• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین رسالت کا قانون، پوپ اور حکمران

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توہین رسالت کا قانون، پوپ اور حکمران


جنوری 2011ءکو پوپ نے اپنی مذہبی ریاست ”ویٹی کن سٹی“ میں دنیا بھرکے سفیروں کو بلایا جو اٹلی کے شہر روم میں بطورسفیر فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ ان سفیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کیتھولک عیسائیت کے روحانی پیشوا پوپ نے کہا کہ ”پاکستان ناموس رسالت کا قانون ختم کرے اور آسیہ کو رہا کرے، یہ قانون ناانصافی اور تشدد کا جوازفراہم کرتا ہے“۔
قارئین کرام! پوپ کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ 295سی کا قانون ناکسی مذہب کے خلاف ہے اور نا کسی انسان کے خلاف ہے۔ یہ قانون تو اس جانور نما انسان کے خلاف ہے جو پوری انسانیت کے محسن حضرت محمد کریمﷺ کی گستاخی کرے جس نے گستاخی کا ارتکاب نہیں کرنا اسے اس قانون سے کوئی خوف نہیں۔ تکلیف اور خوف اسے ہی ہو گا جس کے دل میں سازش ہے، جس کے دل میں کینہ ہے۔ ہاں ہاں! اللہ کے رسول کے بارے میں کینہ ہے، پھر وہ اپنے کینے اور بغض کا زبان سے اظہار کرتا ہے تو یہ قانون اس ملعون کے خلاف ہے۔
پوپ کو چاہئے تھا کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کو سمجھاتے کہ تم ایسی حرکت کیوں کرتے ہو جس سے تم پر 295سی کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پوپ نے قانون کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آنے والے۔ صاف جواب یہی ہے کہ جب تم لوگ اپنی مذموم گستاخانہ حرکتوں سے باز نہیں آتے ہو تو پاکستان کے مسلمان اس قانون کے تحفظ سے کیوں باز آئیں۔ یہ قانون تو صرف اور صرف مجرم کے خلاف ہے اور پوپ مجرموں کا دفاع چاہتے ہیں اور پوری دنیا کے سفیروں کو اکٹھا کر کے مجرم کی مدد کے لئے دہائی دیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
افسوس کی بات یہ ہے کہ پوپ اور یورپ سے آنے والے اس دباﺅ کے تحت ہمارے حکمران بھی دب جاتے ہیں اور وہ حرمت رسول کے قانون کے بارے میں تبدیلی کی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں محترم جسٹس (ر) نذیر احمد غازی صاحب سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس پر بہت اچھی گفتگو کی، فرماتے ہیں!
”آج کل ٹی وی چینلزپر آنے والے چند معترضین اس بات کو مسلسل دہرا رہے ہیں کہ 295 سی کے غلط استعمال کو روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عام سادہ ذہن پڑھے لکھے لوگ بھی ان کی اس غیر حقیقی بات کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے حلقوں میں اس کی تائید بھی کرتے ہیں اور افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اپنے بہت سے دینی حلقے بھی اس خیانت بھرے جاہلانہ پروپیگنڈے کا شکار ہیں جبکہ قانون نے واضح طور پر تعزیرات پاکستان میں اس اعتراض کا مکمل جواب دیا ہے اور پوری طرح سے تدارک کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 194 ملاحظہ کریں جس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی آدمی کو ایسے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرے اور اس کیخلاف جھوٹی گواہی دے جس کی سزا عمر قید یا موت ہو تو ایسے شخص کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ اسی شق میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر کسی شخص پر سزائے موت نافذ ہو گئی اوروہ بے گناہ تھا تو قانون کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والے شخص کو بھی سزائے موت دی جائے گی۔ قارئین کرام! آپ خود فیصلہ کیجئے کہ عمر قید اور سزائے موت سے بڑھ کر کونسی سزا ہو گی جو اس سلسلے میں دی جا سکتی ہے لہٰذا یہ بات واضح ہو گئی کہ 295 سی کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے جو قانون موجود ہے وہ نہایت سخت اور کارگر ہے“۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
”شیخوپورہ کی ایک عیسائی عورت آسیہ نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا حسب طریقہ قانون حرکت میں آیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے موت کی سزا سنائی۔ ابھی مجرمہ کو ہائیکورٹ میں اپنی اپیل پیش کرنے کا حق موجود ہے۔ ہائیکورٹ میں دو فاضل ججز پر مشتمل ڈویژن بنچ (ڈی بی) اس سزا کا ناقدانہ جائزہ لے سکتی ہے اور ہماری اطلاع کے مطابق مجرمہ کی جانب سے یہ اپیل دائر بھی کر دی گئی ہے“۔
قارئین کرام! آپ نے جسٹس غازی صاحب کے قانونی نکات ملاحظہ فرمائے۔ بتلایئے! ایسی پیش بندی کے بعد کسی تبدیلی کی کیا ضرورت ہے۔ بالکل کوئی ضرورت نہیں۔ لہٰذا حکمرانوں کو 17 کروڑ محبان رسول کے عقیدے اور ایمان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہئے۔ ہماری ملاقات جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر صاحب سے بھی ہوئی۔ انہوں نے بتلایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے اپنے فیصلے (ریاض احمد بنام سرکار، پی ایل ڈی 94 لاہور) میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ 295 سی جیسے قانون کو ختم کیا گیا تو پھر لوگ گستاخی رسول جیسے ابلیسی جرم کا پہلے کی طرح از خود فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ حکمران چھیڑ چھاڑ سے باز آ جائیں اور پاکستان میں فتنہ و فساد کی راہ ہموار نہ کریں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سلمان تاثیرکی بیٹی شہریار بانو کا بیان بھی اسی روز اخبارات میں شائع ہوا جس روز پوپ کا بیان شائع ہوا۔ شہریار بانو نے واضح طور پر کہا کہ ”میرے والد احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی شق کے مخالف تھے“۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں وزیر رہنے والے بزرگ صحافی اور روزنامہ وفاق کے چیف ایڈیٹر جناب مصطفی صادق نے خود مجھے بتلایا کہ جب مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک چل رہی تھی تو جناب ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت وزیراعظم تھے۔ انہوں نے مجھ سے یعنی مصطفی صادق صاحب سے مشورہ لیا تو انہوں نے ایمانی غیرت کا حامل مشورہ دیا تو بھٹو صاحب نے مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اب ان ساری بحثوں کو پھر نئے سرے سے چھیڑنا، ہم سمجھتے ہیں مسلمانوں کے ایمان، عقیدہ اور غیرت کو چھیڑنا ہے ، لہٰذا بیرونی آقاﺅں کی آشیر باد کے اس مذموم سلسلے کو اب بند ہو جانا چاہئے۔ ایمان، مسلمان، پاکستان اور سب کی خیر اور بھلائی اسی میں ہے۔ اللہ سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)

توہین رسالت کا قانون، پوپ اور حکمران​
 
Top