• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث :"تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم" اور رجسٹرڈ فرقہ

شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
امیر کے حقوق (رعایا کے فرائض)​

مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں عنوان بالا کے تحت چند احکامات لکھے ہیں، ان سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیر یا ا مام کسے کہتے ہیں:

۱: مسعود صاحب نے لکھا:"رعایا کو چاہئے کہ امیر کی اطاعت کرے خواہ امیر حبشی غلام ہواور بدصورت ہی کیوں نہ ہو"(منہاج ص ۶۷۲)

اس کے ثبوت میں مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر ۳ میں سورۃ نساء :۵۹ اور صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کی ہے۔

۲: اسی طرح لکھا: "امیر اگر حق تلفی بھی کرے تو رعایا کو چاہئے کہ اس کا حق اسے دے۔"(منہاج ص ۶۷۴ بحوالہ صحیح بخاری)

ان دونوں مقامات پر نقل کردہ احادیث میں امیر کا اور عایا کا ذکر ہے،امیر حاکم ہوتا ہے اور رعایا محکوم ان بلکہ کسی بھی حدیث میں تیسری قسم "محکوم حاکم" یعنی وہ شخص جو خود کسی رعایا میں شامل ہوتے ہوئے بھی "حاکم" ہونے کا مدعی ہو ، اس کا ذکر نہیں۔

من ادعی فعلیہ البیان

رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امام اشتیاق صاحب حاکم تو نہیں اور ان کے محکوم ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ موضوف "حدود آردیننس" کے ایک کیس میں کچھ عرصہ جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں،جب پاکستانی عدالت میں ان پر کیس بنا،عدالت نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کئے تو وہ جیل میں ڈال دئیے گئے،اگر وہ حکومت پاکستان کے محکوم نہ ہوتے تو جیل میں کبھی نہ ڈالے جاتے۔تو محکوم شخص حاکم نہیں ہو سکتا۔

۳: مسعود صاحب نے لکھا:

"حکام سے دور رہے،جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے،ظلم میں ان کی مدد نہ کرے" (منہاج ص ۶۷۲)

ثبوت کے طور پر مسعود صاحب نے حاشیہ نمبر : میں دو احادیث نقل کی ہیں، ایک میں "امراء" کا لفظ ہے اور دوسرے میں "سلطان" کا۔امراء امیر کی جمع ہے۔اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں۔

رعایا کے حقوق (امیر کے فرائض)​

یہ عنوان بھی مسعود صاحب کا قائم کردہ ہے اس کے تحت جو احکام لکھے ہیں ان سے بھی خوب وضاحت ہوتی ہے کہ امیر حاکم کو کہتے ہیں نہ کہ محکوم کو۔

۱: اقامت صلٰوۃ.......! مسعود صاحب نے لکھا:

"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں نماز کی اقامت کا انتظام کرے،زکوۃ کی وصولیابی کا بندوبست کرے،نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔"

(منہاج ص ۶۷۵)

اس کی دلیل جو مسعود صاحب نے نقل کی حاشیہ نمبر ۴ میں وہ بھی ملاحظہ کیجئے:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌.....................(منہاج ص ۶۷۵)

مسعود صاحب نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:

"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر اللہ زمیں میں ان کو استحکام و غلبہ عطاء کرے تو یہ نماز کو قائم کریں زکوۃ ادا کریں،نیک بات کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔"

(تفسیر قرآن عزیز ۶/۸۸۶)

اور اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اس آیت میں اللہ تعالٰی نے واضح طور پر صحابہ کرام کے دور خلافت کی تعریف فرمائی ہے۔یہ آیت بتاتی ہے کہ صحابہ کرام کے دور خلافت میں اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا معقول انتظام تھا، صحابہ کرام معروف کاموں کا حکم دیتے تھے اور برے کام سے روکتے تھے۔"(حوالہ بالا ص ۹۰۷)

بلاشبہ اس آیت کا اولین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی تھے،مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" میں یہ آیت نقل کرکے انجانے میں ہی سہی ثابت کر دیا کہ امیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس "خلافت" ہو۔ زمین پر استحکام و غلبہ حاصل ہو،جس نے صلوۃ و زکوۃ کا،امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا نظام قائم کر رکھا ہو۔اس حقیقت سے مسعود صاحب بھی بخوبی آگاہ تھے یہی وجہ ہے کہ اپنی منہاج میں"خلافت علی منہاج النبوت" کے تحت لکھا:

"خلافت علی منہاج النبوت کی علامت یہ ہے کہ دین مستحکم ہو ،امن وا مان قائم ہو،اللہ تعالٰی کا قانون نافذ ہو اور صرف اللہ اکیلے کی حکومت قائم ہو،اس کے قانون و اطاعت میں کسی دوسرے کی شرکت نہ ہو پوری سلطنت میں اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ قائم ہو نیک باتوں کا حکم دیا جائے اور بری باتوں سے روکا جائے۔"

پھر حاشیہ نمبر :۳ میں سورۃ النور:۵۵ اور الحج:۴۱ نقل کردی۔(منہاج ص ۶۷۱)

دیکھئے جو آیت (الحج:۴۱) خلیفہ و خلافت کی ذمہ داریاں ثابت کرتی ہے وہی آیت "امیر کے فرائض" بھی ثابت کرتی ہے،مسعود صاحب کے اپنے طرز عمل سے واضح ہو جاتا ہے "خلافت و امارت" یا"امیر و خلیفہ" دو مختلف و متضاد چیزوں کا نام نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ان میں فرق ثابت کرنا خود ساختہ بات ہے۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
سود خوروں سے جنگ​

۲: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے مزید لکھا:

"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں سے جو لوگ سود لینا شراب پینا نہ چھوڑیں ان سے جنگ کرے۔"(منہاج ص ۶۷۵)

بات تو بالکل واضح ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے لئے جناب نے دلیل کیا نقل کی ، تاکہ امارت و خلافت کا خود ساختہ فرق اور امارت کا مصنوعی تصور منہدم ہو۔مسعود صاحنب نے اس کی دلیل میں کہا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُ‌وا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّ‌بَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْ‌بٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ(البقرۃ : ۲۷۸-۲۷۹) اے ایمان والو،اللہ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو تو سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایسا نہ کرو تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان سن لو۔(ترجمہ از مسعود احمد،تفسیر قرآن عزیز ج ۱ ص ۱۰۳۳)

اسی آیت کی تفسیر میں مسعود صاحب نے لکھا:

"تمہارے لئے اعلان جنگ ہے،تم جنگ کے لئے تیار رہو، اسلامی حکومت میں سودی کاروبار جاری رہے یہ نہیں ہو سکتا۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو باغی قرار دےکر ان کے خلاف سخت کارروائی کرے اور اگر فوج کشی کی ضرورت پیش آ جائے تو اس میں بھی کوتاہی نہ کرے"(حوالہ بالا ج ۱ ص ۱۰۳۵)

قارئین کرام! غور کیجئے مسعود صاحب نے اپنی منہاج میں "شراب و سود خوروں سے جنگ،امیر کے فرائض" میں لکھ کر امیر کی ذمہ داری بتلائی اور تفسیر میں "اسلامی حکومت " کا فرض قرار دیا ،کیا اس سے واضح نہیں ہو جاتا کہ "امیر" اسلامی حکومت کے سربراہ کو کہتے ہیں، جس کے پاس قوت و غلبہ ہو۔یہ سب کچھ کرنے کا اختیار ہو،تنظیم و پارٹی کے سربراہ کو نہیں کہتے جو خود محکوم ہو۔افسوس کہ اس حقیقت سے آگاہی کے باوجود مسعود صاحب خود کو امیر ،امام اور سلطان باور کراتے تھے نئے امیر کا بھی اپنے بارے میں یہی خیال ہے،لیکن اسلا می حکومت نہ ان کے پاس تھی نہ ان کے نئے امیر کے پاس،"امیر کے فرائض" نہ مسعود صاحب نے ادا کئے نہ نئے امیر صاحب ان فرائض کو ادا کرنے کے موڈ میں ہیں،چونکہ اس کی قوت ہی نہیں رکھتے۔

سوچیے! ایک معلم کا فریضہ ہے کہ وہ طلبا کو تعلم دے لیکن جو معلمی کے منصب کا مدعی ہو لیکن پڑھانے ،تعلیم دینے کی صلاحیت سے محروم ہو،کیا کوئی عقل مند آدمی اسے "معلم" کہے اور سمجھے گا؟ یقینا نہیں،تو جو اس کے مقابلے میں کئ گنا بڑھ کر "امیر" ہونے کا مدعی ہو اور "امیر کے فرائض" و ذمہ داریاں ادا کرنے سے بالکل قاصر و عاجز ہو اسے شرعی "امیر" کہنا،سمجھنا اور باور کرانے کی کوشش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ حالانکہ ایک معلم کی ذمہ داری تو صرف گنتی کے چند طلبا تک محدود ہوتی ہے اور رجسٹرڈ فرقہ کے امام تو "امیر کل عالم" ہونے کے مدعی ہیں۔

فوج و پولیس کے محکمے​

۳: "امیر کے فرائض" میں سے ایک فرض بیان کرتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا: "امیر کو چاہئے کہ فوج اور پولیس کے محکمے قائم کرے۔" (منہاج ص ۶۷۷)

اشتیاق صاحب اور ان کے رجسٹرڈ فرقے کے لوگ مدعی ہیں کہ اشتیاق ان کے امیر ہیں۔

بتائیے ان کی فوج کے محکمے کہاں ہیں، فوج کا G.H.Q "جنرک ہیڈکوارٹر" کہاں ہے؟ اور ان کی پولیس کے تھانے اور دفاتر کہاں ہیں؟ فوج و پولیس کے سربراہ کون ہیں؟اور جب حکومت پاکستان کی پولیس اشتیاق صاحب کو گرفتار کرکے لے گئ اور جیل میں ڈال دیا تھا تع اشتیاق صاحب کی فوج اور پولیس والے کہاں تھے؟ اگر رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کی فوج اور پولیس کے محکمے نہیں اور یقینا نہیں تو جواب دیں کہ ان کا امیر اپنا یہ فرض کیوں ادا نہیں کرتا؟
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
اونچی قبریں اور امیر کا فرض​

۴: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:

"امیر کو چاہیے کہ مورتوں کو توڑنے اونچی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا انتظام کرے۔" (منہاج ص ۶۷۷)

یہ "انتظام" کیسے ہو گا، اس کا طریقہ کیا ہے؟ مسعود صاحب نے حاشیے کے ذریعے سے اس حکم کی دلیل میں جو حدیث نقل کی اس سے واضح ہو جاتا ہے۔ملاحظہ کیجئے لکھا ہے:

"عن ابی الھیاج الاسدی عن علی قال ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ ﷺ لا تدع تمثالا ال طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ(صحیح مسلم)"(منہاج ص ۶۷۷)

(ترجمہ) ابو الھیاج الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاؒ: کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے رسول اللہﷺ نے مجھے بھیجا (جاؤ) تم کسی بت کو توڑے بغیر اور کسی اونچی قبر کو برابر کیےبغیر نہ چھوڑنا۔"

ملک بھر کے قبرستانوں کی طرح شہر کراچی میں بھی اونچی قبروں کی بھرمار ہے۔کتنے ہی شاپنگ سینٹر ہیں جن میں مورتیوں اور پتلیوں کا طومار ہے۔رجسٹرڈ فرقے کے امام جو امیر ہونے اور خلیفہ جیسے حقوق حاصل ہونے کے مدعی "امیر کل عالم" کہلاتے ہیں۔ مگر مجبور اتنے ہیں کہ اپنے شہر کی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،آخر کیوں وہ دیگر فرائض کی طرح اپنا یہ فریضہ بھی ادا نہیں کررہے؟

سرکاری عہدے اور امیر​

۵: اسی ضمن میں مسعود صاحب نے لکھا:"امیر کو چاہئے کہ اس شخص کو سرکاری عہدہ نہ دے جو اس کا طلب گار ہو۔(منہاج ص ۶۷۷،۶۷۸)

"سرکاری عہدہ" کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے پہلے "سرکار" کا مطلب دیکھئے ،علمی لغت میں لکھا ہے:"سرکار ،حکومت،سلطنت ،گورنمنٹ (۲) دربار شاہی (۳) سردار،حاکم..."

(علمی لغت ص ۹۰۶)

"سرکاری عہدہ" کا مطلب ہو گا حکومتی اور گورنمنٹ کے عہدے، جب حکومت ہی نہیں تو حکومتی عیدے کیا ہوں گے،اور کیا کسی کو دیں گے۔تنظیمی اور پارٹی عہدوں کو "حکومتی عہدے" سمجھنا دل کے بہلاوے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا....بہرحال مسعود صاحب کی اس تحریر سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ "امیر" کسے کہتے ہیں۔

حدودو تعزیرات​

۶: " امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے مسعود صاحب نے لکھا:

"حدود اللہ کے علاوہ کسی جرم میں دس کوڑے سے زیادہ نہ مارے۔"

(منہاج ص ۶۷۶)

بات واضح ہے کہ "حدود و تعزیرات " کا نفاد بھی امیر کی ذمہ داری ہے،اور اس میں قصاص دیت ،چوری،زنا وغیرہ کی سزائیں بھی شامل ہیں۔البتہ جس جرم کی سزا دین میں مقرر نہیں اس میں دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے اور ایسی سزا کو تعزیر کہتے ہیں۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ رجسٹرڈ فرقے کے "امیر کل عالم" حدودوقصاص اور دیت کے احکام بھی نافذ نہیں کرتے۔

جزیہ​

۷: مسعود صاحب نے لکھا:

"اگر کفار اسلام قبول کرنے سے انکار کریں تو ان سے جزیہ لیا جائے۔"(منہاج ص ۶۷۹)

دیگر تمام کاغذی جماعتوں کے کاغذی امراء کی طرح رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کے امیر کے بھی بس میں نہیں ہے کہ وہ یہ کام کر سکیں،اگرچہ "امیر کل عالم" ہونے کا زعم ہو۔

قیمتیں مقرر کرنا​

۸: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:

"رعایا کو کسی خاص نرخ پر بیچنے پر مجبور نہ کرے"(منہاج ص ۶۷۶)

"امیر" ایسا تب کرسکتا ہے جب اس کے پاس طاقت و قوت ہو اور تب ہی اسے اس کام سے روکا جا سکتا ہے،لیکن جب وہ خود ہی مجبور و محکوم ہو تو کسی کو کیا مجبور کر سکتا ہے؟!

خلاف شرع کام اور امیر​

۹: "امیر کے فرائض" میں مسعود صاحب نے لکھا:

"امیر کو چاہیے کہ رعایا کے دینی و دنیوی امور کی نگرانی کرے،رعایا کو خلاف شرع کام کرنے سے باز رکھے۔(منہاج ص ۶۷۶)

کون نہیں جانتا کہ معاشرے میں خلاف شرع کاموں کی کثرت ہے، مسعود صاحب کے بیان کے مطابق ان تمام کاموں سے روکنا، باز رکھنا "امیر" کا فرض ہے۔ لیکن ان کا امیر اس سلسلے میں کچھ کرنے سے قاصر ہے۔

شراب خوروں سے جنگ​

۱۰: مسعود صاحب نے "امیر کے فرائض" بیان کرتے ہوئے لکھا:

"امیر کو چاہئے کہ رعایا میں سے جو لوگ..... شراب پینا نہ چھوڑیں ان سے جھنگ کرے۔"

اس کی دلیل میں مسعود صاحب نے سنن ابی داود کی حدیث (۳۶۸۳) نقل کی جس میں گندم کی شراب کے متعلق دیلم الحمیری رضی اللہ عنہ نے کہا:

"النَّاسَ غَيْرُ تَارِكِيهِ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ يَتْرُكُوهُ فَقَاتِلُوهُمْ»لوگ اسے نہیں چھوٹیں گے تو نبی ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے نہ چھوڑیں تو ان سے قتال (جنگ) کریں۔

مسعود صاحب نے لکھا: "سندہ صحیح"

سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ شراب کے اڈے ہیں،شراب عام بکتی ہے ،شراب پینے والوں کی بھی کثرت ہے۔مسعود صاحب نے خود کو "امیر کل عالم" سمجھتے ہوئے بھی شرابیوں سے جنگ نہیں کی نہ اشتیاق صاحب ہی کر رہے ہیں۔ تو یہ امیر کیسے ہوئے؟

قارئین کرام ! امیر کے فرائض و ذمہ داریوں سے متعلق یہ دس شرعی احکامات خود رجسٹرڈ فرقہ کے بانی مسعود صاحب کے قلم سے آپ کے سامنے ہیں، ان میں سے ایک آدھ استدلال پر مسعود صاحب سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن "امیر کے فرائض" پر مبنی ان احکامات کا غالب حصہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ ان فرائض سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے "امیر" حاکم وقت کو کہتے ہیں، جس کے پاس امارت و حکومت ہو،قوت و غلبہ اور اقتدار ہو۔ جس کے ذریعے سے وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور فرائض بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ جو ان فرائض کو ادا کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو محکوم، مغلوب اور مجبور ہو وہ امیر نہیں ہو سکتا۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
ایک اشکال اور اس کا جواب​

اشکال : اگر کوئی رجسٹرڈ فرقہ پرست یہ کہہ دے کہ مسعود صاحب واضح کر چکے ہیں کہ"ہر خلیفہ امیر یا امام ہوتا ہے لیکن ہر امیر یا امام خلیفہ نہیں ہوتا"

(امیر کی اطاعت ص ۲۱ ،طبع جدید)

لہذا "امیر کے فرائض" میں مذکور احکام خلیفہ کی ذمہ داریاں ہیں "امیر " کی نہیں۔

جواب: مسعود صاحب کی یہ بات "کلمۃ حق ارید بہ الباطل" کے مصداق ہے۔چونکہ مطلقا امیر سے مراد خلیفہ و سلطان ہی ہوتا ہے اور ہر امیر جو خلیفہ نہیں ہوتا وہ امیر و خلیفہ کی طرف سے مقرر کسی مہم لشکر یا علاقے کا امیر ہو گا تو اس صورت میں وہ خلیفہ نہیں ہو گا۔مسعود صاحب کے مقلد احادیث سے جو بھی پیش کریں گے وہ اس صورت سے خالی نہیں ہو گی، ان شاء اللہ ! جو چاہے تجربہ کر کے دیکھ لے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ مسعود صاحب امیر و امام اور خلیفہ میں فرق کے قائل تھے۔اس کے باوجود بھی ہماری نقل کردہ تمام ذمہ داریاں اور فرائض مسعود صاحب نے "امیر کے حقوق" اور "امیر کے فرائض" میں بیان کئے ہیں۔ "خلیفہ کے حقوق" اور "خلیفہ کے فرائض" میں ہیں۔اگر کوئی مدعی ست گواہ چست کا مصداق بنتے ہوئے مندرجہ بالا اشکال پیش کرے بھی تو وہ یاد رکھے کہ مسعود صاحب نے "امیر کے حقوق" میں ہی یہ "مسئلہ" بھی لکھا :"امیر اگر حق تلفی بھی کرے تو رعایا کو چاہئے کہ اس کا حق اسے دے (یعنی اس کی اطاعت کرے،زکوۃ دے وغیرہ وغیرہ)"(منہاج ص ۶۷۴)

اور "امیر کے فرائض" میں لکھا : "امیر کو چاہے کہ رعایا میں نماز کی امامت کا انتظار کرے،زکوۃ کی وصولیابی کا بندوبست کرے نیکی کا حکم دے،برائی سے روکے۔"

(منہاج ص ۶۷۵)

تو پھر زکوۃ وضول کرنا بھی "خلیفہ " کا حق ہو گا۔اگر امیر رجسٹرڈ فرقہ زکوۃ وصول کرنا اپنا حق سمجھے اور باقی فائض خلیفہ کے ذمے ڈال دے تو اس کا واضح مطلب ہو گا کہ میٹھا میٹھا ہب ہب کڑوا کڑوا ٹھو ٹھو۔

سوال نمبر ۱ : اگر رجسٹرڈ فرقے کے مفروضہ کے مطابق امیر اور خلیفہ دو مختلف عہدوں کے نام ہیں تو مسعود احمد نے "امیر کے حقیوق" اور "امیر کے فرائض، خلافت اور اس کے متعلقات " میں کیوں لکھے؟

سوال نمبر ۲ : اگر آپ کے مفروضے کے مطابق دو مختلف عہدے ہیں تو مسعود صاحب نے "خلیفہ کے حقوق و فرائض" علیحدہ بیان کیوں نہیں کئے؟ اگر ان سے بھول ہوئی تو رجسٹرڈ فرقہ نے اس کی تلافی کیوں نہیں کی؟
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
قارئیں کرام ! "امیر کے فرائض" آپ کے سامنے ہیں،اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کے بیان کرنے والے مسعود صاحب نے کس طرح ان کی ادائیگی سے قاصر ہونے کا اعتراف کیا ۔لکھا ہے:

"اعتراض نمبر ۲: امیر جماعت کی اطاعت اگر فرض ہے تو وہ شرعی سزائیں کیوں نہیں نافذ کرتا۔

جواب: اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف بنایا گیا ہے۔اللہ تعالٰی فرماتا ہےلَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاکسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی طاقت کے مطابق(البقرۃ : ۲۸۶) لہذا امیر جماعت اپنی طاقت کے مطابق کام کرے گا۔"

(امیر کی اطاعت ص ۲۱،طبع جدید ص ۲۱،آئینہ دار ص ۲۳۵)

جواب الجواب: پہلے جواب کا جواب یہ ہے کہ یقینا اللہ سبحانہ و تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اور بقول مسعود صاحب "اللہ تعالٰی ایسا حکم دیتا ہے جو بندہ کر سکے اور اس کی طاقت سے باہر نہ ہو۔"(تفسیر قرآن عزیز ۱/۱۰۷۱)

اور بلاشبہ اللہ تعالٰی نے "امیر" کو چند امور کا مکلف ٹھہرایا ہے،رجسٹرڈ فرقہ کی منہاج اس بات کی گواہ ہے،"امیر کے فرائض" کا مطالعہ کر لیجئے۔ اب جو ان فرائض کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ امیر بھی نہیں ہو سکتا۔ اس کا امیر بننا اور اسے امیر سمجھنے کا مطلب یہ کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالٰی کسی بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ بھی تکلیف دیتا ہے۔اس سے کئ آیات کی تکذیب لازم آتی ہے۔مسعود صاحب نے لکھا:

"اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی تو خود ہی کسی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار دہرایا ہے،اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(انعام:۱۵۲،الاعراف:۴۲،المؤمنون:۶۲) ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے لیکن اس کی طاقت کے مطابق" (تفسیر قرآن عزیز ۱/۱۰۷۰)

اللہ تعالیٰ نے امیر کی اطاعت فرض کی تو اسے چند اضافی فرائض کا مکلف بھی بنایا اگر اس میں طاقت نہ ہوتی تو مکلف بھی نہ بنایا جاتا۔جب اللہ تعالٰی نے مکلف بنایا ہے تو امیر کو ئی فرائض انجام دینے ہوں گے اپنی کمزوری کا عذر پیش کرنا لغوولایعنی ہے۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
اب آئیے ان کے دوسرے جواب کی طرف ۔مسعود صاحب نے لکھا:

"دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ امیر جماعت خلافت کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا ہے لہذا اس جدوجہد کے زمانہ میں اس سے خلیفہ کے فرائض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا بالکل لغو ہے۔اس کو ایک مشال کے ذریعہ سمجھئے۔ تیسری جماعت میں پڑھنے والا بھی طالب علم ہے اور بی ، اے میں پڑھنے والا بھی طالب علم ہے۔تیسری جماعت میں پڑھنے والا کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھی بی،اے کا طالب علم بن جائے لیکن ابھی بنا نہیں تو کیا اس تیسری جماعت کے طالب علم سے یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بی اےکے پرچے حل کرے۔ہرگز نہیں دونوں میں محض طالب علم ہونے کی یکسانیت اس بات کی متقاضی نہیں کہ تیسری جماعت کا طالب علم بی،اے کے پرچے حل کرے۔بالکل اسی طرح امیر جماعت بھی امیر ہوتا ہے اور خلیفہ بھی امیر ہوتا ہے تو کیا امیر جماعت سے اس حال میں کہ وہ خلیفہ بننے کی کوشش کر رہا ہو یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ خلیفہ کے فرائض انجام دے،ہرگز نہیں۔محض امارت کی یکسانیت اس بات کی متقاضی نہیں ہو سکتی کہ ہر امیر سے خلیفہ کے فرائض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے۔"

(امیر کی اطاعت ص ۲۱،۲۲، اشاعت جدید ص ۱۲،آئینہ دار ص ۲۳۵،۲۳۶)

جواب سے پہلے ہم یہ عرض کر دیں کہ جب مسعود صاحب مخالفین کی جانب سے مشال سنتے یا دیکھتے تو فرماتے:"صلاح الدین صاحب! ہم ایسی مشالوں سے مرغوب نہیں ہوتے اور نہ انہیں دلیل کا درجہ دیتے ہیں۔" (الجماعۃ ص ۳۳)

اگر "مرعوب نہیں ہوتے : تو مشالیں دے کر مرعوب کرنے کی کوشش کیوں کرتے تھے؟ جب دلیل کا درجہ نہیں دیتے تو مشال تو بیان کیوں کرتے ہیں؟ سمجھانے کے لئے ۔تو جناب دوسرے بھی سمجھانے کے لئے ہی ایسا کرتے ہیں۔نہرحال ہم بھی اس بچگانہ مشال سے مرعوب نہیں ہوئے ۔ البتہ اس کی وضاحت کئے دیتے ہیں۔

دوسرے جواب کا جواب: مسعود صاحب کا دوسرا جواب بھی خود ان کے خلاف ہے۔چونکہ اپنی اس مشال کے مطابق مسعود صاحب "تیسری جماعت کے طالبعلم: کے مصداق تھے،اور بڑی التجائیں کرتے کہ مجھ سے بی،اے(B.A) کے پرچے مت حل کراؤ.... بلاشبہ تیسری جماعت کا ایسا طالبعلم "بی اے" کے طالب علم جیسے حقوق ،اخراجات اور حیثیت کا پرزور دعویٰ و مطالبہ کرنے لگ جائے محض طالب علم ہونے کی یکسانیت کی بنا پر اور درجات کے تفاوت کو یکسر نظر انداز کر دے تو سوچئے ایسے نادان طالب علم کو اس کی اصل حیثیت و کیفیت یاد دلانے اور سمجھانے کے لئے اس سے "بی،اے" کے پرچے حل کرانے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ مطالبہ درست ہو گا یا غلط؟یقینا کیا جا سکتا ہے اور یہ مطالبہ درست ہی ہو گا۔ تو اس کے بعد جوں ہی وہ ضدی یا نادان طالب علم اپنی بے بسی و عجز کا اظہار کرے کہ جی میں تو ابھی بچہ ہوں اور صرف "تیسری جماعت کا طالب علم" ہوں بھلا یہ پرچے میں کیسے اور کس طرح حل کر سکتا ہوں؟؟؟؟!!!!تو تب اس کو کہا جائے کہ جناب ! جب آپ "بی،اے" کے پرچے حل نہیں کر سکتے، اور یقینا نہیں کرسکتے تو پھر آپ کو "بی ،اے" کے طالب علم جیسے حقوق، درجات و اخراجات کے مطالبے سے بھی یکسر باز رہنا چاہئے، یہ مطالبہ چھوڑ دیجئے کہ ابھی آپ اس لائق ہوئے نہیں ہیں، جب ہوں گے نا ،تب کیجئے گا، بصد شوق لکھیے گا اور من کی مراد پا لیجئے گا۔اذ لیس فلیس!!!!

بس اسی طرح ہر مجبور ، بے بس، عاجز،لاچار،بے اختیار،بے اقتدار مامور اور محکوم شخص جو مسعود صاحب کی طرح خود مشالیں دے دے کر اپنی بے بسی و بے اختیاری کا رونا روئے اور بقول خود "خلیفہ بننے کی کوشش کر رہا ہو" اور درحقیقت "خلیفہ" کے ایک نقطے سے بھی میلوں اور کوسوں دور ہو،لیکن " شاہانہ شوق " کا یہ عالم ہو کہ ان تمام حقوق اور درجات کا مطالبہ کر بیٹھے جو دین اسلام میں ایک "خلیفہ/حکمران" کے لئے مقرر و مختص کئے کئے ہیں۔جیسا کہ مسعود صاحب نے دعویٰ کیا بھی ،جب یہ لکھا:

"جماعت کے سربراہ کو وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو شریعت نے امیر یا امام کے لئے متعین کئے ہیں۔"

(امیر کی اطاعت ص ۳،طبع جدید ص ۶۱،آئینہ دار ص ۲۴۳)
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
تو ایسے ہر محکوم امیر سے ضرور بالضرور یہ مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ جناب "امیر کے فرائض" انجام دو۔تو جیسے ہی وہ کچھ ایسا جواب دے جیسا مسعود صاحب نے دیا ،جب لکھا: " محض امارت کی یکسانیت اس بات کی متقاضی نہیں ہو سکتی کہ ہر امیر سے خلیفہ کے فرائض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے۔"(حواکہ بالا)

تو جوابا کہہ دیا جائے کہ پھر محض "لفظی یکسانیت" وہ بھی محض آپ لوگوں کے مفروضہ کے مطابق کس طرح اس بات کی متقاضی ہو سکتی ہے کہ اسے وہ تمام اختیارات حاصل ہوں جو دین اسلام میں ایک واقعی امیر و امام کےلئے متعین کئے گئے ہیں؟ تعجب بالائے تعجب!!!جب حقوق و فرائض ادا کرنے کی باری آئے تو(اپنے مفروضہ کے مطابق) محض "لفظی یکسانیت" تو اس بات کی متقاضی نہ ہو کہ فرائض انجام دیئے جائیں۔لیکن جوں ہی حقوق لینے، اطاعت کرانے کی باری آئے تو محض" لفظی یکسانیت" ہی تمام حقوق حاصل کرنے کا کافی و شافی "متقاضی" بن جائے اور دہرا معیار اپناتے ہوئےسب کچھ کا مطالبہ بھی کردیا جائے،بہت خوب!لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ اور۔سنیے اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿٢﴾ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُ‌ونَ ﴿٣﴾ أَلَا يَظُنُّ أُولَـٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ﴿٤﴾ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿٥﴾ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦


تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے (1) جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں (2) اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں (3) کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن، (4) یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ (5) اُس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (6)

(المطففین:۱-۵)

مسعود صاحب کا دہرا معیار تو دیکھیں جب "فرائض امیر " کے ادائیگی کا مطالبہ ہوا تو "تیسری جماعت کے طالب علم" کے مصداق بنتے ہوئے "بی ،اے" کے پرچے حل نہ کرانے کی التماس کی اور جوں ہی اختیارات کی باری آئی تو شریعت میں امام مطلب خلیفہ کے لئے متعین تمام اختیارات کے حصول کا اعلان کر دیا۔بہرحال مسعود صاحب کی بیان کردہ "مشال" کے نام پر انتہائی کمزور اور بودھی دلیل سے بخوبی واضح ہو جاتا ہےکہ "امیر کل عالم" صاحب کی بے بسی و عجز کا کیا "عالم" تھا۔ ایسی ہی کچھ حالت ان کے نئے امیر کی ہے،ان کا بیان ملاحظہ ہو ،لکھا ہے:"ہمیں بھی رفتہ رفتہ حکومت دے دے گا، حکومت قائم کرنے کے لئے وقت لگتا ہے۔"

(ایک معترض کے اعتراضات)

لیجئے،حکومت رفتہ رفتہ ملے گی،فی الحال امید ہی ہے لیکن حاکم جیسے اختیارات اور اور اپنی اطاعت کے مدعی و داعی ابھی سے بنے بیٹھے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
آمدم برسر مطلب!​

قائیں کرام! "امیر کے حقوق" اور "امیر کے فرائض" پر اس تفصیلی گفتگو کا مقصد یہ تھا کہ ہر ایک فرد بآسانی سمجھ لے کہ امیر یا امام کسے کہتے ہیں ،یہ کس منصب و عہدے کا نام ہے،امید ہے کہ خوب سمجھ آئی ہو گی کہ امام اور امیر حکمران ہوتا ہے۔جب جماعت:دین نافذ کرنے والی حکومت کو کہتے ہیں اور امام یا امیر : حکمران کو تو حدیث: "تلزم جماعۃ المسلمین وامامھم"(ترجمہ) مسلمین کی جماعۃ اور ان کے امام کو لازم پکڑو سے مراد اسلامی حکومت اور مسلم حکمران ہے جو اللہ کے دین کو بالفعل نافذ کئے ہوئے ہو۔کسی غیر اسلامی یا اسلامی حکومت کا محکوم ومامور اور رعایا میں شامل فرد امام یا امیر قطعا نہیں،اسی طرح طرح اس کی پارٹی و تنظیم بھی احادیث میں مذکور "جماعۃ" یقینا نہیں۔الحمد للہ یہ ایک ٹھوس اور واضح حقیقت ہے کہ رجسٹرڈ فرقہ پرست کا لٹریچر بھی اس پر ببانگ دہل گواہی دے رہا ہے۔

اور یہی وہ لڑیچر ہے کہ جس کے بارے میں مسعود صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ

"جماعت المسلمین ببانگ دہل یہ کہتی ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس کا انکار کفر ہے۔"(جماعت المسلمین کا تعارف ص ۵)

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اپنے ہی پیش کردہ لٹریچر کا انکار کرکے کفر کے مرتکب ہوتے ہیں یا تسلیم کرکے اسلام پر عمل کرتے ہیں،باقی کمزور امیر کے سلسلے میں ان کے کیا دلائل ہیں؟ ان کا جائزہ اپنے مضمون "کمزور امیر،فرمان رسول ﷺ اور رجسٹرڈ فرقہ" میں لیں گے۔ان شاءاللہ۔
 
شمولیت
اکتوبر 12، 2014
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
44
جزاک اللہ عبدالمجید بھایئ
اپنا وٹس ایپ نمبر دے سکتے ھیں کیا
ھم ایک گروپ میں مسعودیوں سے نمبرد آزما ھیں علمی بندے کی ضرورت تھی وھان
جزاک اللہ
 
Top