• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب تک حاکم وقت کا اعلان نہ آئے مساجد میں قنوت نازلہ نہیں کی جائے گی؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کے ایک مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ قنوت نازلہ حاکم وقت کے حکم پر کی جاتی ہے، جب تک حکومت وقت کا اعلان نہ آئے مساجد میں قنوت نازلہ نہیں کی جائے گی عام طریقہ سے دعائیں کریں۔

اس کی دلیل کیا ہے؟ نیز ہندوستان میں اس وقت تو ہندؤں کی حکومت ہے، تو ہم کس کے اعلان کا انتظار کریں؟ قنوت نازلہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کا نام ہے جس میں اہلِ اسلام کے لیے دعائیں اور ظالم کے لیے بد دعائیں کی جاتی ہیں، کیا اس کے لیے ہمیں حاکم وقت کے اعلان کا انتظار کرنا پڑے گا؟ کیا عیدین کی طرح کیا قنوت نازلہ میں بھی تمام مسلمانوں کی اجتماعیت مقصود ہے؟

“دعائے قنوت (نازلہ) حاکم کے اذن سے صرف اجتماعی طور پر ہوسکتی ہے، اور اگر حاکم جاہل یا غافل ہو تو خُود سے نہیں کی جاسکتی” ، مولوی صاحب کا یہ قول روایتاً اور درایتاً دونوں اعتبار سے باطل ہے۔

اولاً صحابہ کرام کے صحیح آثار موجود ہیں کہ وہ انفرادی طور پر کیا کرتے تھے۔ ثانیاً یہ عبادت ہے اور اس کی مشروعیت پر دلالت کرنے والی احادیث عام ہیں، اذن ولی سے مشروط نہیں بلکہ یہ خود ساختہ قید ہے جس میں شدت بدعت کے زُمرے میں آسکتی ہے۔

اسی بنا پر ائمہ اُمت مثل احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی اسے ہر فرد کے لیے مشروع سمجھتے ہیں، شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں اور مُعاصرین میں سے علامہ ابن باز بھی، کوئی اس شرط کا قائل نہیں۔

پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حاکم کی غفلت اور تعطیل جہاد وغیرہ کا مطلب یہ نہیں اُمت فریضہ جہاد یا دفاع حُرمت مسلمین یا اُس کے مکملات کو چھوڑ دے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جائے، بلکہ اس صورت میں اپنی استطاعت کے مطابق علمائے اُمت کو قوم میں تصور اُمت اور اجتماعیت مثل قنوت نازلہ وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے، کہ وہ بھی اولوا الامر ہیں اور اہل حل وعقد ہیں، بلکہ اگر حاکم جاہل ہو تو وہ بھی ان کی شرعی رہنمائی کا پابند ہے تجاوز نہیں کرسکتا۔ لہذا علماء اس فریضہ جہاد کی تعطلی میں کوتاہی کی بنا پر بالاولی عند اللہ مُجرم ہونگے۔

خصوصا جہاد دفاع میں اگر حاکم شرعی بھی غفلت کرے تو اُس کا اذن شرط نہیں جیسا کہ ائمہ اُمت مثل ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔ تو اگر مظلوم مسلمانوں کے حق میں جماعات میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جائے جو اسی نازلہ یا مصیبت سے متعلق ہے تو وہ کیسے ناجائز ہوسکتا ہے۔

بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جیسا مُفتی صاحب نے کہا کہ حاکم کو تو پروا ہی نہیں، تو اس صورت میں اسلاف امت میں سے کوئی بھی جہاد کو کلیتا ترک کرنے کا قائل نہیں، بلکہ عبد الرحمن بن حسن آل الشيخ رحمه الله تعالى تو کہتے ہیں کہ جو جہاد کو صرف حاکم متبع کے ساتھ مشروط مانتا ہے وہ دین پر جھوٹ باندھتا اور مومنوں سے راستے بھٹکا ہوا اور اس پر کتاب و سُنت کے دلائل اتنے واضح ہیں کہ محتاج بیان نہیں

(بأي كتاب، أم بأية حجة أن الجها د لا يجب إلا مع إمام متبع؟! هذا من الفرية على الدين، والعدول عن سبيل المؤمنين، والأدلة على إبطال هذا القول أشهر من أن تذكر، من ذلك عموم الأمر بالجها د، والترغيب فيه، والوعيد في تركه

مزید کہتے ہیں (وكل من قام بالجه اد في سبيل الله فقد أطاع الله وأدى ما فرضه الله ولا يكون الإمام إلا بالجهاد لا أنه لا يكون جهاد إلا بالإمام )، یعنی (اجمالاً) جہاد قائم کرنے کی وجہ سے حکمران حُکومت کا اہل ہوتا ہے نہ کہ جہاد اپنے وجود کے لیے حکمران کا مُحتاج ہے۔ اسی طرح کے اقوال دیگر اسلاف سے بھی منقول ہیں بلکہ یہی متفقہ منھج سلف ہے، غالباً استعماری قوتوں کے طویل تسلط اور اُمت کے تصور شرعی کے فقدان سے ایسے اقوال صادر ہوتے ہیں۔

خُلاصہ: موجودہ فلسطین صورتحال میں جو ہمارے بس میں ہے وہ دعوت حق، بیان حکم شرعی، وحدت اُمت، فریضہ جہاد شرعی کی تلقین اور دُعا ہے، قنوت نازلہ ہو یا دیگر۔ علماء کو بھی اشد ضرورت ہے کہ اپنے منصب اور منھج جہاد کی حقیقت کو سمجھیں، صوفی یا مدخلی بننے کی بجائے قوم کی ان سلگتے ہوئے مسائل میں راہنمائی کریں، ورنہ حزب التحریر، اخوانی، ساحل عدیم وغیرہ وغیرہ جیسے بے وقوف خلا کو پُر کرنے کے لیے کُوددتے رہیں گے اور عوام کو بھٹکاتے رہیں گے۔
 
Top