محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 28-ربیع الاول- 1437کا خطبہ جمعہ " حدود اور سزاؤں کا اسلامی تصور" کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس کے اہم نکات یہ تھے:
٭ شریعتِ اسلامیہ کی خوبیاں
٭ شریعتِ اسلامیہ کے مقاصد
٭ شریعت اسلامیہ کے درخشاں پہلو
٭ نفاذِ شریعت کے فوائد اور ثمرات
٭ جرائم کا علاج جرائم رونما ہونے سے پہلے
٭ جرم کی نوعیت کے مطابق شرعی اقدامات
٭ دہشت گردوں کی قرآنی سزا
٭ شرعی حدود پر موشگافی کرنے والوں کا دوہرا معیار
٭ قصاص اور حدود معاشرے کے تحفظ کے ضامن
٭ سزائے موت پانے والوں کی حقیقت
٭ سزائے موت کے خلاف غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرنے والوں کی اصلیت
٭ عسکری جوانوں کو خراج تحسین
٭ باغیوں کیلیے نبوی سزا: قتل
٭ مجرم کی سزا گناہ مٹانے کا باعث
٭ سزا یافتہ شخص کو برے الفاظ سے یاد کرنا جائز نہیں۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے انسانیت کو شریعت اور حدود الہی کی صورت میں نعمتوں سے نوازا، میں اٹھتے بیٹھتے اور سجدوں میں اسی کیلئے حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، وہی بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ کو قیامت کے دن سب لوگوں پر گواہ بنائے گا، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر آخرت کے دن تک رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں ۔[آل عمران : 102]
شریعت اسلامیہ کی بنیاد حکمت اور انسانیت کی دنیاوی و اخروی خیر و بھلائی پر ہے، اسلامی شریعت سراپا عدل و رحمت اور خیر و حکمت ہے۔
شریعتِ اسلامیہ انسانیت کے مابین عدل ، تمام مخلوقات کیلیے رحمتِ الہی، اور اہل زمین کیلیے سایہ الہی ہے، اس سے اللہ تعالی کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے دلائل رونما ہوتے ہیں، یہی لوگوں کیلئے ذریعۂِ نجات اور دھرتی کیلیے دوام کا باعث ہے۔
انسانی زندگی اُسی قانون کے تحت پر سکون ہوگی جس کا تعلق شریعت اسلامیہ سے ہوگا، اور جس میں اسلامی قانون کا نفاذ ہوگا۔
اگر امت شریعت پر کار بند رہے تو نکتہ چینی کرنے والوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، نیز راہِ ہدایت سے روکنے والے اور گمراہی میں اوندھے گرنے والوں سے متاثر بھی نہیں ہوگی؛ کیونکہ مسلمان تو اپنے منہج پر ثابت قدم رہ کر آگے بڑھتا ہے، اور اسی پر قائم رہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ (67) وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (68) اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ}
ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے، لہذا انہیں اس بارے میں تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہیے ، آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں ، بلاشبہ آپ ہی راہ راست پر ہیں [67] اور اگر پھر بھی تنازعہ کھڑا کریں تو آپ کہہ دیں: اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خوب تر واقف ہے [68] اللہ تعالی تمہارے اختلافی امور میں قیامت کے دن فیصلہ کریگا۔ [الحج : 67 - 69]
شریعت اسلامیہ کے اہم ترین مقاصد میں یہ شامل ہے کہ: فائدہ زیادہ سے زیادہ جبکہ نقصان کم سے کم ہو، اس دھرتی کی عدل اور امن و سلامتی کی بنیاد پر آباد کاری ہو، اور نظریاتی حدود سمیت پورے معاشرے کی حفاظت کی جائے۔
شریعت اسلامیہ کا درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ:
شریعت کے تمام احکامات، حدود اور تعلیمات حسن و خوبی پر مبنی ہیں؛ کیونکہ یہ شریعت ہے ہی حسن و خوبی والی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
(یقیناً اللہ تعالی نے ہر چیز کیلیے حسن و خوبی کو لازم قرار دیا ہے)
اور فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}
[عمل کرتے ہوئے]حسن و خوبی اپناؤ، بیشک اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے[البقرة : 195]
ایک مقام پر فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ}
بیشک اللہ تعالی عدل اور اچھے انداز سے کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔[النحل : 90]
اور ان خوبیوں کی حامل شریعت کو حکمت و خبر رکھنے والے اللہ تعالی نے بہترین امت کیلیے نازل فرمایا ہے۔
شریعت کی وجہ سے ہی ہمیں آسودگی میسر آئی، ہم خوش حال ہوئے، ہمیں دہشت کے بعد امن و سلامتی ملی، اللہ تعالی نے ہمارے لیے زمینی خزانوں کے انبار لگا دیے، اور ہمیں پینے کیلیے وافر پانی میسر فرمایا:
{أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ}
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پر امن بنایا حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔[العنكبوت : 67]
نفاذ شریعت اور حدود لاگو کرنے سے ملکی امن کو تحفظ ملا، اور لوگوں کیلیے آسودگی و اطمینان میسر آیا، حالانکہ ارد گرد کے لوگوں کو رطب و یابس ہر چیز کو تباہ کر دینے والی جنگوں سمیت قتل و غارت کا سامنا ہے، یہ اللہ تعالی کا ہی احسان اور فضل ہے، ہم ظاہری اور باطنی ہر انداز سے اسی کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں۔
شریعتِ الہی کا نفاذ ہی پر سکون زندگی کا واحد ذریعہ ہے، اس سے مثبت سرگرمیاں پھلتی پھولتی ہیں، سب خوشحال ہوتے ہیں، وقار اور دفاع مضبوط ہوتا ہے، نیز شریعتِ الہی کا نفاذ قومی وسائل کیلیے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
نفاذِ حدود اسلام کی سر بلندی، امت کے غلبے اور قوت کا باعث ہے :
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی ، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، اس کیلیے ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بیوقوف ، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا، آپ ﷺ نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شریعت نے جرائم کا علاج جرائم رونما ہونے سے پہلے ہی حکمت ، وعظ و نصیحت ، ترغیب و ترہیب، احیائے ضمیر، اور اللہ کا خوف دلوں پیدا کر کے کیا ہے۔
اس دین کی عظمت دیکھیں کہ اس کی طرف سے نافذ کی جانے والی حدود بھی عدل و انصاف پر مبنی ہیں، ہر گناہ اور غلطی کی نوعیت اور حقیقت کے مطابق اس کی سزا مقرر کی ۔
چنانچہ شریعت نے جہاں نرمی کی ضرورت تھی وہاں نرمی برتی اور جس جگہ پر سختی کی ضرورت تھی وہاں سختی اپنائی؛ لہذا دعوت و اصلاح کیلیے نرمی اور شفقت بھرا انداز اپنایا، اگر یہ بلا سود ثابت ہوں ؛ انسان سر چڑھتا جائے تو اس کیساتھ سختی بھی اپنائی اور اس بارے میں ایسے اقدامات کیے جو گناہ ترک کرنے اور غلطی تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں اور فسادیوں کی سزا سخت ترین اور عبرتناک بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ}
جو اللہ تعالی اور رسول اللہ سے اعلان جنگ کریں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا صرف یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔[المائدة : 33]
اور کوئی بھی عقل مند شخص اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ سزا میں سختی کا پہلو لازمی ہونا چاہیے ۔
شریعت اور عقل دونوں کی یکساں رائے کے مطابق ایسے اعضا کو کاٹ کر جدا کر دیا جاتا ہے جو خرابی کا باعث بنے، فتنہ پرور ہو، ہیجان پرداز ہو، اس کی حرکتوں سے شر انگیزی پھیلے، امن و امان مخدوش ہوں، اور اس کے مزید باقی رہنے سے انفرادی اور معاشرتی نقصانات سامنے آئیں۔
سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے حقیقت میں مجرم سے اظہار ہمدردی تو کرتے ہیں لیکن پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ان سزاؤں سے اللہ تعالی کے عدل و انصاف اور اس کی حکمت كا پتہ چلتا ہے؛ کیونکہ یہ سزائیں مفاد عامہ کے حصول اور امن و امان برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ}
اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔[البقرة : 179]
یعنی ہمہ قسم کی زندگی ہے، چنانچہ معصوم جانوں کو زندگی بخشی اس کیلیے معصوم جانوں کا قتل حرام قرار دیا، املاک کو زندگی بخشی اس کیلیے کسی کا حق غصب کرنے سے روکا، عزت آبرو کو زندگی بخشی کہ ہتک عزت حرام قرار دی۔
حدود شریعت کا حصہ ہیں، ان کی وجہ سے ہر شخص کی انفرادی خوشیوں کو تحفظ ملتا ہے، اور پورے معاشرے میں امن و امان قائم ہوتا ہے، لہذا منہج الہی پر چلنے والوں کو حدود اللہ کی وجہ سے مستحکم اور پر سکون زندگی ملتی ہے۔
حدود کی وجہ سے معاشرے کو طیش مزاج لوگوں اور گھٹیا حرکتوں سے تحفظ ملتا ہے، کینہ پرور لوگوں کی دسیسہ کاریوں کیلیے راستے بند ہوتے ہیں، اور انتہا پسند فکر زمین دوز ہوتی ہے، منحرف لوگوں کو راہِ اعتدال ملتی ہے، جس سے خطرات و خدشات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
حدود کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے ، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے، بلکہ حدود کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں، ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ : پورے معاشرے کیلیے بڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔
حدود اصل میں جرائم کی جانب مائل لوگوں پر رحمت و شفقت کا اظہار ہیں، حدود کے ذریعے انہیں جرائم سے روکا جاتا ہے، چنانچہ سزا دیکھ کر مجرم اپنے ارادے تبدیل کر لیتے ہیں، حدود کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگوں کیساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی جرائم سے دور رہنے کا سبق براہِ راست ملتا ہے۔
امت کے حالات قابو میں رکھنے کیلیے حدود کا نفاذ اصل میں مجرموں کے ساتھ رحمت و شفقت ہے، تبھی تو تعمیر و ترقی کا پہیہ رواں دواں رہے گا، اور بد عنوان و شر انگیز عناصر کو اپنے انجام کا بھی علم ہو گا۔
جن لوگوں کو مجرم کے جرم سے دلی صدمے پہنچے ہوتے ہیں انہیں حدود کے نفاذ سے قلبی سکون ملتا ہے، نیز جرائم سے متاثر ہونے والے لوگوں میں دہشت کی جگہ امن و سکون سرایت کر جاتا ہے۔
جاری ہے ----