• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث خلافت تیس (30)سال ،تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
شواہدکاجائزہ


اس حدیث کے بعض شواہد بھی ملتے ہیں لیکن یہ شواہدبھی سخت ضعیف ومردود ہیں اس لئے یہ بھی قابل اشتشہاد نہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الله بن فضيل ثنا بن مصفي وثنا الحسين بن عبد الله القطان ثنا سعيد بن عمرو قالاثنا بقية عن يحيى بن خالد عن روح بن القاسم عن ليث عن مجاهد عن أبى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من دخل علي حجري ليضع عمر حجرا الى جنب حجر أبى بكر ثم قال ليضع عثمان حجرا الى جنب حجر عمر ثم قال هم الخلفاء بعدي وبإسناده قال سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول الخلافة ثلاثون عاما ثم يكون الملك
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کون آئے گا؟ عمرفاروق رضی اللہ عنہ آئیں اور وہ میرے رکھے ہوئے پتھرکے پاس ایک پتھررکھ کردیں ۔ پھر فرمایا: عثمان رضی اللہ عنہ آئیں اورعمررضی اللہ عنہ کے رکھے ہوئے پتھرکے پاس ایک پتھررکھ دیں۔پھرفرمایا: یہ لوگ میرے بعد خلفاء ہیں۔اوراسی سند سے راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:خلافت تیس سال رہے گی پھر ملوکیت آجائے گی۔[الكامل في الضعفاء: 7/ 248 واسنادہ ضعیف جدا]

یہ روایت بھی باطل اور من گھڑت ہے اس میں بھی دوباتیں منقول ہے۔
ایک یہ کہ اس میں تیس سال خلافت اور اس کے بعد ملوکیت کی پیشین گوئی ہے۔اوردوسری بات یہ کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد عمر اورعثمان رضی اللہ عنہما کو خلیفہ نامزد کیا ۔
یہ وہی باتیں ہیں جنہیں يحيى بن محمد التجيبي کذاب اور وضاع حدیث نے بیان کیا ہے اور انہیں باتوں کو سعیدبن جمھان نے بھی سفینہ سے روایت کردیا ! امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر نقد کیا ہے اور اس کے باطل ومن گھڑت ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
یادرہے کہ يحيى بن محمد التجيبي کذاب اور وضاع حدیث کی روایت میں سب سے پہلے ابوبکررضی اللہ عنہ کا نام ذکر ہے لیکن اس روایت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ہی نہیں بلکہ صرف عمر اورعثمان رضی اللہ عنہما کے نام ہیں ۔
یہ روایت اپنی دونوں باتوں کے ساتھ باطل ومن گھڑت ہے ۔تفصیل ملاحظہ ہوں:

اس میں کئی علتیں ہیں:
(الف) : بقیہ سخت ضعفاء حتی کی کذابین سے بھی تدلیس کرتے تھے اس لئے ان کا عنعنہ سخت ضعیف ہے اس کے عنعنہ کے مردود ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 14]

(ب): یحیی بن خالد ابوزکریا مجہول ہے۔اوراس سند کے ساتھ یہ روایت کے بیان کرنے میں منفردہے۔دنیا کے کسی راوی نے اس سند کے ساتھ اس کی متابعت نہیں کی ہے۔جس سے پتہ چلتاہے کہ اس متن کو اس سند کے ساتھ بیان کرنا اسی کی کارنامہ ہے۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) رحمہ اللہ اس حدیث کو صراحتا منکر قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهذان الحديثان منكران عن روح بأسانيدهما لا يرويهما عن روح غير يحيى بن خالد، وهو من مجهولي شيوخ بقية، ولا أعلم رواهما، عن يحيى هذا غير بقية.
یہ دونوں احادیث روح سے اپنی دونوں سندوں کے ساتھ منکر ہیں ، انہیں روح سے یحیی بن خالد کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا اوریہ بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے ۔اورمیں نہیں جانتا کہ انہیں اس یحیی سے بقیہ کے علاوہ کسی اورنے روایت کیا ہو۔[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 9/ 118]
نیزدیکھئے: لحظ الألحاظ في الاستدراك والزيادة على ذخيرة الحفاظ: رقم 288 ۔موسوعة الأحاديث والآثار الضعيفة والموضوعة: ج 4ص 445 رقم 10349۔

(ج): ليث بن أبي سليم ضعیف اورمدلس ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص527تا529۔
لیث کی بیان کردہ یہ روایت شدید نکارت والی ہے جیساکہ اس کے ایک حصہ کے باطل ہونےکی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ابوبکر،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کو خلیفہ نامزد کیا گیا ہے۔لیث وغیرہ کی جن احادیث میں اس طرح کی شدید نکارت ہواس پرموضوع کاحکم لگے گا:
علامه عبد الرحمن بن يحيى المعلمي اليماني رحمه الله (المتوفى1386)فرماتے ہیں:
وليث كما في التقريب (صدوق اختلط أخيراً ولم يتميز حديثه فترك) ومثله: إذا جاء بالمنكر الشديد الإنكار اتجه الحكم بوضعه
اورلیث جیساکہ تقریب میں ہے’’صدوق ہے اور آخر میں اختلاط کا شکار ہوگیا اوراس کی حدیث کی تمیز نہیں ہوسکی اس لئے متروک قرارپایا‘‘ (معلمی فرماتے ہیں) اس طرح کا راوی جب شدید نکارت والی بات بیان کرے تو اس کے موضوع اور من گھڑت ہونے کا حکم لگے گا۔[الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 470]

خلاصہ یہ کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور صحیح حدیث کے خلاف ہونے کے سبب باطل ، موضوع اور من گھڑت ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حدیث سفینہ کے شواہد میں پیش نہیں کیا ہے۔

صحابی رسول معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
حدثنا سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي قال : حدثنا مطر بن العلاء الفزاري قال : حدثنا عبد الملك بن يسار الثقفي قال : حدثني أبو أمية الشعباني ، وكان جاهليا ، قال : حدثني معاذ بن جبل قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ثلاثون خلافة نبوة ، وثلاثون نبوة وملك ، وثلاثون ملك وتجبر ، وما وراء ذلك فلا خير فيه.
صحابی رسول معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تیس سال خلافت نبوت ہوگی اورتیس سال ملوکیت نبوت ہوگی اورتیس سال ملوکیت جبر ہوگی ۔اس بعد جو وقت آئے گا اس میں کوئی خیر نہ ہوگا۔[المعرفة والتاريخ للفسوي: 2/ 361 ، واخرجہ الطبرانی فی الاوسط 9/ 109 وابن عساکر فی تاریخ دمشق 37/ 19من طریق سلیمان بہ ]

اس کی سند میں کئی کمزوریاں ہیں ۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بھی ضعیف ومنکر قراردیا ہے اور اسے بھی حدیث سفینہ کے شواہد میں پیش نہیں کیا ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
رواه يعقوب الفسوي ، والطبراني. وفي السند مجهولان
اسے یعقوب الفسوی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور سند میں دو مجہول راوی ہیں[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 12/ 400]

علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے: [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 3/ 476 ]

’’مطر بن العلاء الفزاري‘‘ کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں ہے ۔لہٰذا یہ مجہول ہے جیساکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
اور اس کی بیشتر روایات میں اس کی کوئی متابعت نہیں کرتاہے کہ اورایسا مجہول شخص سخت ضعیف ہوا کرتاہے۔

علامہ معلمی رحمہ اللہ ایک ایسے ہی مجہول کے بارے میں فرماتے ہیں:
نقل في اللسان أن ابن حبان ذكره في الثقات، وقال (يغرب) وإذا كان يغرب مع جهالته وإقلاله فهو تالف
ابن حجررحمہ اللہ نے ’’اللسان“ میں نقل کیا کہ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیاہے اور کہا یہ منفرد باتیں روایت کرتاہے اورجب یہ اپنی جہالت کے ساتھ منفرد باتیں روایت کرتاہے تو یہ تباہ وبرباد کرنے والا یعنی سخت ضعیف ہے[الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 416]

ایک اورجگہ علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمجهول إذا روى خبرين لم يتابع عليهما، فهو تالف
مجہول شخص جب تو ایسی روایت بیان کردے جن پر اس کی متابعت نہ کی گئی ہے تو وہ تباہ برباد ہونے والا یعنی سخت ضعیف ہے۔[الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 299]

سند میں ان کمزوریوں کے ساتھ اس کا متن بھی نکارت سے پرہے ۔
کیونکہ متن میں مسلسل تیس تیس سال کی گردان کی گئی ہے جب کہ ذخیرہ احادیث میں اس جیسی کوئی اور روایت نہیں ملتی ۔
متن میں ایک دوسری نکارت کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم إن في متن الحديث نكارة من وجوه أهمها قوله في آخره: " وما وراء ذلك فلاخير فيه "، فإنه مخالف لقوله صلى الله عليه وسلم في حديث حذيفة بعد أن ذكرالملك الجبري:" ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، ثم سكت ".وهو مخرج في " الصحيحة "
اس حدیث کے ضعیف ہونے کے ساتھ اس کے متن میں کئی اعتبار سے نکارت موجود ہے جس میں سب سے اہم اس کا آخری ٹکڑا ہے کہ ’’اس (جبری ملوکیت آجانے )کے بعد کوئی خیر نہیں ہوگا‘‘ ۔ کیونکہ یہ بات حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور اللہ کے نبی صلی اللہ علی وسلم کے اس قول کے خلاف میں ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبری ملوکیت کے ذکر کے بعد فرمایا: پھر خلافت علی منہاج النبوت ہوگی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس حدیث کی تخریج الصحیحہ رقم (5) میں جاچکی ہے۔[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 3/ 476 ]

خلاصہ یہ کہ یہ شاہد سند ومتن کے اعتبار سے سخت ضعیف ومردود ہے اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حدیث سفینہ کے شواہد میں ذکر نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے خلافت کے بارے میں ایک دوسری حدیث مروی ہے اس میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خلافت کے دور کی تحدید نہیں بتلائی ہے ۔ [السنة لابن أبي عاصم 2/ 534 ]
اس کی سند بھی ضعیف ہے لیکن شواہد کی روشنی میں صحیح ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے[ظلال الجنة للألباني رقم1130]


صحابی رسول ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل أخبرنا عبد الله بن جعفر حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا محمد بن فضيل حدثنا مؤمل حدثنا حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال سمعت رسول الله يقول الخلافة نبوة ثلاثين عاما ثم يؤتي الله الملك من يشاء فقال معاوية قد رضينا بالملك
صحابی ابوبکررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: خلافت نبوت تیس سال ہوگی اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا ملوکیت عطا کردے گا ،تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم ملوکیت سے راضی ہیں۔[دلائل النبوةللبيهقى: 6/ 342 واسنادہ ضعیف جدا ومتنہ منکر واخرجہ ایضا ابن الاعرابی فی معجمہ2/ 506من طریق مؤمل بہ]

یہ ان دو شواہد میں سے ایک ہے جنہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث سفینہ میں مذکور تیس سال خلافت والے جملے کی تائید میں پیش کیا ہے۔
لیکن یہ شاہد بھی سخت ضعیف ہے۔بلکہ ماقبل کے شواہد میں سب سے بدترین ہے، اس کی سند کی کیفیت پر بات کرنے سے پہلے آئیے یہ دیکھ لیں کہ اس روایت کااصل متن کیا ہے؟
توعرض ہے کہ اس روایت کو حماد بن سلمہ کے طریق سے درجنوں لوگوں نے روایت کیا ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف حماد کے شاگرد مؤمل کا متن پیش کیا ہے ۔لیکن اسی روایت کو حماد بن سلمہ سے ہی جب مؤمل کے علاوہ دیگررواۃ روایت کرتے ہیں تو اس کا متن کچھ اور ہی سامنے آتا ہے ملاحظہ ہو:

(1)عبد الصمد بن عبد الوارث کی روایت:
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، يعني ابن سلمة ، حدثنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدت مع أبي إلى معاوية بن أبي سفيان ، فأدخلنا عليه ، فقال : يا أبا بكرة ، حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الصالحة ويسأل عنها ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت بأبي بكرفرجحت بأبي بكر، ثم وزن أبو بكر بعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء.[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 44]

(2)عفان بن مسلم الباهلي کی روایت:
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء۔۔۔ فقال معاوية : أتقول الملك ؟ فقد رضينا بالملك[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]

(3)هوذة بن خليفة کی روایت:
حدثنا هوذة بن خليفة ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، عن أبي بكرة ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، من خير الناس ؟ قال : من طال عمره ، وحسن عمله قال : فأي الناس شر ؟ قال : من طال عمره ، وساء عمله. وبإسناده ، وقال عبد الرحمن : وفدنا إلى معاوية نعزيه مع زياد ، ومعنا أبو بكرة ، فلما قدمنا لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، وإنه قال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل من القوم : أنا رأيت ميزانا دلي من السماء ، فوزنت فيه أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن فيه أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن فيه عمر وعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها النبي صلى الله عليه وسلم ، أي أولها ، فقال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء۔۔۔۔۔۔، فقال معاوية : تقول : إنا ملوك ؟ قد رضينا بالملك[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]

(4)ابوداؤد الطیالسی کی روایت:
حدثنا حماد بن سلمة، قال: حدثنا علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، قال وفدنا إلى معاوية مع زياد ومعنا أبو بكرة فدخلنا عليه فقال له معاوية: حدثنا حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم عسى الله أن ينفعنا به قال: نعم، كان نبي الله صلى الله عليه وسلم تعجبه الرؤيا الصالحة ويسأل عنها فقال رجل: يا رسول الله [ص:197]، إني رأيت رؤيا، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت أنت وأبو بكر فرجحت بأبي بكر ثم وزن أبو بكر بعمر فوزن أبو بكر عمر ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ثم رفع الميزان فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء ۔۔۔۔۔۔۔فقال له معاوية: لا أبا لك تخبرنا أنا ملوك فقد رضينا أن نكون ملوكا[ مسند أبي داود الطيالسي (2/ 196)]

(5) قبيصة بن عقبة کی روایت:
حدثنا قبيصة بن عقبة، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه قال: وفدنا مع زياد إلى معاوية فما أعجب بوفد أعجب بنا فقال: يا أبا بكرة، حدثني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول، وكانت تعجبه الرؤيا الحسنة يسأل عنها فيقول: «رأيت ميزانا أنزل من السماء فوزنت فيه أنا وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ووزن أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر، ثم وزن عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان إلى السماء»، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»، قال: فخرج في أفنيتنا فأخرجنا[مصنف ابن أبي شيبة (6/ 176) ]

(6)إبراهيم بن الحجاج الناجي کی روایت
ثنا إبراهيم بن حجاج، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، أن رجلا قال: يا رسول الله، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء، فوزنت فيه أنت وأبو بكر، فرجحت بأبي بكر، ثم وزن فيه أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر بعمر، ثم وزن فيه عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فاستألها، يعني تأولها، ثم قال: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»[السنة لابن أبي عاصم (2/ 538)]

(7)حجاج بن المنهال کی روایت:
حدثنا أبو مسلم إبراهيم بن عبد الله الكشي قثنا حجاج بن المنهال قثنا حماد، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم تعجبه الرؤيا الحسنة فيسأل عنها، فقال ذات يوم: «أيكم رأى رؤيا؟» فقال رجل: رأيت كأن ميزانا من السماء، فوزنت وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ووزن أبو بكر بعمر، فرجح أبو بكر بعمر، ثم وزن عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»[ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل (1/ 381)]

(8)الأسود بن عامر کی روایت:
فوجدنا علي بن معبد قد حدثنا قال: حدثنا الأسود بن عامر قال: أخبرنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا ويسأل عنها، فقال ذات يوم: " أيكم رأى رؤيا؟ "، فقال رجل: أنا يا رسول الله، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء، فوزنت فيه أنت وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ثم وزن فيه أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر بعمر، ووزن فيه عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان. فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من شاء ".[شرح مشكل الآثار (8/ 413) ]

(9) موسى بن إسماعيل
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ذات يوم «أيكم رأى رؤيا؟» فذكر معناه، ولم يذكر الكراهية، قال: فاستاء لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، يعني فساءه ذلك، فقال: «خلافة نبوة، ثم يؤتي الله الملك من يشاء»[سنن أبي داود 4/ 208 ومن طریق ابی داؤد اخرجہ البیھقی فی دلائل النبوة 6/ 348 ]

(10) بسام بن يزيد النقال کی روایت:
حدثني بسام الحمال حدثنا حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن عبدالرحمن بن أبي بكرة قال: وفد أبو بكرة مع زياد إلى معاوية، فقال: يا أبا بكرة، حدثني بشيء سمعته عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كانت الرؤيا الحسنة تعجب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ذات يوم: أيكم رأى رؤيا؟ فقال رجل: أنا رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت فيه وأبو بكر فرجحت بأبي بكر، ثم وزن أبو بكر وعمر فرجح أبو بكر، ثم وزن عمر وعثمان فرجح عمر بعثمان، ثم رفع الميزان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: تكون خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء فقال: فأمر فزخ في أقفيتنا فأخرجنا، فقال زياد: لا أبا لك أما وجدت غير هذا الحديث؟! ثم دعا معاوية بأبي بكرة فسأله عن الحديث فحدثه به، فأمر بإخراجه وقال: أتقول الملك، قد رضينا بالملك[أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 232 ، بسام وثقہ ابن حبان 8/ 155و روی عنہ ابن ابی حاتم 2/ 434]

حماد کے ان دس شاگردوں کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ۔تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابوبکرہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث سنی ہیں ان میں سے کچھ سناؤ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب بہت پسند تھے اورآپ اس بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔ چناں چہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک شخص نے کہا : میں نے ، میں نے دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو (اس بات پر) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے کہا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔

ملاحظہ فرمائیں حمادبن سلمہ کے یہ کل دس ثقہ شاگرد ہیں جو حماد سے اسی سند سے اسی حدیث کو مفصل یا مختصر الگ سیاق میں روایت کرتے ہیں اورسب یہ بات بیان کرنے میں متفق ہیں کہ خلافت والا جملہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سال کی تحدید کے بغیر فرمایا ہے نیزاسے ایک ایسے خواب کی تاویل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے۔
اس سیاق کے ساتھ اس روایت میں بدترین نکارت ہے کیونکہ اس کے مطابق :
1۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی صریح پیشین گوئی کی ہے جبکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے کما مضی ۔
2۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان تینوں صحابہ کی خلافت کو خلافت نبوت کہا ہےا ور اس کے بعد ملوکیت کا آغاز بتلاہے اس اعتبار سے علی رضی اللہ عنہ کا دور ، خلافت نبوت سے خارج قرارپاتاہے اوریہ بات غلط ہے۔
حماد کے دس شاگردوں کے بیان کے مطابق حماد کی اس روایت کی اصل کیفیت یہی ہے جسے بیان کیا گیا ،ان دس ثقہ شاگردوں کے خلاف صرف اور صرف مؤمل ہی ایک شاگردہے جو اس روایت کو اختصار کرکے بیان کرتاہے اور الگ الفاظ میں اس طرح روایت کرتا ہے کہ خلافت والا جملہ خواب سے کاٹ دیتاہے اوراس میں تیس سال کی تحدید کا اضافہ کردیتاہے۔
مؤمل بھی ثقہ ہے لیکن اس کے حافظہ پرجرح بھی ہوئی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : انورالبدر فی وضع الیدین علی الصدر ۔
اس لئے جب دس شاگردوں کے خلاف اس کی روایت ملے گو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ ایک روایت کے مطابق الحجاج بن محمد المصيصي نے بھی مؤمل جیسے الفاظ نقل کئے ہیں۔دیکھئے: [جزء ثمانون حدیثا للآجری :ص 43 رقم 38 ،جامع بيان العلم وفضله (الزهيري): 2/ 1174]۔
لیکن الحجاج ہی کی دوسری روایت کے الفاظ حماد کے مذکوردس شاگردوں کے موافق ہیں اس روایت کو ابوعبید الھروی نے غریب الحدیث میں روایت کیا ہے دیکھئے :غریب الحدیث للھروی ج 1ص 422۔اس لئے اس اختلاف کا ذمہ دار الحجاج سے نیچے کوئی دوسرا راوی ہے۔
لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حجاج نے مؤمل کی متابعت کی ہے اور متابعت مان بھی لیں تو بھی دس شاگردوں کے خلاف دو شاگردوں کی بات قطعا غیرمسموع ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر ہم اس روایت کو صحیح بھی مان لیں تو بھی یہ روایت زیربحث روایت کے لئے شاہد نہیں بن سکتی کیونکہ محفوظ روایت میں خلافت کے لئے تیس سال کی تحدید نہیں ہے ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سندا بھی یہ روایت سخت ضعیف ہے ۔کیونکہ اس کی سند میں علی بن زید راوی ہے جو سخت ضعیف راوی جیساکہ ہم نے اس کی تفصیل اپنی کتاب یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص386 پر پیش کی ہے۔
یہ علی بن زید وہی راوی ہے جس نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو میرے منبر پردیکھو توقتل کردو [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 343 ومن طریقہ اخرجہ ابن عساکرفی تاریخہ 59/ 156
واخرجہ ایضا البلاذری فی الانساب 5/ 128من طریق الحجاج عن علی بن زید بہ ورجالھم ثقات سوعی علی بن زید]
اس کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے علی بن زید کے ۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ علی بن زید کی روایات سخت ضعیف بلکہ باطل وموضوع ہواکرتی ہیں۔
الغرض یہ کہ متن یا سند کسی بھی اعتبار سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ، حدیث سفینہ میں مذکور تیس سال خلافت والے جملے کی شاہد نہیں بن سکتی ۔

جابررضی اللہ عنہ سے مروی شاہد:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والآخر: عن جابر بن عبد الله الأنصاري.أخرجه الواحدى في " الوسيط " (3 / 126 / 2) عن شافع بن محمد حدثنا ابن الوشاءبن إسماعيل البغدادي: حدثنا محمد بن الصباح حدثنا هشيم بن بشير عن أبي الزبيرعنه به نحوه.۔۔۔وفي الآخر شافع بن محمد حدثنا ابن الوشاء بن إسماعيل البغدادي، ولم أعرفهما ولعل في النسخة تحريفا
اس حدیث کا دوسرا شاہد جابربن عبداللہ الانصاری سے منقول ہے جسے واحدی نے ’’الوسیط‘‘ (3 / 126 / 2) میں شافع شافع بن محمد حدثنا ابن الوشاءبن إسماعيل البغدادي: حدثنا محمد بن الصباح حدثنا هشيم بن بشير عن أبي الزبير کی سند سے جابر رضی اللہ عنہ سے تقریبا اسی طرح روایت کیا ہے۔۔۔۔اس دوسرے شاہد میں شافع بن محمد اور ابن الوشاء بن اسماعیل البغدادی کا ذکر ہے اور اور ان دونوں کو میں نہیں جان سکا ہوسکتاہے نسخہ میں ہی تحریف ہو۔[سلسلة الأحاديث الصحيحة 1/ 823]

یہ وہ دوسرا اور آخری شاہد ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث سفینہ کے شواہد میں پیش کیا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کا متن ذکر نہیں کیا ہے اور امام واحدی کی اس کتاب کے مطبوعہ نسخہ میں یہ روایت میں تلاش نہیں کرسکا تاکہ مکمل متن وسند پر نظر ثانی کی جاتی ۔تاہم شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند نقل کردی ہے اور سند کی ابتداء سے مسلسل دو رواۃ سے اپنی عدم معرفت کا اظہار کیا ہے۔
چونکہ ان دونوں رواۃ کا کچھ اتا پتا نہیں ہے اور کذابین کے یہاں اس روایت کا سراغ مل گیا ہے اس لئے ایسے مجہولین کی روایت کا کچھ اعتبار نہیں ۔

ایک بے سند مرسل روایت :
أبو العباس، أحمد بن عبد الله بن محمد، محب الدين الطبري (المتوفى: 694) نے نقل کیا:
وعن سهل بن أبي خيثمة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "ألا وإن الخلفاء بعدي أربعة, والخلافة بعدي ثلاثون سنة نبوة ورحمة, ثم خلافة ثم ملك ثم جبرية وطواغيت ثم عدل وقسط, ألا إن خير هذه الأمة أولها وآخرها" أخرجه أبو الخير القزويني الحاكمي.
سھل بن ابی خیثمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو ! میرے بعد چار خلفاءہوں گے ۔اورمیرے بعدتیس سال تک خلافت نبوت ورحمت رہے گی ، پھراس کے بعد ملوکیت کا آغاز ہوگا،پھراس کے بعدجبریت اور طاغوتیت کا آغازہوگا ،پھر اس کے بعد عدل وانصاف کا دور ہوگا۔سنو! اس امت کے بہترین لو گ اس کے شروع اور آخر کے لوگ ہیں‘‘اس حدیث کو ابوالخیرالقزوینی الحاکمی نے روایت کیا ہے۔

’’سهل بن أبي خيثمة‘‘ اگریہ ’’سهل بن أبي حثمة‘‘ ہیں تو یہ صحابی ہیں[العلل للدارقطني، ت محفوظ السلفي: 6/ 235]۔لیکن یہ اگر ’’سھل بن ابی خیثمہ‘‘ ہیں تو تابعی ہیں ۔[معجم الصحابة للبغوي - ط: مبرة الآل والأصحاب 4/ 34]
یہاں ان کے شاگرد کا ذکر نہیں ہے اور نہ کسی اور مقام پر یہ روایت مل سکی کہ پتہ لگایا جاسکے کہ کون ہیں ۔
بہرحال اگریہ تابعی ہیں تو یہ روایت بےسند ہونے کے ساتھ مرسل ہے اور اگر صحابی ہیں تو بھی یہ روایت بے سند ذکر کی گئی ہے اور کسی عالم سے اس کی تصحیح بھی منقول نہیں ہے اس لئے یہ روایت بھی مفقود السند ہونے کے سبب بے سود ہے۔

نیز اس روایت میں ایک شدید نکارت یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف گنتی کے چار خلیفہ بتائے گئے ہیں ۔اس لئے اس حدیث کی روشنی میں حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ شمار نہیں ہوں گے۔جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ تمام شواہد سخت ضعیف و ناقابل اعتبار ہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟


امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں نے پہلے بادشاہ کہا ہے ان کی بنیادی دلیل وہی سعیدبن جمھان کی منفرد روایت ہے جس کی حقیقت اوپر پیش کردی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص سعیدبن جمھان کے تفرد کی حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی محض ظاہرپرستی کا ثبوت دیتے ہوئے ضد کرے کہ سعدبن جمھان مختلف ومتکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی جب صدوق وثقہ ہے تو اس کی روایت قابل قبول ہے ۔لہٰذا اس کی روایت کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں ۔
تو ایسے شخص کی خدمت میں عرض ہے کہ اصول حدیث میں اس ظاہر پرستی کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ ان کے پہلے بادشاہ ہونے سے متعلق بھی ایک حدیث سعیدبن جمھان عن سفینہ ہی کے طریق سے وارد ہوئی ہے ملاحظ ہو:

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند البزار: 9/ 281]

یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے ۔اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:

هذا إسناد صحيح.
یہ سند صحیح ہے[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]

اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اوراس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قراردیاہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔

اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟

یاد رہے کہ اس حدیث کے بھی شواہد موجود ہیں بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء
عبدالرحمان بن ابی بکرۃ کہتے ہیں کہ ہم زیاد کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اورہمارے ساتھ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، تو جب ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس قدر ہمارے وفد کی آمد پر خوش ہوئے اس طرح کسی اور وفد پرخوش نہ ہوئے ، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ ! آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی سنائے ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب پسند تھے اورآپ اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا : میں نے دیکھا ہے۔ میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ناگوار گذری اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے ) فرمایا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]

اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے چناں چہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا موسى حدثنا وهيب عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الأشعث كان ثمامة القرشي على صنعاء وله صحبة فلما جاءه قتل عثمان بكى فأطال وقال اليوم نزعت الخلافة من أمة محمد صلى الله عليه وسلم وصارت ملكا وجبرية من غلب على شيء أكله
ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اوردیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محمدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے۔[التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم وایوب تابعہ النضر بن معبد کما اخرجہ ابن عساکر 11/ 158 بسند صحیح عنہ ، والنضر بن معبد ،قال عنہ ابن حبان فی المجروحين : 3/ 51 ’’فأما عند الوفاق فإن اعتبر به معتبر فلا ضير ‘‘ انتھی ۔ ولہ شاہد عن قتادہ ابن شبة فی تاریخہ: 4/ 1273]

دکتوراکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]

اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟
ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی مرفوع روایت اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت ضعیف ہے۔
اس لئے نہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت کادور مانتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ۔ بلکہ ہمارے نزدیک دونوں صحابہ کرام کا دور خلافت کا دور ہے ۔البتہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فضل و مقام میں بڑھ کر ہیں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top