• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حديث "من سلك طريقا..." کی لغوی ومعنوی وضاحت

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
49
از قلم: منصور حنیف (جامعہ نجران سعودیہ عربیہ)

قارئین کرام!
یہ ایک مشہور حدیث ہے جو طلب علم کی فضیلت پر واضح دلیل ہے، یہ حدیث اکثر اھل علم کی زبان زد ہے
حدیث کچھ اس طرح ہے اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: مَن سَلَكَ طَريقًا يَلتمِسُ فيه عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ له به طَريقًا إلى الجَنَّةِ (رواه مسلم)
ترجمہ: جو شخص علم کے طلب میں کوئی راستہ طے کرتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کی راہ آسان بنا دیتا ہے۔
اولا لفظ "سَلَكَ" کے لغوی معنی پر غور کرلیتے ہیں۔
سلك يسلك یہ باب نصر سے جس کا مصدر "سلكا وسلوكا" کے ہیں، اسی سے "سلك الطريق" ہے، یعنی راستہ چلنا۔ اسی طرح "سلك المكان وبه وفيه" یعنی کہیں داخل ہونا یا پار ہوجانا۔
حدیث میں وارد لفظ "سَلَكَ" بمعنی "السَير فِيه" ہے یعنی 'راستہ چلنا، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔
اسی معنی کے ساتھ ایک دوسرا لفظ قرآن مجید میں وارد ہوا ہے، اللہ کا فرمان ہے:
فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ.
ترجمہ: سو تم زمین میں چل پھر کر دیکھ لو (آسمانی تعلیم کے) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔
اسی طرح دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے:
اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِھم
ترجمہ: کیا زمین میں چل پھر کر انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیسا کچھ انجام ہوا؟
اس سے واضح ہوتا کہ حدیث میں مذکور لفظ "سلك" بمعنی'السَير فِيه' ہے جس کا اطلاق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر ہوتا ہے۔
ان دونوں آیتوں میں پچھلی امتوں کے انجام دیکھنے کے لیے زمین پر چلنے پھرنے کو کہا گیا ہے۔اور اس کی وضاحت دونوں آیتوں میں 'السَير فِيه' کے بعد مذکور لفظ "النظر" بھی کر رہا ہے جس کا معنی ہے "إدراك الشئ بواسطة القدرة البصريّة" جس کو عام زبان میں عینی مشاہدہ کہا جا سکتا ہے، اور انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے بغیر کسی چیز کا عینی مشاہدہ کر بھی نہیں سکتا۔
(اور بھی کئی معانی پر یہ لفظ دلالت کرتا صلہ کے اعتبار سے لیکن یہاں وہ مقصود نہیں ہیں)

اب آتے ہیں دوسرے لفظ "الطریق" کی طرف
"طريق" کا عام معنی راستہ ہے، لیکن یہاں حدیث کی رو سے دو طرح کے راستے مراد ہیں
پہلا: "الطريق المعنوي" (معنوی راستہ)
دوسرا: "الطريق الحسي" (حسی راستہ)
معنوی راستہ: اس سے مراد وہ سارے وسائل وذرائع ہیں جن کے توسط سے انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے بغیر ایک ہی جگہ ٹھہر کر علم حاصل کرتا ہے۔ جیسے لیپ ٹاپ یا موبائل وغیرہ کے ذریعے آن لائن کلاسز اٹینڈ کرنا، دروس سننا وغیرہ وغیرہ
حسی راستہ: اس سے وہ طریقے مراد ہیں جنھیں انسان حصولِ علم کی غرض سے طے کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
جسے حقیقی راستہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حدیث کی فضیلت لفظ "سلك" کے لغوی معنی کے اعتبار سے دونوں طریقوں سے علم حاصل کرنے والے کے لئے ہے؟
تو اس کا جواب اثبات میں دیا گیا ہے کیوں کہ حدیث میں وارد لفظ عموم پر دلالت کرتا ہے۔
بظاہر دونوں معانی کے درمیان تعارض نظر آ رہا ہے
پر اس کا جواب اس طرح بھی دیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ "معنوی راستہ" مراد لینے پر انسان کا ایک ہی جگہ مستقر رہ کر علم حاصل کرنا لازم آتا ہے لیکن ایسی صورت میں بھی انسان حصولِ علم کی غرض سے ذہنی طور پر ایک شیء سے دوسری شیء کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
مثلا: عدم القراءة سے قراءة (پڑھنے سے نا پڑھنے) کی طرف منتقل ہونا، اسی طرح "عدم الكتابة" سے "الكتابة"( نہ لکھنے سے لکھنے)کی طرف منتقل ہونا۔
ٹھیک اسی طرح سے موبائل یا لیپ ٹاپ وغیرہ سے دروس سننا بھی اسی زمرے میں آتا ہے، یعنی عدم سماع سے سماع کی طرف منتقل ہونا وغیرہ۔
لہذا اس وضاحت کے بعد "سلك" کے دونوں کے درمیان کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔
گویا حدیث میں جو فضلیت آئی ہے وہ دونوں طریقوں سے علم حاصل کرنے والے کے لئے ہے۔
اب چلتے ہیں حدیث کے اگلے جملے "سَهَّلَ اللهُ له به طَريقًا إلى الجَنَّةِ" کی طرف
ترجمہ اوپر گزر چکا ہے
یہاں اس کے بھی دو مفہوم ہیں:
پہلا: یا تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نیک اعمال کرنے کی توفیق دے دیتا ہے جو جنت تک لے جاتے ہیں۔
دوسرا: یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے حصول علم کی مزید راہیں ہموار کر دیتا ہے، اور یہ بھی جنت کی راہوں میں سے ایک راہ ہے بلکہ بقیہ راہوں سے یہ زیادہ قریب تر ہے کیونکہ جس کے پاس جس قدر علم شرعی ہوتا ہے وہ اسی قدر أوامر و نواھی کا پابند ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر)
واللہ اعلم بالصواب۔
 
Top