از راہ کرم، کیا آپ اس حدیث کے صحت و ضعف کی تصدیق فرمائیں گے؟
سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4002
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، وعبيد الله بن عمر بن ميسرة المعنى، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، عن سفيان بن حسين، عن الحكم بن عتيبة، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن ابي ذر، قال: كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حمار والشمس عند غروبها، فقال: "هل تدري اين تغرب هذه؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنها تغرب في عين حامية".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية"» ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے“ (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۴ (۳۱۹۹)، وتفسیر القرآن ۳۶ (۴۸۰۳)، والتوحید ۲۲ (۷۴۲۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۷۲ (۱۵۹)، سنن الترمذی/الفتن ۲۲ (۲۱۸۶)، تفسیر القرآن سورة یٰسن ۳۷ (۳۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۵، ۱۵۲، ۱۵۸ع ۱۶۵، ۱۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مشہور قرات «حَمِئَةٍ» ہے یعنی کالی مٹی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔
سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4002
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، وعبيد الله بن عمر بن ميسرة المعنى، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، عن سفيان بن حسين، عن الحكم بن عتيبة، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن ابي ذر، قال: كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حمار والشمس عند غروبها، فقال: "هل تدري اين تغرب هذه؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنها تغرب في عين حامية".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية"» ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے“ (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۴ (۳۱۹۹)، وتفسیر القرآن ۳۶ (۴۸۰۳)، والتوحید ۲۲ (۷۴۲۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۷۲ (۱۵۹)، سنن الترمذی/الفتن ۲۲ (۲۱۸۶)، تفسیر القرآن سورة یٰسن ۳۷ (۳۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۵، ۱۵۲، ۱۵۸ع ۱۶۵، ۱۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مشہور قرات «حَمِئَةٍ» ہے یعنی کالی مٹی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔