• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجۃ الوداع میں گورے کالے، عربی عجمی والی روایت میں نقائص

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
  1. خطبہ حجۃ الوداع کئی طریقوں سے کئی صحابہ (ابن عباس، ابو بکر، عمر، عبداللہ ابن عمر، جابر بن عبداللہ انصاری۔۔۔ وغیرہ) سے کئی کتابوں میں نقل ہوا ہے (مثلاً بخاری، مسلم، ابو داؤد، ابن ہشام، طبری وغیرہ) ۔ مگر کسی نے بھی گورے کالے، عربی عجمی کا ذکر نہیں کیا۔​
  2. صرف ایک روایت ہے جسکا درجہ "خبر واحد" کا ہے اور وہ ”غریب“ ہے جس میں گورے کالے، عربی عجمی کا ذکر ہے۔​
  3. مگر اس غریب حدیث اور خبر واحد کا ایک راوی ”الجریری“ وہ ہے جس کے متعلق بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ”غلطیاں“ کرتا تھا۔ (لنک)​
  4. اگلا مسئلہ اس روایت کے ساتھ یہ ہے کہ اس روایت کی سند فقط ایک تابعی ابو نضرہ تک ہے۔ ابو نضرہ نے آگے اس شخص کا نام نہیں بتلایا جو کہ پیغمبر سے یہ سن کر روایت کر رہا ہے۔​
  5. ایک سوال یہ ہے کہ گورے کالے اور عربی عجمی والی اتنی اہم بات دیگر تمام صحابہ کیسے بھول گئے؟​
مسند احمد کی روایت یہ ہے
حدثنا إسماعيل ثنا سعيد الجريري عن أبي نضرة حدثني من سمع : خطبة رسول الله صلى الله عليه و سلم في وسط أيام التشريق فقال يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد وإن أباكم واحد إلا لا فضل لعربي على أعجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأحمر على أسود ولا أسود على أحمر إلا بالتقوى أبلغت قالوا بلغ رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قال أي يوم هذا قالوا يوم حرام ثم قال أي شهر هذا قالوا شهر حرام قال ثم قال أي بلد هذا قالوا بلد حرام قال فإن الله قد حرم بينكم دماءكم وأموالكم قال ولا أدري قال أو أعراضكم أم لا كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا أبلغت قالوا بلغ رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ليبلغ الشاهد الغائب



ترجمہ: اسماعیل نے سعید الجریری سے، انہوں نے ابو نضرہ سے روایت کی ہے کہ ابو نضرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (نام: نامعلوم) نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے سنا کہ پیغمبر نے ایام التشریق کے درمیان میں خطبہ میں فرمایا : ” اے لوگو بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ بے شک عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی عجمی کو عربی پر۔ اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں اور کالے کو گورے پر، سوائے تقویٰ کے ۔۔۔
نوٹ : یہ تحریر ایک ملحد کی ہے۔
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
  1. خطبہ حجۃ الوداع کئی طریقوں سے کئی صحابہ (ابن عباس، ابو بکر، عمر، عبداللہ ابن عمر، جابر بن عبداللہ انصاری۔۔۔ وغیرہ) سے کئی کتابوں میں نقل ہوا ہے (مثلاً بخاری، مسلم، ابو داؤد، ابن ہشام، طبری وغیرہ) ۔ مگر کسی نے بھی گورے کالے، عربی عجمی کا ذکر نہیں کیا۔​
  2. صرف ایک روایت ہے جسکا درجہ "خبر واحد" کا ہے اور وہ ”غریب“ ہے جس میں گورے کالے، عربی عجمی کا ذکر ہے۔​
  3. مگر اس غریب حدیث اور خبر واحد کا ایک راوی ”الجریری“ وہ ہے جس کے متعلق بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ”غلطیاں“ کرتا تھا۔ (لنک)​
  4. اگلا مسئلہ اس روایت کے ساتھ یہ ہے کہ اس روایت کی سند فقط ایک تابعی ابو نضرہ تک ہے۔ ابو نضرہ نے آگے اس شخص کا نام نہیں بتلایا جو کہ پیغمبر سے یہ سن کر روایت کر رہا ہے۔​
  5. ایک سوال یہ ہے کہ گورے کالے اور عربی عجمی والی اتنی اہم بات دیگر تمام صحابہ کیسے بھول گئے؟​
مسند احمد کی روایت یہ ہے
حدثنا إسماعيل ثنا سعيد الجريري عن أبي نضرة حدثني من سمع : خطبة رسول الله صلى الله عليه و سلم في وسط أيام التشريق فقال يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد وإن أباكم واحد إلا لا فضل لعربي على أعجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأحمر على أسود ولا أسود على أحمر إلا بالتقوى أبلغت قالوا بلغ رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قال أي يوم هذا قالوا يوم حرام ثم قال أي شهر هذا قالوا شهر حرام قال ثم قال أي بلد هذا قالوا بلد حرام قال فإن الله قد حرم بينكم دماءكم وأموالكم قال ولا أدري قال أو أعراضكم أم لا كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا أبلغت قالوا بلغ رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ليبلغ الشاهد الغائب



ترجمہ: اسماعیل نے سعید الجریری سے، انہوں نے ابو نضرہ سے روایت کی ہے کہ ابو نضرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (نام: نامعلوم) نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے سنا کہ پیغمبر نے ایام التشریق کے درمیان میں خطبہ میں فرمایا : ” اے لوگو بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ بے شک عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی عجمی کو عربی پر۔ اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں اور کالے کو گورے پر، سوائے تقویٰ کے ۔۔۔
یہ حدیث درست ہے یانہں اگر نہیں تو اس کی متبادل احادیث درکار ہیں۔ جس میں
ر گورےاور کالے کا ذکر ہو ۔
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
  • خطبہ حجۃ الوداع کئی طریقوں سے کئی صحابہ (ابن عباس، ابو بکر، عمر، عبداللہ ابن عمر، جابر بن عبداللہ انصاری۔۔۔ وغیرہ) سے کئی کتابوں میں نقل ہوا ہے (مثلاً بخاری، مسلم، ابو داؤد، ابن ہشام، طبری وغیرہ) ۔ مگر کسی نے بھی گورے کالے، عربی عجمی کا ذکر نہیں کیا۔​
  • صرف ایک روایت ہے جسکا درجہ "خبر واحد" کا ہے اور وہ ”غریب“ ہے جس میں گورے کالے، عربی عجمی کا ذکر ہے۔​
  • مگر اس غریب حدیث اور خبر واحد کا ایک راوی ”الجریری“ وہ ہے جس کے متعلق بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ”غلطیاں“ کرتا تھا۔ (لنک)​
  • اگلا مسئلہ اس روایت کے ساتھ یہ ہے کہ اس روایت کی سند فقط ایک تابعی ابو نضرہ تک ہے۔ ابو نضرہ نے آگے اس شخص کا نام نہیں بتلایا جو کہ پیغمبر سے یہ سن کر روایت کر رہا ہے۔​
  • ایک سوال یہ ہے کہ گورے کالے اور عربی عجمی والی اتنی اہم بات دیگر تمام صحابہ کیسے بھول گئے؟​
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ :
جس طرح دیگر شعبوں میں ہر علم کے معاملہ میں اس علم کے ماہر کی بات ہی قابل قبول اور مستند ہوتی ہے اسی طرح دینی علم میں دین ماننے والے اور دینی علم رکھنے والے کی بات ہی وزن رکھتی ہے ،
یعنی جس طرح سائنسی علوم میں سائنس علوم کے ماہر ، معاشی امور میں معاشیات کے ماہرکو بولنے کا حق ہے اسی طرح دینی امور میں کسی دیندار اور عالم کو ہی بولنے کا حق ہے ، میراثیوں ،شوبز کے کنجروں ،سیاست کے منافقوں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو دینی معاملات میں رائے زنی کا کوئی حق نہیں ۔ اسی طرح ملحد جو دین کو مانتا ہی نہیں ، اسی یہ بات کہنے کا حق نہیں کہ فلاں حدیث کی اسناد کمزور ہے ، فلاں راوی منفرد ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہ مسئلہ کہ اسلام میں گورے کو کالے ،اور عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ،،، تو یاد رہے یہ مسئلہ حدیث شریف میں تو بعد کی بات ہے
پہلے قرآن کریم سے ثابت ہے :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (سورہ الحجرات 13)
اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

تو واضح ہے کہ کسی انسان کو محض نسل ،رنگ ، علاقہ وغیرہ کی بنیاد پر کسی دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں ، بلکہ اخلاق و اعمال کے لحاظ سے بہترین شخص ہی دوسروں سے بہتر ہے ، اور یہ صرف اسلام ہی کی خوبی ہے کہ یہاں کسی کالے گورے کی تفریق نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہ اعتراض کہ :
گلا مسئلہ اس روایت کے ساتھ یہ ہے کہ اس روایت کی سند فقط ایک تابعی ابو نضرہ تک ہے۔ ابو نضرہ نے آگے اس شخص کا نام نہیں بتلایا جو کہ پیغمبر سے یہ سن کر روایت کر رہا ہے۔
اس کا جواب یہ کہ ابو نضرہ نے حدیث سیدنا جابر صحابی ؓ سے سنی ، اس کا ثبوت درج ذیل اسناد سے واضح ہے
حدثنا أبو عمرو بن حمدان، قال: ثنا الحسن بن سفيان، قال: ثنا العلاء بن سلمة البصري قال: ثنا شيبة أبو قلابة القيسي، عن الجريري، عن أبي نضرة، عن جابر، رضي الله تعالى عنه قال: " خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط أيام التشريق في حجة الوداع، فقال: «يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد، ألا إن ربكم واحد، ألا لا فضل لعجمي على عربي، ولا لأسود على أحمر، ولا لأحمر على أسود إلا بالتقوى، إن أكرمكم عند الله أتقاكم، ألا هل بلغت؟» قالوا: بلى يا رسول الله، قال: «فليبلغ الشاهد الغائب»
(حلية الأولياء لابی نعیم )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ :
جس طرح دیگر شعبوں میں ہر علم کے معاملہ میں اس علم کے ماہر کی بات ہی قابل قبول اور مستند ہوتی ہے اسی طرح دینی علم میں دین ماننے والے اور دینی علم رکھنے والے کی بات ہی وزن رکھتی ہے ،
یعنی جس طرح سائنسی علوم میں سائنس علوم کے ماہر ، معاشی امور میں معاشیات کے ماہرکو بولنے کا حق ہے اسی طرح دینی امور میں کسی دیندار اور عالم کو ہی بولنے کا حق ہے ، میراثیوں ،شوبز کے کنجروں ،سیاست کے منافقوں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو دینی معاملات میں رائے زنی کا کوئی حق نہیں ۔ اسی طرح ملحد جو دین کو مانتا ہی نہیں ، اسی یہ بات کہنے کا حق نہیں کہ فلاں حدیث کی اسناد کمزور ہے ، فلاں راوی منفرد ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہ مسئلہ کہ اسلام میں گورے کو کالے ،اور عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ،،، تو یاد رہے یہ مسئلہ حدیث شریف میں تو بعد کی بات ہے
پہلے قرآن کریم سے ثابت ہے :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (سورہ الحجرات 13)
اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لئے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

تو واضح ہے کہ کسی انسان کو محض نسل ،رنگ ، علاقہ وغیرہ کی بنیاد پر کسی دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں ، بلکہ اخلاق و اعمال کے لحاظ سے بہترین شخص ہی دوسروں سے بہتر ہے ، اور یہ صرف اسلام ہی کی خوبی ہے کہ یہاں کسی کالے گورے کی تفریق نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی یہ اعتراض کہ :

اس کا جواب یہ کہ ابو نضرہ نے حدیث سیدنا جابر صحابی ؓ سے سنی ، اس کا ثبوت درج ذیل اسناد سے واضح ہے
حدثنا أبو عمرو بن حمدان، قال: ثنا الحسن بن سفيان، قال: ثنا العلاء بن سلمة البصري قال: ثنا شيبة أبو قلابة القيسي، عن الجريري، عن أبي نضرة، عن جابر، رضي الله تعالى عنه قال: " خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط أيام التشريق في حجة الوداع، فقال: «يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد، ألا إن ربكم واحد، ألا لا فضل لعجمي على عربي، ولا لأسود على أحمر، ولا لأحمر على أسود إلا بالتقوى، إن أكرمكم عند الله أتقاكم، ألا هل بلغت؟» قالوا: بلى يا رسول الله، قال: «فليبلغ الشاهد الغائب»
(حلية الأولياء لابی نعیم )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیر
 
Top