• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج بیت اللہ۔ تفسیر السراج۔ پارہ:4

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فِيْہِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۥۚ وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا۝۰ۭ وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۝۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۝۹۷
اس میں کھلے نشان ہیں (یعنی) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پاتا ہے اور اللہ کے لیے اس گھر کا حج اس شخص پر لازم ہے جو اس تک آسانی سے راہ پاوے اور جس نے نہ مانا توخدا جہان کے لوگوں سے بے پروا ہے ۔ ۱؎ (۹۷)
حج بیت اللہ
۱؎ اسلام کے ارکان ِخمسہ میں حج بھی ایک بہت اہم رکن ہے ۔ اس آیت میں اس کی فرضیت پرزوردیا ہے اورکہا ہے کہ ہرشخص جو استطاعت رکھتا ہو، مکلف ہے کہ بیت اللہ پہنچے اور مناسک حج ادا کرے مگر استطاعت کیا ہے؟ اس کے مفہوم میں اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک صرف زادِ راہ اور راحلہ کافی ہے ۔ اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک نفس قوت کفایت کرتی ہے۔ اگرچہ زاد وراحلہ نہ ہو۔

ابن زبیر ،شعبیؒ اورعکرمہؒ اسی طرف گئے ہیں۔ ضحاکؒ نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص مضبوط اور تندرست ہوتو حج کے لیے چاکر ی یا ملازمت اختیار کرے۔ جب زاد راہ کا سامان ہوجائے تو حج کو چلا جائے ۔گویاان کے نزدیک بھی صرف جسمانی قوت واستعداد ہی استطاعت کے مفہوم میں داخل ہے ۔

اصل چیز یہ ہے کہ استطاعت سبیل کا لفظ عام ہے ۔ اس میں جسمانی قوت واستعداد سے لے کر زادراہ، راحلہ اور دیگر وسائل سفر تک سب چیزیں شامل ہیں۔ یعنی ہروہ چیز جس کا حصول سفر کے امکانات میں سہولت پیدا کردے، وہ استطاعت کے دائرے میں موجود ہے اوراحادیث میں جو زاد وراحلہ کو استطاعت سے تعبیر کیا ہے تووہ بطور تفسیر کے ہے،تحدید کے نہیں یعنی عام طورپر چونکہ یہی دوچیزیں اولاً خیال کی جاتی ہیں، اس لیے ان کاموجود ہونا ضروری ہے ۔

وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔کا مطلب یہ ہے کہ حج مبرور سے جس کا صلہ جنات ونعیم کی لازوال نعمتیں ہیں۔ محرومی کفر ہے ۔یعنی اگر کوئی شخص باوجود استطاعت کے فریضۂ حج ادا نہیں کرتا توپھر اسے اپنے اسلام کا جائزہ لینا چاہیے۔ قرآن حکیم اس کے لیے کفر کا خوفناک لفظ تجویزکرتاہے۔

اس سے اس کی اہمیت واضح ہے اور یہ اس لیے ہے کہ حج میں صرف عبادت وزہد کا سامان فراواں ہی موجود نہیں بلکہ ایمان وعقیدت کے لیے مکہ کا ذرہ ذرہ وادی ایمن ہے اورپھر وہ اجتماع عظیم ہوتا ہے جس میں ملک ووطن کی تمام تفریقیں اٹھ جاتی ہیں اور سارے انسان ایک خاص لباس میں رب تعالی کے سامنے جھک جاتے ہیں اور وحدت ویکسانی کا ایک متلاطم سمندر ہوتا ہے ۔ بادشاہ سے لے کر فقیر تک ہیں کہ ایک ساتھ مناسک حج ادا کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ اجتماع ابراہیمی کا سب سے بڑا اجتماع ہے ، اس لیے حج کا مسئلہ صرف عبادت وزہد کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق اجتماعات سے بھی ہے، اس لیے اس کا انکار چاہے وہ عمل سے ہو اور چاہے قول سے ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔

۱؎ ان آیات میں اہل کتاب کی مخالفانہ اور معاندانہ کوششوں کا ذکر ہے کہ وہ جانتے ہوئے بھی حق وصداقت کا انکار کرتے ہیں اور صرف انکار پر ہی کفایت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی شریک ہوجائیں اور ارتداد اختیار کرلیں۔ فرمایا مسلمانوں سے اس قسم کی توقعات رکھنا درست نہیں، اس لیے کہ وہ صبح ومسا قرآن حکیم کی آیات کو سنتے ہیں جن میں تمہارے ہرفریب کی تشریح موجود ہے اور ان کے شبہات دورکرنے کے لیے خود اللہ کا رسول ﷺ ان میں موجود ہے جو بجائے خود ہر کفر ونفاق کا ایک مستقل جواب ہے ۔جب تک اس کا وجودِ مسعود مسلمانوں میں موجود ہے۔انھیں ارتداد کا خوف نہیں اور اگر کوئی بدبخت پہلے سے دل میں نفاق وکفر پوشیدہ رکھتا ہو یاذوق ایمان نے اسے یقین واستقلال کی دولت گرانما یہ نہ بخشی ہو، ایسی صورتوں میں تو ارتداد ممکن ہے کیو ں کہ اصل میں یہ ارتداد ہی نہیں بلکہ اندرونی کفر ونفاق کا اظہار ہے۔ پس وہ شخص جو درحقیقت مومن ہے ۔ جس کا دل ودماغ قرآن کے حقائق ومعارف سے منور وروشن ہے ، وہ کبھی بھی صراط مستقیم سے منحرف نہیں ہو سکتا۔
حل لغات
{حِجٌّ} قصد کرنا۔ارادہ کرنا۔ اصطلاح قرآن میں بیت اللہ میں پہنچ کر مناسک مقررہ کی ادائیگی۔
 
Top