محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
1۔ بلا جواز: یہ اسی شخص کا کام ہے جو خواہشات نفسانی سے مغلوب ہو کر باطل کی حمایت کرے جو شخص باطل کو پہچان کر اس کی تائید کرے جبکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ مجرم ہے۔ رہے ہمارے ائمہ تو یہ ممکن نہیں کہ کوئی عالم بلا وجہ یا بلا جواز حدیث پر عمل کرنا ترک کرے۔جو شخص کسی حدیث پر عمل نہیں کرتا تو اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں ۔
2 ۔ سہل انگاری :۔ علماء کرام سے یہ اندیشہ تو ہے کہ وہ پیش آنے والے مسئلہ کا شرعی حکم معلوم کرنے میں سہل انگاری اور سستی کریں ۔معمولی غور و فکر کے بعد فتویٰ دے دیں اور استدلال کرنے میں بھی کوتاہی سے کام لیں اور اس بات کو پیش نظر نہ رکھیں کہ ان کے فتویٰ کے خلاف دلیل موجود ہے یا وہ اس بات کی فکر ہی نہ کریں کہ ان کے اجتہاد کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
اسی لیے ہمارے ائمہ فتویٰ دینے سے بچنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ مسئلہ کی تحقیق میں جس محنت کی ضرورت ہے وہ نہ کر سکیں گے۔ البتہ یہ سہل انگاری گناہ ہے مگر علماء حقہ سے جب ایسا گناہ ہو جائے تو وہ توبہ استغفار ، اعمال صالحہ کرنے سے ، آنے والی مصیبتوں، بیماریوں ،شفاعت اور رحمت الٰہی کی بنا پر گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
3۔ جائز اور درست وجہ :۔اگر کسی مسئلہ میں شرعی حکم معلوم کرنے اور فتویٰ دینے کی ضرورت ہو اور قرآن و سنت سے مسئلہ اخذ کرنے کے لیے کسی سستی اور سہل انگاری سے کام نہ لیا جائے اور اسکے باوجود صحیح فیصلہ نہ ہوا ہو تو یہ ترک عمل جائز اور درست ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ان مسائل میں راجح بات توبیان کی جائے گی ،مگر امت میں ان مسائل کی بنا پر دشمنی پیدا نہیں کی جائے گی جیسا کہ آج کل رکوع کی رکعت ،امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ،نماز جنازہ سری یا جہری پڑھنا، غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اور ایسے ہی بہت سے مسائل کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر تک کر دی جاتی ہے ۔یقیناً یہ روش درست نہیں ۔