میں پسند کرتا ہوں کہ اس خاص سبب پر توجہ دوں جس کی بناپر عام لوگ وسیلہ کا معنی نہیں سمجھتے اور وسیلہ کو وسعت دے دیتے ہیں اور اس میں ایسی چیزیں بھی داخل کردیتے ہیں جو وسیلہ کے معنی میں نہیں آتیں اور ایسا محض اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ وسیلہ کا لغوی معنی نہیں سمجھتے اور نہ اس کو اصل دلائل سے معلوم کرتے ہیں ۔
’’توسُّل ‘‘خالص عربی لفظ ہے جو قرآن وسنّت اور کلام عرب میں شعر ونثر دونوں ہی طرح آیا ہے ۔اور وسیلہ کا مطلب ہے’’مطلوب تک تقرب حاصل کرنا اور رغبت کے ساتھ اس تک پہنچنا ۔(النہایہ)۔اَلْوَاسِلُ ‘ یعنی راغب ’’وسیلہ ‘‘یعنی ’’قربت اور واسطہ‘‘اور جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیاجائے ۔وسیلہ کی جمع وسائل ہے ۔
لبید کہتا ہے ؎
اﷲکا ارشاد ہے
’’توسُّل ‘‘خالص عربی لفظ ہے جو قرآن وسنّت اور کلام عرب میں شعر ونثر دونوں ہی طرح آیا ہے ۔اور وسیلہ کا مطلب ہے’’مطلوب تک تقرب حاصل کرنا اور رغبت کے ساتھ اس تک پہنچنا ۔(النہایہ)۔اَلْوَاسِلُ ‘ یعنی راغب ’’وسیلہ ‘‘یعنی ’’قربت اور واسطہ‘‘اور جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیاجائے ۔وسیلہ کی جمع وسائل ہے ۔
۔اور فیروز آبادی نے ’’قاموس ‘‘میں کہا وَسَّلَ اِلَی اﷲِ تَوْسِیلًا ‘‘ یعنی ایسا عمل کیا جس سے اس کا تقرب حاصل ہوا اور ابن فارس نے ’’معجم المقاتلیس‘‘میں لکھا ہے ۔ اَلْوَسِیْلَۃُ الرَّغْبَۃُ وَالطَّلَبُ ‘‘ وَسَّل ۔ کہا جاتا ہے جب آدمی کسی کی طرف رغبت کرے ۔اور ’’واسل‘‘کہتے ہیں اﷲکی طرف رغبت کرنے والے کو
لبید کہتا ہے ؎
اور علامہ راغب اصفہانی نے ’’المفردات ‘‘میں کہا ۔اِرَی النَّاسَ لَا یَدْرُوْنَ مَا قَدْرُ اَمْرِھِمْ بَلٰی کُلُّ ذِیْ دِیْنٍ اِلَی اﷲِ وَاسِل
میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے کام کی قدر نہیں جانتے ہاں بے شک ہر دیندار اﷲ کی طرف راغب ہے
۔اَلْوَسِیْلَۃُ اَلتَّوَسُّلُ اِلَی الشَیْیٔ بِرَغْبَۃٍ (یعنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنا )اور وصیلہ سے خاص ہے کیونکہ وہ رغبت کے معنی کو شامل ہے
اﷲکا ارشاد ہے
اور وسیلہ الی اﷲ کی حقیقت یہ ہے کہ ’’علم اور عبادت اورمکارم شریعت کی طلب کے ساتھ راہِ الٰہی کی رعایت کرنا ۔‘‘ اور وسیلہ ‘قربت کی طرح ہے۔اور ’’واسل‘‘راغب الی اﷲکو کہتے ہیں ‘‘اور علامہ ابن جریر نے بھی اسی معنی کو نقل کیا ہے اور اس پر شاعر کا قول پیش کیا ہے ؎وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ
اور وسیلہ کا ایک معنی یہاں اور بھی ہے اور وہ ہے ’’بادشاہ کے پاس مرتبہ اور درجہ قربت ۔‘‘ جیسا کہ حدیث میں اس کو جنت کا سب سے اعلیٰ مقام کہا گیا ہے ۔چنانچہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کا اِرشاد ہے ۔’اِذَا غَفَلَ الْوَاشُوْنَ عُدْنَا لَوَصْلَنَا وَعَادَ التَّصَافِی بَیْنَنَا والْوَسَائِلُ
جب چغلی کھانے والے غافل ہوگئے توہم اپنے وصل کی طرف لوٹ پڑے اور ہمارے درمیان دوستی اور وسائل بھی لوٹے ۔
’جب تم مؤذن سے سنو توکہو جیسے مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو ۔جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا‘اﷲاس پر دس بار درود بھیجے گا۔پھر میرے لیے اﷲسے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک مرتبہ ہے جو بندگان اﷲمیں سے کسی ایک بندہ کیلئے بنایاگیا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ۔لہٰذا جو شخص میرے لئے وسیلہ کا سوال کرے گا اس کیلئے میری شفاعت حلال ہوگئی ۔‘‘ (مسلم)