شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
حد ث اصغر کی صورت میں مصحف قرآنی کو ہاتھ لگانے کا حکم
بعض مسائل جیسے یزید کے مغفور اور جنتی ہونے کا مسئلہ، چار دن قربانی کا مسئلہ اور بلا وضو قرآن چھونے کا مسئلہ وغیرہم ایسے مسائل ہیں کہ دیگر اختلافی مگر اہم مسائل کی بھرمارمیں ان مذکورہ نسبتاً کم اہم مسائل کوماضی میں قابل توجہ یا لائق التفات نہ سمجھتے ہوئے زیر بحث نہیں لایا گیا۔اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی رہا کہ مخالفین اہل الحدیث نے اپنی تمام تر توجہ رفع الیدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام اور تقلید جیسے مسائل پر مرکوز رکھی اور انہی مسائل کو مناظرے اور مناقشے کا محور بنائے رکھانتیجتاً فطری طور پر جماعت اہل حدیث کوکسی اور مسئلہ کی جانب توجہ کرنے کا موقع ہی میسر نہیں آیا۔ اس حقیقت کا اقرار و اعتراف مخالفین کو بھی ہے چناچہ مولانا اللہ وسایا دیوبندی لکھتے ہیں: حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب رحمہ اللہ کی زندگی کا اہم ترین مقصد تحفظ ختم نبوت تھا، آپ کے شاگرد رشید حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ: ایک دفعہ آپ قادیان تشریف لے گئے، مسجد میں مغموم بیٹھے تھے، درد دل کے ساتھ آہ بھری اور فرمایا: شفیع! ہماری تو زندگی ضائع ہوگئی، قیامت کے دن خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھلائیں گے۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: حضرت! دنیا کا کوئی کونا نہیں جہاں آپ کے شاگرد نہ ہوں، دنیا آپ کے علم سے سیر ہورہی ہے،صبح و شام بخاری و مسلم کا سبق پڑھاتے ہیں، بے شمار آپ نے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، اب بھی آپ فرمائیں کہ ہماری زندگی ضائع ہوگئی تو پھر ہمارے جیسوں کا کیا حال ہوگا؟ حضرت ؒ نے فرمایاکہ: ساری زندگی ہم وجوہ ترجیح مذہب احناف بیان کرتے رہے، حالانکہ امام شافعی رحمہ اللہ بھی حق پر ہیں، مسئلہ فاتحہ خلف الامام کو چھیڑے رکھا، حالانکہ ان سے کہیں زیادہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ (تذکرہ مجاہدین ختم نبوت اور قادیانیوں کے عبرت انگیز واقعات، صفحہ 42،43)
انور شاہ کشمیری دیوبندی کی اسی گفتگو کو ان کے شاگرد مفتی محمد شفیع نے اپنی تصنیف ”وحدت امت“ میں زراالگ اور مختلف انداز سے نقل کیا ہے جہاں انور شاہ موصوف نے فاتحہ خلف الامام کے علاوہ آمین بالجہر اور رفع یدین جیسے مسائل کے پیچھے پڑ کر قیمتی وقت کے ضیاع پر ندامت اور پشیمانی کا اظہار کیا ہے ملاحظہ ہو محمد شفیع صاحب اپنے استاد کے خیالات و احساسات بتاتے ہوئے رقمطراز ہیں: قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق تھی یا بالسر حق تھی، برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا............... تو جس چیز کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں، نہ محشر میں، اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اپنی قوت صرف کردی..................وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے، شرک و بت پرستی چل رہی ہے، حرام و حلال کا امتیازاٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوتے ہیں ان فرعی وفروعی بحثوں میں۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایایوں غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی۔ (وحدت امت، صفحہ31،32)
لہٰذاتوقع کے عین مطابق انجام کار اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اغیار اور مخالفین کے مابین یہ مسائل اہل حدیث کی شناخت اور پہچان کی حیثیت اختیار کرگئے اوراس صورت حال کے سبب اہل حدیث کی عوام حتی کہ بعض خواص میں بھی عام تاثر یہی پایا جانے لگا کہ بنا کسی اختلاف کے ذکرکردہ بالا مسائل (یعنی یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہنااور بلا شک و شبہ اس کے مغفوراور جنتی ہونے کا عقیدہ رکھنا، چار دن کی قربانی کو ثابت شدہ اور متروک سنت سمجھنا اس لئے خصوصیت کے ساتھ ہر سال اس کا اہتمام کرنااوربغیر ہچکچاہٹ وکراہت کے قرآن کو بلا وضو چھونابلکہ دین آسان ہونے کی بناپر اسے شریعت کا منشا اور مقصود سمجھنا) جماعت اہل حدیث کے شعار ہیں حالانکہ حقیقت سے اس تصور کا دور کا بھی واسطہ نہیں اور صحیح صورتحال اس سے قطعاً مختلف ہے نہ تو یہ مسائل اہل الحدیث کا جماعتی اور اجتماعی موقف ہیں اور نہ ہی جمہور سلف صالحین ان نظریات کے حامی رہے ہیں بالخصوص آخرالذکر موقف کے۔
مندرجہ بالا مسائل میں سے ثالث الذکر مسئلہ کوچونکہ جوں کی توں شہرت نصیب ہوئی اور بر موقع و محل اس کا ازالہ نہ ہوسکا اس لئے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ اس پر مستزاد اہل حدیث ہونے کا تاثر رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے مقبول عام مبلغ و مناظر کے بیانیے نے اسے مزید تقویت پہنچائی اور اس تاثر کو مزید گہرا کردیاکہ کتاب اللہ کو چھونے کے لئے وضو کی غیر ضروری شرط لوگوں کو مشقت میں ڈالنے والی ہے جو در اصل لوگوں کو قرآن سے دور رکھنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
افسوسناک طور پر قرآن کے بارے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ذکر کردہ نامعقول خیالات،بیانیے اور موقف سے اتفاق کرنے والے علماء کی ایک لمبی فہرست ہے مثلاً ایک اہل حدیث عالم ابوفہد قاری عبدالحفیظ ثاقب بھی اپنے ہم خیالوں کی طرح قرآن فہمی میں رکاوٹ اور کتاب اللہ سے دوری کا سبب بننے والے بعض عوامل اور اسباب میں سے ترقیم نمبر آٹھ پر ایک سبب اور ایک عامل وضو کو قرار دیتے ہوئے گویا ہیں: اگر قرآن مجید کو چھونے اور تلاوت کرنے کے لیے وضو کرنے کا حکم دے دیا جاتا تو نہ صرف عام مسلمانوں کے لیے تلاوت قرآن میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہوجاتی بلکہ قرآن مجید کی تعلیم اورتحفیظ کے اساتذہ اور خصوصاً طلباء کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجاتیں لہٰذا اس بارے میں درست موقف یہی ہے کہ قرآن مجید کی بلا وضو تلاوت اور اسے چھونا درست ہے۔(فہم قرآن کورس،پارٹ ا،صفحہ 59)
اپنی دانست میں قرآن سے تعلق میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور عوام الناس کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانی پیدا کرنے کے لیے اپنے اپنے نظریے کی ترویج و تفہیم کی اس ساری بحث اور کوشش میں نہایت تکلیف دہ اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ قاری عبدالحفیظ ثاقب صاحب نے انتہائی مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے ”قرآن مجیدکو پکڑنے کے لیے وضو کی شرط“ کوبھی ایک بیماری اورانسان کے ازلی دشمن شیطان کی ایک چال کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ انکے نزدیک وضو کی شرط بھی قرآن سے دوری کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔ ملاحظہ فرمائیں موصوف قرآن فہمی کی رکاوٹوں کی تعداد اور تفصیل سے پہلے لکھتے ہیں: انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید ہی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس لیے انسان کے ازلی دشمن، شیطان، نے اسے قرآن مجید سے دور رکھنے کے لیے بے شمار رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور ان کے لیے بڑے خوبصورت اور خوشنما دلائل بھی مہیا کر رکھے ہیں۔ اگرچہ ایسے اسباب تو بے شمار ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اجتماعی اسباب کے علاوہ ہرفرد کے لیے بعض انفرادی اسباب بھی ہوں تاہم، یہاں ہم بعض اہم اسباب کی نشاندہی کررہے ہیں۔بعض اوقات انسان کسی مرض میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو مریض محسوس نہیں کرتا اور مرض کا احساس اسے اس وقت ہوتا ہے جب مرض لاعلاج ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید سے دوری کے اسباب کی نشاندہی کا مقصد یہی ہے کہ اگر کوئی شخص غیر محسوس طریقے سے یا لاشعوری طورپران امراض میں مبتلا ہے یا ان میں سے کسی ایک مرض میں مبتلا ہے تو وہ مرض کے لاعلاج ہونے سے پہلے پہلے اس پرتوجہ دے سکے۔ہمارے نزدیک قرآن مجید سے دوری کے اہم اسباب درج ذیل ہیں۔(فہم قرآن کورس، پارٹ ا،صفحہ 43)
غیر شعوری طور پر قرآن کی بے ادبی کی راہ ہموار کرنے کے لئے بظاہر آسانی کا یہ نعرہ جتنا ہی قرین عقل اور پرکشش کیوں نہ ہو لیکن شریعت لوگوں کی عقل پر نہیں چلتی۔جیسا کہ عقل اور منطق کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: اگر دین عقل پر ہوتا توموزے کے نچلے حصہ پر مسح کرنا اس کے اوپری حصہ پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا۔(سنن ابوداود، جلد اوّل، کتاب الطہارت، باب: مسح کیسے ہو؟)
نواب سید محمد صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض اہل علم نے کہا ہے: ”دیننا مبنی علی النقول لا علی مناسبۃ العقول“ ]ہمارا دین نقول (نصوص) پر مبنی ہے نہ کہ عقول کی پسند اور مناسبت پر[ (مجموعہ علوم قرآن، صفحہ 149)
معلوم ہو ا کہ بعض معاملات میں انسانی عقل کچھ اور کہتی ہے جبکہ شریعت کا فیصلہ کچھ اورہوتا ہے اسی طرح قاعدہ کلیہ”دین آسان ہے“ کی رو سے توبعض الناس کی عقل اور منطق یہی کہتی ہے کہ وضو کی تکلیف اٹھائے بغیر ہی مصحف کو ہاتھ لگانے میں آسانی اور سہولت ہے لیکن نصوص بتاتی ہیں کہ شریعت کا منشاء یہاں بھی خلاف عقل کچھ اور ہے۔
مضمون کے عنوان سے ظاہر ہے کہ ہم نے صرف حدث اصغر کی حالت میں مس قرآن کے شرعی حکم کو موضوع سخن بنایا ہے اور حدث اکبر کی حالت سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حالت ناپاکی میں قرآن چھونے کے حرام ہونے پر امت کا اجماع واقع ہواہے اس لئے حدث اکبر کی صورت میں مصحف قرآنی کو ہاتھ لگانے کا مسئلہ مکمل طور پر خارج از بحث ہے۔گویا اس مسئلہ کی اجماعی حیثیت کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے اس پر اظہار خیال یابحث و مباحثہ کو قیمتی وقت کی بربادی اور ضیاع سمجھتے ہوئے اس جھنجٹ میں پڑنے سے دانستہ گریز کیا گیا ہے۔اس سب کے باوجود بھی حیرت اس بات پر ہے کہ بعض حاملین کتاب و سنت ایسی ناپاکی کی حالت میں بھی مس مصحف کے جواز کی شدید غلطی فہمی میں مبتلا نظر آتے ہیں غالباً ایسے صاحبان اس خاص مسئلہ میں اجماع امت پر مطلع نہیں ہوسکے۔ واللہ اعلم
مثال کے طور پر خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے تو پھر اس مسئلہ میں کیا وزن باقی رہ جاتا ہے کہ حائضہ یا جنبی قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔منع والی بات کو ادب و احترام کے پیش نظر استحباب پر تو محمول کیا جاسکتا ہے اسے شرعی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔(قد قامت الصلوٰۃ، صفحہ 102)
مزید فرماتے ہیں: انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس پر اگر وضو یا غسل واجب ہو اسے مسجد میں داخل ہونے یا قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے قابل نہ سمجھنا انسانیت کی زبردست توہین ہے۔انسان بھی وہ جو مسلمان ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت موجود ہے کہ وہ نجس نہیں ہوتا۔(قد قامت الصلوٰۃ، صفحہ 102)
بالا کلام کا صاف صاف مطلب یہ ہے خواجہ محمد قاسم کے نزدیک نہ صرف ایک مسلم ہر پاک و ناپاک حالت میں بلاتکلف قرآن کو ہاتھ لگاسکتا ہے بلکہ ایک مشرک و کافر بھی حالت جنابت و حیض میں کتاب اللہ کو بلا جھجک چھوسکتا ہے کیونکہ آخر کو وہ بھی انسان ہے اوربقلم خواجہ محمد قاسم صاحب ناپاکی میں انسان کو قرآن چھونے کی اجازت نہ دینا انسانیت کی زبردست توہین ہے!
راقم کے اس استدلا ل کی تائید خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ کے مسلمان اور کافر دونوں کو طاہر سمجھنے کے نرالے نظریے سے ہوتی ہے۔ خواجہ صاحب رقم طراز ہیں: انسان کوئی بھی ہو مسلمان ہو یا کافر سچ پوچھئے تو وہ ناپاک نہیں ہوتا۔(قد قامت الصلوٰۃ، صفحہ 101)
خواجہ محمد قاسم کی یہ منفرد اور شاذرائے نصوص و دلائل کے برخلاف ہونے کی وجہ سے قابل رد ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں خواجہ محمد قاسم اور انکے ہم نواعلماء کی دلیل فقط یہ ہے کہ انکی نظر میں اسکی کوئی دلیل نہیں۔ ملاحظہ ہو خواجہ محمد قاسم رقمطراز ہیں: کسی آیت یا صحیح حدیث میں ایسا کوئی ثبوت موجودنہیں جس میں حائضہ یا جنبی کو قرآن مجید پڑھنے سے یا اس کو چھونے سے منع کیا گیا ہو۔ (قد قامت الصلوٰۃ، صفحہ 102)
ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے موقف کے مخالفین علماء کے دلائل نما شبہات پر مختصراًروشنی ڈال کر ان کے ازلے کی کوشش کی جائے۔تاکہ دو طرفہ دلائل سامنے آجانے کے بعد اس مضمون کی بنیاد بننے والے علماء کے اقوال کو بہترطور پر سمجھا جاسکے۔
بغیر وضو کے قرآن کو چھونے کی عام اجازت دینے والے علماء کے دو گروہ ہیں جس میں سے پہلا گروہ تو وہ ہے جو امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث ’’لایمس القرآن الا طاہر“ کی صحت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا اور سورہ واقعہ کی آیت ”لا یمسہ الاالمطہرون“سے مفسرین اور کبار علماء کے بغیر وضو قرآن کو نہ چھونے کے استنباط کو استدلالی اور استنباطی دلیل ہونے کی وجہ سے قیاس مع الفارق سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کی یہ آیت انسانوں کے بجائے فرشتوں کے چھونے سے متعلق ہے۔چناچہ ایسے علماء کے نزدیک بے وضو، جنبی اور حائضہ کو مس مصحف سے روکنے والی کوئی دلیل نہیں۔ ان علماء کے رد کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کی آیت سے قطع نظر اس مسئلہ میں فیصلہ کن حدیث بروایت امام مالک تو اسناد سے ہی مستغنی اور بے نیاز ہے کیونکہ اسے امت کا تلقی بالقبول حاصل ہے۔ لہٰذا ان علماء کا حدیث کی صحت کو تسلیم نہ کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ مشہور خط ہے اور اہل علم کے ہاں معروف ہے، اس کی شہرت اسے اسناد سے مستغنی کردیتی ہے۔ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے نام لکھے گئے اس مراسلے کی صحت کی یہی دلیل کافی ہے کہ اس کو جمہور علماء سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ (التمھید لا بن عبد البر: 7/163، 164 بحوالہ قاری قرآن کے اوصاف اور قرآن مجید کے آداب، صفحہ140)
علامہ مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں: (قال ابن عبدالبر انہ اشبہ المتواتر لتلقی الناس لہ بالقبول) ”یعنی ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ یہ کتاب متواتر کے مشابہ ہے کیونکہ لوگوں نے اسے قبولیت سے لیا ہے۔“ (بحوالہ فتاویٰ راشدیہ، صفحہ 244، 243)
ڈاکٹر صالح بن فوزان بن عبداللہ الفوزان زیر بحث حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: چونکہ اس حدیث کو تمام لوگوں نے قبولیت کا درجہ دیا ہے (یعنی تمام لوگوں نے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے) اس لئے یہ حدیث متواتر کی مانندہے۔(تحفہ برائے خواتین، صفحہ 37)
اسی بابت شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: رواہ مالک مرسلاً و و صلہ النسائی وابن حبان و ھو معلول: اس حدیث کے وصل یا ارسال میں محدثین کے ہاں اختلاف ہے۔ لیکن علماء کے ہاں اس روایت کی شہرت، تلقی بالقبول اور اس پر متعددمسائل کی تفریع بتلاتی ہے کہ اس حدیث کی کوئی نہ کوئی صحیح اصل ضرور ہے اور جب کسی مرسل روایت کو تلقی بالقبول مل جائے تو وہ قوی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس کی نقل متواتر، شہرت، تلقی بالقبول وغیرہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ (شرح بلوغ المرام،جلد اوّل، صفحہ 186)
فائدہ: حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ تلقی بالقبول کی اصطلاح کے بارے میں فرماتے ہیں: تلقی بالقبول کا مطلب یہ ہے کہ تمام امت نے بغیر کسی اختلاف کے ان روایات کو قبول کرلیا ہے اور یہی اجماع کہلاتا ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر91، صفحہ 36)
Last edited: