• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید کی فضیلت اوراس کے منافی امور سے اجتناب

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
توحید کی فضیلت اوراس کے منافی امور سے اجتناب

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ :

حمدوثناء کے بعد :

میرے دینی بھائی : ہم آپ کی خدمت میں توحید کی فضیلت اور اس کے منافی مختلف طرح کے چھوٹے بڑے شرک و بدعت سے متعلق کچھ باتیں پیش کررہے ہیں تاکہ آپ شرک و بدعت سے بچ سکیں۔
توحید یہ اول ترین فریضہ ہے جس کی تمام تر انبیاء نے دعوت دی اور یہی ان کی دعوت کی جڑ اور بنیاد تھی ، ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔( النحل : ۶۳)
'' ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرواور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو''۔
بندوں پر اللہ کاسب سے بڑا حق توحید ہی ہے چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کاشریک نہ ٹھہرائیں ۔
لہذا جس نے توحید کے تقاضوں کو پورا کیا وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے توحید کے منافی اور اس کے مخالف امور کا ارتکاب کیایا ان کے درست ہونے کاعقیدہ رکھا وہ جہنم کامستحق ہوا۔
توحید ہی کی خاطر اللہ نے رسولوں کو اپنی قوموں سے اسوقت تک لڑتے رہنے کاحکم دیا جب تک کہ وہ توحید کوتسلیم نہ کرلیں، نبی ﷺ نے فرمایا : مجھے لوگوں سے لڑتے رہنے کاحکم دیا گیا ہے حتی کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے''۔
توحید کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ثابت و قائم کرناامت کے اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کاذریعہ ، اور اس میں خرابی باہمی پھوٹ اور انتشار کاسبب ہے ۔
بردارعزیز ! آپ اس بات کو ذہن نشین کر لیں ۔ اللہ مجھ پر اور آپ پر رحم فرمائے ۔ کہ معاملہ یہ نہیں ہے کہ جس نے بھی کلمئہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا وہ موحد ''توحید کاماننے والا '' ہوگیا ، بلکہ ان سات شرطوں کاپایا جانا ضروری ہے جن کااہل علم نے ذکر کیا ہے ۔
۱۔ علم : یعنی کلمئہ لا الہ الا اللہ کامعنی اور اس کے پہلے جز کی نفی اور دوسرے جزء اثبات سے کیامراد ہے؟ اس کی معرفت حاصل کرنا، اس کلئمہ توحید کا معنی یہ ہے کہ :اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے ۔
۲۔ یقین: کلمہ کے مدلوں پرپکایقین رکھنا ۔
۳۔ قبول: اس کلمہ کے مقتضی و مطالبہ کو دل و زبان سے قبول کرنا۔
۴۔ انقیاد: کلمہ کے مقتضی کے مطابق عمل کرنا ۔
۵۔ صدق: یعنی زبان سے کلمہ کا اقرار رکرنا اور دل سے اس کی تصدیق کرنا ۔
۷۔ محبت :کلمہ اور اس کے مدلول سے محبت ہو۔
دینی ساتھیو ! جس طرح ہمارے اوپر توحید کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ثابت و قائم کرنا اور کلمئہ لا الہ الا اللہ کی شرطوں کو مکمل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح ہرقسم کے چھوٹے بڑے شرک اور اس تک پہنچانے والے تمام تر راستوں سے خوف اور اجتناب بھی ضروری ہے ، کیوں کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے، اللہ تعالی کے سوا بندہ مسلم کے ہر گناہ کو معاف فرمادے گا جس کے لئے چاہے گا ۔
لہذا جو شرک میں جاگرا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ، اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار پایا ، اللہ عزوجل نے فرمایا : اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۔(النساء:۴۸)۔
'' یقیناً اللہ تعالی اپنے ساتھ شرک کرنیوالے کو نہیں بخشتا ، اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتاہے۔ ''
میرے دینی بھائی ! ہم ذیل میں اہل علم کے بیان کی روشنی میں توحید کے منافی ، یااس میں خرابی پیداکرنے والے بعض امورکا ذکر کرتے ہیں تاکہ آپ ان سے بچ سکیں ۔
۱۔ تکلیف اور مصیبت دور کرنے کے لئے پیتل ، تانبا،لوہا وغیرہ کاکڑا، چھلا اور دھاگاپہننا شرک ہے ۔
۲۔ شرکیہ جھاڑ ، پھونک تعویز اور گنڈے۔
شرکیہ جھاڑ ، پھونک وہ ہیں جو مبہم لکیروں اور غیر مفہوم سمجھ میں نہ آنے والی عبارتوں پر مشتمل ہوں اور ہر بیماری کے اکتشاف یاجادو چھڑانے یا تعویزوں کے بنانے میں جنوں سےمدد طلب کی گئی ہو۔
اور تعویز گنڈے سےمراد وہ دھاگہ یا گھٹری ہے جو کسی انسان یا جانور کولٹکا دی جائے اگر ان میں کتاب و سنت کے منافی بدعیہ چیزیں لکھی ہوئی ہوں تو وہ اہل علم کے اتفاق کے ساتھ جائز نہیں ہیں بلکہ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق کتاب و سنت کی دعاؤں پر مشتمل تعویز بھی درست نہیں ہیں کیوں کہ یہ شرک کے اسباب میں سے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جھاڑ پھونک تعویز اور محبت کامنتر یہ سب شرک ہیں ''۔
اسی طرح کسی کاغذ تانبے یالوہے کے ٹکڑے پر اللہ کانام یا آیت الکرسی لکھ کر گاڑیوں میں لٹکانا یا قرآن شریف گاڑی کے اندر اس اعتقاد سے رکھنا کہ اس سے گاڑی ہر طرح کی آفت و بلا اور نظر بد وغیرہ سے محفوظ رہے گی شرک کی قبیل سے ہے۔
اسی طرح ہتھیلی کی شکل کاکوئی لوہا یااس میں آنکھ کی شکل بناکر نظر بد سے حفاظت کے لئے گھر یاگاڑی میں رکھنا قطعاً درست نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا '' جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا'' (احمد ترمذی حاکم )۔
۳۔ کسی شخص کو حصول تبرک کے لئے چھونا یادرختوں اور پتھروں وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا توحید کے منافی ہے ا س سے توحید بگڑتی اور اس میں خرابی پیداہوتی ہے حتی کہ خانہ کعبہ کوتبرک کے لئے چھونا درست نہیں ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا :
'' بے شک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے توکوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کوتمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا توتجھے بوسہ نہ دیتا''۔
۴۔ اللہ تعالی کے علاوہ اولیاء ، شیطانوں اور جنوں وغیرہ کے نام پر جانور ذبح کرنا تاکہ ان کو راضی کرکے ان سے نفع حاصل کیاجائے اور ان کے شر سے بچا سکے توحید کے منافی شرک اکبر ہے، جس طرح اللہ تعالی کے سوا دوسروں کے نام پر ذبح کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح جس جگہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح جس جگہ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں وہاں اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے تاکہ شرک کے ذرائع اور اس کے وسائل کاسد باب ہوسکے۔
۵۔ اسی طرح اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے نذر و نیاز توحید کےمنافی شرک اکبر ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور کسی بھی عبادت کو اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لئے انجام دینا قطعاً درست نہیں ہے ۔
۶۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے سے مدد یا پناہ طلب کرنا شرک اکبر کی قبیل ہے ، رسول اکرم ﷺ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا :'' جب مانگو تو اللہ سے مانگو اور جب مددطلب کرو تو اللہ سے طلب کرو''۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جنوں کو مدد کے لئے پکارنا شرعاً ممنوع ہے ۔
۷۔ توحید میں خرابی پیداکرنے والی چیزوں میں سے اولیاء و صالحین کے بارے میں غلو کرنا اور انہیں ان کے مقام سے آگے بڑھانا ہے اس غلو کا سبب ان کی تعظیم میں حد سے آگے بڑھنا ، یا انہیں رسالت کے مقام تک پہونچا دینا ، یاان کے معصوم ہونے کااعتقاد رکھنا ہے۔
۸۔ قبروں کاطواف توحید کے منافی شرک کی قبیل سے ہے قبر کے پاس نماز جائز نہیں ہے کیونکہ یہ شرک تک پہنچانے کاذریعہ ہے پھر اس پر کیاحکم لگایا جائے جو قبر والے ہی کے لئے نماز اورعبادت کرنے لگے ؟!
۹۔ توحید کے تحفظ ہی کے پیش نظر قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر مساجد اور قبوں کی تعمیر سے روکا گیا (کیونکہ یہ عمل ناجائز ہونے کے ساتھ شرک تک پہونچانے والا ہے )۔
۱۰۔ جادوگری اور اسی طرح جادوگروں ، کاہنوں اور نجومیوں وغیرہ کے پاس جانا عقیدہ توحید کے منافی ہے ، جادوگر کافر ہیں ان کے پاس جاکر ان سے کچھ پوچھنا اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنا قطعاً جائز نہیں ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اولیاء اور مشائخ کے نام سے موسوم کریں ۔
۱۱۔ پرندوں ، بعض دنوں ، مہینوں یاکسی شخص سے بدشگونی لینا حرام نیز عقیدہ توحید میں خرابی پیداکرنے والی چیز ہے چنانچہ بدشگونی شرک ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہواہے:'' بدشگونی شرک ہے ''(مسند احمد )۔
۱۲۔ کلی طور پر دل کو اسباب ہی سے جوڑ لینا مثلاً ڈاکٹر ، علاج، ملازمت وغیرہ اور اللہ پر بھروسہ نہ رکھنا توحید میں خرابی پیداکرنے والی چیز ہے جبکہ شریعت کاحکم یہ ہے کہ اسباب اختیار کئے جائیں مثلاً علاج کرنا، روزی کمانا وغیرہ لیکن دل کو اللہ ہی سے وابستہ رکھاجائے نہ کہ ان اسباب سے ۔
۱۳۔ علم نجوم اور ستاروں کو مقصد تخلیق کے علاوہ میں استعمال کرنے سے توحید میں خرابی پیداہوتی ہے چنانچہ مستقبل کی غیبی خبریں وغیرہ جاننے کے لئے ستاروں کااستعمال قطعاً جائز نہیں ہے۔
۱۴۔ اسی طرح ستاروں نچھتروں اور موسموں سے بارش طلب کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ ستارے ہی بارش کو آگے پیچھے کرتے ہیں توحید کے منافی ہے جبکہ بارش کانازل فرمانیوالا اور اس کاروکنے والااللہ ہی ہے چنانچہ ۔ بارش کے نزول پر ۔ کہو :'' اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لئے بارش ہوئی ہے ''۔
۱۵۔ قلبی عبادتیں مثلاً محبت یاخوف وغیرہ کو اللہ تعالی کے سوا کسی مخلوق کے لئے انجام دینا توحید کے منافی ہے۔
۱۶ ۔ عقیدہ توحید کو بگاڑ کرنیوالی چیزوں میں سے اللہ تعالی کی تدبیر اور عذاب سے بے خوف اور اس کی رحمت سے ناامید ہوجانا ہے ۔
چنانچہ تم اللہ کی تدبیر سے بے خوف اور اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو بلکہ خوف و رجاء کے مابین رہ کر رب کی تدبیروں سے ڈرتے رہواور اس کی رحمتوں کی امید لگاؤ۔
۱۷۔ عقیدہ توحید کو مجروح کرنے والی چیزوں میں سے اللہ تعالی کی تقدیر پر صبر نہ کرنا ہے بلکہ بے صبری کامظاہرہ کرتے ہوئے تقدیر پر ایمان کے منافی الفاظ و کلمات کااستعمال کرنا، مثلاً کوئی یوں کہے اے اللہ تو میرے یافلاں کے ساتھ ایسا کیوں کرتاہے؟ اے اللہ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ یانوحہ و ماتم کرنا، گریبان پھاڑنا ،بالوں کو بکھیرنا یہ ساری چیزیں تقدیر الہی پر رضامندی کے منافی ہیں ۔
۱۸۔ اسی طرح ریاو نمود ، شہرت طلبی اور نیک اعمال کے ذریعہ دنیا حاصل کرنا توحید میں خلل و خرابی پیداکرنے والے ہیں ۔
۱۹۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنانے اور اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنانے میں علماء و حکام وغیرہ کی بات ماننا توحید کے منافی شرک ہے۔
۲۰۔ اس طرح کے جملے، (جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں )، (اگر اللہ اور آپ نہ ہوتے ) ، ( میں نے اوراللہ اور فلاں پر بھروسہ کیا)، توحید میں خرابی پیداکرتے ہیں ، صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے جملوں میں لفظ، (ثم) یعنی (پھر) ضرور استعمال کیاجائے مثلاً یوں کہاجائے : (جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)، (اگر اللہ نہ ہوتا تو پھر فلاں نہ ہوتے )، (میں نے اللہ اور پھر فلاں پر بھروسہ کیا)، کیونکہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانا چاہیں توکہیں :'' رب کعبہ کی قسم ''، اور کہیں : ''جو اللہ نے چاہا اور پھر تم نے چاہا ''(نسائی )۔
۲۱۔ اسی طرہ زمانہ ، دنوں اور مہینوں کوگالی دینے سے توحید خراب ہوتی ہے۔
۲۲۔ دین اسلام یارسولوں یاقرآن کریم یا احادیث رسول اللہ ﷺ کامذاق اڑانا ، توحید کے منافی ہے، اسی طرح نیک اور شریعت کاعلم رکھنے والے افراد کامذاق اڑانا بھی توحید کے منافی ہے، اس لئے کہ وہ سنتوں پر عمل پیرا افراد ہیں ، جس کے مظاہر ان پر داڑھی کوپورے طور پر چھوڑنے ، مسواک کرنے، اور کپڑے کو ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی شکل میں نمایاں ہیں ۔
۲۳۔ اسی طرح عبدالنبی (نبی کابندہ )یا عبدالکعبہ(کعبہ کابندہ)یا عبدالحسین (حسین کابندہ)وغیرہ نام رکھنا توحید کے منافی ہے، بلکہ بندگی کی نسبت صرف اور صرف اللہ کی جانب ہونی چاہیئے جیسے عبداللہ (اللہ کابندہ)عبدالرحمن (رحمن کابندہ )وغیرہ ۔
(نوٹ :ہر وہ نام جس میں بندہ کی نسبت غیر اللہ کی جانب کی گئی ہو حرام ہیں )از مترجم ۔
۲۴۔ توحید کو مجروح کرنے والی چیزوں میں سے ذی روح کی تصویر بنانا، پھر اسے دیواروں اور مجلسوں میں آویزاں کرکے ان کی تعظیم کرنا ہے۔
۲۵۔ اسی طرح صلیب کانشان بنانا، یا اسے کپڑے وغیرہ پر یوں ہی بنا ہوا چھوڑ دینا ، توحید کے منافی ہے جبکہ صلیب کوتوڑ دینا ، یااس کے نشان کو سرے سے مٹادینا ضروری ہے۔
۲۶۔ کافروں اور منافقوں سے محبت رکھنا، اور ان کی آؤ بھگت کرنا، اور انہیں سید کہہ کر پکارنا توحهد کے منافی ہے۔
۲۷۔ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے خلاف فیصلے کرنا، اور غیر اسلامی وضعی قوانین کو شریعت اسلامیہ کی جگہ رکھنا ، اور یہ اعتقاد رکھنا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین شرعی قوانین کے مقابلہ میں زیادہ مبنی پرعدل ہیں ،یااس کے مساوی ، یااس سے بہتر اور وقت حاضر کے لئے زیادہ موزوں ہیں ، لوگ ان غیر اسلامی قوانین کے نفاذ سے راضی ہوں یہ ساری چیزیں توحید کے منافی ، بلکہ اس کے نواقض میں سے ہیں ۔
۲۸۔ توحید میں خلل پیدا کرنے والی چیزوں میں سے اللہ کے سوا نبی، امانت ، یاکسی مخلوق کی قسم کھانا ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :''جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا ، یاشرک کیا''۔
دینی بھائیو! نواقض توحید یااس کے منافی امور کے ذکر کے بعد ہم عرض کرتے ہیں کہ جس طرح ہماری اوپر توحید کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ثابت و قائم کرنا ، اور اس کے منافی امور سے اجتناب کرناضروری ہے، اسی طرح عقائد و اخلاق پر دونوں گوشوں میں اہل سنت والجماعت ۔ فرقہ ناجیہ۔کے منہج پر چلنا بھی ضروری ہے،، جو اس امت کے اسلاف صحابہ و تابعین کامنہج تھا ، جیسا کہ اہل سنت والجماعت کاعقیدہ کے باب میں اسماء و صفات سےمتعلق ایک خاص منہج ہے، اسی طرح سلوک و اخلاق، معاملات ، عبادات بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں بھی ان کاایک منہج ہے، اسی وجہ سے جب رسول اللہ ﷺ نے یہ ذکر فرمایا :کہ یہ امت تہتر (۷۳)فرقوں میں بٹ جائے گی تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' سارے کے سارے آگ میں ہونگے سوائے ایک کے ''، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، اے نبی ﷺ وہ کون سا ایک گروہ ہے جو نجات پائے گا ، آپﷺ نے فرمایا :'' جو اس طریقہ پرہو جس پر کہ میں اور میرے صحابہ کرام ہیں ''۔
آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ نجات پانے والی جماعت وہ ہے جو ایساایسا کرے ، بلکہ فرمان نبوی کی روشنی میں یہ جماعت وہ ہے جو ہر چیز میں رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے منہج پر ٹھیک ٹھیک چلے۔
۱۔ اسماء و صفات کے باب میں ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہیئے کہ ہم اللہ عزوجل کو اس کے اچھے ناموں ، اور بلند صفات سے موصوف کریں، جن اوصاف سے اللہ نے اپنے آپ کواور اس کے رسول ﷺ نے اللہ کو متصف کیا ہے، نہ تواللہ تعالی ان ناموں میں تبدیلی کریں ، اور نہ ہی اس کی کیفیت بیان کریں، اور نہ دوسروں کو اس سے تشبیہ دیں ، اور نہ ہی اس میں کمی کریں............چنانچہ ہم اللہ تعالی کی کسی صفت کاانکار نہ کریں مگر جس کی اللہ نے خود اپنی ذات کے بارے میں نفی کی ہو، اور نہ ہی اس کے کسی وصف کو کسی مخلوق و تشبیہ دیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ۝۰ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۔(الشوری :۱۱)
'' اس کی طرح کوئی چیز نہیں ہے، وہ سننے اور دیکھنے والاہے''۔
۲۔ بیشک قرآن کریم اللہ کاکلام ، اس کی جانب سے نازل شدہ غیر مخلوق ہے جو اللہ کی طرف سے اترا ہے ، اورپھر اسی کی طرف لوٹ جائے گا۔
۳۔ موت کے بعد پیش آنے والے امور مثلاً قبر وغیرہ کے احوال پر ایمان رکھاجائے۔
۴۔ اس بات کا اعتقاد رکھاجائے کہ ایمان قول و عمل کانام ہے جو نیکی کے کاموں سے بڑھتا ہے ، اور نافرمانی کے کاموں سے گھٹتا ہے۔
۵۔ شرک سے کم درجہ کے گناہ پر کسی کوکافر نہ قرار دیں الا یہ کہ وہ اسے حلال سمجھ کر انجام دے ، گناہ کبیرہ کامرتکب اگر توبہ کرے، تو اللہ تعالی اسے بخش دے گا ، اور اکراہ بغیر توبہ کے مر جائے تووہ مشیت الہی کے تحت ہے، اگر چاہے توبخش دے اور اگر چاہے توعذاب دے ، پھر جنت میں داخل فرمائے، کیونکہ کفرو شکر کے مرتکب کے علاوہ کوئی بھی جہنم میں ہمیشہ ہمیش نہیں رہے گا، اور واضح رہے کہ نماز کاچھوڑنا کفر ہے۔
۶۔ اہل سنت والجماعت تمام تر صحابہ سے محبت رکھتے اور ان کی تعظیم کرتے ہیں ،خواہ وہ اہل بیت یاان کے علاوہ سے ہوں ، اور ان میں سے کسی کے معصوم ہونے کاعقیدہ نہیں رکھتے ہیں ، بلکہ ان میں سب سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، پھر علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کوسمجھتے ہیں، اور ان کے مابین اجتہادی غلی کی وجہ سے جو اختلافات ہوئے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں، اب جس کااجتہاد درست تھا اسے دہرا اجر ملے گا، اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کاشکار ہوا اسے ایک اجر ملے گا۔
۷۔ اہل سنت والجماعت اولیاء کی کرامات پر ایمان رکھتے ہیں ، اور اولیاء اللہ سے مراد اللہ کے متقی ، نیک اور صالح بندے ہیں ، اللہ عزوجل نے فرمایا: اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۶۲ۚۖ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝۶۳ۭ
'' یادرکھو :اللہ کے دوسوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے، اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور برائیوں سے پرہیز کرتے رہے''۔
۸۔ وہ امام کی اطاعت سے بغاوت کوناجائز سمجھتے ہیں جب تک کہ وہ ان میں نماز قائم کرتارہے ، اور اس کی جانب سے کوئی صریح کفر نہ دیکھیں، جس کے بارے میں ان کے پاس اللہ کی جانب سے دلیل ہو۔
۹۔ اہل سنت والجماعت تقدیر کے خیرو شر پر اس کے تمام مراتب کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں ، اورساتھ ہی یہ بھی ایمان رکھتے کہ انسان کے پاس اختیار و قدرت ہے، چنانچہ اہل سنت والجماعت نے نہ توتقدیر کاانکار کیا، اور نہ ہی انسان کے اختیار کاانکار کیا ، بلکہ ان دونوں چیزوں کو بیک وقت ثابت کیا۔
۱۰۔ اہل سنت والجماعت لوگوں کے لئے خیر کوپسندکرتے ہیں اور وہ لوگوں میں سب سے بہتر بلکہ لوگوں کی خاطر سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہیں ۔
و صلی اللہ علی نبینا محمد۔
سوال : کیانبی ﷺ کی قسم کھانا جائز ہ؟
جواب: نبی کریم ﷺ ، کعبہ ، امانت یا اس کے علاوہ کسی بھی مخلوق کی قسم کھانا جمہور اہل علم کے قول کے مطابق جائز نہیں ہے، بلکہ بعض اہل علم نے اس کے عدم جواز پر اجماع نقل کیا ہے، نبی ﷺ کی قسم کھانے کے جواز کے بارے میں عام اہل علم کی رائے سے ہٹ کر چند لوگوں نے ایک نادر سی رائے پیش کی ہے لیکن اس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ قول باطل اور اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے، بلکہ اس باب میں وارد صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے، صحیح بخاری و صحیح مسلم میں امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جس نے قسم کھاتے ہوئے کہہ دیاکہ ،لات کی قسم یا عزی کی قسم ، تواس کے بعد کلمئہ توحید لا الہ الا اللہ کہنا چاہیئے''۔
اس کلمئہ توحید کے پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانے والے نے ایک طرح کے شرک کاارتکاب کیاہے، تو اس کاکفارہ یہ ہے کہ صدق دل و اخلاص کے ساتھ کلمئہ توحید پڑھے تاکہ اس کے ذریعہ اس شرک کاکفارہ اداکرے ، جو اس سے وقوع
پزیر ہواہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی ، اس نے کفر کیا یاشرک کیا''۔
اور امام داؤد رحمہ اللہ نے حضرت بریدہ بن خصیب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ''۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' تم اپنے باپوں ، ماؤوں ، اور بتوں کی قسم نہ کھاؤ، اور اسی طرح اللہ کی جھوٹی قسم نہ کھاؤ''۔
جن اہل علم سے غیر اللہ کی قسم کھانے کی حرمت پر اجماع منقول ہے ، انھیں میں سے ایک امام ابو عمر بن البر النمری رحمہ اللہ ہیں ۔ اور بعض اہل علم نے اسے مطلقاً مکروہ قرار دیا ہے، تو اسے کراہت تحریمی پر محمول کرناضروری ہے ، تاکہ کتاب و سنت کے دلائل پر عمل ہوجائے، اور اہل علم کے ساتھ حسن ظن بھی باقی رہے۔
غیر اللہ کی قسم کے بارے میں نرمی برتنے والوں نے صحیح مسلم کی اس حدیث کو دلیل بنایا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کے حق میں جس نے آپ سے شرائع اسلام کے بارے میں پوچھا ، فرمایا : افلح و أبیہ ان صدق ''۔
'' اس شبہ کاجواب یہ ہے کہ یہ روایت شاذ صحیح احادیث کے مخالف ہے، اہل علم کے
نزدیک شاذ کاحکم یہ ہے کہ اس پر احکامات کو موقوف کرناجائز نہیں ہے۔
شاذ اس کو کہتے ہیں کہ جس میں ایک شخص ثقہ افراد کی جماعت کی مخالفت کرے ۔
اس شبہ کادوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ یہ لفظ تصحیف کی وجہ سے اپنی اصل وضع سے ہٹ گیا ہو، جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے، اور اصل عبارت یہ رہی ہو(افلح واللہ ان صدق) توکسی کاتب یاراوی نے پڑھنے میں غلطی کرد ی ہو، اور لفظ (اللہ )کی جگہ (أبیہ) کااضافہ کردیا ہو۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ نبی ﷺ نے یہ لفظ اس وقت استعمال کیاہو جب اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا منع نہ تھا۔
بہرصورت یہ شاذ روایت ہے ، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والےکے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ تمام تر صحیح ،واضح ، اور غیر اللہ کی قسم کی حرمت اور اس کے حرام و شرکیہ کام ہونے پر دلالت کرنے والی احادیث کی مخالفت کرتے ہوئے اسی ایک شاذ روایت سے چمٹ جائے۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے (لات)اور (عزی)کی قسم کھا لی ، پھر نبی ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیاتو آپ ﷺ نے فرمایا تم کہو:لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر''۔
یہ دعا پڑھ کر اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے، اور اللہ کے واسطے سے مردود شیطان سے پناہ مانگو، اور پھر دوبارہ اس طرح کے شرکیہ کلمات اپنی زبان پر نہ لاؤ۔
مذکورہ بالا الفاظ نبوی کے ذریعہ غیر اللہ کے قسم کی شدید حرمت اور اس کا شرکس شیطانی وسوسہ ہونا بتاکید ثابت ہوتاہے، اور اس میں واضح طور پر دوبارہ اس عمل کے ارتکاب سےمنع کیاگیا ہے۔
میں اللہ تعالی سے دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں اور آپ کو اپنے دین میں عفت ، اور نیت و عمل کی درستگی عطافرمائے ،اور ہمیں اور تمام مسلمانوں کو خواہشات نفس کی پیروی ، اور شیطان کی گمراہیوں سے اپنی پناہ میں رکھے، یقیناً وہ اللہ سننے والا ،قریب ہے، اللہ ہماری اور آپ کی حفاظت فرمائے۔
 
Top