• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جو لوگ پیپر کے ذریعے طلاق دیتے ہیں

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم گڈمسلم صاحب:
میں نے آپ کو ذاتی بات چیت میں مختصر پوسٹ کردی ہے۔
آپ صبر کریں ، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
شکریہ
میرے دوست اگر کوئی آپ کو ظالم کہتا ہے یا جاہل کہتا ہے وہ آپ کا اور آپ کے مخالف کا معاملہ ہے ، میں نے آپ کو ظالم یا جاہل نہیں کہا، اگر یہاں ایسی باتوں کا بیان کا مقصد کچھ اور ہے تو یہ آپ کی مجبوری ہوسکتی ہے۔
شکریہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم گڈمسلم صاحب:
میں نے آپ کو ذاتی بات چیت میں مختصر پوسٹ کردی ہے۔
جی جناب میں نے پڑھ لی ہے، اور آپ کو جواب بھی دے دیا ہے۔
آپ صبر کریں ، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
شکریہ
میرا اس پر ایمان اور یقین ہے۔۔
میرے دوست اگر کوئی آپ کو ظالم کہتا ہے یا جاہل کہتا ہے وہ آپ کا اور آپ کے مخالف کا معاملہ ہے ، میں نے آپ کو ظالم یا جاہل نہیں کہا، اگر یہاں ایسی باتوں کا بیان کا مقصد کچھ اور ہے تو یہ آپ کی مجبوری ہوسکتی ہے۔
شکریہ
جناب من مجھے کسی نے ظالم نہیں کہا۔ لیکن آپ جیسے احباب جب اپنی ہی پوسٹوں کی زد میں آتے ہیں تو پھر طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیتے ہیں۔۔۔میں بس ایک کوشش کرتا ہوں کہ جو تم لوگ الٹے سیدھے، فضول، جاہلانہ سوال واعتراضات کرتے ہو۔ان کا جواب ہی آپ لوگ دیا کریں۔۔۔ تاکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس مثال قائم ہوسکے۔۔ کیونکہ اگر اسی طرح کے اعتراضات وغیرہ کے جوابات آپ لوگوں سے کیے جائیں تو آپ لوگوں کابھی وہی جواب ہوتا ہے۔ جو فریق مخالف کا ہوتا ہے۔۔ لیکن آپ لوگوں کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔۔ اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ آپ لوگوں کے سوالات واعتراضات کے جوابات بھی آپ لوگوں ہی سے لیےجائیں۔

اور ہاں جس نے دلائل کو ماننا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے دلائل بھی ذکر کردیے جاتے ہیں۔ پھر وہ چوں چراں نہیں کرتا۔ لیکن جو لوگ چوں چراں کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ پھر وہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔۔ تاکہ وہ اپنی چوں چراں کو خود ہی بند کردیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ایک شخص کافی سوچ و بچار کے بعد، تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد ، نتائج پر مکمل ذہنی ہم آہنگی کے بعد، دوٹوک یہ فیصلہ کرتا ہے، اور وہ ایک پیپر پر صاف اور واضح تین طلاق لکھتا ہے، طلاق ،طلاق، طلاق اور اس کی نیت اور ارادہ بھی تین ہی طلاق کا ہے، اور یہ تین طلاق اللہ کو حاضر و ناظر مانتے ہوئے اور گواہ بنا کر لکھتا ہے کہ میں اپنی فلاں بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں ، اور آج سے وہ مجھ پر حرام ہے،اور عدت کے بعد دوسرے کے لئے حلال ہے۔
ایسی صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہونگیں؟؟؟؟
ایسی صورت میں راقم کے علم و تحقیق کے مطابق ایک ہی طلاق ہو گی اور عام طور اہل حدیث علماء کا یہی فتوی ہے کیونکہ یہ ایک مجلس میں تین طلاق کی صورت ہی ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
ایسی صورت میں راقم کے علم و تحقیق کے مطابق ایک ہی طلاق ہو گی اور عام طور اہل حدیث علماء کا یہی فتوی ہے کیونکہ یہ ایک مجلس میں تین طلاق کی صورت ہی ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
اللہ تعالی آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے اور علم وتحقیق کے شعبہ میں مزید قوت عطا فرمائے۔
میرے سوال پر رہنمائی فرمائی جس کا میں بے حد مشکور ہوں، اور آپ کی آمد پر بے حد خوشی ہوئی۔
زیر بحث موضوع پر مزید آپ کو زحمت دوں گا ، اور چند فتاوی آپ کی خدمت میں پیش کروں گا تاکہ اس پر آپ کی تحقیق یقینا اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لئے بہترین رہنمائی ثابت ہو۔
بہت شکریہ
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
ایسی صورت میں راقم کے علم و تحقیق کے مطابق ایک ہی طلاق ہو گی اور عام طور اہل حدیث علماء کا یہی فتوی ہے کیونکہ یہ ایک مجلس میں تین طلاق کی صورت ہی ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
محترم ابوالحسن علوی صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
طلاق کے بعض مسائل میں جمہور امت اور اہل علم کی ایک جماعت کے مابین اختلاف صدیوں سے چلا آرہا ہے۔
مملکت سعودی عرب کی ڈائمی کمیٹی کے فتاویٰ کا مطالعہ کے بعد مجھے سائل کے سوال کے پس منظر میں ہی تحریر میں ردوبدل کے ساتھ سوال ترتیب دینے کی ضرورت محسوس ہوئی، اس کی ایک دوسری وجہ بھی تھی۔
دائمی کمیٹی کے فتاوی کا مطالعہ کیا جائے تو میرے ترتیب شدہ سوال کے مطابق ان کا موقف ایک مجلس کی تین طلاق الگ الگ لفظ کے ساتھ یا ایک ہی پیپر پر تحریر الگ الگ لفظ ، طلاق، طلاق، طلاق میں صاف اور واضح ہے جو جمہور کا موقف ہے، یعنی ایسی صورت میں تین طلاق واقع ہونگیں اور اور میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں ان کے چند فتاوی

فتوى نمبر:79
س: میں نے کچھـ عرصہ پہلے اپنی بیوی کو طلاق دیتے ہوئے ایک کاغذ پر یہ لکھا تھا کہ: میں اپنے تمام شرعی اوصاف کے ساتھـ [یعنی پورے ہوش و حواس میں] یہ کہتا ہوں کہ میں اپنی فلاں بیوی کو تین طلاق دیا ہوں، اور وہ مجھـ پر حرام ہے اور دوسرے کے لئے حلال ہے، اور میں اللہ تعالی کو گواہ بناکر [وہی سب سے سچا گواہ ہے] یہ کہتا ہوں کہ اس کو طلاق ، طلاق، طلاق ہے۔
( جلد کا نمبر 20; صفحہ 134)
ج: جیساکہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ شوہر نے مذکورہ بالا تحریری شکل میں طلاق دیا ہے، تو اس خاتون پر تین طلاق واقع ہوجائیں گی، اس لئے کہ اس نے پہلے لفظِ " تین " صاف صاف کہا ہے، اور اس کے بعد آخر میں لفظِ " طلاق " تین مرتبہ کہا ہے، اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین بار طلاق کا لفظ دہرانے سے اس کا مقصد تین ہی طلاق دینا تھا نہ کہ ایک طلاق پر زور دینا تھا، اور اس بنیاد پر یہ خاتون اس شخص کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہے، جب تک کہ وہ دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے، اور وہ اس کے ساتھـ مباشرت نہ کرلے، اور پھر دوسرے شوہر سے طلاق ہونے کے بعد اس کی عدت بھی پوری ہوجائے۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی ابراہیم بن محمد آل شیخ
لنک
تحریری شکل میں اپنی بیوی کو تین طلاق دینا


فتوى نمبر:73
س: شہر صبيا میں میری ایک بیوی ہے، جسے (ب. م. ع) کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کے اور میرے درمیان شیطان (اس پر لعنت ہے) داخل ہوگیا، میں نے اسے اپنے اس قول لفظ طلاق سے تین بار طلاق دی:
( جلد کا نمبر 20; صفحہ 133)
مطلقہ مطلقہ مطلقہ، ایک ہی بار میں، اور میں اپنی بیوی سے تبھی اسی وقت رجعت کرنے والا ہوں، جناب والا غور فرمائیں کہ وہ چھ مہینوں سے حاملہ ہے۔ برائے کرم میری اس مشکل کا حل عنایت فرمائیں۔
ج: اگر تم نے لفظ طلاق کی تکرار(مطلقہ مطلقہ مطلقہ) سے تین طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا، تو اس طلاق کے سبب اس سے تمہارا نکاح اور بیوی ہونے کا رشتہ ختم ہو گیا، تو وہ تین طلاق والی ہونے کے سبب آپ کے لئے حلال نہ رہی، لیکن اس وقت [وہ آپ کے لئے حلال ہوگی] جبکہ وہ دوسری شادی کرلے، اور اگر آپ نے دوسری اور تیسری طلاق کی تکرار سے پہلی والی طلاق کی تاکید مراد لی یا اسے جتانے کا ارادہ کیا، تو وہ ایک طلاق سے مطلقہ ہے، اور اس حالت میں جب آپ اسے طلاق دینے کے فوراً بعد یا بچہ پیدا ہونے سے پہلے رجعت کرلیں، اور یہ دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ہو، تو یہ آپ کی بیوی ہوگی، اور آپ اس کے حق میں صرف دو طلاق کے مالک رہوگے۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی ابراہیم بن محمد آل شیخ
لنک
حاملہ ہونے کی حالت میں ایک ہی جگہ پئے در پئے اپنی بیوی کو تین طلاق زبانی دینا


سوال نمبر: 2 - فتوی نمبر: 6542
س 2: کیا طلاقِ بدعی واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اور اگر واقع ہو جاتی ہے تو کیا اس کو ایک طلاق شمار کیا جائیگا یا تین طلاق؟
ج 2: طلاقِ بدعی کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالتِ حیض یا نفاس یا اس پاکی کے ایام میں دے، جس میں کہ اس نے اپنی اس بیوی کے ساتھـ ہمبستری کی ہے، اور اس جیسی طلاق کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اور اس کی دوسری قسم یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق ایک ساتھـ دے، اس طلاق کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اس کو طلاق شمار کیا جائیگا، اور علماء کے مختلف اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ جب ایک ہی لفظ میں تین طلاق دی جائے تو یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
نائب صدر صدر
عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
لنک
کیا طلاقِ بدعی واقع ہو جاتی ہے؟

یہ ایک مجلس میں الگ الگ لفظ سے دی گئی تین طلاق کے فتاوی ہیں، ان کا موقف اس صورت میں مترشح ہے کہ واقع ہوجاتی ہے۔
لیکن ڈائمی کمیٹی کا موقف ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاق پردوسرا ہے یعنی ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاق ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔
اور اس کے لئے ان کی سب سے بڑی اور بنیادی دلیل مسلم شریف کی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، جسے اہل حدیث حضرات ایک مجلس کی تین طلاق پر بظور دلیل اپنے موقف میں پیش کرتے ہیں، جبکہ دائمی کمیٹی اس روایت کو ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاق پر بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔


سوال نمبر: 2 - فتوی نمبر:8925
س 2: ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک لفظ سے تین طلاق دی، تو اسے ایک شمار کیا جائیگا یا تین طلاق؟
ج 2: علماء کے صحیح اقوال کی روشنی میں اسے ایک طلاق شمار کیا جائیگا، جیسا کہ ابن عباس رضي الله عنهما سے ثابت ہے آپ نے فرمایا: عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم اور عہدِ ابو بکر اور عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، تو حضرت عمر رضي الله عنه نے فرمایا کہ لوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لئے مہلت تھی، تو مناسب ہوگا کہ ہم اس کو ان پر نافذ کر دیں، تو آپ نے ان پر نافذ کر دیا۔ اس کو امام مسلم نے اپنی (صحيح) میں روایت کیا۔ اور اکثر فقہاء نے فرمایا: اس کو تین شمار کیا جائیگا، جیساکہ حضرت عمر
( جلد کا نمبر 20; صفحہ 164)
نے نافذ کیا تھا۔ علماء کے اقوال کی تفصیل اور تمام دلیلوں، اور ان کے راجح قول کی وضاحت کے لئے کتاب "زاد المعاد" کی طرف رجوع کریں جو علامہ ابن قیم کی ہے۔ وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
نائب صدر صدر
عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
لنک
ایک لفظ سے تین طلاق دی تو کیا اسے ایک طلاق شمار کیا جائیگا یا تین طلاق؟

دوسری جانب اسلام سوال وجواب نامی سائٹ جس کے عمومی نگراں محترم شیخ محمد صالح المنجد صاحب ہیں ان کے فتاوی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے موقف کے مطابق ایک مجلس کی تین طلاق ، ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ یہی برصغیر کے علماء اہل حدیث حضرات کا بھی موقف ہے۔
ملاحظہ فرمائیں
راجح قول كے مطابق تين طلاق كى ايك ہى واقع ہوگى​
ميرے ايك دوست نے اپنى بيوى كو غصہ كى حالت ميں طلاق دے دى، اس نے اسے ايك ہى بارہ تين طلاقيں ديں، ليكن ميں نے انٹرنيٹ پر پڑھا ہے كہ تين طلاقيں ايك ہى شمار ہوتى ہے، كيا يہ بات صحيح ہے كہ ايك مجلس كى تين طلاقيں ايك ہى شمار ہو گى، اور ميں نے غصہ كى بھى تين قسميں پڑھى ہيں كيا يہ بھى صحيح ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
تين طلاق كے مسئلہ ميں فقھاء كا اختلاف ہے، اور راجح يہى ہے كہ يہ ايك طلاق ہى شمار كى جائيگى، چاہے ايك ہى كلمہ ميں " تجھے تين طلاق " كہا جائے، يا پھر عليحدہ عليحدہ مثلا " تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق " شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا ہے، اور شيخ سعدى اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے.
انہوں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى اس حديث سے استدلال كيا ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت ميں، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے دو برس ميں تين طلاقيں ايك ہى شمار كى جاتى رہى، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: لوگوں نے اس معاملہ ميں جلدبازى كى ہے جس ميں ان كے ليے وسعت تھى اس ليے اگر ہم اسے جارى كر ديں تو انہوں نے اسے ان پرجارى كر ديا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).
مکمل جواب کا لنک
راجح قول كے مطابق تين طلاق كى ايك ہى واقع ہوگى
مولانا ابوالحسن صاحب ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو زیر بحث مسئلہ طلاق میں علماء کے اختلاف پر اپنے علم اور تحقیق سے روشنی ڈالیں کہ کیا وجہ ہوسکتی ہے ان کے اختلاف کی۔جبکہ دونوں جانب کے سلفی علماء امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کے موقف پر بھر پور اعتماد بھی کرتے ہیں۔ واللہ اعلم باالصواب
شکریہ
 
Top