• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تھانوی صاحب کے پر دادا مرنے کے بعد دنیا میں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم بھائی! موضوع اور اس پر ہونے والی اختلافی گفتگو سے ہٹ کے فرینڈلی آپ کے سوال کا جواب معلومات کے لئے دینے کی کوشش کرتے ہیں، اگر آپ کے پاس بھی اس پر مزید مفید معلومات ہو تو ضرور شیئر کریں۔

کیا مرنے کے بعد ہر شخص دنیا میں واپس آ سکتا ہے؟

قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍۢ مِّن سَبِيلٍۢ
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور تو نے ہمیں دو بار (ہی) زندگی بخشی، سو (اب) ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، پس کیا (عذاب سے بچ) نکلنے کی طرف کوئی راستہ ہے،
40:11

(11)ف١ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔

"پہلے مٹی تھے یا نطفہ، تو مردے ہی تھے۔

پھر جان پڑی تو زندہ ہوئے،

پھر مرے۔

پھر زندہ کر کے اٹھائے گئے۔

یہ ہیں دو موتیں اور دو حیاتیں۔

قال تعالیٰ۔

"کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون" (بقرہ، رکوع٣) وقیل غیر ذلک والاظہر ہوہذا۔

ف ٢ یعنی انکار کیا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر جینا نہیں۔ نہ حساب کتاب ہے نہ کوئی اور قصہ۔ اسی لیے گناہوں اور شرارتوں پر جری ہوتے تھے۔ اب دیکھ لیا کہ جس طرح پہلی موت کے بعد آپ نے ہم کو زندہ کیا اور عدم سے نکال کر وجود عطا فرمایا، دوسری موت کے بعد بھی پیغمبروں کے ارشادات کے موافق دوبارہ زندگی بخشی۔ آج بعث بعد الموت کے وہ سب مناظر جن کا ہم انکار کیا کرتے تھے سامنے ہیں اور بجز اس کے چارہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں اور خطاؤں کا اعتراف کریں۔

ف٣ یعنی افسوس اب تو بظاہر یہاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ہاں آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت و حیات دے چکے ہیں، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں۔ تاکہ اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں۔(11)

١١۔١ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے کو باپ کی پشت میں ہوتا ہے

یعنی انسان کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے

اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا

اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے

اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے

اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی

انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم البقرۃ میں بھی کیا گیا ہے۔

١١۔۲ یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔

١١۔۳ یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔ (11)

ح

واللہ اعلم

والسلام
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
السلام علیکم

محترم بھائی! موضوع اور اس پر ہونے والی اختلافی گفتگو سے ہٹ کے فرینڈلی آپ کے سوال کا جواب معلومات کے لئے دینے کی کوشش کرتے ہیں، اگر آپ کے پاس بھی اس پر مزید مفید معلومات ہو تو ضرور شیئر کریں۔




قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍۢ مِّن سَبِيلٍۢ
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور تو نے ہمیں دو بار (ہی) زندگی بخشی، سو (اب) ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، پس کیا (عذاب سے بچ) نکلنے کی طرف کوئی راستہ ہے،
40:11

(11)ف١ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔

"پہلے مٹی تھے یا نطفہ، تو مردے ہی تھے۔

پھر جان پڑی تو زندہ ہوئے،

پھر مرے۔

پھر زندہ کر کے اٹھائے گئے۔

یہ ہیں دو موتیں اور دو حیاتیں۔

قال تعالیٰ۔

"کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون" (بقرہ، رکوع٣) وقیل غیر ذلک والاظہر ہوہذا۔

ف ٢ یعنی انکار کیا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر جینا نہیں۔ نہ حساب کتاب ہے نہ کوئی اور قصہ۔ اسی لیے گناہوں اور شرارتوں پر جری ہوتے تھے۔ اب دیکھ لیا کہ جس طرح پہلی موت کے بعد آپ نے ہم کو زندہ کیا اور عدم سے نکال کر وجود عطا فرمایا، دوسری موت کے بعد بھی پیغمبروں کے ارشادات کے موافق دوبارہ زندگی بخشی۔ آج بعث بعد الموت کے وہ سب مناظر جن کا ہم انکار کیا کرتے تھے سامنے ہیں اور بجز اس کے چارہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں اور خطاؤں کا اعتراف کریں۔

ف٣ یعنی افسوس اب تو بظاہر یہاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ہاں آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت و حیات دے چکے ہیں، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں۔ تاکہ اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں۔(11)

١١۔١ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے کو باپ کی پشت میں ہوتا ہے

یعنی انسان کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے

اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا

اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے

اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے

اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی

انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم البقرۃ میں بھی کیا گیا ہے۔

١١۔۲ یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔

١١۔۳ یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔ (11)

ح

واللہ اعلم

والسلام


بہت اچھا لکھا آپ نے - کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ تھانوی صاحب کے پردادا کا دنیا میں آنا پہلی زندگی سے تھا یا دوسری زندگی سے تھا -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اشماریہ

تھانوی صاحب کے پردادا کا دنیا میں آنا پہلی زندگی سے تھا یا دوسری زندگی سے تھا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اسلام و علیکم

بہت عجیب سی بات ہے کہ لوگ جب اپنے لیے کوئی گهر ، کار ، یا کسی لڑکی لڑکے کا رشتہ طے کرتا ہے تو اس کے لیے کئی کئی بار لوگوں سے مشورے اور هر طرح کی تحقیقات کرواتا ہے.

پر جب بات دین کی دعوت کی ہو تو پھر ان کو بخار آ جاتا ہے اور پھر ان کو جو بھی اپنے امام بتائیں گے وہ اس پر آنکھ کان اور عقل بند کر کے عمل شروع کر دیں گے. پھر ان کو تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی.

اللہ تعالیٰ ہمیں دین حق سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے آمین یارب العالمین.
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وعلیکم السلام!
انسان جب اپنی مرضی سے مرتا نہیں تو پھر اپنی مرضی سے واپسی کس طرح ممکن ہے۔اس موضوع پر میرے ایک دوست بڑی پیاری بات اکثر کیا کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ
جو نیک اور صالحہ اعمال والا ہے وہ تو اس گھٹیا دنیا میں آتا نہیں اور جو گنہگارہوتا ہے اس کو کوئی آنے نہیں دیتا۔
کنعان بھائی
شکریہ
جس صاحب نے یہ بات کی ہے اگرچہ ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، امید ہے انہوں نے جس مفہوم سے یہ بات کہی ہے وہ درست ہو گا، لیکن ظاہری الفاظ میں اس بات سے لوگ کچھ غلط مطلب لے سکتے ہیں، الفاظ "گھٹیا دنیا میں آتا نہیں" سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید نیک شخص دنیا میں آنا چاہے تو آ سکتا ہے، اس بات کے رد میں میں یہ جواب لکھ رہا ہوں، یاد رہے کہ کوئی نیک ہو یا بد، مرنے کے بعد دنیا میں نہیں آتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن مسروق قال سألنا عبد الله عن هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون قال أما إنا قد سألنا عن ذلك فقال أرواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة فقال هل تشتهون شيئا قالوا أي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا(صحیح مسلم)
ترجمہ: حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا ترجمہ: "جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مُردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دئیے جاتے ہیں۔" (سورۃ آل عمران:169) تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، ہم نے اس آیت کا مطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "شہیدوں کی روحیں سبزپرندوں کی شکل میں ایسی قندیلوں میں رہتی ہیں جو عرش الہی سے لٹکی ہوئی ہیں جب چاہتی ہیں جنت میں سیر کے لئے چلی جاتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔ ایک بار ان کے رب نے ان کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا "تمہاری کوئی خواہش ہے؟" شہداء کی ارواح نے جواب دیا "ہم جہاں چاہیں جنت کی سیر کرتی ہیں ہمیں اور کیا چاہئے؟" اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ ان سے یہی سوال دریافت کیا پھر جب شہداء کی ارواح نے دیکھا کہ جواب دئیے بغیر چھٹکارا نہیں تب انہوں نے جواب دیا" اے ہمارے رب! ہم چاہتی ہیں کہ ہماری ارواح کو ہمارے اجسام میں لوٹا دے یہاں تک کہ ہم تیری راہ میں دوبارہ قتل کی جائیں۔" جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ان کی کوئی خواہش نہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔"
بس صاف ستھرا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو بنایا، اب وہ اچھی یا بری زندگی گزارتا ہے جیسے بھی عمل کرتا ہے، پھر فوت ہو جاتا ہے اس کے بعد وہ قیامت کے دن اٹھ کر اپنا حساب دے گا۔ایسے ہی خوامخواہ لوگوں نے اسلامی عقائد میں شبہات ڈال دئیے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے آمین
 
Top