• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث من کذب علی متعمدا کے متعلق ایک شبہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
منکرین حدیث اور اسلام دشمنوں کی دروغ گوئی

پہلے یہ پوسٹ ملاحظہ کریں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فنِ حدیث سازی پر ایک چھچھلتی نظر....
میں ذاتی طور پر دو ایک دوستوں کو جانتا ہوں جو اپنے اقوال حضرت علی سے منسوب کر کے مشہور کر رہے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ایک شخض پکڑا گیا جو جھوٹی حدیثیں بنا بنا کر پھیلا رہا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے طلب کرکے دریافت کہ کیا یہ حدیث تم نے گھڑی ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ جی ہاں میں نے ہی بنائی ہے۔ آپ نے ایک دو مزید جملے ادا کیے اور پوچھا کہ یہ "حدیث" بھی تم نے بنائی ہے؟ اس نے اس کا بھی اعتراف کرلیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک رقیق القلب انسان تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے اُسے مخاطب کر کے کہا کہ او دشمنِ خدا، تونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں سنی کہ جس شخص نے کوئی جھوٹی بات مجھ سے منسوب کی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے؟ اُس نے سر جھکاتے ہوئے عرض کیا کہ حضور یہ حدیث بھی میں نے ہی بنائی تھی۔
طبقاتِ اکبری جلد ہشتم، ملفوظات جلد چہار دہم صفحہ نمبر ٣٢٦
(رفیع رضا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالا پوسٹ کا مدعا یہ ہے کہ حدیث سازی کی ایک ایسی لہر تھی، جس میں جھوٹ سچ کی کوئی پہچان نہ رہی، بلکہ جنہیں لوگ بہت مستند احادیث سمجھتے تھے، وہ بھی اصل میں کسی کی گھڑی ہوئی تھیں۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ حدیث گھڑنے کی باقاعدہ ایک تحریک موجود تھی، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کے بالمقابل حفاظت و صیانت حدیث کی تحریک بھی پورے شد و مد سے موجود تھی، اصول حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
غلط کیا ہے، صحیح کیاہے؟ علماء و محدثین نے بحکم قرآنی ’إن جاءکم فاسق بنبأ فتبینوا‘ کے مصداق اسانید اور ان کی تحقیق کا ایک بہترین سسٹم متعارف کروایا۔
جس کی مدد سے یہ معلوم کیا جاسکتا تھا کہ مستند بات کیا ہے ؟ اور جھوٹ کا پلندہ کیا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہےکہ آج کیا اپنےکیا پرائے، دوستوں دشمنوں کی ایک کثیر تعداد ’ تحقیق حدیث ‘ کے اس بہترین اور عالی شان نظام سے واقف نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جہالت کی بنا پر اعتراض کیے بھی جاتے ہیں، اور لاعلمی کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان شبہات میں پھنس بھی جاتے ہیں۔
اوپر پوسٹ میں بڑی مہارت کے ساتھ ’ من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار‘ والی حدیث کو ایک من گھڑت حدیث ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی ہے۔
حالانکہ یہ حدیث فرد واحد سے مروی نہیں، کہ جس نے اس کے جھوٹا ہونے کا اعتراف کرلیا تو بات ختم ہوئی۔
یہ حدیث متواتر ہے، یعنی ایک کثیر تعداد نے اسے روایت کیا ہے، اور ايسي كثير تعداد جن کے بارے میں یہ الزام بھی ممکن نہیں کہ ایک جگہ پر بیٹھ کر انہوں نے ’ ایکا‘ کرلیا ہوگا۔ محدثین نے اس روایت کی اسانید اور طرق پرمستقل تصانیف مرتب فرمائی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق یہ روایت تقریبا 60 صحابہ کرام سے مروی ہے، اور تقریبا 170 اس کی اسانید اور طرق ہیں۔
جس بندے میں عقل کا ذرہ بھی ہے ، وہ کیسےمان سکتا ہے کہ تواترکے درجے کو پہنچی ہوئی یہ روایت کسی جھوٹے کی کارستانی ہے ؟
اور اگر کوئی اس قسم کا یہ دعوی کردے تو کسی جھوٹے کے اس دعوے کو تسلیم کرنے والے کوبھی اپنی دماغی صلاحیت کو بحال کرنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔
جھوٹ دو طرح کا ہے: کہ کوئی من گھڑت بات کو صحیح کہہ کر مشہور کردے، دوسرا کوئی صحیح بات کےبارے میں ایسا پراپیگںڈہ کرے کہ لوگ اسے غلط سمجھنا شروع ہوجائیں، یا کم از کم شک میں مبتلا ہوجائیں۔
احادیث کے حوالے سے دشمنان دین نے دونوں قسم کی کوششیں کی ہیں، اور محدثین نے الحمدللہ دونوں قسم کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں، کہ جب احادیث گھڑنے والے پکڑے گئے ، تو انہوں نے اس قسم کی باتیں کرنا شروع کردیں کہ تم نے ہمیں تو پکڑ لیا، لیکن جو احادیث ہم نے لوگوں میں پھیلادی ہیں، ان کا کیا کرو گے؟
تو اس کا جواب دیا گیا کہ اگر مرتے وقت بھی تم جھوٹ نہیں بول رہے تو: تعیش لہا الجہابذۃ !
ہمارے پاس ایسےلوگ موجود ہیں جو کھوٹے کھرے کی پہچان میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔
مارکیٹ میں جتنا مرضی نقلی اور ملاوٹ والا سونا یا جعلی نوٹ متعارف کروا دیے جائیں، ایک ماہر سنار یا جوہری کے لیے صحیح غلط کی پہچان چنداں مشکل نہیں۔
نوٹ: بالا تحریر میں جو حوالے دیے گئے ہیں، نا مکمل اور مبہم ہونےکیوجہ سے میں نے انہیں تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا، اگر کوئی صاحب ان حوالوں کا سکرین شارٹ مہیا کردیں، تو ان کی حقیقت بھي واضح کردی جائے گی۔ ورنہ مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ کہانی کسی نے اپنی طرف سے اس طرح بنا کر مشہور کردی ہے تاکہ ذخیرہ احادیث کے متعلق لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجائیں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حدیث تو سچی تھی لیکن "قصہ گو" دروغ گو تھا

ابوبکر قدوسی
حدیث رسول کے معاملے میں دو طرح کے رویے سامنے آ رہے ہیں - ایک یہ کچھ خالی برتن ہوتے ہیں جو شور بہت کرتے ہیں ، دوسرے وہ جو سب سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں ، لیکن ان کی گھٹی میں حدیث دشمنی یوں پاؤں جما چکی ہے کہ ہوائے نفس کے سبب خوف خداۓ پاک ان کے دلوں سے نکل گیا اور آنکھوں سے شرم سرور کون مکان گئی -
اب رہے عام لوگ ، طالب علم و دیگر تو وہ ان " مفکرین " میں سے کسی ایک سے متاثر ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات کسی ایک کے ہی ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے بعد اسی کے دماغ سے سوچتے ہیں ، اپنے دماغ کو آئندہ کے لیے زیادہ زحمت نہیں دیتے -
ایسے احباب اوپر بیان کردہ شاطروں کا آسان شکار ہوتے ہیں - خود پر اعتماد کا اور لوگوں میں موجود حدیث بیزاری کا یہ " مفکرین " کہاں تک جا کے فائدہ اٹھاتے ہیں اس کی مثال اگلے روز سامنے آئی جب ایک صاحب رفیع رضا نامی نے ایک جھوٹی پوسٹ بنائی اور دوسرے لوگوں نے آگے چلا دی - صبح عرض کی تھی کہ شام کو اس حوالے سے تفصیل سے لکھوں گا -
پوسٹ میں ایک واقعہ تھا کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز کے پاس ایک مجرم لایا گیا کہ جو جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا آپ نے اس کو شرم دلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیه وسلم کی یہ حدیث بھی نہ یاد آئی کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ " جو مجھ پر جھوٹ منسوب کرے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے " - اس پر اس جھوٹے نے سر جھکا کے کہا کہ " حضرت یہ حدیث بھی میں نے بنائی تھی "-
حوالہ (طبقات اکبری جلد ہشتم ، ملفوظات جلد چہار دھم صفحہ ٤٢٦ )
حافظ صفوان نامی ایک صاحب نے یہ پوسٹ رفیع رضا کے حوالے سے آگے چلا دی - رفیع رضا ایک مذھب دشمن آدمی ہے ، جس کا مقصد ہی حدیث رسول کو مشکوک بنانا ہے - موصوف ملحدین کا ایک پیج بھی چلاتے ہیں - بارہا مذھب کے بارے اپنے غلیظ خیالات کا اظہار کر چکے ہیں -
ایسے لوگ قران و حدیث کو بدنام کرنے کے لیے ایسے جھوٹ گھڑتے ہیں اور آگے چلا دیتے ہیں - لیکن "دروغ گو را حافظہ نہ باشد" کہ اس حوالے میں بھی عقل کا استعمال نہ کر سکے - طبقات اکبری فارسی میں لکھی گئی تاریخ کی کتاب ہے ، جو ہندستانی تاریخ میں اگر مستند ہو تو ہو ، حدیث سے اس کا کوسوں دور کا بھی تعلق نہیں - فارسی میں اس کے کئی اڈیشن شائع ہوے ، لیکن آخری مستند نسخہ نول کشور کا ملتا ہے جو ایک جلد میں تقریبا ساڑھے چھے سو صفحات کی ضخامت کا ہے - اس کا ایک نسخہ تہران سے بھی ایک جلد میں شائع ہوا ہے - جب کہ تین جلدوں میں اس کا اردو ترجمہ لاہور سے اردو سائنس بورڈ کے زیر اہتمام چھپ چکا اور دستیاب بھی ہے -
اس کتاب کا حوالہ دینا ایسا ہی ہے جیسے حدیث کی صحت کی بحث ہو اور حوالہ مطالعہ پاکستان کا دیا جائے - کم ترین لفظوں میں ایسا کرنے والے کو اجہل ہی کہا جائے گا -
اب اگلا لطیفہ سنیے کہ حوالہ دیا جا رہا ہے جلد ہشتم کا ، اب مولوی نظام الدین صاحب نے تو ایک جلد لکھی اور عالم بالا کو رخصت ہوئے ، لیکن کمال یہ ہے کہ یہاں فیس بکی مفکرین نے ان کے نام آٹھ جلدیں کر دیں ، ممکن ہے مولوی صاحب قبر میں سے لکھ لکھ ان دانش وروں کو بھیج رہے ہوں - مزید دوسرا حوالہ کسی ملفوظات کی جلد چودہ یعنی چہار دھم کا ہے اور ساتھ صفحہ بھی درج کر دیا ....اندازہ کیجئے کہ جھوٹ بولنے کا سلیقہ تک نہیں - ملفوظات نام کی بیسیوں کتب اردو زبان میں موجود ہیں - سوال یہ ہے کہ کون سی ، کس کی ، کہاں کی ؟؟؟
اب آتے ہیں دوسرے امکان کی طرف کہ اگر یہ حوالہ طبقات اکبری میں واقعی موجود ہوتا .... تو جناب پھر بھی یہ جھوٹ ہی ہونا تھا ، کیونکہ قصہ بنانے والے کو اصطلاحات الحدیث کی خبر ہی نہیں - یہ حدیث متواتر حدیث ہے اور ایک نہیں دو نہیں کتنی ہی کتب میں الگ الگ راویوں سے بیان کردہ ہے ...ایک قول کے مطابق ستر صحابہ نے اس کو روایت کیا - اس لیے اس سے بڑا مذاق کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ ستر صحابہ اور پھر اس کے بعد ان کے سینکڑوں شاگرد اور شاگرد در شاگرد ایک روایت کو بیان کریں اور ان کے سو سال بعد کوئی اٹھ کے یہ درفنتنی چھوڑ دے کہ جی یہ حدیث تو میں نے بنائی ہے -
رفیع رضاء سے یا جس نے بھی یہ اختراع کی ، اس سے غلطی ہو گئی کہ حدیث غلط چن لی -
دوستو ! اصل معامله اور ہے . ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دین اسلام کے گردا گرد شکوک و شبہات کے جال بچھائے جا رہے ہیں - ان کو معلوم ہے کہ قران کے حوالے سے یہ امت کوئی بات برداشت نہیں کرتی ، سو یہ پچھلی دو صدیوں سے مولوی کے پیچھے پڑے رہے ..اس میں ان کو بہت حد تک کامیابی ہو گئی اب ان کا اگلا قدم حدیث رسول کی حیثیت کو مجروح کرنا ہے - اور ان کی کامیابی ہے کہ ابھی آپ حدیث کی کسی کتاب کا انکار کریں ، راویان حدیث کا مذاق بنائیں ، ان پر اتہام بازی کریں ، آپ کو بہت سے افراد ایسے مل جائیں گے جو ان کی تائید کر رہے ہوں گے - بظاہر یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جی بخاری ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ، لیکن بباطن ان کو آسان سا مذھب درکار ہوتا ہے - سو آسانی سے ان کے جال میں آ جاتے ہیں - بھائی بخاری اور امام بخاری آپ کے ایمان کا حصہ نہیں لیکن اللہ کے نبی کے فرمان تو ایمان کا حصہ ہے ...آپ جب ان کے چکر میں آ کے بخاری کا انکار کر رہے ہوتے ہیں تو اصل میں آپ امام کا انکار نہیں کر رہے ہوتے ، اس فرمان رسول کا انکار کر رہے ہوتے ہیں کہ جو وہاں مذکور ہے -
 
Last edited:
Top