- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہوتی ہے آج دنیا کا ظالم سے ظالم ملک بھی دعویدار ہے کہ اس نے جمہوریت قائم کر رکھی ہے۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ، امریکہ کے علاوہ چین اور روس نے بھی اپنے نام میں جمہوریہ کا جزء رکھا ہوا ہے۔
شام، عراق، مصر جیسے بدترین آمرانہ نظاموں کو بھی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آیا وہاں فی الواقع عوام کی حکومت ہے بھی یا نہیں؟ ہم جمہوریہ پاکستان کو ہی لیتے ہیں آپ بتائیے کیا کوئی شخص جو کروڑ پتی سے کم ہو یہاں الیکشن لڑسکتا ہے، اب ذرا سوچئے یہ کروڑ پتی شخص عوام ہے۔ کیا آپ اسے عوام کہیں گے؟ آپ امریکہ کا حال دیکھیں تو وہاں کروڑ پتی بھی نہیں کھڑا ہوسکتا ارب پتی ہو تو کھڑا ہوسکتا ہے۔ جب امیدوار کسی علاقے میں ووٹ لینے کے لئے جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں ہم تمہیں ووٹ کیا دیں ہمارے لڑکے کی نوکری نہیں لگ رہی۔ وہ کہتا ہے میں نوکری دلواد دیتا ہوں، کارخانہ دار سے ووٹ مانگتا ہے تو وہ کہتا ہے میرا تو کارخانہ نہیں چلتا میں تمہیں کس لئے ووٹ دوں؟ وہ لاکھ دو لاکھ اسے دیتا ہے۔ بعض اوقات باقاعدہ افراد گن کر قیمتیں لگتی ہیں پھر الیکشن مہم کے لئے اشتہارات اور بینروں پر علیحدہ خرچ ہوتا ہے۔ الیکشن کے دن ووٹروں کے لئے ٹرانسپورٹ کا خرچ الگ ہے ان کے کھانے پینے کا الگ، اب بتائیے کوئی معمولی یا درمیانے درجے کا آدمی یہ کام کرسکتا ہے اور کوئی حلال آمدنی والا شخص اس طرح بے دریغ خرچ کرسکتا ہے۔ اور پھر یہ لوگ جو سارے پاپڑ بیل رہے ہوتے ہیں کیا خیال ہے وہ قوم کے درد میں یہ سب کچھ کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہ جن لوگوں نے الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ ہی لاکھوں روپے خرچ کرکے لیا ہو، جب وہ برسرِاقتدار آئیں گے تو جو کروڑوں روپے انہوں نے خرچ کئے ہیں وہ بمع منافع حاصل کرنے کے لئے کون سی چیز فروخت نہیں کریں گے۔ یقیناََ وہ قوم، ملک، دین کسی چیز کا سودا کرنے سے بھی پرہیز نہیں کریں گے۔ وہ ہندووں کو اپنا دوست بنائیں گے کیونکہ انتخابی اخراجات میں وہاں سے مدد ملی تھی۔ اور یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
عوام کی حکومت ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ جمہوریت عوام کی حکومت نہیں بلکہ ایک خاص طبقے کی حکومت ہوتی ہے۔ آپ کسی قسم کا طریقِ حکومت لے آئیں اسی خاص طبقے نے ہی اوپر رہنا ہوتا ہے، ایوب کا دور ہو، یا بھٹو کا، ضیاءالحق کا دور ہو یا پھر پیپلز پارٹی کا۔ وہی طبقہ اوپر ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں پیسہ ہے سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ اوپر آنے کی صلاحیت ہو۔ یہ لوگ ہر طرح برسرِاقتدار رہتے ہیں نہ عوام کی حکومت ہوتی ہے نہ عوام کو کوئی پوچھتا ہے۔
اقتباس از "جمہوریت و خلافت" مولف عبدالسلام بن محمد
شام، عراق، مصر جیسے بدترین آمرانہ نظاموں کو بھی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آیا وہاں فی الواقع عوام کی حکومت ہے بھی یا نہیں؟ ہم جمہوریہ پاکستان کو ہی لیتے ہیں آپ بتائیے کیا کوئی شخص جو کروڑ پتی سے کم ہو یہاں الیکشن لڑسکتا ہے، اب ذرا سوچئے یہ کروڑ پتی شخص عوام ہے۔ کیا آپ اسے عوام کہیں گے؟ آپ امریکہ کا حال دیکھیں تو وہاں کروڑ پتی بھی نہیں کھڑا ہوسکتا ارب پتی ہو تو کھڑا ہوسکتا ہے۔ جب امیدوار کسی علاقے میں ووٹ لینے کے لئے جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں ہم تمہیں ووٹ کیا دیں ہمارے لڑکے کی نوکری نہیں لگ رہی۔ وہ کہتا ہے میں نوکری دلواد دیتا ہوں، کارخانہ دار سے ووٹ مانگتا ہے تو وہ کہتا ہے میرا تو کارخانہ نہیں چلتا میں تمہیں کس لئے ووٹ دوں؟ وہ لاکھ دو لاکھ اسے دیتا ہے۔ بعض اوقات باقاعدہ افراد گن کر قیمتیں لگتی ہیں پھر الیکشن مہم کے لئے اشتہارات اور بینروں پر علیحدہ خرچ ہوتا ہے۔ الیکشن کے دن ووٹروں کے لئے ٹرانسپورٹ کا خرچ الگ ہے ان کے کھانے پینے کا الگ، اب بتائیے کوئی معمولی یا درمیانے درجے کا آدمی یہ کام کرسکتا ہے اور کوئی حلال آمدنی والا شخص اس طرح بے دریغ خرچ کرسکتا ہے۔ اور پھر یہ لوگ جو سارے پاپڑ بیل رہے ہوتے ہیں کیا خیال ہے وہ قوم کے درد میں یہ سب کچھ کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہ جن لوگوں نے الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ ہی لاکھوں روپے خرچ کرکے لیا ہو، جب وہ برسرِاقتدار آئیں گے تو جو کروڑوں روپے انہوں نے خرچ کئے ہیں وہ بمع منافع حاصل کرنے کے لئے کون سی چیز فروخت نہیں کریں گے۔ یقیناََ وہ قوم، ملک، دین کسی چیز کا سودا کرنے سے بھی پرہیز نہیں کریں گے۔ وہ ہندووں کو اپنا دوست بنائیں گے کیونکہ انتخابی اخراجات میں وہاں سے مدد ملی تھی۔ اور یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
عوام کی حکومت ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ جمہوریت عوام کی حکومت نہیں بلکہ ایک خاص طبقے کی حکومت ہوتی ہے۔ آپ کسی قسم کا طریقِ حکومت لے آئیں اسی خاص طبقے نے ہی اوپر رہنا ہوتا ہے، ایوب کا دور ہو، یا بھٹو کا، ضیاءالحق کا دور ہو یا پھر پیپلز پارٹی کا۔ وہی طبقہ اوپر ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں پیسہ ہے سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ اوپر آنے کی صلاحیت ہو۔ یہ لوگ ہر طرح برسرِاقتدار رہتے ہیں نہ عوام کی حکومت ہوتی ہے نہ عوام کو کوئی پوچھتا ہے۔
اقتباس از "جمہوریت و خلافت" مولف عبدالسلام بن محمد