• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد فلسطین منھج سلف کے آئینے میں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
جہاد فلسطین منھج سلف کے آئینے میں
تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی “الفروسیہ” میں فرماتے ہیں کہ

{قتال دفاعی قتال طلبی سے زیادہ وسیع اور وجوب کے اعتبار سے زیادہ عام ہے(یعنی اس میں طلبی جیسی شروط و قیود نہیں)..اور جہاد کی اس نوع میں یہ شرط نہیں پائی جاتی کہ دُشمن مسلمانوں کے مقابلے میں (زیادہ سے زیادہ) دُگنا یا اُس سے کم ہو، کیونکہ اُحد اور خندق کے دن یقینًا وہ مسلمانوں سے کئی گُنا زیادہ تھے، البتہ جہاد اُن پر واجب تھا، کیونکہ ایسے وقت میں جہاد اضطراری اور دفاعی ہوتا ہے نہ کہ اختیاری۔ اور اسی لیے جہاد کی اس نوع میں صورتحال کے مطابق نماز خوف کی رخصت پائی جاتی ہے}

[فقتال الدفع أوسع من قتال الطلب وأعمّ وجوباً ... ولا يشترط في هذا النوع من الجهاد أن يكون العدو ضعفي المسلمين فما دون، فإنهم كانوا يوم أُحد والخندق أضعاف المسلمين، فكان الجهاد واجباً عليهم، لأنه حينئذٍ جهاد ضرورة ودفع لا جهاد فقتال الدفع أوسع من قتال الطلب وأعمّ وجوباً ... ولا يشترط في هذا النوع من الجهاد أن يكون العدو ضعفي المسلمين فما دون، فإنهم كانوا يوم أُحد والخندق أضعاف المسلمين، فكان الجهاد واجباً عليهم، لأنه حينئذٍ جهاد ضرورة ودفع لا جهاد اختيار، ولهذا تباح فيه صلاة الخوف بحسب الحال في هذا النوع]

امام نووی شرح صحیح مسلم میں کہتے ہیں، کہ

ہمارے اور دیگر شوافع کے نزدیک آج جہاد فرض کفایہ ہے، سوائے اس کے کُفار مسلمانوں کی سرزمین پر پڑاؤ کرلیں، تو جہاد اُن پر لازم ہوجاتا ہے، پھر اگر اُس علاقے کے لوگ (دفاع کے لیے) کفایت نہ رکھتے ہوں تو اُن کے ساتھ والوں پر (جہاد) واجب ہوجاتا تاکہ (دفاع) کے لیے کفایت تامہ حاصل ہوجائے

اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ “مجموع” میں فرماتے ہیں
کہ

{جہاد ہر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے جب کسی بھی مُلک میں جہاں کلمہ لا الہ الا اللہ موجود ہے مُسلمانوں کی حُرمت پامال کی جائے… اللہ تعالی کے اس قول کی بنا پر کہ “نکلو، تم ہلکےہو یا بھاری” اور معمر کے اس قول کی بنا پر کہ مکحول قبلہ رُخ ہو کر دس بار حلف اُٹھایا کرتے کہ لڑائی واجب ہے، پھر کہتے کہ اگر تُم چاہو تو میں تمہارے لیے (عدد حلف) اور بڑھادوں”}

[والجهاد فرض عين على كل مسلم إذا انتهكت حرمة المسلمين في أي بلد فيه لا إله إلا الله محمد رسول الله .... لقول الله تعالى (انفروا خفافا وثقالا) ولقول معمر كان مكحول يستقبل القبلة ثم يحلف عشر أيمان أن الغزو واجب، ثم يقول ان شئتم زدتكم ].

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی سورت توبہ کی آیت ‎(انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں

{اور کبھی ایسی حالت ہوتی ہے جس میں(جہاد کے لیے) سب کا نکلنا واجب ہوجاتا ہے اور وہ چوتھی(صورت) ہے کہ جب جہاد حتمی ہوجائے، دُشمن کے کسی خطہ ارضی پر غلبے یا (مسلمان) آبادی میں گُھسنے کی وجہ سے۔ پس جب ایسا ہوجائے تو اس علاقے کے تمام لوگوں پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ دُشمن کی طرف (مقابلے کے لیے) نکلیں، ہلکے ہوں یا بھاری، جوان ہوں یا بوڑھے، ہر ایک اپنی طاقت کے بقدر، جس کا باپ ہے وہ اس کی اجازت کے بغیر (نکلے) اور جس کا نہیں ہے وہ بھی، ہر وہ شخص جو نکلنے پر قادر ہے پیچھے نہ رہے، خواہ وہ لڑنے والوں میں سے ہو یا (صرف لشکر اسلام کی) تعداد بڑھانے والوں میں سے۔

پھر اگر اُس علاقے کے رہائشی دُشمن کے مقابلے میں بے بس ہوجائیں تو اُن کے قرب و جوار میں بسنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اسی فرض کو نبھانے کے لیے نکلتے رہیں، یہاں تک کہ اُنھیں یقین ہوجائے کہ وہ دشمن کے مقابلے اور اُسے بھگانے کی طاقت رکھنے لگے ہیں۔ اور اسی طرح ہر وہ شخص جسے دشمن کے مقابلے میں مسلمانون کی کمزوری کا پتہ لگ جائے اور جانتا ہو کہ وہ ان تک پہنچ سکتا اور ان کی مدد کرسکتا ہے اُس پر لازم کہ وہ اُن کی طرف نکلے، کیونکہ مسلمان اپنے غیر کے مقابلے میں ایک قوت یکجان ہیں}

[وقد تكون حالة يجب فيها نفير الكل، وهي: الرابعة - وذلك إذا تعين الجهاد بغلبة العدو على قطر من الاقطار، أو بحلوله بالعقر، فإذا كان ذلك وجب على جميع أهل تلك الدار أن ينفروا ويخرجوا إليه خفافا وثقالا، شبابا وشيوخا، كل على قدر طاقته، من كان له أب بغير إذنه ومن لا أب له، ولا يتخلف أحد يقدر على الخروج، من مقاتل أو مكثر فإن عجز أهل تلك البلدة عن القيام بعدوهم كان على من قاربهم وجاورهم أن يخرجوا على حسب ما لزم أهل تلك البلدة، حتى يعلموا أن فيهم طاقة على القيام بهم ومدافعتهم. وكذلك كل من علم بضعفهم عن عدوهم وعلم أنه يدركهم ويمكنه غياثهم لزمه أيضا الخروج إليهم، فالمسلمون كلهم يد على من سواهم]

امام ابن عطية (المحرر الوجیز) میں آیت مبارکہ (کتب علیکم القتال.. الآية) کی تفسیر میں قاضی ابو محمد رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

{اس بات پر اجماع قائم رہا کہ جہاد اُمت محمدیہ پر فرض کفایہ ہے، پس جب پس کُچھ مسلمان اسے انجام دیں تو دیگر سے (فرض) ساقط ہوجاتا ہے، سوائے اسکے کہ دُشمن (بلاد) اسلام کے میدان میں اُتر آئے تو اس وقت جہاد فرض عین ہے}

[واسْتَمَرَّ الإجْماعُ عَلى أنَّ الجِهادَ عَلى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ فَرْضُ كِفايَةٍ، فَإذا قامَ بِهِ مَن قامَ مِنَ المُسْلِمِينَ سَقَطَ عَنِ الباقِينَ، إلّا أنْ يَنْزِلَ العَدُوُّ بِساحَةٍ لِلْإسْلامِ فَهو حِينَئِذٍ فَرْضُ عَيْنٍ]

قاضی ابوبکر الجصاص احکام القرآن میں فرماتے ہی کہ

{جمیع مسلمانوں کا یہ معلوم عقیدہ ہے کہ جب سرحد اسلامیہ کے لوگ دُشمن سے خائف ہوں اور اُن میں مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہو تو وہ اپنے شہروں، جانوں اور نسلوں کے بارے میں خوفزدہ ہوں تو جمیع اُمت پر فرض ہوجاتا ہے کہ کُچھ لوگ جاکر حملہ آوروں کو مسلمانوں سے پرے دھکیل دیں اور اس میں اُمت میں کوئی اختلاف نہیں؛ اس لیے کہ مسلمانوں میں سے کوئی نہیں کہتا کہ ان کے (کفار کے مقابلے میں) بیٹھ رہنا جائز ہے تاکہ وہ مسلمانوں کا خون بہائیں اور ان کی اولاد قیدی بنائیں}

[ومعلوم في اعتقاد جميع المسلمين أنه إذا خاف أهل الثغور من العدو، ولم تكن فيهم مقاومة لهم، فخافوا على بلادهم وأنفسهم وذراريهم يكون الفرض على كافة الأمة أن ينفر إليهم من يكف عاديتهم عن المسلمين، وهذا لا خلاف فيه بين الأمة؛ إذ ليس من قول أحد من المسلمين إباحة القعود عنهم حتى يستبيحوا دماء المسلمين، وسبي ذراريهم]
 
Top