• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج کی اہمیت و فضیلت

شمولیت
مارچ 03، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
43
حج کی اہمیت وفضیلت

محمد نعمان سلفی
حج کی لغوی تعریف:۔ لفظ حج باب حج یحج (نصر) سے مصدر ہے اس کا معنی قصد وارادہ کرنا،، ہے۔ (القاموس المحیط:۱۶۷)
حج کی شرعی تعریف:۔ مخصوص افعال کی ادئیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف قصد کرنا حج کہلاتا ہے،اور امام جرجانی کے نزدیک:مخصوص وقت و مخصوص شرط اور
مخصوص صفت کے ساتھ بیت اللہ کا قصد کرنا حج کہلاتا ہے،(التعریفات للجرجانی: ۸۲)اور عینی کے نزدیک :حج کہتے ہیں کسی
مخصوص فعل کو ادا کرنے کے لیے تعظیم کے غرض سے بیت اللہ کا قصد کرنا،(عمدۃ القاری للعینی:۹؍۱۲۱)
قارئین کرام : ۔ مذہب اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں ایک پاکیزہ اور ممتاز مذہب ہے،اور ایک انسان کا اسلام میں داخل ہوجانے کے بعدوہ چار چیزوں کا
مکلف ہوجاتا ہے،اور وہ ہے نماز قائم کرنا،رمضان کے روضے رکھنا،زکاۃ ادا کرنا،اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرنا،ابن عمر رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ بنی الاسلام علی خمس شہادۃ ان لاالہ الا اللہ و أن محمد ا رسول اللہ واقام
الصلاۃ وایتاء الزکاۃ’’والحج‘‘ وصوم رمضان (متفق علیہ)
کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے،یہ شہادت دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں،اور یقیناًمحمد اللہ کے رسول ہیں،نماز قائم کرنا
،زکاۃ ادا کرنا،حج کرنا،اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔
حج کی تاریخ:۔
حج کی تاریخ بڑی پرانی ہے،جسے سورہ حج کی آیت ۲۷ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کے ذریعہ ایک منادی کروایاکہ ’’ وأذن فی
الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یأتین من کل فج عمیق‘‘ (الحج:۲۷)
اور لوگوں میں حج کی منادی کردے ،کہ لوگ تیرے پاس پاپیادہ بھی آئیں گے ،اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی،اور دور دراز کی تمام راہوں سے بھی آئیں
گے۔ پس اس حکم الہی سے ابراہیم علیہ السلام نے صدا بلند کی کی اے لوگو!اللہ نے تمہارے اوپر اس گھر کا حج فرض قرار دیا ہے،صدا بلند کرنے کی دیر تھی کہ
آپ کی یہ صدا اور آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی،اور اسی آواز کا کرشمہ ہے کہ ہرسال لاکھوں کی تعداد میں لوگ وہاں پہنچتے ہیں،اور کروڑوں وہاں پہنچنے
کے لیے تڑ پتے ہیں،اور جو ایک دفعہ حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کر لیتا ہے وہ باربار جانے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔
حج کی فرضیت:۔
حج ایک کثیر الفوئد عبادت ہے،جو ہر صاحب استطاعت عاقل ،بالغ،بندۂ مسلم پر فرض ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’ وللہ علی الناس حج
البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘( ال عمران: ۹۷)کہ ہر صاحب استطاعت بندے پر اللہ تعالی نے بیت اللہ کا حج فرض قرار دیا ہے،
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی فرضیت کو واضح کرتے ہوئے یوں فرمایا:أیھا الناس قد فرض اللہ علیکم الحج فحجوا ( مسلم
:۳۲۵۷) اے لوگو! اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کرو۔
لیکن واضح رہے کہ یہ رکن دیگر ارکان کی طرح نہیں ہے کہ اس کو باربار ادا کرتے رہنا واجب اور ضروی ہوگا،بلکہ اگر بندۂ مؤمن زندگی میں ایک بار اس
رکن کو ادا کر لیتاہے تو یہ کافی ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے ،حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:أیھا الناس قد فرض اللہ علیکم الحج فحجوا ،فقال رجل:أکل عام یا رسول اللہ ؟فسکت،حتی قالھا
ثلاثا،فقال:رسول اللہ صلی اللہ علیہ ووسلم :لوقلت نعم لوجبت ولما استطعتم ،،(مسلم ،کتاب الج،باب فرض الحج مرۃ
فی العمر) اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے،لہذا تم حج کرو،ایک آدمی(اقرع بن حابسؓ ) نے عرض کیا کہ کیا ہر سال اے اللہ کے رسول ،آپ صلی
اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ،حتی کہ اس نے تیسری مرتبہ یہی سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہاں کہدیتا تو(ہرسال) واجب
ہوجاتا،اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔
اسی طرح ابن عباسؓ سے مروی مرفوع روایت میں ہے کہ :الحج مرۃ واحدۃ فمن زاد فھو تطوع (ابو داؤد ،کتاب المناسک ،باب فرض
الحج)کہ حج (زندگی میں)ایک مرتبہ فرض ہے،اور جس نے زیاد ہ کیا تو وہ نفلی حج ہے۔
حج کی فضیلت:۔
۱۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے،جس کی ادا ئیگی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت اور گناہوں سے پاکی کا عام اعلان فرمایا
ہے،کہ اگر ایک حاجی دنیاوی خرافات اور لہو لعب سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اس مبارک فریضہ کی انجام دہی کرتا ہے تو وہ اس شہر مبارک سے اسی طر ح
لوٹتا ہے جیسا کہ آج ہی کے دن اس کی ماں نے اسے جنا ہو، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے
سناکہ: من حج للہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ (رواہ البخاری:۱۵۲۱) جس نے اللہ کی رضا کے لیے حج کیا ،اور اس دوران
کوئی بیہودہ بات،گناہ یا فسق و فجور سے اجتناب کیا،تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اس کی ماں نے اس کو جنم دیا
تھا۔۲۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ حج کرنے سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں(رواہ مسلم)
۳۔ حج مقبول کی جزاء صرف جنت ہے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:ایک عمرے سے دوسرے
عمرے تک کے درمیان کے گناہوں کا (عمرہ )کفارہ ہوتا ہے’’ والحج المبرور لیس لہ جزاء الاالجنۃ،،(رواہ البخاری: ۱۷۷۳)اور مقبول
حج کا ثواب بس جنت ہے ،لیکن یاد رکھئے ! حج مبرور وہ حج ہے جو قرآن وسنت کے مطابق وموافق ہو۔
۴۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب حجاج کرام میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں ،عرش والا ان کے قریب آجاتا ہے،اور ان پر فرشتوں میں فخر کرتا
ہے،کہ اے میرے فرشتو! بتلاؤ میرے یہ بند ے کیا لینے آئے ہیں؟ نیز اللہ تعالی خوش ہوکر اس دن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کرنے کا فیصلہ
فرماتے ہیں، کہ اتنی بڑی تعداد میں سال بھر میں کسی اور موقع پر لوگ جہنم سے آزاد نہیں ہوتے،(مسلم ،کتاب الحج ،باب فضل یوم
عرفۃ:۳۲۸۸)
حج کے فوائد ومقاصد:۔
حج ایک ایسا عمل ہے جس سے دل کی کیفیات میں انقلاب رونما ہوتا ہے،سفر کی مشکلات سے حلم وبرد باری،عفو وایثار،اور تواضع وغیرہ اخلاق کی دولت
حاصل ہوتی ہے،احساسات کی دنیا بدل جاتی ہے،وجدان میں اللہ پاک کے مشاہدہ کرنے کا اٹھکیلیاں لینے لگتا ہے،آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں،اور تمام
جوارح وما فیہا سے بے نیاز ہو کر صرف اسی کی جانب متوجہ ہوتے ہیں،غلاف کعبہ کو محبت بھرے انداز سے تھامتے ہوئے جب ماضی کی
غلطیوں،گناہوں،لغزشوں کی معافی و درخواست بارگاہ رب ذوالجلال میں پیش ہوتی ہے تو نہ صرف یہ کہ انہیں نامہ اعمال سے حذف کردیا جاتا ہے ،بلکہ
ان کی جگہ نیکیاں ثبت کردی جاتی ہیں،نیز اللہ کی توحید کا بڑا مظاہرہ ہوتا ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کا بہت بڑا باہمی رابطہ اور عالمی ذریعہ مواخات کا منظر
ہوتا ہے،ایک لباس،ایک زبان ،ایک جیسی کلام :لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔۔۔ ألخ کا ہر ایک کی زبان پر ورد ہوتا ہے،
نیز حج سے گناہ مٹ جاتے ہیں ساتھ ہی ساتھ فقر و فاقہ بھی ختم ہوجاتا ہے،اس جانب یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے: تابعوا بین الحج والعمرۃ
فانہما ینفیان الفقر والذنوب (ترمذی :۸۱۰ صحیحہ:۱۱۸۵)
اورسب سے بڑھ کر اللہ کی رضا اور جنت میں داخلہ ،یہ محض چند ہی فوائد ومنافع کی جھلک آپ کو دکھلائی گئی ہے ورنہ حج کے اور بھی بہت سارے فائدے
اور منافع ہیں جو کسی سے مخفی نہیں،اور کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں یہ مژدۂ جانفزا مل گیا،اور وہ رحمت ایزدی کے مستحق قرار دیے گئے
لہذا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا ودعا ہے کہ اللہ استطاعت رکھنے والوں کو یہ فریضہ بجالانے کی توفیق بخشے ،اور جنہیں استطاعت نہیں انہیں
استطاعت عطا فرمائے ،اور جو اس فریضے کو ادا کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں،ان کا یہ عمل قبول فرمائے۔آمین
 
Last edited by a moderator:
Top