ابراہیم بھائی
رکن
- شمولیت
- ستمبر 03، 2012
- پیغامات
- 214
- ری ایکشن اسکور
- 815
- پوائنٹ
- 75
ہر مسلمان جانتا ہے کہ تمام عبادات اسلامیہ کی صحِت کامدارنیّت صحیح ہونے پر ہے ۔ اسی لیے نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج سب ہی کی ادایئگی میں نیّت درست کرنا فرض اور ضروی سمجھا جاتا ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد اس معاملہ میں یہ ہے۔ اِنما الا عما ل بالنیّاتِ وانمالامریٔمانوٰ ی(صحیح بخا ری)'اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر انسان کو اپنے عمل کے بدلہ میں وہی چیز ملتی ہے جس کی نیّت کی ہے ۔
یعنی عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماںبرداری اور رضاجوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یاجاہ ومنصب مقصود نہ ہو،ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ ریاء ہے جوبجا ئے ثواب کے گناہِ عظیم ہے۔
علماء اسلام نے اس حدیث کو ایک چوتھائی اسلام قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا حصّہ اس پر موقوف ہے۔
وہ عالم جودنیا کی شہرت اورنام ونمود کےلیےعلمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت وانعام کی خاطر جانبازی کرتااور شہید ہو جا تا ہے ۔ اور وہ شخص جو نام ونمود کے لیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔
ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کو یہ کہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کے لیے علمِ دین کو استعمال کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی ، یا جس مقصد کےلیےمال خرچ کیا،وہ مقصد ہم نے تجھے دنیامیں عطاکردیاکہ لوگوں میں تیرے عالم،ماہرہونے کی شہرت ہوئی ،یاتجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا،یامال خرچ کرنےکی بناء پرتجھےسخی اور فیاض کہا گیا۔اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟العیاذبا للہ!
جہاد کے میدان میں اُترنے والے ہمارے بھائی جوساری دنیاکوچھوڑکراپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیں،دنیاوآخرت کے اعتبارسے کتنابڑاکارنامہ ہےکہ اسکے ثواب کااندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انُ حضرات کے لیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے کہ رسو لِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مذکورکو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے سا تھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی حفا ظت اور دشمنا نِ دین کی ی مدافعت کرنا ہے۔ دنیا کے ثمرات ونتائج اور انعامات بھی اللہ تعا لیٰ ان کو عطا فرما یئں گے ۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔
یعنی عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماںبرداری اور رضاجوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یاجاہ ومنصب مقصود نہ ہو،ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ ریاء ہے جوبجا ئے ثواب کے گناہِ عظیم ہے۔
علماء اسلام نے اس حدیث کو ایک چوتھائی اسلام قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا حصّہ اس پر موقوف ہے۔
وہ عالم جودنیا کی شہرت اورنام ونمود کےلیےعلمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت وانعام کی خاطر جانبازی کرتااور شہید ہو جا تا ہے ۔ اور وہ شخص جو نام ونمود کے لیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔
ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کو یہ کہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کے لیے علمِ دین کو استعمال کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی ، یا جس مقصد کےلیےمال خرچ کیا،وہ مقصد ہم نے تجھے دنیامیں عطاکردیاکہ لوگوں میں تیرے عالم،ماہرہونے کی شہرت ہوئی ،یاتجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا،یامال خرچ کرنےکی بناء پرتجھےسخی اور فیاض کہا گیا۔اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟العیاذبا للہ!
جہاد کے میدان میں اُترنے والے ہمارے بھائی جوساری دنیاکوچھوڑکراپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیں،دنیاوآخرت کے اعتبارسے کتنابڑاکارنامہ ہےکہ اسکے ثواب کااندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انُ حضرات کے لیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے کہ رسو لِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مذکورکو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے سا تھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی حفا ظت اور دشمنا نِ دین کی ی مدافعت کرنا ہے۔ دنیا کے ثمرات ونتائج اور انعامات بھی اللہ تعا لیٰ ان کو عطا فرما یئں گے ۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔