• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حجیت حدیث

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حجیت حدیث

محدث عصر رواں ' فقیہ دوراں حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ​

کوئی مسلمان ایسا نہیں جو مسلمان بھی کہلائے اور مطلقاً حدیث کا انکار کردے ۔ کچھ افراد بعض جزئیات کے منکر رہے ہیں۔ جیسے شیعہ ، معتزلہ اور خوارج ہیں۔ کبھی خبر واحد کہہ کر انکار کیا۔ اور کبھی حدیث کو عقل اور قرآن کے خلاف کہنے کی کوشش کی۔ آج سے اڑھائی سو سال قبل کچھ لوگ آئے۔ جنہوں نے مطلقاً حدیث کا انکار کیا اور بعض وجود حدیث کے ہی منکر ہیں۔ ان کی یہ بات بالکل باطل ہے۔ جس کے لیے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
قرآن مجید سے حجیت حدیث کے دلائل:
پہلی دلیل:
[وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا] [الحشر : 7]
اس آیت سے پتہ چل رہا ہے کہ رسول اللہﷺ کا امر اور نہی دونوں حجت ہیں۔ اگر دونوں حجت نہ ہوں تو حکم دینے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ آیت مسئلہ فئے کے بارے میں ہے۔ ان کا یہ شبہ اس طرح دور ہوگا کہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوص شان نزول کا اعتبار نہیں ہوتا۔ ورنہ قرآن مجید میں تمام احوال، ازمنہ، مقامات اور اشخاص میں حجت نہیں رہے گا۔ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب الا بثبت۔​

ان کے اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آیت مسئلہ فئے کےلیے ہی ہے ، ہم تسلیم کر لیتے ہیں تو مسئلہ فئے کےلیے آپ کے جو اوامر و نواہی ہوں گے، وہ تو نافذ ہوں گے۔ تو مسئلہ فئے میں آپ کا امر ونہی کیوں نافذ کیا؟ صرف اس لیے کہ آپ رسول اللہﷺ ہیں، تو آپﷺ دوسرے امور کےلیے بھی رسول اللہ اور نبی ہیں۔​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دوسری دلیل:
[وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً ] [الأحزاب : 36]
کسی مؤمن مرد وعورت کو اختیار ہی نہیں کہ اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردیں پھر وہ یہ سوچتا رہے کہ میں عمل کروں یا نہ کروں، اگر ایماندار ہے تو بلا تامل آپ کا فیصلہ قبول کرے گا۔ اس سے پتہ چلا کہ نبیﷺ کا فیصلہ حجت ہے، ورنہ لوگوں کا اختیار ختم نہیں کیا جاسکتا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تیسری دلیل:
[فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً] [النساء : 65]
اس آیت سے بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا فیصلہ حجت ہے جب تک نبیﷺ کا فیصلہ ظاہر ی اور باطنی ہر لحاظ سے تسلیم نہیں کریں گے تو اس وقت تک ایمان نہیں ہوسکتے۔ اگر نبیﷺ کا فیصلہ حجت نہ ہو تو ایمان کی نفی کیسے ہوگی؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
چوتھی دلیل:
[لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً] [الأحزاب : 21]
اسوہ کا معنیٰ ہوتا ہے جس کے نقش قدم پر چلا جائے ۔ اگر آپ کا امر اور نہی حجت نہیں تو آپ اسوہ کیسے بنیں گے؟ حالانکہ آپ اسوہ حسنہ ہیں۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ آپﷺ کے اقوال اور افعال حجت ہیں۔ اسی کو حدیث کہتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
پانچویں دلیل:
[فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ]
[النور : 63]
اس آیت میں رسول اللہﷺ کے امر کی مخالفت کرنے والے کو فتنہ یا درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اگر آپ کا امر حجت نہیں تو عذاب الیم کی وعید کیسے ہوسکتی ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
چھٹی دلیل:
[قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ ] [آل عمران : 31]
اگر تمہارے اندر اللہ کی محبت موجود ہے تو رسول اللہﷺ کا اتباع کرو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ایمان کا تقاضا ہے جس کے بغیر آدمی ایماندار نہیں بن سکتا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت رسول اللہﷺ کے اتباع پر موقوف ہے۔اگر لوگ رسول اللہﷺ کا اتباع نہ کریں تو ایماندار نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قرآن کے ماننے والے بھی نہیں رہتے۔ قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جن میں خاص حدیث کی طرف اشارہ ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا ] [البقرة : 142]
کہ مسلمانوں کو اپنے قبلے سے کس چیز نے پھیر دیا؟
مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں کہیں بھی موجود نہیں، اس کا تذکرہ احادیث میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو حکم حدیثوں میں ہے، وہ اللہ کا حکم ہے۔
سورۃ التحریم، آیت : 03 میں ہے:
[وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ] [التحريم : 3]
کہ نبیﷺ نے اپنی بیوی کے ساتھ راز کی بات کی۔ تو اس بیوی نے راز کو فاش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر اپنے نبی کو دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے جو اطلاع اپنے نبی کو دی ہے۔ وہ قرآن میں نہیں ہے، حدیث میں ہے کہ جب نبیﷺ نے بیوی سے پوچھا تو بیوی نے کہا کہ آپ کو کس نے خبر دی؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔ رسول اللہﷺ کا بیوی سے سوال کرنا قرآن میں مذکور نہیں لیکن جواب مذکور ہے۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ [وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ] میں ہے ، لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ [وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ] خبر ہے ۔ ایک حکایت ہوتی ہے ، دوسرا محکی عنہ ہوتا ہے۔ حکایت محکی عنہ سے غیر ہوا کرتی ہے۔ اگر اس کو محکی عنہ مان لیں تو بات غلط ہوجاتی ہے کیونکہ محکی عنہ پورا واقع ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ساتویں دلیل:
[إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ]
[يونس : 15]
اس آیت میں نفی اور استثناء موجود ہے جو قصر کا فائدہ دیتا ہے کہ میں صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں ، وحی کے علاوہ کسی کی پیروی نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت صرف وحی کی پیروی ہوتی تھی، جس کی پیروی ہوتی تھی، وہ آپ کی حدیث ہی تھی اور قرآن ہی تھا۔ لہٰذا حدیث بھی وحی ہے۔ ورنہ مذکورہ بالا آیت میں قصر درست نہیں رہتا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آٹھویں دلیل:
[وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ] [الشورى : 51]
انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ خفیہ اشارہ ہو۔ دوسرا طریقہ : پس پردہ کلام کرنا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوئے۔ اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی فرشتے کو پیغام دے کر بھیج دے۔ اسی طرح ہم نے آپﷺ کی طرف وحی کی۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ تک دین تین طریقوں سے آیا ہے۔قرآن مجید ان تین طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ دوسرے دونوں طریقوں سے جو قوانین آئے۔ وہ کہاں ہیں؟ وہ حدیث کی شکل میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
[وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ] [النساء : 113]
اور اللہ نے تجھ پر قرآن نازل کیا اور حکمت نازل کی۔
کون سی حکمت نازل ہوئی؟ وہ حدیث ہے۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ آپ کی حدیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے ۔ جو شخص حدیث کا منکر ہے، وہ قرآن کا منکر ہے۔ اگر وہ قرآن کو مانتا ہے تو ان تمام قرآنی آیات کو بھی مانے گا۔ جب وہ قرآنی آیات کو تسلیم کرلے گا تو حدیث کو خودبخود حجت تسلیم کرلے گا۔

لنک
 
Top