• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جرح و تعدیل میں جمہور کی پیروی کا ثبوت

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
چند برصغیر کے علماء کے علاوہ آج تک کسی عالم کو اس اصول پر عمل کرتے نہیں دیکھا۔ بلکہ وہ تو اس اصول کو غلط قرار دیتے ہیں، اور ان کے مطابق جرح کو تعدیل پر فوقیت حاصل ہے چاہے معدلین کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کیونکہ جارح مخفی عیب سے واقف ہوتا ہے، اس کا علم تعدیل کرنے والے سے زیادہ ہے۔۔۔۔ اسی طرح کچھ لمبا چوڑا چکر ہے۔
برائے مہربانی یہ بتائیں کہ جمہور کی پیروی والے اصول کا کیا ثبوت ہے؟

یہ سوال بہت اہم اور ارجنٹ ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اسلام علیکم۔
چند برصغیر کے علماء کے علاوہ آج تک کسی عالم کو اس اصول پر عمل کرتے نہیں دیکھا۔
اور میں نے کسی بھی مستند اورمرجع کی حیثیت رکھنے والے عالم کو اس اصول کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اگر آپ کی نظر میں ایسے لوگ ہوں تو ان میں سے صرف ایک کا نام بتلادیں ۔


سب سے اہم بات یہ ہے جرح وتعدیل میں تعارض کا مسئلہ کن کے نزیک موضوع بحث بنتا ہے ؟؟؟
جواب یہ ہے کہ متاخرین کے نزدیک ، کیونکہ متقدمین تو ناقدین تھے وہ خود رواۃ کی جرح یا تعدیل کرتے تھے ، لیکن متاخرین ناقلین ہیں یعنی وہ خود جرح یا تعدیل نہیں کرتے بلکہ متقدمین کے اقوال جرح وتعدیل کو جمع کرکے کسی راوی کی حالت طے کرتے ہیں ، ایسی صورت میں جب وہ کسی راوی سے متعلق ناقدین کے اقوال میں تعارض دیکھتے ہیں تو یہ چیز ان کے لئے پریشانی کی باعث بنتی کی اس موقع پر کیا کریں ، اس لئے کہ انہیں ان ہی اقوال کی روشنی میں کسی راوی کا درجہ طے کرنا ہے کیونکہ یہ خود نقد کا فریضہ انجام نہیں دیتے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ بذات خود نقد بھی کرتے ہیں لیکن اکثر یہ حضرات بھی متقدمین کے اقوال ہی پر اپنے فیصلہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔
اس سے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جرح وتعدیل میں تعارض کا مسئلہ متاخرین کا ہے وہی اس پر بحث کرتے ہیں ۔


اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ متاخرین میں ہمیں کوئی ایک بھی عالم ایسا نہیں ملا جس نے جمہور کے فیصلہ کی ترجیح کو غلط قرار دیا ہے ۔

ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر ایسے قرائن مل جائیں جو جمہور کے فیصلے کو مرجوح قرار دیں تو ایسی صورت میں جمہور کا فیصلہ قابل قبول نہ ہوگا ، لیکن علی الاطلاق یہ کہہ دینا کہ جمہور کے فیصلہ کو ترجیح دینے کے اصول پر کوئی عمل پیرا ہی نہیں بہت بڑی جسارت ہے ۔

آپ صرف اتنا کریں کہ :

وثقه الجمهور

یا

ضعفه الجمهور

لکھ کر کتب تخریج میں تلاش کریں اورجو نتائج ملیں وہاں سے آگے پیچھے پڑھیں آپ پر خود بخود یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ ’’جمہور ‘‘ کے فیصلے کو اہل علم کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، بالخصوص امام ذہبی و حافظ ابن حجر رحمھما اللہ کی کتب دیکھیں:

سردست علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک مثال پیش کردوں:

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قوله: وثقه الجمهور، فإن هذا يوهم أن الذين ضعفوه قلة، وليس كذلك، فقد تتبعت أسماءهم فوجدتهم ثمانية من الأئمة، وهم:
1 - أحمد بن حنبل، كان يوهنه قليلا.
2 - يحيى بن معين، قال مرة: ضعيف الحديث، وقال أخرى: والله الذي لا إله إلا هو لمنكر الحديث.
3 - محمد بن عوف الطائي: ضعيف.
4 - الجوزجاني: غير محمود في الحديث، يروي عن أبي سفيان حديثا يجمع فيه جماعة من الصحابة، لم نجد منها عند الأعمش ولا غيره مجموعة.
5 - النسائي: ضعيف، وقال مرة: ليس بالقوي.
6 - ابن حبان: يعتبر حديثه من غير رواية بقية عنه.
7 - الدارقطني: ليس بالقوي، كما تقدم.
8 - البيهقي: غير قوي، كما يأتي.؎


وتتبعت أيضا أسما الموثقين فوجدتهم ثمانية أيضا وهم:
1 - مروان بن محمد الطاطري: ثقة.
2 - ابن معين: ثقة.
3 - أبو حاتم الرازي: صالح.
4 - دحيم: لا أعلمه إلا مستقيم الحديث.
5 - أبو زرعة الدمشقي، ذكره في " الثقات ".
6 - ابن عدي: أرجوأنه لا بأس به.
7 - الطبراني: كان من ثقات المسلمين.
8 - ابن حبان، ذكره في " الثقات ".
هذا كل ما وقفت عليه من الأئمة الذين تكلموا في عتبة هذا توثيقا وتجريحا، ومن الظاهر أن عدد الموثقين مثل عدد المضعفين سواء، وبذلك يتبين خطأ القول بأنه وثقه الجمهور، ولوقيل: ضعفه الجمهور لكان أقرب إلى الصواب، وإليك البيان: لقد رأينا اسم ابن معين وابن حبان قد ذكرا في كل من القائمتين، الموثقين والمضعفين، وما ذلك إلا لاختلاف اجتهاد الناقد في الراوي، فقد يوثقه، ثم يتبين له جرح يستلزم جرحه به فيجرحه، وهذا الموقف هو الواجب بالنسبة لكل ناقد عارف ناصح، وحينئذ فهل يقدم قول الإمام الموثق أم قوله الجارح؟ لا شك أن الثاني هو المقدم بالنسبة إليه، لأنه بالضرورة هو لا يجرح إلا وقد تبين له أن في الراوي ما يستحق الجرح به، فهو بالنسبة إليه جرح مفسر فهو إذن مقدم على التوثيق، وعليه يعتبر توثيقه قولا مجروحا مرجوعا عنه، فيسقط إذن من القائمة الأولى اسم ابن معين وابن حبان كموثقين وينزل عددهم من الثمانية إلى الستة! ثم إننا إذا نظرنا مرة أخرى في القائمة المذكورة لوجدنا فيهم أبا حاتم الرازي وقوله: صالح، وهذا وإن كان توثيقا في اعتبار المحدثين، ولكنه ليس كذلك بالنظر إلى اصطلاح أبي حاتم نفسه، فقد ذكر ابنه في مقدمة الجزء الأول من " الجرح والتعديل " (ص 27) ما نصه:
ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى، فإذا قيل للواحد: إنه ثقة، أومتقن، أوثبت، فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل: إنه صدوق، أومحله الصدق، أولا بأس به، فهو ممن يكتب حديثه، وينظر فيه، وهي المنزلة
الثانية وإذا قيل: شيخ فهو بالمنزلة الثالثة، يكتب حديثه وينظر فيه، إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل: صالح الحديث، فإنه يكتب حديثه للاعتبار، وإذا أجابوا في الرجل بلين الحديث، فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه اعتبارا.
فهذا نص منه على أن كلمة صالح الحديث مثل قولهم: لين الحديث يكتب حديثه للاعتبار والشواهد، ومعنى ذلك أنه لا يحتج به، فهذه العبارة من ألفاظ التجريح لا التعديل عند أبي حاتم، خلافا لما يدل عليه كلام السيوطي في " التدريب "
(233 - 234) ، وعلى هذا فيرفع اسم أبي حاتم أيضا من قائمة الموثقين إلى قائمة المضعفين، ويصير عددهم خمسة، وعدد أولئك تسعة، وإذا ضممنا إليهم قول البيهقي: إنه غير قوي كما يأتي، صاروا عشرة.
ثم إن قول ابن عدي: أرجوأنه لا بأس به ليس نصا في التوثيق، ولئن سلم فهو أدنى درجة في مراتب التعديل، أوأول مرتبة من مراتب التجريح، مثل قوله: ما أعلم به بأسا كما في " التدريب "
(ص 234) .
ومما سبق يتبين بوضوح أن الجمهور على تضعيف عتبة بن أبي حكيم، وأن ضعفه مفسر مبين، فضعفه هو الذي ينبغي اعتماده في ترجمته،
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة (3/ 112 )

ایک مقام پرفرماتے ہیں:
''بکر بن خنيس مختلف فيه ، فوثقه بعضهم وضعفه الجمهور'' [الضعيفة:١٣/٧٨٢تحت الرقم٦٣٤٩].
ایک اورمقام پرفرماتے ہیں:
''وهو مختلف فيه ؛ فقد قيل فيه: ثقة ، لکن ضعفه الجمهور''[الضعيفة:٩/٢٠٤تحت الرقم٤١٩١].
ایک اورمقام پرفرماتے ہیں :
''وعثمان هذا ؛ وثقه غير واحد ، وضعفه الجمهور''[الضعيفة:١٢/٩٤٩تحت الرقم٥٩٧٤]

درج بالاحوالہ جات سے معلوم ہواکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ اصول مسلم ہے کہ جمہورکے فیصلہ کو ترجیح دی جائے گی۔

ویسے آپ درج ذیل کتاب کا مطالعہ کریں اس موضوع پر کافی معلومات ملیں گی ۔
الضوابط المعتبرة في الجرح والتعديل - Download - 4shared
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
جزاک اللہ خیرا یا شیخ الکریم
جمھور کی پیروی یقینا میرے نزدیک بھی راجح ہے لیکن اگر ایسا ہو کہ جمہور نے ایک راوی کی مبھم توثیق کر رکھی ہے مثلا: فلان ثقۃ؛ لیکن دو چار جارحین نے مفسر جرح کی مثلا: لا یحتج بہ اذا انفرد، یا جب فلان حافظہ سے روایت کرے تو حجت نہیں وغیرہ۔ اس صورت میں توثیق اور جرح کے درمیان تطبیق عین ممکن ہے۔ تو کیا اس صورت میں بھی جمہور کی پیروی کرتے ہوئے اس راوی کو مطلقا ثقہ کہا جائے گا؟؟
اسی طرح جو شخص جرح کر رہا ہے اس کو پہچاننا کہاں تک اہم ہے، مثلا: ایک راوی پر دو متشدد محدثین جرح کریں، اور ایک معتدل محدث اس کی توثیق کرے تو اس صورت میں بھی ایک معتدل کی بات چھوڑ کر دو متشدددین کی بات مانی جائے گی؟
اسی طرح جرح و تعدیل کے اقوال کو پہچاننے کی اہمیت کہاں تک ہے مثلا: شیخ ارشاد الحق اثری توضیح الکلام میں "لیس بقوی" پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ جملہ راوی پر سے صرف ثقاہت کے اونچے درجے کی نفی کرتا ہے اور اس سے مطلق ضعف مراد نہیں ہوتا۔ لہذا اگر کسی راوی کے بارے میں دو محدثین لیس بالقوی کہیں، اور ایک محدث ثقہ کہے تو ترجیح کس کو ہو گی؟ جرح و تعدیل تو ناپنے اور تولنے کا نام ہے تو پھر کم وزن والی چیز کا موازنا زیادہ وزن والی چیز سے کرنے پر تو ترازو کا توازن خراب ہو جائے گا، اور وہ برابر نا رہ سکے گا!
لہذا جمہور کا حکم تلاش کرنے کے دوران تعداد کے ساتھ ساتھ وزن کا خیال رکھنا کیا ضروری نہیں؟ کیونکہ زیادہ تعداد والی چیز کبھی کبھار کم تعداد والی چیز سے وزن میں ہلکی بھی ہوتی ہے!

اس قسم کے سوال میرے ذہن میں طوفان لے آتے ہیں، خاص کر تب جب کوئی وضاحت کرنے والا بھی سامنے نا ہو، اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ ان کی وضاحت کر دیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
درج بالاحوالہ جات سے معلوم ہواکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ اصول مسلم ہے کہ جمہورکے فیصلہ کو ترجیح دی جائے گی۔
شیخ البانی سے "جرح مقدم علی التعدیل" والا اصول بھی ثابت ہے۔
شیخ البانی، شیخ احمد شاکر کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فلا يلتفت بعد هذا لتوثيق الشيخ أحمد شاكر رحمه الله لمخالفته للقاعدة المقررة " الجرح مقدم على التعديل"
اروا الغلیل: 1/89

شیخ البانی نے اس اصول کو سلسلۃ الضعیفہ میں بھی کئی بار ذکر کیا ہے، مثلا دیکھیں:
1/109، 1/297، 5/491، 6/558، 9/129، 11/579، 11/727، 13/101، 13/148، 13/841، 13/918، وغیرہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس قاعدہ کی بھی تطبیق کی ہے مگر علی الاطلاق نہیں بلکہ اس کے کچھ شرائط ہیں جنہیں علامہ البنانی رحمہ اللہ نے جابجا ذکر کیا ہے، چنانچہ:
ایک مقام پر علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فلو أنه كان على معرفة بعلم المصطلح لبين وجه اختياره كأن يقول مثلا : " الجرح مقدم على التعديل " فيقال : هذا ليس على إطلاقه بل هو مقيد بما إذا كان مفسرا وجارحا[تمام المنة ص: 203]۔

یہاں علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس قائدہ کی تطبیق کے لئے دو شرط بیان کی ہے:

  • اول: جرح مفسرہو۔
  • دوم: راوی کو مجروح کرنے والی ہو۔


یعنی اگر جرح مفسر نہ ہو یا مفسر بھی ہو لیکن راوی کومجروح کرنے والی نہ ہو تو اس قائدہ پرعمل نہی ہوگا۔

مذکورہ دو شرطوں کے ساتھ ایک تیسری شرط بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتب ملتی ہے جسے ہم قرائن سے تعبیر کرسکتے ہیں یعنی جرح کی تقدیم لئے ضروری ہے کہ جرح کے مفسر اورفی نفسہ جارح ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے قرائن نہ ملیں جو جرح مفسر کو مرجوح قرار دیں ، ورنہ اگرایسے مل گئے جو توثیق ہی کو مقدم کرتے ہیں تو دریں صورت توثیق ہی راجح ہوگی ، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
وهو ثقة، وثقه ابن معين وابن نُمَير وغيرهما. وقال أحمد:" لا أعلم إلا خيراً ". وقال أبو حاتم:" لا بأس به ". وأما العقيلي فشذ قائلاً:" كان من الغلاة في الرفض، يحدث بأحاديث مناكير- وفي نسخة: بواطيل- "؛كما في "التهذيب ".[صحيح أبي داود (الام) للالباني: 4/ 154]۔

یہاں دیکھیں کہ امام عقیلی نے موثقیں کے خلاف جرح کی ہے اور یہ جرح مفسر بھی اور فی نفسہ جارح بھی لیکن اس کے باوجود بھی علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس جرح کو رد کردیا اور یہ کہا کہ امام عقیلی کی جرح شاذ ہے ۔

معلوم ہوا کہ تمام ائمہ کے خلاف کوئی ایک ناقد جرح کرے تو ایسی جرح مفسر اورجارح ہونے کے باوجود بھی مردود ہوگی ۔
اسی پر ہم یہ بھی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ موثقین کی ایک بڑی تعداد کے خلاف ایک دو لوگوں کی جرح مردود ہوگی خواہ وہ مفسر اور جارح ہی کیوں نہ ہو۔
اس قرینہ میں بھی جمہور کی بات آگئی ۔

اس طرح کے اور قرائین ہوسکتے ہیں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ کی کتب میں ان کی مثالیں بھی ہیں لیکن ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ سب کو تلاش کرکے پیش کریں ۔
میں نے پہلے ہی کہا تھا اور پھر کہہ رہاہوں کہ لفظ جمہور لکھ کر علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتب میں تلاش کریں خود بخود علامہ موصوف کا منہج آپ پر واضح ہوجائے گا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
جزاک اللہ خیرا۔ آپ کا اتنا وقت لینے کے لیے معذرت۔ ایک آخری بات:
دوم: راوی کو مجروح کرنے والی ہو۔
اس سے کیا مراد ہے؟ مثال کے ساتھ واضح کر دیں۔ اور غیر جارح کون سی جرح ہو گی؟

اور لیس بقوی جیسی نرم جرح کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اس سے جمہور کے شمار میں کوئی تبدیلی آتی ہے بخلاف صریح توثیق کے؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
1
راوی کو مجروح کرنے والی جرح سے مراد ایسی جرح جو راوی کی عدالت یا ضبط پر اثر انداز ہو کیونکہ بسا اوقات جرح مفسر ہونے کے باوجود بھی عدالت یا ضبط سے تعلق نہیں رکھتی ۔
مثلا ارجاء وغیرہ کی جرح کی گئی ہو کیونکہ یہ جرح مفسر تو ہے لیکن اثرانداز نہیں ۔
اسی طرح راوی کی کسی ایسی خصلت پر مفسر جرح کی گئی ہو جس کا تعلق ضبط یا عدالت سے نہ ہو۔
اسی طرح معاصرانہ چپقلش کی بناپر مفسر جرح کی گئی ہو۔
وغیرہ وغیرہ۔


2
صریح توثیق کے بالمقابل لیس بالقوی کی جرح غیرمسموع ہے لیکن جمہور نے اگرجرح کی ہے تو لیس بالقوی کو جمہور کی جروح کے ساتھ شمار کریں گے۔
 
Top