بہت کام ایسے راوی جن سےمتعلق محدثین وناقدین کے اقوال میں اختلاف نہ ہو ۔
یعنی تقریبا ہر راوی کا یہی معاملہ ہوتا ہے کہ بعض نے اس کی توثیق کی ہوتی ہے اور بعض نے اس کی تضعیف ۔
اب رہا سوال یہ کہ ایسی صورت میں کیا کریں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
اس سلسلے میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ مختلف حالات میں مختلف قرائن دیکھ کرترجیح دی جاتی ہے۔
مثلا:
اگر توثیق کے اقوال ثابت ہو اور تضعیف کے اقوال ثابت نہ ہوں تو ثابت شدہ اقوال کو لیں گے اور اس کے مخالف تضعیف کے اقوال کالعدم قرار پائیں گے۔
اگر دونوں کے اقوال ثابت ہوں لیکن تضعیف کرنے والے متقدمین ہوں اور توثیق کرنے والے متاخرین ہوں تو متقدمین کی بات کو لیں گے۔
اسی طرح اگر متشدین کی طرف سے جرح ہو تو اور معتدلین کی طرف سے توثیق ہو تو توثیق کو لیں گے۔
اسی طرح متساہلین کی طرف سے توثیق اور اور معتدلین کی طرف سے جرح ہو تو جرح کو لین گے ۔
وغیرہ وغیرہ۔
اوراگر ایک ہی عالم سے ایک ہی راوی سے متعلق جرح اور تعدیل دونوں مروی ہو تو :
جو ثابت ہو وہ لیں گے۔
دونوں ثابت ہو تو جرح مفسر ہو تو جرح لیں گے ورنہ تعدیل۔
اگر قدیم وجدید موقف کا علم ہوجائے تو قدیم موقف کو نظر انداز کردیں گے۔
جسے کئی شاگر نے نقل کیا ہو اسے ترجیح دیں گے
وغیرہ وغیرہ
اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے کسی عالم کی باضابطہ شاگردی اختیار کریں اور ایک لمبی مدت تک اس کے پاس جاکر پڑھتے رہیں ، صرف کتابوں سے علم نہیں آسکتا اور نہ ہی صرف سوال وجواب کرنے سے علم آسکتاہے۔