• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنگ میں اظہار اسلام کے بعد کافر کے قتل کی ممانعت ہے، تو عام حالات میں ایک مسلمان کا قتل کیونکر جائز؟

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اسلام دورانِ جنگ اسلامی لشکر کو کس قدر احتیاط کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ دنیا کی تمام اقوام کے ہاں یہ قول مشہور ہے کہ جنگ اور محبت میں ہرچیز جائز ہوتی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت سے ہمیں جنگ کے اضطرابی اور حساس لمحات میں بھی احتیاط اور عدل سے کام لینے کا سبق ملتا ہے۔​
درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ قتل کے خوف سے ہی سہی، جب ایک شخص نے کلمہ پڑھ کر اظہار اسلام کر دیا تو اس کے قتل پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت اظہار ناراضگی فرمایا، چہ جائے کہ کلمہ گو مسلمان اور اہل علم حضرات صرف اس لیے قتل کر دیے جائیں کہ وہ باغی گروہ کے انتہاء پسندانہ نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں۔​
حدیث ملاحظہ کریں :​
۔ حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
بَعَثَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّی قَتَلْتُهُ. قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِي : يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ : فَقَالَ : أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّی تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْيَوْمِ.​
بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث النّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أسامة بن زيد إلی الحرقات من جهينة، 4 : 1555، رقم : 40212. بخاری، کتاب الديات، باب قول اﷲ تعالی : ومن أحياها، 6 : 2519، رقم : 64783.​
ابن حبان، الصحيح، 11 : 56، رقم : 4751​
''رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔''​
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث ان الفاظ سے روایت کی ہے :
فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ : لِمَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِيْنَ، وَقَتَلَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَسَمَّی لَهُ نَفَرًا. وَإِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَی السَّيْفَ، قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ : نَعَمْ : قَالَ : فَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَ تْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَغْفِرْ لِي. قَالَ : وَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَ تْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : فَجَعَلَ لَا يَزِيْدُهُ عَلَی أَنْ يَقُوْلَ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقيَامَةِ؟​
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال : لَا إِله إلا اﷲ، 1 : 97، رقم : 94 - 97​
''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر دریافت فرمایا : تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف دی۔ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لے کر بتایا کہ اس نے فلاں فلاں کو شہید کیا تھا۔ میں نے اس پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو فورًا کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا : جی حضور! فرمایا : جب روزِ قیامت لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے لئے استغفار کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : جب روزِ قیامت لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہی کلمات دہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟''​
۔ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنْ الْکُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَضَرَبَ إِحْدَی يَدَيَّ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ : أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ، أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اﷲِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْهُ، قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي، ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا أَفَأَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّکَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ کَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ.​
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدراً، 4 : 1474، الرقم : 37942.​
الصحيحمسلم، ، کتاب الإيمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال لا إله إلا اﷲ، 1 : 95، الرقم : 95​
''یا رسول اللہ! یہ فرمائیے کہ اگر (میدان جنگ میں) کسی کافر سے میرا مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور پھر جب وہ میرے حملہ کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہہ دے : أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ (میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا)، تو کیا میں اس شخص کو اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے تو کیا میں اس کو قتل نہیں کر سکتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو قتل نہیں کر سکتے، اگر تم نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اس درجہ پر ہوگا جس پر تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے (یعنی حرام الدم) اور تم اس درجہ پر ہوگے جس درجہ پر وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا (یعنی مباح الدم)۔''​
پرامن شہریوں اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے ظالم اور سفاک دہشت گردوں کو اپنے جارحانہ رویوں اور ظالمانہ نظریات پر ان فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ضرور غور کرنا چاہیے کہ جب حالت جنگ میں موت کے ڈر سے کلمہ پڑھنے والے دشمن کو بھی امان حاصل ہے اور اس کا قتل بھی سخت منع ہے تو کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کو مسجدوں، دفتروں، تعلیمی اداروں اور بازاروں میں قتل کرنا کتنا بڑا جرم ہو گا؟
 
Top