• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم تیسر امرحلہ ...غزوۂ حنین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تیسر امرحلہ ...غزوۂ حنین

یہ رسول اللہﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ جو آپ کی اسلامی دعوت کے ان نتائج کی نمائندگی کرتا ہے جنہیں آپ نے تقریباً ۲۳ سال کی طویل جدوجہد ، مشکلات ومشقت ، ہنگاموں اور فتنوں ، فسادات اور جنگوں اور خونریز معرکوں کے بعد حاصل کیا تھا۔
ان طویل برسوں میں فتح مکہ سب سے اہم ترین کامیابی تھی جو مسلمانوں نے حاصل کی۔ اس کی وجہ سے حالات کا دھارا بدل گیا اور عرب کی فضا میں تغیر آگیا۔ یہ فتح درحقیقت اپنے ماقبل اور مابعد کے دونوں زمانوں کے درمیان حدِ فاصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ قریش ، اہل عرب کی نظر میں دین کے محافظ اور انصار تھے۔ اور پورا عرب اس بارے میں ان کے تابع تھا، اس لیے قریش کی سپر اندازی کے معنی یہ تھے کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں بت پرستانہ دین کاکام تمام ہوگیا۔
یہ آخری مرحلہ دوحصوں میں تقسیم ہے :
مجاہدہ اور قتال
قبول اسلام کے لیے قوموں اور قبیلوں کی دوڑ
یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور اس مرحلے میں آگے پیچھے بھی اور ایک دوسرے کے دوران بھی پیش آتی رہی ہیں۔ البتہ ہم نے کتابی ترتیب یہ اختیار کی ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ ذکرکریں۔ چونکہ پچھلے صفحات میں معرکہ وجنگ کا تذکرہ چل رہا تھا اور اگلی جنگ اسی کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے یہاں جنگوں ہی کا ذکر پہلے کیا جارہا ہے۔
****​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غزوۂ حنین

مکہ کی فتح ایک اچانک ضرب کے بعد حاصل ہوئی تھی جس پر عرب ششدر تھے اور ہمسایہ قبائل میں اتنی سکت نہ تھی کہ اس ناگہانی امر واقعہ کو دفع کرسکیں۔ اس لیے بعض اڑیل ، طاقتور اور متکبر قبائل کو چھوڑ کر بقیہ سارے قبیلوں نے سپر ڈال دی تھی۔ اڑیل قبیلوں میں ہوازن اور ثقیف سر فہرست تھے۔ ان کے ساتھ مُضَر ، جُشَم اور سعد بن بکر کے قبائل اور بنوہلال کے کچھ لوگ بھی شامل ہوگئے تھے۔ ان سب قبیلوں کا تعلق قیسِ عیلان سے تھا۔ انہیں یہ بات اپنی خودی اور عزّت ِ نفس کے خلاف معلوم ہورہی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے سپر انداز ہو جائیں۔ اس لیے ان قبائل نے مالک بن عوف نصری کے پاس جمع ہوکر طے کیا کہ مسلمانوں پر یلغار کی جائے۔
دشمن کی روانگی اور اَوْطَاس میں پڑاؤ:
اس فیصلے کے بعد مسلمانوں سے جنگ کے لیے ان کی روانگی عمل میں آئی تو جنرل کمانڈر - مالک بن عوف - ان کے ساتھ ان کے مال مویشی اور بال بچے بھی ہانک لایا۔ اور آگے بڑھ کر وادی اوطاس میں خیمہ زن ہوا۔ یہ حنین کے قریب بنو ہوازن کے علاقے میں ایک وادی ہے۔ لیکن یہ وادی حنین سے علیحدہ ہے۔ حنین ایک دوسری وادی ہے جو ذو المجاز کے بازو میں واقع ہے۔ وہاں سے عرفات ہوتے ہوئے مکے کا فاصلہ دس میل سے زیادہ ہے۔1
ماہر جنگ کی زبانی سپہ سالار کی تغلیط:
اوطاس میں اترنے کے بعد لوگ کمانڈر کے پاس جمع ہوئے۔ ان میں دُرَیْد بن صمّہ بھی تھا ... یہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور اب اپنی جنگی واقفیت اور مشورہ کے سوا کچھ کرنے کے لائق نہ تھا۔ لیکن وہ اصلاً بڑا بہادر اور ماہر جنگجو رہ چکا تھا... اس نے دریافت کیا : تم لوگ کس وادی میں ہو ؟ جواب دیا: اوطاس میں۔ اس نے کہا : یہ سواروں کی بہترین جولان گاہ ہے۔ نہ پتھر یلی اور کھائی دار ہے ، نہ بھربھری نشیب۔ لیکن کیا بات ہے کہ میں اونٹوں کی بلبلاہٹ ، گدھوں کی ڈھینچ ، بچوں کا گریہ اور بکریوں کی ممیاہٹ سن رہا ہوں ؟ لوگوں نے کہا : مالک بن عوف ، فوج کے ساتھ ، ان کی عورتوں ، بچوں اور مال مویشی بھی ہانک لایاہے۔ اس پر دُرَید نے مالک کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیاہے ؟ اس نے کہا : میں نے سوچا کہ ہر آدمی کے پیچھے اس کے اہل اور مال کو لگادوں ، تاکہ وہ ان کی حفاظت کے جذبے کے ساتھ جنگ کرے۔ دُرید نے کہا : اللہ کی قسم ! بھیڑ کے چرواہے ہو۔ بھلا شکست کھانے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۸/۲۷، ۴۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
والے کو بھی کوئی چیزروک سکتی ہے ؟ دیکھو اگر جنگ میں تم غالب رہے تو بھی مفید تو محض آدمی ہی اپنی تلوار اور نیزے سمیت ہوگا اور اگر شکست کھاگئے تو پھر تمہیں اپنے اہل اور مال کے سلسلے میں رسوا ہونا پڑے گا۔ پھر دُرید نے بعض قبائل اور سرداروں کے متعلق سوال کیا۔ اور اس کے بعد کہا: اے مالک! تم نے بنوہوازن کی عورتوں اور بچوں کو سواروں کے حلق میں لاکر کوئی صحیح کام نہیں کیا۔ انہیں ان کے علاقے کے محفوظ مقامات اور ا ن کی قوم کی بالا جگہوں میں بھیج دو۔ اس کے بعد گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر بددینوں سے ٹکر لو۔ اگر تم نے فتح حاصل کی تو پیچھے والے تم سے آن ملیں گے اور اگر تمہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا تو تمہارے اہل وعیال اور مال مویشی بہر حال محفوظ رہیں گے۔
لیکن جنرل کمانڈر ، مالک نے یہ مشورہ مسترد کردیا اور کہا : اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا۔ تم بوڑھے ہو چکے ہو اور تمہاری عقل بھی بوڑھی ہوچکی ہے۔ واللہ! یا تو ہوازن میری اطاعت کریں گے یا میں اس تلوار پر ٹیک لگا دوں گا اوریہ میری پیٹھ کے آرپار نکل جائے گی۔ درحقیقت مالک کو یہ گوارا نہ ہواکہ اس جنگ میں درید کا بھی نام یا مشورہ شامل ہو۔ ہوازن نے کہا : ہم نے تمہاری اطاعت کی۔ اس پر درید نے کہا : یہ ایسی جنگ ہے جس میں میں نہ شریک ہوں اور نہ یہ مجھ سے فوت ہوئی ہے۔

یا لیـتـنـی فـیہــا جــذع أخب فیہــا وأضــع​
أقــود وطفــاء الـدمــع کأنہــا شــاۃ صـدع​

''کاش! میں اس میں جوان ہوتا۔ تگ وتازاور بھاگ دوڑ کرتا۔ ٹانگ کے لمبے بالوں والے اور میانہ قسم کی بکری جیسے گھوڑے کی قیادت کرتا۔ ''
دشمن کے جاسوس :
اس کے بعد مالک کے وہ جاسوس آئے جو مسلمانوں کے حالات کا پتہ لگانے پر مامور کیے گئے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ان کا جوڑ جوڑ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ مالک نے کہا : تمہاری تباہی ہو تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم نے کچھ چتکبرے گھوڑوں پر سفید انسان دیکھے ، اور اتنے میں واللہ ہماری وہ حالت ہوگئی جسے تم دیکھ رہے ہو۔
رسول اللہﷺ کے جاسوس :
ادھر رسول اللہﷺ کو بھی دشمن کی روانگی کی خبریں مل چکی تھیں۔ چنانچہ آپ نے ابوحَدْرَدْ اسلمیؓ کو یہ حکم دے کر روانہ فرمایا کہ لوگوں کے درمیان گھس کر قیام کریں اور ان کے حالات کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگا کر واپس آئیں اور آپ کو اطلاع دیں تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔
رسول اللہﷺ مکہ سے حنین کی طرف :
سنیچر ۶ /شوال ۸ھ کو رسول اللہﷺ نے مکہ سے کوچ فرمایا۔ آج آپ کو مکہ میں آئے ہوئے انیسواں دن تھا۔ بارہ ہزار کی فوج آپ کے ہمرکاب تھی۔ دس ہزار وہ جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ہمراہ تشریف لائی تھی اور دوہزار باشندگان مکہ سے ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی۔ نبیﷺ نے صفوان بن امیہ سے سو زِرہیںمع آلات واوزار ادھارلیں۔ اور عَتّاب بن اَسیدؓ کو مکہ کا گورنر مقرر فرمایا۔
دوپہر بعد ایک سوار نے آکر بتایا کہ میں نے فلاں اور فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بنو ہوازن چیٹ پیٹ سمیت آگے ہیں۔ ان کی عورتوں ، چوپائے اور بکریاں سب ساتھ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا: یہ سب ان شاء اللہ کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا۔ رات آئی تو حضرت انس بن ابی مرثدغنویؓ نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دیے۔1
حنین جاتے ہو ئے لوگوں نے بیر کا ایک بڑا سا ہرادرخت دیکھا ، جس کو ''ذات اَنْوَاط'' کہا جاتا تھا - (مشرکین ) عرب اس پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ اس کے پاس جانور ذبح کرتے تھے اور وہاں درگاہ اور میلہ لگاتے تھے۔ بعض فوجیوں نے رسول اللہﷺ سے کہا : آپﷺ ہمارے لیے بھی ذات انواط بنا دیجیے۔ جیسے ان کے لیے ذات انواط ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے تم نے ویسی ہی بات کہی جیسی موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ (۷: ۱۳۸)
''ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے جس طرح ان کے لیے معبود ہیں ''... یہ طور طریقے ہیں۔ تم لوگ بھی یقینا پہلوں کے طور طریقوں پر سوار ہوگئے۔2(اثناء راہ میں ) بعض لوگوں نے لشکر کی کثرت کے پیش نظر کہا تھا کہ ہم آج ہر گز مغلوب نہیں ہوسکتے اور یہ بات رسول اللہﷺ پر گراں گذری تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسلامی لشکرپرتیر اندازوں کا اچانک حملہ:
اسلامی لشکر منگل اور بدھ کی درمیانی رات ۱۰/شوال کو حنین پہنچا۔ لیکن مالک بن عوف یہاں پہلے ہی پہنچ کر اور اپنا لشکر رات کی تاریکی میں اس وادی کے اندر اتار کر اسے راستوں ، گزرگاہوں گھاٹیوں ، پوشیدہ جگہوں اور درّوں میں پھیلا اور چھپا چکا تھا۔ اور اسے یہ حکم دے چکا تھا مسلمان جونہی نمودار ہوں انہیں تیروں سے چھلنی کردینا، پھر ان پر ایک آدمی کی طرح ٹوٹ پڑنا۔
ادھر سحر کے وقت رسول اللہﷺ نے لشکر کی ترتیب وتنظیم فرمائی اور پرچم باندھ باندھ کر لوگوں میں تقسیم کیے پھر صبح کے جھٹپٹے میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وادی حنین میں قدم رکھا۔ وہ دشمن کے وجود سے قطعی بے خبر تھے۔ انہیں مطلق علم نہ تھا کہ اس وادی کے تنگ دروں کے اندر ثقیف وہوازن کے جیالے ان کی گھات میں بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ بے خبری کے عالم میں پورے اطمینان کے ساتھ اُتر رہے تھے کہ اچانک ان پر تیر وں کی بارش
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۲/ ۳۱۷ باب فضل الحرس فی سبیل اللّٰہ
2 ترمذی فتن ، باب لترکبن سنن من کان قبلکم ۲/۴۱ مسند احمد ۵/۲۸۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شروع ہوگئی۔ پھر فوراً ہی ان پر دشمن کے پَرے کے پَرے فردِ واحد کی طرح ٹوٹ پڑے (اس اچانک حملے سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف تاک نہ رہا تھا۔ بالکل فاش شکست تھی۔ یہاں تک کہ ابو سفیان بن حرب نے - جو ابھی نیا نیا مسلمان تھا - کہا : اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہ رکے گی۔ اور جبلہ یا کلدہ بن جنید نے چیخ کرکہا : دیکھو آج جادو باطل ہوگیا۔
یہ ابن اسحاق کا بیان ہے۔ بَرَاء بن عازبؓ کا بیان جو صحیح بخاری میں مروی ہے اس سے مختلف ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ ہوازن تیرانداز تھے۔ ہم نے حملہ کیا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ہم غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور تیروں سے ہمارا استقبال کیا گیا۔1
اور حضرت انسؓ کا بیان جو صحیح مسلم میں مروی ہے ، وہ بظاہر اس سے بھی قدرے مختلف ہے مگر بڑی حد تک اس کا مؤید ہے۔ حضرت انسؓ کا ارشاد ہے کہ ہم نے مکہ فتح کیا۔ پھر حنین پر چڑھائی کی۔ مشرکین بہت عمدہ صفوں میں آئے جو میں نے کبھی نہ دیکھی۔ سواروں کی صف ، پھر پیادوں کی صف ، پھر ان کے پیچھے عورتیں ، پھر بھیڑ بکریاں ، پھر دوسرے چوپائے۔ ہم لوگ بڑی تعداد میں تھے۔ ہمارے سواروں کے میمنہ پر خالد بن ولید تھے۔ مگر ہمارے سوار ہماری پیٹھ کے پیچھے پناہ گیر ہونے لگے، اور ذراسی دیر میں ہمارے سوار بھاگ کھڑے ہوئے۔ اعراب بھی بھاگے اور وہ لوگ بھی جنہیں تم جانتے ہو۔2
بہرحال جب بھگدڑ مچی تو رسول اللہﷺ نے دائیں طرف ہوکر پکارا :لوگو! میری طرف آؤ میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس وقت اس جگہ آپﷺ کے ساتھ چند مہاجرین اور اہل ِ خاندان کے سواکوئی نہ تھا۔ ابن اسحاق کے بقول ان کی تعداد نو یا دس تھی۔ نووی کا ارشاد ہے کہ آپﷺ کے ساتھ بارہ آدمی ثابت قدم رہے۔ امام احمد اور حاکم (مستدرک ۲/۱۱۷) نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ میں حنین کے روز رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے مگر آپﷺ کے ساتھ اسی مہاجرین وانصار ثابت قدم رہے۔ ہم اپنے قدموں پر (پیدل ) تھے اور ہم نے پیٹھ نہیں پھیری۔ ترمذی نے بہ حسن ، ابن عمر کی حدیث روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے لوگوں کو حنین کے روز دیکھا کہ انہوں نے پیٹھ پھیر لی ہے اور رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سو آدمی بھی نہیں۔3
ان نازک ترین لمحات میں رسول اللہﷺ کی بے نظیر شجاعت کا ظہور ہوا۔ یعنی اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپﷺ کا رخ کفار کی طرف تھا اور آپﷺ پیش قدمی کے لیے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے :
أنا النبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری : باب ویوم حنین اذ اعجبتکم الخ
2 فتح الباری ۸/۲۹
3 (فتح الباری ۸/۲۹ ،۳۰) نیزدیکھئے: مسند ابی یعلی ۳/۳۸۸، ۳۸۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
''میں نبی ہو ں، جھوٹا نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔''
لیکن اس وقت ابو سفیان بن حارثؓ نے آپ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ اور حضرت عباسؓ نے رکاب تھام لی تھی۔ دونوں خچر کو روک رہے تھے کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔ اس کے بعد آپﷺ اتر پڑے اپنے رب سے مدد کی دعا فرمائی : اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔
مسلمانوں کی واپسی اور جنگ کی گرمی :
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کو... جن کی آواز خاصی بلند تھی ...حکم دیا کہ صحابہ کرام کو پکاریں۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نہایت بلند آواز سے پکارا: درخت والو...! (بیعت رضوان والو...!) کہاں ہو ؟ واللہ! وہ لوگ میری آواز سن کر اس طرح مڑے جیسے گائے اپنے بچوں پر مڑتی ہے اور جوابا ً کہا : ہاں ہاں آئے آئے۔ 1حالت یہ تھی کہ آدمی اپنے اونٹ کو موڑنے کی کوشش کرتا اور نہ موڑ پاتا تو اپنی زرہ اس کی گردن میں ڈال پھینکتا۔ اور اپنی تلوار اور ڈھال سنبھال کر اونٹ سے کود جاتا۔ اور اونٹ کو چھوڑ چھاڑ کر آواز کی جانب دوڑتا۔ اس طرح جب آپﷺ کے پاس سو آدمی جمع ہوگئے تو انہوں نے دشمن کا استقبال کیا اور لڑائی شروع کردی۔
اس کے بعد انصار کی پکار شروع ہوئی۔ او ... انصاریو! او ... انصاریو! پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج کے اندر محدود ہوگئی۔ ادھر مسلمان دستوں نے جس رفتار سے میدان چھوڑا تھا اسی رفتار سے ایک کے پیچھے ایک آتے چلے گئے۔ اور دیکھتے دیکھتے فریقین میں دھواں دھار جنگ شروع ہوگئی۔ رسول اللہﷺ نے میدانِ جنگ کی طرف نظر اٹھا کردیکھا تو گھمسان کا رن پڑرہا تھا۔ فرمایا :''اب چولھا گرم ہوگیا ہے۔''پھر آپﷺ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا : شاھت الوجوہ ''چہرے بگڑ جائیں۔''یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو۔ اس کے بعد ان کی دھار کند ہوتی چلی گئی اور ان کاکام پشت پھیرتا چلاگیا۔
دشمن کی شکست فاش:
مٹی پھینکنے کے بعد چند ہی ساعت گذری تھی کہ دشمن کو فاش شکست ہوگئی۔ ثقیف کے تقریباً ستر آدمی قتل کیے گئے اور ان کے پا س جوکچھ مال، ہتھیار ، عورتیں اور بچے تھے مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہی وہ تغیر ہے جس کی طرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے اس قول میں ارشادفرمایا ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم ۲/۱۰۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْ‌دٍ قَادِرِ‌ينَ ﴿٢٥﴾ فَلَمَّا رَ‌أَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ (۹: ۲۵،۲۶)
''اور(اللہ نے ) حنین کے دن (تمہاری مدد کی ) جب تمہیں تمہاری کثرت نے غرور میں ڈال دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کچھ کا م نہ آئی۔ اور زمین کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی سکینت نازل کی۔ اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نے نہیں دیکھا۔ اور کفر کرنے والوں کو سزادی اور یہی کافروں کا بدلہ ہے۔''
تعاقب:
شکست کھانے کے بعد دشمن کے ایک گروہ نے طائف کا رخ کیا۔ ایک نخلہ کی طرف بھاگا۔ اور ایک نے اوطاس کی راہ لی۔ رسول اللہﷺ نے ابو عامر اشعریؓ کی سرکردگی میں تعاقب کرنے والوں کی ایک جماعت اوطاس کی طرف روانہ کی۔ فریقین میں تھوڑی سی جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے، البتہ اسی جھڑپ میں اس دستے کے کمانڈر ابو عامر اشعریؓ شہید ہوگئے۔
مسلمان شہسوار وں کی ایک دوسری جماعت نے نخلہ کی طرف پسپا ہونے والے مشرکین کا تعاقب کیا اور دُرید بن صمہ کو جاپکڑا۔ جسے ربیعہ بن رفیع نے قتل کردیا۔
شکست خوردہ مشرکین کے تیسرے اور سب سے بڑے گروہ کے تعاقب میں جس نے طائف کی راہ لی تھی۔ خود رسول اللہﷺ مال غنیمت جمع فرمانے کے بعد روانہ ہوئے۔
غنیمت :
مالِ غنیمت یہ تھا۔ قیدی چھ ہزار ، اونٹ چوبیس ہزار ، بکری چالیس ہزار سے زیادہ ، چاندی چار ہزار اوقِیہ (یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم جس کی مقدار چھ کوئنٹل سے چند ہی کلو کم ہوتی ہے ) رسول اللہﷺ نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا، پھر اسے جِعرانہ میں روک کر حضرت مسعود بن عمرو غفاریؓ کی نگرانی میں دے دیا۔ اور جب تک غزوہ طائف سے فارغ نہ ہوگئے اسے تقسیم نہ فرمایا۔
قیدیوں میں شیماء بنت حارث سعدیہ بھی تھیں۔ جو رسول اللہﷺ کی رضاعی بہن تھیں۔ جب انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لایا گیا اور انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو انہیں رسول اللہﷺ نے ایک علامت کے ذریعہ پہچان لیا۔ پھر ان کی بڑی قدر وعزت کی۔ اپنی چادر بچھاکر بٹھا یا اور احسان فرماتے ہوئے انہیں ان کی قوم میں واپس کردیا۔
****​
 
Top