• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی تصدیق (سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ )

88sohail

مبتدی
شمولیت
جولائی 21، 2018
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
از راہ کرم، کیا آپ اس حدیث کے صحت و ضعف کی تصدیق فرمائیں گے؟

سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4002
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، ‏‏‏‏‏‏وعبيد الله بن عمر بن ميسرة المعنى، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ حدثنا يزيد بن هارون، ‏‏‏‏‏‏عن سفيان بن حسين، ‏‏‏‏‏‏عن الحكم بن عتيبة، ‏‏‏‏‏‏عن إبراهيم التيمي، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن ابي ذر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حمار والشمس عند غروبها، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "هل تدري اين تغرب هذه؟ قلت:‏‏‏‏ الله ورسوله اعلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فإنها تغرب في عين حامية".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية‏"‏» ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے“ (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۴ (۳۱۹۹)، وتفسیر القرآن ۳۶ (۴۸۰۳)، والتوحید ۲۲ (۷۴۲۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۷۲ (۱۵۹)، سنن الترمذی/الفتن ۲۲ (۲۱۸۶)، تفسیر القرآن سورة یٰسن ۳۷ (۳۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۵، ۱۵۲، ۱۵۸ع ۱۶۵، ۱۷۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مشہور قرات «حَمِئَةٍ» ہے یعنی کالی مٹی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
از راہ کرم، کیا آپ اس حدیث کے صحت و ضعف کی تصدیق فرمائیں گے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
سنن ابوداود کی یہ حدیث بالکل صحیح ہے ،
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، ‏‏‏‏‏‏وعبيد الله بن عمر بن ميسرة المعنى، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ حدثنا يزيد بن هارون، ‏‏‏‏‏‏عن سفيان بن حسين، ‏‏‏‏‏‏عن الحكم بن عتيبة، ‏‏‏‏‏‏عن إبراهيم التيمي، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن ابي ذر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حمار والشمس عند غروبها، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "هل تدري اين تغرب هذه؟ قلت:‏‏‏‏ الله ورسوله اعلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فإنها تغرب في عين حامية".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا ،آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية‏"‏» ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے“
ــــــــــــــــــــــــــ

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
شیخ ناصرالدین البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ،

سعودی عرب کے مشہور مستند عالم اور مدینہ یونیورسٹی کے استاذ
الشيخ عبدالمحسن بن حمد العباد ۔۔ سنن ابی داود کی شرح میں فرماتے ہیں :
قال: (تغرب في عين حامية) وهذه قراءة أيضاً متواترة، وفي القراءة التي سبق أن مرت: (عين حمئة)، وهي التي في المصحف الذي بين أيدينا، والمقصود من ذلك أنها في نهايتها، فعندما يكون الإنسان في نهاية الأرض فإنه يراها رأي العين كأنها تسقط في البحر، ومعلوم أنها تدور في فلكها، وهي تغيب عن أناس وتظهر على أناس، لا أنها تغادر وتبقى الدنيا كلها في ظلام دامس لا وجود لها، بل إنها تكون موجودة، ولكنها تغيب عن أناس وتظهر على أناس، كما هو الواقع المشاهد وكما هو معلوم من قبل ۔۔۔۔۔
ترجمہ ::کہ اس حدیث میں جو الفاظ نبوی وارد ہیں کہ (سورج ایک گرم چشمہ میں غروب ہوتا ہے ) تو یہ الفاظ بھی متواتر قراءت کے ہیں ، جس طرح پہلے گزرا کہ سورۃ کہف کی اس آیت کے الفاظ ہمارے پاس موجودمصحف میں (عين حمئة) ہیں ،
اور اِس جملہ سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان زمین کے سرے پر ہو یعنی سامنے سمندر ہو تو غروب آفتاب کے وقت ایسا لگتا ہے گویا وہ سمندر میں ڈوب رہا ہے ،
جبکہ معلوم ہی ہے کہ آفتاب اپنے فلک پر گھوم رہا ہے ،اور کہیں کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہورہا ہوتا ہے تو اسی وقت کہیں کچھ لوگوں کے سامنے ظاہر (طلوع )ہورہا ہوتا ہے ، یعنی وہ اس طرح غروب نہیں ہوتا کہ ایک دم ساری دنیا سے اوجھل ہوجائے، پوری دنیا اندھیرے میں ڈوب جائے اور اس دنیا میں سورج کا وجود ہی نہ رہے ، الغرض وہ مسلسل موجود رہتا ہے ، ہاں کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور کچھ لوگوں کو نظر آتا ہے ، جیسا کہ محسوس و مشاہد حقیقت ہے ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی حدیث صحیح بخاری (3199 ) میں ان الفاظ سے منقول ہے :
(عَنْ أَبِی ذَرٍّ ہُرَیْرَۃَقَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنُ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ)
[ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ]

” سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟
حتى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ ( سورۃ الکہف 86 )
ذوالقرنین نے سفر شروع کیا حتی کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا "

امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛
و

وقوله: {وجدها تغرب في عين حمئة} أي: رأى الشمس في منظره تغرب في البحر المحيط، وهذا شأن كل من انتهى إلى ساحله، يراها كأنها تغرب فيه، وهي لا تفارق الفلك الرابع الذي هي مثبتة فيه لا تفارقه (7) .
والحمئة مشتقة على إحدى القراءتين (8) من "الحمأة" وهو الطين، كما قال تعالى: {إني خالق بشرا من صلصال من حمإ مسنون} [الحجر: 28] أي: طين أملس (9) . وقد تقدم بيانه.
وقال ابن جرير: حدثني يونس، أخبرنا ابن وهب (10) حدثني نافع بن أبي نعيم، سمعت عبد الرحمن الأعرج يقول: كان ابن عباس يقول (11) {في عين حمئة} ثم فسرها: ذات حمأة. قال نافع: وسئل عنها كعب الأحبار فقال: أنتم أعلم بالقرآن مني، ولكني أجدها في الكتاب تغيب في طينة سوداء (12) .
وكذا روى غير واحد عن ابن عباس، وبه قال مجاهد وغير واحد. :

(ذوالقرنین سفر کرتے کرتے ) جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ منظر دیکھا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے ۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا «حَمِئَۃٍ» یا تو مشتق ہے «حماۃ» سے یعنی چکنی مٹی ۔ آیت قرآنی «وَاِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلٰیِٕکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ» ( 15- الحجر : 28 ) میں اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ یہی مطلب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اور سیدنا حضرت کعب رحمہ اللہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہو جاتا تھا ۔
ایک قرأت میں «فِیْ عَیْنٍ حَامِیَۃِ» ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا ۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی ، گرم ہوا اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو ۔​
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
صحیح بخاری (3199 ) کی حدیث
میں غروب کے وقت عرش کے نیچے سجدہ کا بیان ہے :
(عَنْ أَبِی ذَرٍّ ہُرَیْرَۃَقَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنُ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ)
[ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ]

” سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھی صدی کے نامور محدث اورامام الخطابیؒ
ابو سليمان حمد بن محمد بن إبراهيم بن الخطاب البستي المعروف بالخطابي
(319 - 388 ھ = 931 - 998 م)
" لا ينكر أن يكون لها استقرار تحت العرش ، من حيث لا ندركه ولا نشاهده ، وإنما هو خبر عن غيب ، فلا نكذب به ، ولا نكيفه ؛ لأن علمنا لا يحيط به " انتهى من " أعلام الحديث شرح صحيح البخاري " (ص/1893)
ترجمہ :
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے ، کچھ اس طرح کہ اس استقرار کی حقیقت نہ ہم نے دیکھی ،نہ ہم سمجھتے ہیں ، یہ غیب کی ایسی خبر ہے (جو ہم تک پیغمبر کے پہنچی ) جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے ، نہ اس کی کیفیت بیان کرتے ہیں ، کیونکہ اس کیفیت کا ہمیں علم ہی نہیں ،(اعلام الحدیث شرح صحیح بخاری )
 
Last edited:
Top