• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں سوانح حیات علامہ احسان الہٰی ظہیر 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ابوبکر قدوسی
ناشر
مکتبہ قدوسیہ،لاہور

تبصرہ
شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ 31مئی1945بروزجمعرات،شہر سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حاجی ظہور الہٰی، مولانا ابراہیم میر سیا لکوٹی﷫ کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔خداداد ذہانت و فطانت اور اپنے ذوق و شوق کی بنا پر9 برس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا اور اسی سال نماز تراویح میں آپ نے قرآن کریم سنا بھی دیا ۔ابتدائی دینی تعلیم ’’دارالسلام ‘‘ سے حاصل کی اس کے بعد محدث العصر جناب حافظ محمدگوندلوی ﷫ کی درسگاہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے آئے ۔ اور کتب حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا ،جہاں علوم وفنون عقلیہ کے ماہر جناب مولانا شریف سواتی سے آپ نے معقولات کا درس لیا۔ 1960ء میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ’’بی اے اونرز‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کیلئے مدینۃ الرّسولﷺمیں، ملتِ اسلامیہ کی عظیم عالمی یونیورسٹی’’ مدینہ یونیورسٹی ‘‘ میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں دوسرے پاکستانی طالبعلم تھے ۔ ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں دنیا بھر سے 98 ممالک کے طلباء زیر تعلیم تھے۔وہاں آپ نے دنیائے اسلام اور تاریخ کے نامور ،معتبر اور وقت کے ممتاز علماء کرام سے علم حاصل کیا ،ان میں سرفہرست محدّث العصر امام ناصر الدین البانی ، مفسرِ قرآن الشیخ محمد امین الشنقیطی ، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعطیہ محمد سالم ،سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز ، محدّث ِ مدینہ علامہ عبد المحسن العباد البدر ﷭۔ وغیرہ شامل ہیں۔آپ نے زمانہ طالب علمی کے دور میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں’’ القادیانیۃ دراسات و تحلیل ‘‘کے نام سے عربی میں ایک مدلل و منفرد کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب آپ کے اُن لیکچرز پر مشتمل ہے۔ جو ا ٓپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں اپنی کلاس کے طلباء کو اپنے اساتذہ کی جگہ دئیے تھے۔ آپ مدینہ یونیورسٹی سے اس اعزاز کے ساتھ فارغ ہوئے کہ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم 98 ممالک کے طلباء میں اول پوزیشن پر رہے۔مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو یونیورسٹی میں ہی آسائشوں سے پرزندگی و اعلیٰ مرتبہ پر مشتمل منصبِ تحقیق و تدریس کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اپنی ذاتی زندگی پر دین ِ حق کی خدمت اور وطنِ عزیز کی اصلاح کو ترجیح دی اور یہ تڑپ لیکر وطنِ عزیز لوٹ آئے کہ کلمہ لا الٰہ الّا اللہ کے نام پر بنائے گئے اس ملک میں اللہ تعالیٰ کے دین اور حکم کا بول بالا ہو اور اسی مقصد کی تکمیل کی خاطر دن رات جد و جہد شروع کردی۔ وطن واپسی پر آپ نے ابتداءًتحریر کے ذریعہ دعوت دین کے کام کا آغاز کیا اور چٹان لیل ونہار اور ملک کے دیگر معروف و مشہور رسائل میں لکھتے رہے ۔ نیز ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘، ہفت روزہ’’ اہلحدیث ‘‘ کے مدیر بھی رہے ۔ اور ترجمان الحدیث کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ آپ نے ایک خطبۂ عید میں جنرل ایوب خان کے خلاف اپنی پہلی سیاسی تقریر کی ،پھر یہ سلسلہ جاری رکھا اور بھٹو دور میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، آپ پر کئی مقدمات بھی کئے گئے ۔ بنگلہ دیش مردہ باد تحریک میں آپ نے پھرپور حصہ لیا اور باقاعدہ اپنے خطباتِ جمعہ و دیگر خطابات میں بھی بنگلہ دیش کے مسئلہ پر اپنی حب الوطنی کی خاطر دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے درد کو بیان کیا۔آپ نے مختلف ممالک کے تبلیغی سفر کیے سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے علاوہ بیلجیم ،ہالینڈ ،سوئیڈن، ڈنمارک، اسپین ، اٹلی، فرانس ،جرمنی، انگلینڈ ،یوگو سلاوایا،ویانا،کھایا، نائجیریا، کینیا ،جنوبی کوریا، جاپان، فلپائن ،ہانگ کانگ ،تھائی لینڈ،امریکہ،چین ،بنگلہ دیش، ایران، افغانستان اورہندوستان میں مختلف عالمی علمی کانفرنسوں سے خطاب کیا ۔ عرب ممالک تو آپ کا آنا جانا ایک معمول اور روز مرہ کا کام تھا ، اسی طرح یورپ امریکہ اور افریقہ کے اسفار کا حال تھا ۔ اتنے اژدہام دعوتی و تبلیغی اور ادارتی مصروفیات کے باوجود آپ نے عربی ادب میں شاندار اضافہ کیا ہے اوربھاری بھرکم کتب تالیف فرماکرعالمِ عرب میں اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔علامہ شہید کی کتب کودنیا بھر کے علمی وعوامی حلقوں میں یکساں مقبولیت کا شرف حاصل ہوا، اور بہت بڑی تعداد کو علامہ شہید کی کتب سے بتوفیق اللہ راہِ ہدایت نصیب ہوئی یہی وجہ ہے کہ علامہ کی اکثر کتب کے تراجم اردو ، فارسی و دیگر عالمی زبانوں میں موجود ہیں ۔آپ نے جس موضوع یا جس باطل فرقہ پر قلم اٹھایا اللہ کے فضل و کرم سے اس کا حق ادا کر کے دکھایا اور آج تک آپ کی کسی بھی کتاب کا کوئی علمی جواب نہیں دے سکا۔23 مارچ 1987 کو لاہور میں جلسہ سیرت النبی ﷺ میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی ﷫ کی تقریر کے بعد جناب علامہ شہید کا خطاب شروع ہوا ،آپ کا باطل شکن خطاب اپنے نقطہ عروج کو پہنچ رہا تھا، ابھی آپ 20منٹ کی تقریر کرپائے تھے کہ بم کا انتہائی خوفناک لرزہ خیز دھماکہ ہوا ،تمام جلسہ گاہ میں قیامت صغریٰ کا عالم تھا ،دور دور تک دروبام دھماکے سے لرز اٹھے، ماحول مہیبت تاریخی میں ڈوب گیا، دلدوز آہوں سے ایک کہرام سا مچ گیا۔ درندہ صفت، بزدل دشمن اپنے مزموم مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا ،اس دھماکہ میں آپ شدید زخمی ہوگئے اور میوہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ 29 مارچ کو سعودی ائیر لائن کی خاص پرواز کے ذریعہ شاہ فہد کی دعوت پر سعودیہ عرب علاج کے لئے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملیٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا، ڈاکٹروں نے آپریشن کے لئے بے ہوش کیا لیکن آپ کا وقتِ موعود آچکا تھا۔علامہ صاحب 22 گھنٹے ریاض میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد قافلہ شہداء میں شامل ہوئے .(انا للہ و انا الیہ راجعون)مفتی اعظم سعودیہ عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز ﷫نے دیرہ ریاض کی مرکزی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی ۔ نمازِ جنازہ کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو شہرِ حبیب ﷺمدینہ منورہ لے جایا گیا، مسجدِ نبوی میں دنیا ئے اطراف سے آنے والے وفود و شیوخ،مفتیان، اساتذہ علماء اور طلباء کی وجہ سے مسجد نبوی میں انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا اور تا حد نگاہ سر ہی سر دیکھائی دیتے تھے اژدہام کا یہ عالم تھا کہ آپ کا آخری دیدار کرنا محال تھا ۔مدینہ طیبہ میں ڈاکٹر شمس الدین افغانی ﷫ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ مدینہ یونیورسٹی کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کے علاوہ سعودی عرب کے اطراف سے ہزاروں علماء کرام ، طلباء و عوام اشکبار آنکھوں سے جنازے میں شامل تھے ۔ آپ کے جسد خاکی کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ کی قبر امام مالک ﷫ کی قبر کے پہلوں میں ہے جس کی دائیں طرف رسولِ رحمت ﷺ کی ازواجِ مطہرات مؤمنوں کی ماؤں رضی اللہ عنہن اجمعین کی مبارک قبر یں ہیں اور تھوڑے فاصلے پر رسولِ اکرم ﷺ کے لخت جگر جناب ابراہیم کی قبرِ مبارک ہے ۔علامہ کی شہادت کے بعد ان کی حیات وخدمات پر مختلف اہل علم نے بیسیوں مضامین تحریر کیے اور ہر سال ماہ مارچ میں کوئی نیا مضمون اخبار ، رسائل وجرائد کی زینت بنتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں سوانح حیات علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ‘‘ علامہ شہید ﷫ کے رفیق خاص اور اسی حادثہ میں شہادت کا رتبہ پانے والے بانی مکتبہ قدوسیہ مولانا عبدالخالق قدوسی شہید کے فرزند ارجمند جناب ابو بکرقدوسی صاحب(ڈائریکٹر مکتبہ قدوسیہ،لاہور ) کی تصنیف ہے ۔میرے علم کے مطابق علامہ شہید کی حیات وخدمات کے متعلق مختلف اہل قلم کی تحریروں پر مشتمل بعض مجلات کے خاص نمبر تو شائع ہوئے ہیں لیکن ایک ہی قلم سے تحریر شدہ اردو زبان میں اتنی ضخیم کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی یہ سعادت جناب ابوبکر قدوسی صاحب نے ہی حاصل کی ہے ۔کتاب کےابتدائی صفحات تو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر ﷫ کی مکمل زندگی چند تصویروں میں بیان کردی گئی ہے۔اور شروع میں علامہ شہید کے متعلق عالم اسلام کی نامور شخصیات کے تاثرات شامل کرنے سےکتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فاضل مصنف نے علامہ شہید کی زندگی میں پیش آنے والے حالات وواقعات اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں ، تصنیفی، دعوتی ، تبلیغی خدمات اوران کی بصیرت افرزو سیاسی وجماعتی کوششوں وکاوشوں،علمی جلالت وعظمت اور حفظ قرآن سے عالم اسلام کی عظیم ترین درسگاہ جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منورہ تک علمی سفر کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ علامہ شہید کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطافرمائے ۔اور مصنف کتاب ابو بکر قدوسی صاحب کے علم وعمل اور زور قلم میں اضافہ فرمائے ۔(آمین)
ڈاؤن لوڈ لنک
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الأمْثَالَ (الرعد۔17)
اسی طرح اللہ تعالی حق و باطل کی مثال بیان فرماتا ہے اب جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے۔ اللہ تعالی اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے۔
فرمان باری تعالی کے مصداق حیات خالد اسی کا مقدر ٹھہرتی ہے جو کچھ ایسا کر کے گیا ہو جس مخلوق اللہ کے لیے نفع بخش ہو ۔
میرے ممدوح (رحمہ اللہ و غفر اللہ لہ و نور اللہ قبرہ ووسع مدخلہ و ابدلہ دارا خیر من دارہ) جو پاکستان میں مسلک حق کی پہچان وحید بن چکے ہیں ۔ کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو صرف بعض شخصیات کے ساتھ ہی خوبصورت لگتے ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام کا لقب چودہ سو سال میں صرف ایک ہی شخصیت پر جچا اور امام المحدثین کا لقب صرف ایک ہی محدث پر خوبصورت لگتا ہے اسی طرح لفظ علامہ جیسے ہی ہماری سماعت سے ٹکراتا ہے تو صرف ایک ہی شخصیت فورا ذہن میں نمودار ہو جاتی ہے حافظ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ۔
مشہور صحافی مجیب الرحمن شامی کے بقول: پنجاب میں جب یوں کہا جاتا ہے کہ علامہ صاحب تو اس سے مراد احسان الہی ظہیر ہی ہوتے۔
بلکہ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی شخصیت پر بہت سے لوگوں نے مختلف پہلووں سے قلم اٹھایا انہی کتب میں سے ایک کتاب میرے پیش نظر ہے جو مولف کتاب الاخ المحترم و المکرم ابو بکر قدوسی حفظہ اللہ نے کچھ دن قبل بطور تحفہ بھجوائی ۔
گو کہ کتاب ایک تفصیلی تبصرے کی متقاضی ہے لیکن منفرد نام سب سے پہلے اپنی طرف کھینچتا ہے
’’ تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں‘‘ کتاب کے پہلے ہی صفحے پر متنبی کے ایک معروف قصیدے کا ایک شعر کتاب کے نفس مضمون کو یوں بیان کرتا ہے گویا یہ شعر متنبی نے علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے لیے ہی کہا ہوکہ علامہ صاحب شہسوار قلم و خطابت تھے کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ خطیب بڑے تھے یا قلمکار بلکہ مجھ سے تو فیصلہ ہی نہیں ہو سکا۔
ألخَيْـلُ وَاللّيْـلُ وَالبَيْـداءُ تَعرِفُنـي
وَالسّيفُ وَالرّمحُ والقرْطاسُ وَالقَلَـمُ

وحشی گھوڑے ہوں یا سیاہ رات صحرا ہو ں یا جنگل
نیزہ و شمشیر یا قلم و قرطاس سبھی مجھے جانتے ہیں (کہ میں صاحب رزم و بزم ہوں )کتاب کے ابتدائی صفحات تو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جس میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی مکمل زندگی چند تصویروں میں بیان کر دی گئی۔
علم حدیث میں کسی شخصیت کا علمی مقام کے تعین کے لیے دو باتیں اہم ہوا کرتی ہیں ایک اس کا ماخذ علمی اور دوسرا اس سے استفادات کرنے والے ۔علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی عظمت کا بیان ان کے اساتذہ سے اس طرح کیا جا سکتا ہے
شیخ ناصر الدین البانی ، شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز، شیخ محمد امین شنقیطی، شیخ عطیہ محمد سالم ،شیخ ابو بکر جابر الجزائری، شیخ حافظ محمد گوندلوی، شیخ ابو البرکات احمد بن اسماعیل، شیخ محمد شریف اللہ،شیخ عبدالمحسن العباد، شیخ عبدالغفار حسن، شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد (رحمہم اللہ جمیعا )
ابو بکر بھائی قدوسی نے علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے ساتھ بہت طویل عرصہ گزارا بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کا بچپن علامہ صاحب رحمہ اللہ کے سامنے اور زیر نگرانی گزرا لہذا واقعات کا ایک تسلسل ہی ہے جو پوری کتاب میں نظر آتا ہے لہذا یہ کتاب ایک طرح سے واردات قلبی کا بیان ہے بے شمار واقعات اس کتاب میں بیان کیے لیکن کچھ واقعات تو ایسے ہیں جو عدیم النظیر ہیں کم از کم آج کے معاشرے میں ان کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔جیسا کہ یہ واقعہ ہے
لارنس روڈ مرکز میں نماز تراویح کا اہتمام تھا نئی جگہ تھی آباد کرنے کا جوش علامہ رحمہ اللہ پر سوار تھا کچھ غیر ملکی مہمان آنے تھے انہیں ائیر پورٹ پر وصول کر کے اور ہوٹل پہنچا کر علامہ مرکز کی طرف آنکلے دیکھا عزیز الرحمن اکیلے صفیں بچھا رہے ہیں علامہ شہید رحمہ اللہ نے پوچھا باقی لوگ کہاں ہیں عزیز الرحمن بتانے لگے کہ مہمانوں کے استقبال کے لیے گئے ہیں ۔ آپ کو بہت افسوس ہوا کہ عزیز الرحمن اکیلا ہی یہ ساری صفیں بچھا رہا ہے علامہ رحمہ اللہ اس کے ساتھ مل کر صفیں بچھانے لگے جب ساری صفیں بچھ گئی تو علامہ صاحب رحمہ اللہ نے عزیز الرحمن سے کہا کہ تم تو بہت تھک گئے ہو گے چلو آو میں تمہیں دبا دیتا ہوں عزیز الرحمن بھونچکا رہ گئے کہ علامہ صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔
بقول ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ کے:ابو جان کا کارکنان سے بالکل باپ والا رویہ ہوتا تھا کہ دل شفقت سے بھرا ہوا اور آنکھ رعب سے پر ۔
جمعیت اہل حدیث کے کچھ نوجوان اہل یوتھ فورس کے تربیتی کیمپ میں شرکت کے لیے اپنے شہر سے لاہور روانہ ہوئے مرکزی دفتر کا پتا ان میں سے کسی کے پاس نہ تھا وہ بیان کرتے ہیں کہ : لے دے کہ ہمارے پاس صرف علامہ صاحب رحمہ اللہ کا فون نمبر تھا سو جب ہم لاہور کے ریلوے سٹیشن پر اترے تو کیا کرتے چاروناچار علامہ صاحب کو پی سی او سے ٹیلی فون کیا ہم نے جب صورت حال بتائی تو ہمیں بہت شفقت سے مکمل ایڈریس سمجھا کر اچانک کہا : لیکن ٹھہریں آپ کس جگہ کھڑے ہیں وہیں رکے رہیں اور کھٹ سے فون بند کر دیا اور ہم پریشان کہ ایڈریس بتا بھی دیا ہے لیکن رکنے کے لیے بھی کہہ دیا بہرحال رکنا تھا رکے رہے تھوڑی دیر بعد ایک بڑی سی گاڑی ہمارے آگے رکی دیکھا تو علامہ صاحب رحمہ اللہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے مسکرا رہے تھے اور کہہ رہے تھے : میں نے سوچا کہ رات کے اس پہر اجنبی شہر میں آپ لوگ کہاں خوار ہوتے پھریں گے اور پھر ویگن بھی ملے یا نہ ملے ۔
واقعی متبع سنت کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کہ اسوۃ حسنہ افراد کی قدر کرنا ہی تو سکھاتی ہے مکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ایک صحابی کی جس طر ح قدر کی نتیجہ ان میں سے ایک ایک، ہزار پر بھاری تھا وہی چند سو پہلی صدی ہجری میں اسلام کو تین براعظموں تک پھیلانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سوعلامہ صاحب رحمہ اللہ ایک ایک کارکن قیمتی اور قابل احترام ہوتا تھا اور ان کے کارکنان آج بھی مشیت الہی پر راضی ہیں لیکن نگاہیں آج بھی علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کو ہی تلاش کرتی ہیں کہ ان کے علاوہ نگاہوں میں اور کوئی جچتا ہی نہیں ہے۔
کتاب ایسے بے شمار واقعات سے مزین ہے لیکن میں دو واقعات تو ایسے ہیں جنہوں نے میرے دل کو چھو لیا چونکہ ایسے ہی تربیتی پس منظر میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بانی پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کے بہت سے واقعات سنے اور اپنے ابی جی رحمہ اللہ اور دادا ابو رحمہ اللہ کی تربیت میں بھی دیکھنے اور سننے کے اتفاقات ہوئے۔
علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی تربیت جس ماحول میں ہوئی اس کی صرف دو تصاویر پیش خدمت ہیں :
ابو بکر قدوسی بھائی اپنا واقعہ رقم کرتے ہیں کہ : علامہ شہید رحمہ اللہ کا حادثہ ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ ایک روز ڈاکٹر فضل الہی حفظہ اللہ کے ہمراہ حاجی ظہور الہی (والد محترم علامہ رحمہ اللہ) صاحب مکتبہ قدوسیہ تشریف لائے ان کے پاس ایک کتاب کا مسودہ تھا اور اپنی آمد کا مقصد اس کی طباعت بتایا میں نے ان کی کتاب پر کام شروع کر دیا اپنی دانست میں اور اس دور کے وسائل کے مطابق عمدہ کتاب شائع کی لیکن حاجی صاحب رحمہ اللہ جب کتاب لینے آئے تو انہیں سرورق پسند نہیں آیا اور انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا ۔ بقول ابو بکر بھائی کے مجھے حاجی صاحب کی اس برسر عام حق گوئی کی بہت تکلیف ہوئی میرا گمان تھا کہ کتاب عمدہ طبع ہوئی ہے لیکن میری زبان سے یہ کلمات نکل گئے کہ مجھے پہلے ہی انداز ہ تھا کہ آپ ایسا کہیں گے۔نماز کا وقت ہو گیا نماز کے بعد جب حاجی صاحب رحمہ اللہ واپس آئے تو کہنے لگے: میں نے تمہیں جو کہا وہ غلط تھا اب تم مجھے معاف کردواور یہ کہو کہ میں نے معاف کیا۔
میرے مسلسل انکار پر حاجی صاحب رحمہ اللہ مصر رہے کہ میں کہہ دوں کہ میں نے معاف کیا اور اس وقت تک ان کا اصرار جاری رہا جب تک میں نے یہ کلمات ادا نہ کیے۔
اگر یہ کردار کی عظمتیں باپ کو عطا کی گئی تھی تو ماں جس کی گود میں علامہ صاحب رحمہ اللہ پروان چڑھے تھے ذرا ان کے بارے میں سنیے:علامہ صاحب رحمہ اللہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے جب بم دھماکے میں علامہ صاحب رحمہ اللہ شدید زخمی ہو کر ہسپتال میں تھے تو اس وقت علامہ صاحب کی والدہ ہسپتال پہنچی سب نے منع کیا کہ اس وقت نہ جائیں کوئی نہیں ملنے دے گا بولیں میں ماں ہوں اس کی کون بھلا ایک ماں کو روک سکتا ہے ماں نے بیٹے کا ذخمی ماتھا چوماتو علامہ صاحب رحمہ اللہ بچوں کی طرح رو دیے اور ماں رحمہا اللہ ۔ واقعی ایسی ہی ماوں کو علامہ صاحب جیسے بیٹے ملا کرتے ہیں کہنے لگی: پا تیرا خون اللہ کی راہ میں بہہ رہا ہے پریشان مت ہونا یہ اللہ کی رحمت ہے۔
عزیمت و استقامت کے انگنت دروس پر مبنی یہ چند کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ کی تربیت کن خوبصورت ہاتھوں ہوئی اور اس کے بعد علامہ صاحب رحمہ اللہ نے اس امانت تربیت کو اپنی اولاد تک بھی منتقل کیا آیئے اس تربیت پس منظر کی آخری تصویر بھی دیکھ لیں ۔
شیخ ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ علامہ صاحب رحمہ اللہ کے بڑے بیٹے جن سے ایک مرتبہ علامہ صاحب رحمہ اللہ کے کسی بے تکلف دوست نے کہا: یار ابتسام علامہ تو بہت ماڈرن آدمی تھا سو بندوں میں بیٹھے ہوتے تو پتا چل جاتا کہ یہ احسان الہی ظہیر ہیں کیا نفیس آدمی تھے وغیرہ اور پھر ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ کی داڑھی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے : آپ بھی ذرا تراش خراش کریں اس کی ۔ جو جرات حق گویائی باپ میں بھی گویا ورثہ میں منتقل ہوئی تھی ابتسام الہی ظہیر کہنے لگے : ضروری نہیں جو غلطی باپ کرے وہ بیٹا بھی کرے۔کہنے والا کہنے لگا کہ ایک تو تم وہابی بہت ظالم ہو باپ کوبھی معاف نہیں کرتے ۔آگے سنیے تربیت کے آثار ملاحظہ کریں۔
ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ کہنے لگے : نہیں رضوی صاحب یہ بات نہیں میں اپنے والد کا جنتا احترام کرتا ہوں شاید ہی کوئی کرتا ہومگر ہمارے مسلک کا تقاضا یہ ہے کہ اگر سگے باپ کی بات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے تکرائے گی تو اسے چھوڑ دیا جائے گا اور اس کا دفاع نہیں کیا جائے گا۔
اس کتاب میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو تربیتی نقطہ نگاہ سے ایک مثالی لیڈر کی مکمل تصویر کھینچ دیتے ہیں لیکن یہ بشرط فرصت پھر کبھی سہی ویسے اس امر کے مقروض تو علامہ صاحب رحمہ اللہ کے بیٹے ابتسام الہی ظہیر ہیں ہم دعا گو ہیں کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ کی شخسیت ایک مربی کی حیثیت سے کیا تھی وہ اس پر کچھ لکھ سکیں۔
کتاب میں علامہ صاحب رحمہ اللہ کی علمی سفر جو حفظ القرآن سے شروع ہوا تھا اور پھر عالم اسلام کی عظیم ترین درسگاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پر ختم ہو ا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنے طویل تعلیمی مراحل کے ماحصل کو اصلاح نفس ، اصلاح گھر اور اصلاح معاشرہ کے حوالے سے عملا کر دکھایا۔آپ کی مسلک اہل حدیث کے حوالے سے جو خدمات ہیں پاکستان کی تاریخ میں تن تنہا نہ تو کوئی پہلے اور نہ ہی کوئی ابھی تک ایسے بطل جلیل آیا جس نے مسلک حق کو منفرد اور جرات مند پہچان دی ہو ۔ اور پاکستان کی سیاست میں ان کی عطمتیں آج بھی اس دور کے سیاستدان اور صحافی یاد کرتے ہیں کہ علامہ صاحب جیسا سیاستدان پاکستان پھر نہیں ملا۔
اس کتاب میں دو باتوں کی کمی کا احساس شدت سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ کے اہل خانہ کے تاثرات اور ان کی یادداشتیں بھی شامل کر دی جاتی تو اس کتاب کا مزہ دوبالا ہو جاتا اور دوم اس کتاب میں علامہ صاحب رحمہ اللہ کی تصنیفات اور تالیفات کو ذکر تو گو کہ ہے لیکن علامہ صاحب رحمہ اللہ پر جتنی بھی کتب اب تک لکھی جا چکی ہیں ان کا ذکر یا جائزہ شامل کر لیا جاتا تو اس کتاب کی حیثیت مزید مسلم ہو جاتی ۔ لیکن شاید یہ کتاب علامہ صاحب کے حوالے سے ابو بکر قدوسی بھائی کی صرف ذاتی یادداشتیں تھی ۔ لہذا اس کتاب کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ علامہ صاحب پر جتنا بھی علمی کام ہو چکا ہے اسے جمع کیا جائے اور شیخ ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ سے ایک التماس ہے کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ صرف ان کے والد ہی نہیں تھے وہ نوجوانان اہل حدیث کے لیے باپ جیسے تھے لہذا اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ پنجاب یونی ورسٹی کے کچھ طلبا کو تیار کیا جائے کہ وہ علامہ صاحب کی شخصیت پر مختلف پہلووں سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھیں اور اس حوالے سے ان کی بھرپور مکمل معاونت کی جائے تاکہ حیات جاوداں کے مکمل خدو خال آنے والی نسل کے لیے محفوظ ہو سکیں ۔
یہ چند سطور نہ تو کتاب پر کوئی تبصرہ ہیں اور نہ ہی علامہ صاحب رحمہ اللہ کے حالات زندگی بس اس کتاب کے مطالعہ کے چند استفادات کو اپنے قارئین تک پہنچانا مقصود تھا ۔ گو کہ کتاب کے کچھ مندرجات سے راقم کو جزوی طور پر اختلاف بھی ہے لیکن یہ اختلاف کتاب کی افادیت پر اثر انداز نہیں ہوتا کتاب بے حد مفید ہے اور ہمیں اپنے اسلاف کے بارے میں پڑھنا چاہیے لکھنا چاہیے اس دعا کے ساتھ اجازت کا طلبگار ہوں ۔۔ اللہ ہمیں ایک اسحاق بھٹی اور عطا فرما آمین اللھم آمین
 
Top