ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
توہین رسالت کا قانون، پوپ اور حکمران
جنوری 2011ءکو پوپ نے اپنی مذہبی ریاست ”ویٹی کن سٹی“ میں دنیا بھرکے سفیروں کو بلایا جو اٹلی کے شہر روم میں بطورسفیر فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ ان سفیروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کیتھولک عیسائیت کے روحانی پیشوا پوپ نے کہا کہ ”پاکستان ناموس رسالت کا قانون ختم کرے اور آسیہ کو رہا کرے، یہ قانون ناانصافی اور تشدد کا جوازفراہم کرتا ہے“۔
قارئین کرام! پوپ کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ 295سی کا قانون ناکسی مذہب کے خلاف ہے اور نا کسی انسان کے خلاف ہے۔ یہ قانون تو اس جانور نما انسان کے خلاف ہے جو پوری انسانیت کے محسن حضرت محمد کریمﷺ کی گستاخی کرے جس نے گستاخی کا ارتکاب نہیں کرنا اسے اس قانون سے کوئی خوف نہیں۔ تکلیف اور خوف اسے ہی ہو گا جس کے دل میں سازش ہے، جس کے دل میں کینہ ہے۔ ہاں ہاں! اللہ کے رسول کے بارے میں کینہ ہے، پھر وہ اپنے کینے اور بغض کا زبان سے اظہار کرتا ہے تو یہ قانون اس ملعون کے خلاف ہے۔
پوپ کو چاہئے تھا کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کو سمجھاتے کہ تم ایسی حرکت کیوں کرتے ہو جس سے تم پر 295سی کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پوپ نے قانون کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آنے والے۔ صاف جواب یہی ہے کہ جب تم لوگ اپنی مذموم گستاخانہ حرکتوں سے باز نہیں آتے ہو تو پاکستان کے مسلمان اس قانون کے تحفظ سے کیوں باز آئیں۔ یہ قانون تو صرف اور صرف مجرم کے خلاف ہے اور پوپ مجرموں کا دفاع چاہتے ہیں اور پوری دنیا کے سفیروں کو اکٹھا کر کے مجرم کی مدد کے لئے دہائی دیتے ہیں۔