کا بیان

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
[JUSTIFY]
توحید کا مطلب اور اس کی اقسام کا بیان​
توحید کا مطلب: خلق اور تدبیر میں اللہ تعالی کو ایک مانا جائے ، عبادت کو اسی کے لیے خالص کیا جائے ، اور اس کے سوا ہرکسی کی عبادت سے اجتناب کیا جائے ، اور اللہ تعالی کے جو اسماء ِحسنی اور اعلی صفات ہیں ان کا اثبات کیا جائے ، اور ہر نقص اور عیب سے اللہ تعالی کو پاک قرار دیا جائے ، گویا اس تعریف کے اعتبار سے توحید کی تین اقسام اس میں شامل ہوگئیں ، جن کا (تفصیلی) بیان درج ذیل ہے :
توحیدِ ربوبیت اور وہ درج ذیل فصلوں پر مشتمل ہے:

فصل اول : توحیدِ ربوبیت کا مفہوم ، اس کا فطری ہونا اور مشرکین کا بھی اس کا اقرای ہونے کا بیان ۔
فصل دوم : قرآن اور سنت میں لفظ "الرب" کے مفہوم اور گمراہ امتوں کے اس بارے میں تصورات اور ان کے رد کا بیان ۔
فصل سوم : تمام کائنات اور اس کی فطرت کا اللہ تعالی کے تابع فرمان اور مطیع ہونے کا بیان
فصل چہارم : خلق، رزق اور دیگر معاملات میں اللہ تعالی کی وحدانیت ثابت کرنے کےقرآنی انداز کا بیان ۔
فصل پنجم : توحید ربوبیت توحید الوہیت کو مستلزم ہے کا بیان ۔
[/COLOR]
فصل اول : توحید ربوبیت کے مفہوم ، اس کا فطری ہونا اور مشرکین کا بھی اس کا اقراری ہونے کا بیان
توحید : عام مفہوم کے اعتبار سے یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی تمام کائنات کے رب ہیں ،عبادت کو خالصتاً اللہ تعالی کے لیے ادا کرنا اور اللہ تعالی کے تما م اسماء حسنی اور اعلی صفات کا اثبات واقرار کرنا توحید کہلاتا ہے ،پس یہ تین اقسام کی ہوئی :
1- توحید ربوبیت ، 2- توحید الوہیت ، 3- توحید اسماء و صفات ، اور ہر قسم کا ایک خاص مفہوم ہے جسے بیان کرنا نہایت اہم ہے تاکہ ان تینوں اقسام میں جو فرق ہے وہ واضح ہوجائے :
۱ - توحید ربوبیت:
اللہ تعالی کو اس کے افعال کے ساتھ مخصوص کردینا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی اکیلے ہی تمام مخلوقات کے خالق ہیں :
﴿ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ (الزمر: 62)
﴿ اللہ ہر چیز کا خالق (پیدا کرنے والا) ہے ﴾​
اور وہ تمام جانوروں، انسانوں اور دیگر مخلوقات کو رزق دیتا ہیں :
﴿ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ﴾ (ھود: 6)
﴿ زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالی کے ذمہ ہیں﴾​
اور یہ کہ اللہ تعالی مالک الملک ہیں ، اور اس جہاں کے تمام معاملات کا انتظام سنبھالا ہوا ہے ، جسے چاہتا ہے نوازتا ہے اور جسے چاہے محروم رکھتا ہے ، جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت سے ہمکنار کرتا ہے ، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، رات اور دن کو چلاتا ہے ، زندگی اور موت دیتا ہے:
﴿ قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (آل عمران: 26-27)
﴿ آپ کہہ دیجئے اے اللہ ! اے تمام جہان کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے * تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں لے جاتا ہے ، تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے ، اورتو ہی ہے کہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے ﴾
اور اللہ تعالی نے اسی طرح سے اس بات کی نفی کی ہے کہ مملکت میں اس کا کوئی شریک یا مددگار ہو جس طرح اس نے اس بات کی نفی کی کہ خلق(پیدا کرنے) اور رزق (دینے) میں اس کا کوئی شریک ہو ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ﴾ (لقمان: 11)
﴿ یہ ہے اللہ تعالی کی مخلوق ، اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ ﴾​
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ﴾ (الملک: 21)
﴿ اگر اللہ تعالی اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا ؟ ﴾​
اسی طرح اللہ تعالی نے تمام مخلوقات پر اپنی ربوبیت کی انفرادیت کا اعلان فرمایا :
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الفاتحہ)
﴿ سب تعریف اللہ تعالی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ﴾
اور فرمایا :
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ (الاعراف: 54)
﴿ بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے ، پھر عرش پر مستوی وبلند ہوا ، وہ شب سے دن کو ایسے طور پر چھپادیتا ہے کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آلیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں ، یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا ، بڑی برکتوں والا ہے اللہ تعالی جو تمام عالم کا رب ہے ﴾
اللہ تعالی نے اپنی ربوبیت کا اقرار تمام مخلوقات کی فطرت میں رکھ دیا ہے ، یہاں تک کہ وہ مشرکین جو عبادت میں اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرایا کرتے تھے وہ بھی ربوبیت میں اللہ تعالی کی انفرادیت کا اقرار کرتے تھے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ﴾ (المؤمنون: 86-89)
﴿ آپ (ﷺ) ان مشرکوں سے دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت باعظمت عرش کا رب کون ہے ؟ * وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ، کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ *دریافت کیجئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا ، اگر تم جانتے ہو تو بتلادو ؟ * یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ، کہہ دیجئے پھر تم کدھر سے جادو کردیے جاتے ہو ؟ *﴾
اس توحید کے خلاف بنی نوع انسانی کا کوئی بھی فرقہ نہیں گیا ، بلکہ دلوں میں اس کا اقرار فطرتا ً دوسری موجودات کے اقرار کی بنسبت زیادہ جاگزین ہے ، جیسا کہ رسولوں کا یہ قول اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
﴿قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ (ابراہیم: 10)
﴿ ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا اللہ تعالی کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے !﴾
سب سے زیادہ مشہور شخص جس نے رب سے تجاہل برتا اور ظاہراً انکار کیا وہ فرعون ہے ، جبکہ باطن میں اسے یقین تھا ، جیسا کہ موسی علیہ السلام نے اس سے فرمایا :
﴿قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ﴾ (الاسراء: 102)
﴿ موسی علیہ السلام نے (فرعون کو) جواب دیا کہ یہ تو تجھے علم ہوچکا ہے کہ آسمان و زمین کے رب ہی نے یہ معجزے دکھانے ، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں ﴾
فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا﴾ (النمل: 14)
﴿انہوں نےصرف ظلم اور تکبر کی بنا پر انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے ﴾​
ایسا ہی حال آج ان کمیونسٹ (دھریہ) لوگوں کا ہے جو رب کا انکار کرتے ہیں ، وہ صرف تکبر کی بنا پر ظاہری اعتبار سے انکار کر رہے ہیں ، حالانکہ باطن میں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہر موجود کا لازماً کوئی موجد ) بنانے والا ( ضرور ہے ، ہر مخلوق کا لازماً کوئی خالق ہے اور ہر اثر کا لازماً کوئی پیدا کرنا والا ہے، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَا يُوقِنُونَ﴾ (الطور: 35-36)
﴿ کیا یہ بغیر کسی ) پیدا کرنے والے ( کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ * کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ﴾
تمام عالم پر غور کیجئے ، عالم بالا اور سُفلٰی ، اس کے تمام اجزاء میں ، آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے بنانے والے کی ، اپنے خالق ومالک کی گواہی دے رہے ہیں۔ لہذا بنانے والے کا انکار کرنا عقل اور فطرت میں بالکل ایسا ہے جیسا کہ علم کا انکار کرنا ، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ، آج کمیونزم رب کا جو انکار کر رہی ہے( )، وہ درحقیقت تکبر کی وجہ سے ہے ، عقل اور صحیح انداز ِفکر کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہے ، اور جس کا حال ایسا ہو تو اس نے در حقیقت عقل کا استعمال ختم کردیا ہے اور لوگوں کو اپنا مذاق اڑانے کی دعوت دی ہے ۔
شاعر نے کہا :
كـــيف يعصـــى الإلــه ويجحـــــده الجـــــاحد
وفي كل شيء له آية تــدل علـى أنـه واحـد
کیسے الہٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کیسے انکار کرنے والا انکار کرتا ہے
جبکہ ہر چیز میں اس کی نشانی ہے جو نشاندہی کر رہی ہے کہ وہ ایک ہے
[/SIZE][/JUSTIFY]
 
Top