محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
تین مرد ایک کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھینسا ، قصائی اور موچی
پہلا منظر :
وہ تینوں اچھے صحافی تھے، الفاظ کا جادو جگانا بھی خوب جانتے تھے، حکومت ، فوج اور دین کے خلاف تھے، ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا تھا لیکن یہ اضافہ اتنا نہ تھا کہ کوئی ان کی بات پر کان دھرتا۔ پھر ان میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو ہتھیار بنانا چاہیے۔آئیڈیا اچھا تھا۔فوراً اس پر عمل بھی کر لیا گیا۔ملحد یت کے حق میں تو وہ پہلے ہی تھے، اب انھیں ایک مچان بھی مل گئی جس پر سے وہ آزادانہ حملے کرنے لگے، ایک کے بعد دوسرا پیج بند کیا جانے لگا، لیکن وہ بھی دھن کے پکے تھے ، نیا پیج بنانے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگاتے۔وہ اپنے کاز کے لیے جنونیوں کی طرح دن رات پروپیگنڈہ گیم کھیلنے لگے۔ نفسیاتی جنگ کے تمام حربے آزمانے لگے ۔۔۔کہیں بھینسے کے ڈکرانے کی آوازیں آتیں تو کہیں سے سنکی کی شیطانی ہنسی سنائی دیتی ، کہیں موچی ٹانکے کھول کھول کر دوبارہ سینے لگتا تو کہیں قصائی گوشت کے پارچے بناتا لیکن الٹی چھری سے ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا لیکن پھر اچانک وہ تینوں ایک ایک کر غائب ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔خاموشی ۔۔۔۔
دوسرا منظر :
تین دوست ایک نامعلوم مقام پر ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنس رہے تھے۔یہ آئیڈیا انھیں ان کے ایک پروفیسر دوست نے دیا تھا جو چند روز بعد ان سے اس نامعلوم مقام پر آ ملا تھا۔ اُس نے ایک انگریزی ناول میں پڑھا تھا کہ جب ہیرو کو کہیں سے بھی توجہ نہ مل رہی تھی تو اس نے اپنے ہی قتل کا ڈراما رچا لیا۔۔۔۔۔ وہ تینوں بھی اس خوبصورتی سے غائب ہوئے کہ ان کی اس غائب آنہ ادا کو سچ مان لیا گیا، لیکن افسوس یہاں بھی بدقسمتی نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا، ان کے غائب ہونے کو وہ پذیرائی نہ ملی جس کا وہ اندازہ لگائے بیٹھے تھے ۔
تیسرا منظر :
ایک دوست نے نعرہ لگایا، دوستو!توجہ حاصل کرنے کا ایک کامیاب طریقہ دماغ میں آگیا۔سب پلٹ کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگے ،اور وہ میز پر پڑی گوشت کاٹنے والی چھری کو دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں وہی چمک تھی جو آخری بازی کھیلنے سے پہلے جواری کی آنکھوں سے پھوٹتی ہے ۔
آخری منظر :
ایک کی لاش مل گئی تھی۔موم بتی پکڑے خواتین بدروحوں کی طرح آہستہ آہستہ ہجوم میں شامل ہوتی جارہی تھیں ۔ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔یہ تو ابتدا تھی ۔
بقلم خود محمد اقبال قریشی
لنک
Last edited: