• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسن لغیرہ کی حجیت کے متعلق ایک مباحثہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر(7)
فریق ثانی کے مطابق تو ابھی تک ہمارا دعوی ہی واضح نہیں ہوا، کیونکہ زبان و بیان میں گرہ یا قلوب واذہان پر جمی تہیں اور پردے تواللہ ہی ہٹا سکتا ہے، البتہ ہم نے جو دعوی کیا تھا، ا س کے مطابق اپنی ساتویں تحریر پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم بطور یادہانی اپنی پہلی تحریر سے دعوی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا:
’’ حسن لغیرہ حجت ہے. اور یہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں موجود ضعف شدید نہ ہو. اور اسی طرح اس میں کوئی نکارت یا ایسی علت نہ ہو، جو اس کی تحسین کو مانع ہو. جیسا کہ بعض دفعہ ثقہ رواۃ کی روایات کو بھی علت و شذوذ کی بنا پر رد کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
یہ دعوی اس و جہ سے دہرا دیا گیا ہےتاکہ اگر کوئی شخص ہمارے دعوی کی نوعیت اور اس میں وضوح وعدم وضوح والی بات کو جج کرنا چاہے، تو کرسکے۔
اب ہماری طرف سے نئی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
(حصہ اول: دلائل)
ابن ابی حاتم نے جرح و تعدیل(1/ 6) کے مقدمہ میں راویوں کی چار اقسام بیان کی ہیں، جن میں پہلی دو بذاتہ قابل احتجاج راویوں کی ہیں، چوتھی قسم کذاب وغیرہ راویوں کی ہے۔ تیسری قسم کے راویوں کی تعریف میں انہوں نے درج ذیل عبارت رقم فرمائی ہے:
(الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطأ والسهو والغلط ) اور پھر ان کی روایت کے حکم کے متعلق دو باتیں فرمائی ہیں،( یکتب حدیثہ)، اور (ولا یحتج بہ).
اسی بات کو انہوں نے مقدمہ میں ہی ایک اورجگہ پر مزید کھول کر بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى، وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار، واذا أجابوا في الرجل بلين الحديث فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه اعتبارا، وإذا قالوا ليس بقوي فهو بمنزلة الأولى في كتبة حديثه إلا أنه دونه، وإذا قالوا ضعيف الحديث فهو دون الثاني لا يطرح حديثه بل يعتبر به، وإذا قالوا متروك الحديث أو ذاهب الحديث أو كذاب فهو ساقط الحديث لا يكتب حديثه وهي المنزلة الرابعه. (الجرح والتعديل (2/ 37)
یہاں انہوں نے تیسرے مرتبہ میں، شیخ ، صالح الحدیث، لین الحدیث، ضعیف الحدیث وغیرہ الفاظ کی صراحت کے ساتھ اس درجے کے راویوں کو قابل اعتبار کہا ہے، اور ان کی روایات کو لکھنے کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہ متابعات وشواہد کی بنا پر تقویت حاصل کرسکتے ہیں۔
ہاں البتہ چوتھے مرتبہ میں ضعف شدید والے راوی متروک، ذاہب و ساقط کی حدیث کو لکھنے سے بھی منع کردیا ہے، کیونکہ ایسا ضعف تقویت کے قابل ہی نہیں۔
امام سخاوی نے بھی شرح الفیہ میں مراتب رواۃ بیان کرتے ہوئے، ان کی روایات کے متعلق فرمایا ہے:
والحكم في المراتب الأربع الأول أنه لا يحتج بواحد من أهلها، ولا يستشهد به، ولا يعتبر به (وكل من ذكر من بعد) لفظ: لا يساوي (شيئا) ، وهو ما عدا الأربع (بحديثه اعتبر) أي: يخرج حديثه للاعتبار ; لإشعار هذه الصيغ بصلاحية المتصف بها لذلك، وعدم منافاتها لها. (فتح المغيث (2/ 129)
پہلے چار مراتب کی روایات کو انہوں نے قابل اعتبار بھی نہیں سمجھا، البتہ بقیہ کو قابل اعتبار بتلایا ہے، یہاں انہوں نے ضعیف، ضعفوہ، لیس بذاک، لیس بالمتین، لیس بالقوی، لیس بالحافظ، مجہول، سیء الحفظ وغیرہ کثیر الفاظ جرح کو ذکر کیا ہے، یعنی ان سب رواۃ کی روایات ضعف کے سبب قابل احتجاج تو نہیں، البتہ قابل اعتبار ہیں، یعنی متابعات وشواہد کی بنا پر یہ احتجاج کے درجہ میں آسکتی ہیں۔
سخاوی ایک جگہ پر فرماتے ہیں: يعتبر به ; أي: في المتابعات والشواهد.(فتح المغیث(2/ 119)
سخاوی کی یہ بات ایک اور اقتباس سے مزید واضح ہوجاتی ہے ، جہاں وہ تضعیف حدیث میں جلد بازی سے روکتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:
(وإن تجد متنا) أي: حديثا (ضعيف السند فقل) فيه: هو (ضعيف أي: بهذا) السند بخصوصه (فاقصد) أي: انو ذاك، فإن صرحت به فأولى (ولا تضعف) ذلك المتن (مطلقا بناء) بالمد (على) ضعف ذاك (الطريق إذ لعلـ) ـه (جاء) بالمد أيضا (بسند) آخر (مجود) يثبت المتن بمثله أو بمجموعهما. (فتح المغيث (1/ 347)
یہاں بصراحت حدیث کو فورا ضعیف کہنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر ضعیف سے نکل کر ’ثابت‘ کے درجہ میں آسکتی ہے۔
اچھا محدثین کے ہاں ضعیف اور جرح کے درجات بیان کرتے ہوئے، قابل اعتبار اور ناقابل اعتبار کی تفریق بھی توجہ طلب ہے۔ اس حوالے سے ہم تحریر کے دوسرے حصے میں کچھ عرض کریں گے۔
ضعیف لیکن قابل اعتبار کے متعلق امام العلل ابن المدینی کی خاص تصنیف کا حاکم وغیرہ نے ذکر بھی کیا ہے، فرماتے ہیں:
ذكر النوع الحادي والخمسين من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين، فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح، ولم يسقطوا قد ذكرت فيما تقدم من ذكر مصنفات علي بن المديني، رحمه الله كتابا مترجما بهذه الصفة غير أني لم أر الكتاب قط، ولم أقف عليه، وهذا علم حسن، فإن في رواة الأخبار جماعة بهذه الصفة. (معرفة علوم الحديث (ص: 254)
مرسل حديث کی شروط کے متعلق امام شافعی کے کلام بھی بعض نکات یہاں قابل استدلال ہے، جسے الرسالۃ میں براہ راست دیکھا جاسکتا ہے۔ (الرسالۃ(1/461)
امام شافعی کے کلام پر ہونے والے اعتراضات کا علائی نے جامع التحصیل میں جواب دیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:
وقد اعترض الحنفية أيضا فيه على الإمام الشافعي وقالوا هذا ليس فيه إلا أنه انضم غير مقبول عنده إلى مثله فلا يفيدان شيئا كما إذا انضمت شهادة غير العدل إلى مثلها.
وجوابه أيضا بمثل ما تقدم إنه بانضمام أحدهما إلى الآخر يقوي الظن أن له أصلا وإن كان كل منهما لا يفيد ذلك لمجرده وهذا كما قيل في الحديث الضعيف الذي ضعفه من جهة قلة حفظ رواية وكثرة بالكذب إذا روي مثله بسند آخر نظير هذا السند في الرواة فإنه يرتقي بمجموعهما إلى درجة الحسن لأنه يزول عنه حينئذ ما يخاف من سوء حفظ الرواة ويعتضد كل منهما بالآخر. (جامع التحصيل (ص: 41)
یہ قول حسن لغیرہ کے متعلق بالکل واضح ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(حصہ دوم: اعتراضات)
فریق ثانی کی طرف سے کیے جانے کئی ایک اعتراضات کے جوابات ہم سابقہ تحریروں میں عرض کرچکے ہیں۔
اس تحریر میں ہم مزید دو کا تذکرہ کرتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
امام ابن معین کی ایک عبارت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره.
فريق ثانی کا یہ دعوی ہے کہ امام ابن معین کا یہ قول حسن لغیرہ کی عدم حجیت پر دلیل ہے۔
پہلے یہ عبارت سیاق و سباق کے ساتھ ملاحظہ کرلیجیے:
قد روى شعبة أيضا في القطع في ربع دينار فصاعدا حديث الزهري لم يروه غيره وقد خالفه غيره ولم يرفعه أبو سفيان الذي يروي عن جابر وقيل له فقال ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره. (من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال (ص: 44)
ہمارے علم کے مطابق یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے، مثلا:
1۔ ابن معین کی یہ بات ایک حدیث کی تعلیل میں منقول ہے، وہ حدیث جس کی سند میں اختلاف ہے، اور یہ بات ہم شروع سے کہہ چکے ہیں کہ شاذ ومنکر وجہ کے راوی ثقہ بھی ہوں، تو قابل حجت نہیں، ضعیف تو بالاولی نہیں ہوں گے۔
2۔ اس پیرے میں پیش کردہ عبارتیں بے ربط محسوس ہورہی ہیں، مثلا قیل لہ فقال... یہاں قیل اور اس کے بعد قال کا آپس میں کیا ربط ہے؟ اور لیتہ یصحح.. والے جملے میں ابن معین کا یہ تبصرہ کس کے متعلق ہے؟
شاید یہ عبارت نامکمل ہے، محقق کتاب نے بھی سقط و تصحیف کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ابن معین کی اس عبارت کو کہیں اور سے تلاش کیا جائے، تو شاید اس کا عقدہ کھل سکتا ہے۔
3۔ میں نے اس عبارت پر کافی غور کیا، سمجھ نہیں آرہی، کہ اس میں کس ضعیف نے کس ضعیف کی متابعت کی، یا کم از کم کس ضعیف کے متعلق یہ جملہ بولا گیا ہے کہ وہ تو خود قابل حجت نہیں، تو دوسرے کو کیا فائدہ دے گا؟
یہ حدیث امام احمد کی العلل ومعرفۃ الرجال ۔ روایۃ ابنہ(1/194) میں سفیان ثوری کے حوالے سے مذکور ہے، اسی طرح علل الدار قطنی میں دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، اور تفصیل سے انہوں نے اس کی مختلف وجوہ پر کلام کیا ہے۔
دوسرا اعتراض:
حسن لغیرہ کی تعریف کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، انقطاع و ضعف کی مختلف اقسام کو ذکر کرکے احتمالات کی لائن لگادی جاتی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس قسم کے اعتراضات اور استحالے قائم کرنا یہ محدثین کا طریقہ نہیں ہے، مجرد احتمالات اور علم منطق کی رو سے اصول حدیث کو زیر بحث لایا جائے، تو صحیحین میں موجود اصح الاسانید بھی محل نظر ہوجائیں گی۔
ہاں جن احتمالات و وجوہات کو محدثین ذکر کریں، ان کو تحریر و تقریر کی زینت بنانا طالب حدیث کے شایان شان ہونا چاہیے۔
تیسرا اعتراض:
حسن لغیرہ کے منکرین ایک شبہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ متابعات و شواہد یا اعتبار سے مراد، ضعیف جمع ضعیف کی متابعت نہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ضعیف ہے، جس کی ثقہ متابعت کرے۔
یہ توجیہ و اعتذار اس فریق کے منہجی اضطراب کی علامت ہے، کیونکہ جب ضعیف ہر حال میں ہی ضعیف رہتا ہے، تو پھر اس کی متابعت ثقہ کرے یا ضعیف، وہ قابل احتجاج کیونکر ہوگا؟
اسی وجہ سے اس فریق کے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ضعیف اور ثقہ متابعت کریں، تو اعتماد ثقہ پر ہے، ضعیف چنداں قابل التفات نہیں۔
بہر صورت یہ عذر یہ پیش کریں، یا وہ، دونوں ہی درست نہیں۔ محدثین کے ہاں دونوں طرح کی متابعت اور اعتبار کی مثالیں موجود ہیں، بعض ہم سابقہ تحریروں میں پیش بھی کرچکے ہیں۔
اور پھر محدثین نے جب اعتبار کی بات کی ہے، تو وہ ضعیف جدا وغیرہ لوگوں کی روایات اعتبار میں بھی لینے سے منع کیا ہے، حالانکہ جب اعتماد ثقہ پر ہی کرنا ہے، تو پھر ضعیف یا ضعیف جدا ایک برابر ہیں۔
محدثین کے ہاں یعتبر بہ ولا یعتبربہ والی تفریق کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حسن لغیرہ کے منکرین ، ائمہ محدثین کی تطبیقات و تاصیلات کو درست سمت میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔
(ختم شد)
نوٹ: اگر کسی وجہ سے اس مجموعہ میں بات جاری رکھنا ناممکن ہوا، تو آئندہ تحریریں، گروپ کے معروف مشارکین کو دیگر ذرائع سے ارسال کر دی جائیں گی، یا حسب ضرورت نیا گروپ بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر(8)
فریق ثانی کے مطابق تو ابھی تک ہمارا دعوی ہی واضح نہیں ہوا، کیونکہ زبان و بیان میں گرہ یا قلوب واذہان پر جمی تہیں اور پردے تواللہ ہی ہٹا سکتا ہے، البتہ ہم نے جو دعوی کیا تھا، ا س کے مطابق اپنی آٹھویں تحریر پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم بطور یادہانی اپنی پہلی تحریر سے دعوی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا:
’’ حسن لغیرہ حجت ہے. اور یہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں موجود ضعف شدید نہ ہو. اور اسی طرح اس میں کوئی نکارت یا ایسی علت نہ ہو، جو اس کی تحسین کو مانع ہو. جیسا کہ بعض دفعہ ثقہ رواۃ کی روایات کو بھی علت و شذوذ کی بنا پر رد کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
یہ دعوی اس و جہ سے دہرا دیا گیا ہےتاکہ اگر کوئی شخص ہمارے دعوی کی نوعیت اور اس میں وضوح وعدم وضوح والی بات کو جانچنا چاہے، تو جانچ سکے۔
اب ہماری طرف سے نئی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
یہاں ہم کچھ مزید احادیث بطور امثلہ ذکر کرنا چاہیں گے، جنہیں حسن لغیرہ قرار دیا گیا ہے۔
احکام ومسائل میں حسن لغیرہ احادیث
فقہ اور احکام و مسائل سے متعلق کتب سے چند احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے، جو ہمارے نزدیک حسن لغیرہ کے درجہ میں ہی قابل احتجاج ہیں، جو حسن لغیرہ کا انکار کرتے ہیں، ہمارے نزدیک وہ ان مسائل میں اس سے کم تر دلائل کی طرف جانے کےلیے مجبور ہوجائیں گے۔
(1)حدیث: النساء شقائق الرجال.
یہ حدیث حضرت عائشہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
حدیث عائشہ کی ایک سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے، ایک دوسری سند میں ابن لہیعۃ ضعیف ہے۔
حدیث انس کی سند میں محمد بن کثیر الصنعانی ضعیف ہے۔
امام احمد سے اس حدیث کی تضعیف بھی منقول ہے، اور یہ بھی منقول ہے کہ: وإلیہ أذھب.( فتح الباری لابن رجب(1/342)، جامع علوم الإمام احمد(14/15) کہ میرا موقف اس حدیث کے مطابق ہی ہے۔
امام احمد کے منہج کے متعلق ابن قیم کا ایک اقتباس مفید رہےگا، فرماتے ہیں:
وليس الضعيف في اصطلاحه هو الضعيف في اصطلاح المتأخرين، بل هو والمتقدمون يُقسِّمون الحديث إلى صحيح وضعيف، والحسن عندهم داخل في الضعيف بحسب مراتبه.وأوَّل من عُرِف عنه أنه قسمه إلى ثلاثة أقسام أبو عيسى الترمذي، ثم الناس تبعٌ له بعد ، فأحمد يقدِّم الضعيف - الذي هو حسنٌ عنده - على القياس، ولا يلتفت إلى الضعيف الواهي الذي لا يقوم به حجَّة، بل يُنْكر على مَن احتجَّ به وذهب إليه. (الفروسية المحمدية ط عالم الفوائد (1/ 203)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متابعات وشواہد ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: فالحديث حسن في الجملة. (موافقة الخبر(2/ 28)
گویا متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔
(2)حديث:مفتاح الصلاة الطهور
یہ حدیث حضرات علی و جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےاور یہ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک حجت ہے۔
لیکن اس کی اسانید میں ضعف ہے۔ (تحفۃ الأحوذی(1/35) ظاہر ہے یہ حسن لغیرہ کے درجہ میں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
(3)حديث: لاتتبع النظرة النظرة
یہ حدیث حضرات علی و بریدۃ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
ان صحابہ سے اس کے کئی ایک طرق ہیں، لیکن کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔
اس کے باوجود ترمذی نے اس كی تحسین کی ہے، ابن حبان نے صحیح میں نقل کیا، حاکم نے صحیح میں ذکر کرکے، اس کی تصحیح کی، اور ذہبی نے موافقت کی۔
ہماری نظر میں اس کی تحسین یا تصحیح اس کے تعدد طرق کی بنا پر ہی ہے، ورنہ اس کی ہر ایک سند میں ضعف بالکل واضح ہے ۔
اس حدیث کے متابعات وشواہد کے متعلق تفصیلی کلام کے لیے انیس الساری (9/6055)(4239) ملاحظہ کی جاسکتی ہے، اس کتاب میں بھی حافظ ابن حجر کے سکوت کو ذکر کرکے اسے حسن قرار دیا گیا ہے۔ شیخ البانی نے بھی متعدد کتابوں میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
(4)حديث: لا رمل على النساء
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث کی دو اسانید ملی ہیں، ایک میں لیث بن أبی سلیم(مصنف ابن أبي شيبة (3/ 150) (12951)، اور دوسری میں شریک القاضی ہیں،(السنن الكبرى للبيهقي (5/ 137) (9287 ) اور یہ دونوں سوء حفظ کی بنا پر ضعیف ہیں، لیکن متابعات میں ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حدیث قابل حجت ہے، اور اس مسئلہ میں کہ عورتوں پر رمل وغیرہ نہیں ائمہ کا اجماع ہے، جیساکہ ابن المنذر وغیرہ نے ذکر کیاہے۔ بلکہ امام شافعی نے اس مسئلہ میں اسی حدیث کو بطور حجت کے ذکر کیا ہے۔((الأم للشافعي (2/ 192)
جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام شافعی بھی حسن لغیرہ کو قابل احتجاج مانتے تھے۔ واللہ اعلم۔
(5)حديث: تذوق الطعام في الصيام
اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جواز کا اثر مروی ہے۔
اس اثر کی دو اسانید ہیں، ایک میں شریک القاضی سیء الحفظ ہے، دوسری میں جابر الجعفی ہے، جسے بعض لوگوں نے متروک کہا ہے، لیکن بعض ائمہ نے اسے ضعیف کہا ہے، حافظ ابن حجر اس حوالے سے متردد ہیں تقریب میں آخری رائے پر اعتماد کیا ہے ، جبکہ بعض دیگر جگہوں پر اسے متروک لکھا ہے۔ ابن عباس کے اس اثر کو امام بخاری نے صحیح میں تعلیقا ذکر کیا ہے، جبکہ ابن تیمیہ نے امام احمد کے حوالے سے اسے معرض استدلال میں ذکر کیا ہے۔( شرح العمدة - كتاب الصيام (1/ 480)
ہمارے نزدیک اس کی یہی توجیہ ہے کہ یہ حسن لغیرہ کے درجہ میں قابل احتجاج ہے ۔ واللہ أعلم۔
ان احاديث كو پیش کرکے ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ حسن لغیرہ احادیث شرعی احکام و مسائل میں دیگر احادیث کی طرح ہی اہم ہیں، جبکہ بعض نادان حسن لغیرہ ماننے کو باطل ماننے سے تشبیہ دیتے ہیں، گویا باطل کے رد کا تقاضا ہے کہ ساتھ حق کا بھی انکار کردیا جائے۔ حسن لغیرہ کا اتنے شدت سے انکار کیوں ہونا شروع ہوا؟ یہ الگ موضوع ہے، لیکن بادی النظر میں یہی سمجھ آتی ہے کہ مخالف کو دلائل سے عاری کرنے کی سوچ یہاں تک لے آئی ہے۔
آئنده تحرير میں عقیدہ کے متعلق حسن لغیرہ احادیث پیش کی جائیں گی۔ إن شاءاللہ۔
(ختم شد)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے۔
تحریر نمبر(9)
فریق ثانی کے مطابق تو ابھی تک ہمارا دعوی ہی واضح نہیں ہوا، کیونکہ زبان و بیان میں گرہ یا قلوب واذہان پر جمی تہیں اور پردے تواللہ ہی ہٹا سکتا ہے، البتہ ہم نے جو دعوی کیا تھا، ا س کے مطابق اپنی نئی تحریر پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم بطور یادہانی اپنی پہلی تحریر سے دعوی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا:
’’ حسن لغیرہ حجت ہے. اور یہ وہ حدیث ہے، جس کی دو یا اس سے زائد اسانید ہوں، اور ان میں موجود ضعف شدید نہ ہو. اور اسی طرح اس میں کوئی نکارت یا ایسی علت نہ ہو، جو اس کی تحسین کو مانع ہو. جیسا کہ بعض دفعہ ثقہ رواۃ کی روایات کو بھی علت و شذوذ کی بنا پر رد کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
یہ دعوی اس و جہ سے دہرا دیا گیا ہےتاکہ اگر کوئی شخص ہمارے دعوی کی نوعیت اور اس میں وضوح وعدم وضوح والی بات کو جانچنا چاہے، تو جانچ سکے۔
اب ہماری طرف سے اگلی تحریر ملاحظہ کیجیے۔
اپنے موقف کے اثبات کے لیے ہم رواۃ اوراحادیث کے متعلق کئی ایک اقوال مختلف ائمہ کرام سے نقل کرچکے ہیں، یہاں مزید تین اقوال نقل کیے جاتے ہیں:
سفیان بن عیینہ ایک حدیث روایت کرنے کے بعد، جس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے، فرماتے ہیں:
ولم نجد شيئا يشد هذا الحديث ولم يجئ إلا من هذا الوجه.
اور یہی منہج انہوں نے اپنے شیخ اسماعیل بن امیہ سے نقل کیا، سفیان کہتے ہیں: إسماعیل بن أمیہ کہا کرتے تھے:عندكم شيء تشدونه به؟. (السنن الكبرى للبيهقي (2/ 384)
شيخ كا پوچھنا کہ اس حدیث کی تقویت ہوسکتی ہے؟ شاگرد کا کہنا کہ کچھ نہیں ملا، یہ حسن لغیرہ والے منہج پر دلالت کناں ہے۔
ابن الصلاح فرماتے ہیں:
ثم اعلم أنه قد يدخل في باب المتابعة والاستشهاد رواية من لا يحتج بحديثه وحده، بل يكون معدودا في الضعفاء، وفي كتابي البخاري ومسلم جماعة من الضعفاء ذكراهم في المتابعات والشواهد، وليس كل ضعيف يصلح لذلك، ولهذا يقول الدارقطني وغيره في الضعفاء: " فلان يعتبر به وفلان لا يعتبر به ". (علوم الحديث لہ (ص: 84)
یہاں ہم عقیدہ کے متعلق کچھ احادیث کو ذکر کریں گے، کہ جن سے عقیدہ کے باب میں احتجاج کیا گیا ہے، اور وہ حسن لغیرہ کے درجہ میں آتی ہیں۔
حديث: إثبات النفس لله عزوجل
قرآن کریم کی ایک آیت ہے: کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ.
اس میں اللہ تعالی نے اپنے لیے ’نفس‘ کا اثبات کیا ہے، جہمیہ وغیرہ اس قسم کی صفات کے منکر ہیں، امام ابن خزیمہ نے اس صفت کے اثبات کے لیے قرآن کریم کی آیات کے ساتھ ساتھ، کئی ایک صحیح احادیث پیش کیں، جن میں سے کئی صحیحین میں ہیں، پھر آخر میں ایک حدیث یوں بیان کی:
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، قال: حدثنا خالد يعني ابن الحارث، عن محمد بن عجلان، وحدثنا محمد بن العلاء أبو كريب، قال: حدثنا أبو خالد، عن ابن عجلان، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لما خلق الله الخلق كتب بيده على نفسه أن رحمتي تغلب غضبي»(التوحيد لابن خزيمة (1/ 19)
ابن عجلان مختلف فيه راوی ہے، حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: صدوق، إلا أنه اختلطت عليه أحاديث أبي هريرة. (التقریب)
مدلسین کے طبقہ ثالثہ میں اس کا ذکر ہے، اور یہاں روایت بھی عن کے ساتھ ہے۔
ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جو استدلال کرنا تھا، وہ دیگر احادیث سے بھی ممکن تھا، لیکن اس کے باوجود اس روایت کو یہاں لے کر آنا، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ائمہ کرام متابعات و شواہد میں ضعف خفیف کو قبول کرلیتے تھے۔
حدیث: خلق اللہ آدم علی صورتہ
یہ مشہور حدیث ہے، اور اس کےمعنی کی تعیین میں بھی تفصیلی بحث ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ حدیث کی کتب میں صحیح اسانید کے ساتھ ہے۔
ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں اس حدیث کو محمد بن عجلان عن سعید المقبری عن أبی ہریرۃ کے طریق سے ذکر کیا ہے:
حدثنا الربيع بن سليمان المرادي، قال: ثنا شعيب يعني ابن الليث، قال: ثنا الليث، عن محمد بن عجلان، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة ، رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " لا يقولن أحدكم لأحد: قبح الله وجهك، ووجها أشبه وجهك، فإن الله خلق آدم على صورته ".
(التوحيد لابن خزيمة (1/ 81)
اس کے بعد انہوں نے اسی حدیث کی ایک اور متابعت بھی نقل کی ہے، اور اسی طریق سے یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔
حسن لغیرہ حجت نہیں ہوتی، اور صحیح کی موجودگی میں حسن لغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوالات واعتراضات امام الائمہ ابن خزیمہ وغیرہ پر بھی اٹھتے ہیں۔
بلکہ یہ حدیث ابن عجلان کے طریق سے اپنے دیگر صحیح و ضعیف متابعات وشواہد کے ساتھ السنۃ لعبد اللہ بن احمد اور الابانۃ لابن بطۃ، اور شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ للالکائی، الصفات للدارقطنی اور الاسماء والصفات للبیہقی وغیرہ کتب عقائد میں بھی ہے۔
حديث: الاعتقاد بالنجوم
عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أخوف ما أخاف على أمتي في آخر زمانها: النجوم، وتكذيب القدر، وحيف السلطان "
یہی حدیث حضرت انس و أبو الدرداء اور أبو محجن و جابر بن سمرة رضي الله عنهم کئی صحابہ سے ہم معنی مروی ہے۔
اور کوئی ایک بھی سند ضعف سے سالم نہیں۔
اس کے باوجود ابن أبی عاصم نے اسے السنۃ(1/ 142)(324) میں، ابو عمرو الدانی نے السنن الواردۃ فی الفتن(3/ 619) میں، اور بیہقی نے القضاء والقدر(ص: 285) میں ذکر کیا ہے۔
مناوی نے اس کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔(فیض القدیر(1/204)، شیخ البانی نے بھی کثرت طرق کی بنا پر اس کی تصحیح کی ہے۔(الصحیحۃ(برقم(1127)
فتح المجید شرح کتاب التوحید (ص: 318)میں اسے علم نجوم کی مذمت میں ذکر کیا گیا ہے، اور اس کی تحسین نقل کی گئی ہے۔
اس سے قبل ابن الوزیر نے اس حدیث کو اس کے شواہد سمیت العواصم والقواصم(6/295) میں قدریہ کی مذمت میں نقل کیا ہے۔
ہمارے علم کی حد تک کسی بھی ناقد یا محدث نے اس حدیث کو رد نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔
نوٹ: جابر بن سمرۃ والی حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن القاسم الاسدی ہے، جس پر شدید قسم کی جرح موجود ہے، ، البتہ بزار نے اس حدیث کو نقل کرنے کےبعد فرمایا ہے:
’’ ومحمد بن القاسم لين الحديث، وقد احتمل حديثه أهل العلم ورووا عنه.‘‘ (مسند البزار(10/ 200)
اس بنا پر یہ حدیث یہاں نقل کردی گئی ہے ۔
حدیث: المقام المحمود : الشفاعۃ
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله: {عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا} وسئل عنها قال: «هي الشفاعة»: " هذا حديث حسن. (سنن الترمذي(5/ 303)( 3137)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث عقائد کی کتب السنۃ لابن أبی عاصم(2/ 364)، التوحید لابن خزیمۃ (2/ 725)،الشریعۃ للآجری (4/ 1610)اور شرح اصول الاعتقاد للالکائی (6/ 1185)میں بھی ہے۔
حالانکہ اس کی سند میں داود بن یزید ضعیف،او راس کا باپ مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث ہے۔
امام ترمذی نے اس کی تحسین کی، کیونکہ اس کے کئی ایک شواہد موجود ہیں۔
امام ترمذی اور دیگر ائمہ عقیدہ کا اس کے دیگر شواہد پر اکتفا کرنے کی بجائے، اس حدیث کی تخریج کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک حسن لغیرہ حجت تھی۔ وللہ الحمد۔
حدیث: سکت عن أشیاء من غیر نسیان
عن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن الله فرض فرائض، فلا تضيعوها، وحد حدودا فلا تعتدوها، وحرم أشياء، فلا تنتهكوها، وسكت عن أشياء رحمة لكم غير نسيان، فلا تبحثوا عنها.
یہ حدیث کئی ایک کتب حدیث میں ہے۔ ابن بطۃ نے اسے الإبانۃ میں ذکر کیا ہے، اور نووی نے اربعین میں اسلام کے بنیادی اصولوں میں اسے درج کیا ہے۔
حالانکہ اس کی سند منقطع ہے، کیونکہ مکحول کا ابو ثعلبہ سے سماع ثابت نہیں۔
نووی نے اسے سنن الدارقطنی کے حوالے سے ذکر کرکے، حسن قرار دیا ہے، اور اس کا حسن ہونا شواہد کی بنا پر ہی ہے، ابن رجب اس میں انقطاع کا ذکر کرنے کےبعد فرماتے ہیں:
وقد حسن الشيخ رحمه الله هذا الحديث، وكذلك حسن قبله الحافظ أبو بكر بن السمعاني في " أماليه ".
وقد روي معنى هذا الحديث مرفوعا من وجوه أخر. (جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط (2/ 150)
دیگر بعض لوگوں نے بھی نووی کی تحسین کو تعدد طرق پر محمول کیا ہے۔
یہ مباحثے میں ہماری نویں تحریر ہے، چونکہ فریق مخالف اس مباحثے سے پیچھے ہٹ چکا ہے، اس لیے ہم بھی اس سلسلہ کو ختم کرتے ہیں، آئندہ تحریر اس مباحثہ کی اختتامی تحریر ہوگی، جس میں سابقہ تمام دلائل اور اقتباسات کو ایک اور ترتیب و تنظیم سے ذکر کردیا جائے گا۔
(ختم شد)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حسن لغیرہ حجت ہے

تحریر نمبر (10)
حسن لغیرہ کی حجیت والا مسئلہ کبھی بھی متنازع نہیں رہا، البتہ کچھ سالوں سے اسے متنازع بنادیا گیا ہے، چند دن قبل ایک واٹس ایپ گروپ میں اس پر مباحثے کی بات شروع ہوگئی ، قائلین حسن لغیرہ کی طرف سے کچھ علمائے کرام کے نام پیش کیے گئے، جبکہ دوسری طرف سے ایک مبتدی طالبعلم کو آگے کردیا گیا، حالانکہ مناسب یہ تھا کہ دوسری طرف سے بھی کوئی عالم دین ہی آگے بڑھتا۔ ویسے منکرین حسن لغیرہ میں ایک تو علما نہ ہونے کے برابر ہیں، دوسرا شاید وہ مصلحت اسی میں سمجھتے ہیں کہ نوخیز لوگوں کو ہی آگے رکھا جائے۔
قصہ مختصر، فریق مخالف کی طرف سے جب کوئی عالم دین آگے نہ آیا، تو قائلین حسن لغیرہ کی طرف سے بھی بطور ایک طالبعلم راقم الحروف کو بات کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، مباحثہ شروع ہوا، ہم نے اپنا دعوی پیش کیا، اس کی توضیح بھی رکھ دی، جو اعتراضات اٹھائے گئے، ان کا جواب بھی دیا، بات کو نکھارنے کے لیے ہم نے دو بدو بات کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن فریق ثانی کی طرف سے تین چار تحریروں کے بعد راہ فرار اختیار کر لی گئی، اور عجیب بات یہ کہ انہوں نے اپنا جواب دعوی تک واضح الفاظ میں دینے سے گریز کیا، خیر اس حوالے سے ہم یک طرفہ بات کرنے کی بجائے گزارش کریں گے کہ فریقین کی اصل تحریروں کو ہی ملاحظہ کیا جائے، تاکہ صورت حال واضح ہوسکے۔([1])

چونکہ ہم مدعی تھے، اس لیے ہمارے لیے رسمی مناظرہ یا مباحثہ سے بڑھ کر یہ بات بھی اہم تھی کہ ہم اپنےموقف کے حق میں جس قدر ہوسکے، دلائل، شواہد، تاصیلات و تطبیقات پیش کردیں، اس لیے فریق مخالف کے مباحثے سے اعراض کے باوجود فیصلہ کیا گیا کہ ہم اپنی بات کو جاری رکھیں۔
یوں کل نو تحریروں میں ہم نے اپنا موقف پیش کیا، جو ہمارے نزدیک تو مدلل و مبرہن ہی ہے، اور ہر مصنف، لکھاری اور مدعی کی یہی سوچ ہوتی ہے، البتہ ہر عقل مند قاری کا یہ حق ہے کہ وہ جانچ پرکھ کر کوئی رائے قائم کرے۔
تحریریں لکھتے ہوئے موضوع سےمتعلق معاصرین کی کتابیں اور بحثیں دیکھنے کی بجائے، حدیث، اصول حدیث، رجال اور تخریج وغیرہ کتب کو براہ راست دیکھ کرا ن سے دلائل اور مثالوں کا انتخاب کیا گیا ہے، اس لیے تحریروں میں پیش کردہ مباحث میں ترتیب و تنظیم کو مد نظر نہیں رکھا جاسکا، لہذا اس آخری تحریر میں تمام مباحث کو ایک مناسب ترتیب کےساتھ پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

تعدد طرق اور انجبار ضعف کے متعلق ائمہ کی مختلف عبارات

امام سفیان ثوری (ت161ھ) فرماتے ہیں: "إني لأكتب الحديث على ثلاثة وجوه: فمنه ما أتدين به، ومنه ما أعتبر به ومنه ما أكتبه لأعرفه ". (الجامع لأخلاق الراوي (2/ 193)
ہمارے نزدیک یہاں بیان کردہ احادیث کی دوسری قسم وہی ہے، جنہیں حسن لغیرہ کہا جاتاہے۔
سفیان بن عیینہ(ت198ھ) ایک حدیث روایت کرنے کے بعد، جس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے، فرماتے ہیں:

"ولم نجد شيئا يشد هذا الحديث ولم يجئ إلا من هذا الوجه".
اور یہی منہج انہوں نے اپنے شیخ اسماعیل بن امیہ(ت144ھ) سے نقل کیا، سفیان کہتے ہیں: إسماعیل بن أمیہ کہا کرتے تھے:"عندكم شيء تشدونه به؟". (السنن الكبرى للبيهقي (2/ 384)
شيخ كا پوچھنا کہ اس حدیث کی تقویت ہوسکتی ہے؟ شاگرد کا کہنا کہ کچھ نہیں ملا، یہ حسن لغیرہ والے منہج پر دلالت کناں ہے۔
امام احمد بن حنبل(ت241ھ) كا مشہور مقولہ ہے:

"الحديث عن الضعفاء قد يحتاج إليه في وقت والمنكر أبدا منكر". (العلل رواية المروذي وغيره ت صبحي السامرائي (ص: 120)
امام احمد کا یہ مقولہ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ ضعیف اور منکر میں فرق ہے، منکر تو ہمیشہ منکر ہوتی ہے، اگر ضعیف بھی ہمیشہ منکر کی مانند ہی ہو، تو کہنا چاہیے تھا کہ منکر وضعیف ہمیشہ منکر وضعیف ہی رہتی ہے۔
بلکہ ایک اور جگہ پر امام صاحب کا کلام اس منہج کے متعلق بالکل واضح ہے، فرماتے ہیں:

"ما حديث ابن لهيعة بحجة وإني لأكتب كثيرا مما أكتب أعتبر به ويقوي بعضه بعضا". (الجامع للخطیب(2/ 193)
مرسل حديث کی شروط کے متعلق امام شافعی (ت204ھ) کے کلام میں بھی بعض نکات یہاں قابل استدلال ہے، جسے الرسالۃ میں براہ راست دیکھا جاسکتا ہے۔ (الرسالۃ(1/461)
امام شافعی کے کلام پر ہونے والے اعتراضات کا علائی (ت761ھ) نے جامع التحصیل میں جواب دیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:

"وقد اعترض الحنفية أيضا فيه على الإمام الشافعي وقالوا هذا ليس فيه إلا أنه انضم غير مقبول عنده إلى مثله فلا يفيدان شيئا كما إذا انضمت شهادة غير العدل إلى مثلها.وجوابه أيضا بمثل ما تقدم إنه بانضمام أحدهما إلى الآخر يقوي الظن أن له أصلا وإن كان كل منهما لا يفيد ذلك لمجرده وهذا كما قيل في الحديث الضعيف الذي ضعفه من جهة قلة حفظ رواية وكثرة بالكذب إذا روي مثله بسند آخر نظير هذا السند في الرواة فإنه يرتقي بمجموعهما إلى درجة الحسن لأنه يزول عنه حينئذ ما يخاف من سوء حفظ الرواة ويعتضد كل منهما بالآخر". (جامع التحصيل (ص: 41)
یہ قول حسن لغیرہ کے متعلق بالکل واضح ہے۔
شيخ الإسلام ابن تیمیہ (ت728ھ) فرماتے ہیں:

"إن تعدد الطرق مع عدم التشاعر أو الاتفاق في العادة، يوجب العلم بمضمون المنقول، لكن هذا ينتفع به كثيرا في علم أحوال الناقلين. وفي مثل هذا ينتفع برواية المجهول والسيئ الحفظ، وبالحديث المرسل ونحو ذلك؛ ولهذا كان أهل العلم يكتبون مثل هذه الأحاديث، ويقولون: إنه يصلح للشواهد والاعتبار ما لا يصلح لغيره. قال أحمد: قد أكتب حديث الرجل لأعتبره، ومثل هذا بعبد الله بن لَهِيعة قاضي مصر؛ فإنه كان من أكثر الناس حديثا ومن خيار الناس، لكن بسبب احتراق كتبه وقع في حديثه المتأخر غلط، فصار يعتبر بذلك ويستشهد به". (مقدمة في أصول التفسير (ص: 29)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

"الحديثان إذا كان فيهما ضعف قليل مثل أن يكون ضعفهما إنما هو من جهة سوء الحفظ ونحو ذلك، إذا كانا من طريقين مختلفين عضد أحدهما الآخر، فكان في ذلك دليل على أن للحديث أصلا محفوظا عن النبي - صلى الله عليه وسلم –".(الفتاوى الكبرى لابن تيمية (6/ 241)
ابن تیمیہ کی عبارت میں جس چیز کو منہج محدثین بتایا گیا ہے، اسی کا نام حسن لغیرہ ہے۔
یہاں ابن قیم (ت751ھ) کا ایک اقتباس بھی مفید رہےگا، جس میں امام احمد کے منہج کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وليس الضعيف في اصطلاحه هو الضعيف في اصطلاح المتأخرين، بل هو والمتقدمون يُقسِّمون الحديث إلى صحيح وضعيف، والحسن عندهم داخل في الضعيف بحسب مراتبه.وأوَّل من عُرِف عنه أنه قسمه إلى ثلاثة أقسام أبو عيسى الترمذي، ثم الناس تبعٌ له بعد ، فأحمد يقدِّم الضعيف - الذي هو حسنٌ عنده - على القياس، ولا يلتفت إلى الضعيف الواهي الذي لا يقوم به حجَّة، بل يُنْكر على مَن احتجَّ به وذهب إليه". (الفروسية المحمدية ط عالم الفوائد (1/ 203)
حافظ ذہبی (ت748ھ) حدیث کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے، لکھتے ہیں:

"ثم يليه ما كان إسناده صالحا، وقبله العلماء لمجيئه من وجهين لينين فصاعدا، يعضد كل إسناد منهما الآخر". (سير أعلام النبلاء ط الرسالة (13/ 214)
امام سخاوی (ت902ھ) الفیۃ عراقی (ت806ھ) کی شرح میں فرماتے ہیں:

"حيث تقرر أن الحسن لا يشترط في ثاني قسميه ثقة رواته، ولا اتصال سنده، واكتفي في عاضده بكونه مثله مع أن كلا منهما بانفراده ضعيف لا تقوم به الحجة، فكيف (يحتج بالضعيف) مع اشتراطهم أو جمهورهم الثقة في القبول؟
(فقل) : إنه لا مانع منه (إذا كان) الحديث (من الموصوف رواته) واحد فأكثر (بسوء حفظ) أو اختلاط أو تدليس مع كونهم من أهل الصدق والديانة فذاك (يجبر بكونه) أي: المتن (من غير وجه يذكر) .ويكون العاضد الذي لا ينحط عن الأصلي معه كافيا، مع الخدش فيه بما تقدم قريبا من كلام النووي وغيره الظاهر في اشتراط التعدد الذي قد لا ينافيه ما سيجيء عن الشافعي في المرسل قريبا ; لاشتراطه ما ينجبر به التفرد، وإنما انجبر ; لاكتسابه من الهيئة المجموعة قوة، كما في أفراد المتواتر والصحيح لغيره الآتي قريبا.
وأيضا فالحكم على الطريق الأولى بالضعف إنما هو لأجل الاحتمال المستوي الطرفين في سيئ الحفظ مثلا ; هل ضبط أم لا؟ فبالرواية الأخرى غلب على الظن أنه ضبط، على ما تقرر كل ذلك قريبا عند تعريف الترمذي".
(فتح المغيث (1/ 96)
یہی بات زکریا الأنصاری (ت926ھ) نے شرح الفیۃ العراقی میں فرمائی ہے، ان کا ایک جملہ ملاحظہ کریں:

"ولأنَّ الحكمَ عَلَيْهِ بالضَّعْفِ إنَّما كَانَ لاحتمالِ ما يمنعُ القُبولَ، فلمَّا جاءَ العاضدُ غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ زوالُ ذَلِكَ الاحتمالِ. وليسَ هَذَا مِثْلُ شهادةِ غيرِ عدلٍ، انضمَّ إليها شهادةُ مثلِهِ؛ لأنَّ بابَ الشهادةِ أضيقُ من بابِ الروايةِ". (فتح الباقی (1/149)
سخاوی ایک جگہ تضعیف حدیث میں جلد بازی سے روکتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:

"(وإن تجد متنا) أي: حديثا (ضعيف السند فقل) فيه: هو (ضعيف أي: بهذا) السند بخصوصه (فاقصد) أي: انو ذاك، فإن صرحت به فأولى (ولا تضعف) ذلك المتن (مطلقا بناء) بالمد (على) ضعف ذاك (الطريق إذ لعلـ) ـه (جاء) بالمد أيضا (بسند) آخر (مجود) يثبت المتن بمثله أو بمجموعهما." (فتح المغيث (1/ 347)
یہاں بصراحت حدیث کو فورا ضعیف کہنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر ضعیف سے نکل کر ’ثابت‘ کے درجہ میں آسکتی ہے۔

حسن لغیرہ کی تعریف میں ائمہ کی عبارات

امام ترمذی (ت279ھ) فرماتے ہیں:
"كل حَدِيث يرْوى لَا يكون فِي إِسْنَاده من يتهم بِالْكَذِبِ وَلَا يكون الحَدِيث شاذا ويروى من غير وَجه نَحْو ذَاك فَهُوَ عندنَا حَدِيث حسن". (العلل الصغير للترمذي (ص: 758)(وانظر: سنن الترمذي(5/758)
ابن الصلاح (ت643ھ) نے امام ترمذی کی اس تعریف کو حسن لغیرہ کی تعریف قرار دیا ہے۔( علوم الحدیث لہ(ص: 30)
ابن الصلاح کی کتاب کے شارحین و مستدرکین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے، گو اس تعریف کی شرح و وضاحت میں تعقبات و استدراکات موجود ہیں۔
امام نووی (ت676ھ) حسن کے متعلق ترمذی و ابن الصلاح وغیرہ کی عبارات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"الحسن وإن كان دون الصحيح على ما تقدم من حديهما. فهو كالصحيح في أنه يحتج به. ولهذا لم تفرده طائفة من أهل الحديث، بل جعلوه مندرجًا في نوع الصحيح". (إرشاد طلاب الحقائق (1/ 141)
پھر حسن لغیرہ کے متعلق ایک اعتراض کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

"قد یقال: نجد أحاديث محكومًا بضعفها مع أنها مروية من وجوه كثيرة كحديث الأذنان من الرأس وكراهةالماءالمشمس فهلا انجبر بعضها ببعض فصارت حسانًا كما تقدم في حده؟ والجواب: أنه ليس كل ضعف يزول بمجيء الحديث من وجوه، بل ما كان ضعفه لضعف حفظ راويه الصدوق الأمين زال بمجيئه من وجه آخر لدلالة ذلك على عدم اختلال ضبطه وكذا إذا كان الضعف لكونه مرسلًا زال بمجيئه من وجه آخر إما مسندًا وإما مرسلًا كما سيأتي في بابه إن شاء الله تعالى ووجهه ما ذكرناه. وأما إذا كان الضعف لكون الراوي متهمًا بالكذب أو فاسقًا فلا ينجبر ذلك بمجيئه من وجه آخر". (إرشاد الطلاب(1/ 146۔148)
بقاعی (ت885ھ) اپنے شیخ ابن حجر (ت852ھ) سے اس تعریف کی شرح کے متعلق نقل کرتے ہیں:

"قال شيخنا: (والترمذيُّ عرَّفَ الحسنَ لغيرهِ، وادّعاءُ ابنِ المواقِ أنَّهُ لم يميزْ، ممنوعٌ، فإنهُ ميّزهُ بشيئينِ: أحدهما: أنْ يكونَ راويهِ قاصراً عن درجةِ راوي الصحيحِ، بل عن درجةِ راوي الحسنِ لذاته، وهو أنْ يكونَ غيرَ متهمٍ بالكذبِ، فيدخلَ فيهِ المستورُ والمجهولُ، ونحو ذلكَ. وراوي الصحيحِ لا بدَّ وأنْ يكونَ ثقةً، وراوي الحسنِ لذاتهِ لا بدَّ وأنْ يكونَ موصوفاً بالضبطِ، ولا يكفي كونهُ غيرَ متهمٍ بالكذبِ، وقد ذكرَ هذا ابنُ المواقِ في نفسِ اعتراضهِ بقولهِ: بل ثقاتٍ، ولم يُتنبهْ له، فإنَّ الترمذيَّ لم يعدلْ عن قوله: (ثقات) وهي كلمةٌ واحدة إلى قولهِ: (لا يكونُ في إسنادهِ من يتهمُ بالكذبِ) إلا لإرادةِ قصورِ رواتهِ عن وصفِ الثقةِ، كما هي عادةُ البلغاءِ في المخاطباتِ".(النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 224،225)
حسن کی تعریف ابن الجوزی(ت597ھ) یوں کرتے ہیں:

"الْحَدِيثُ الَّذِي فِيهِ ضَعْفٌ قَرِيبٌ مُحْتَمَلٌ هُوَ الْحَدِيثُ الْحَسَنُ، وَيَصْلُحُ لِلْعَمَلِ بِهِ". (الموضوعات له(1/ 13)،(علوم الحديث لابن الصلاح(ص: 30)
حافظ ابن حجر (ت852ھ) نے حسن لغیرہ کی بذات خود تعریف یوں فرمائی ہے:

"ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ،كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه،وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإِسنادُ المُرْسَلُ، وكذا المدلَّس إِذا لم يُعْرف المحذوفُ منهُ = صارَ حديثُهم حَسناً، لا لذاتِهِ، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المَجْموعِ، مِن المتابِع والمتابَع؛ لأن كلَّ واحدٍ منهم احتمالُ أن تكون روايته صواباً، أو غير صوابٍ، على حدٍّ سواءٍ، فإِذا جاءَتْ مِنَ المُعْتَبَرِين روايةٌ موافِقةٌ لأحدِهِم رَجَحَ أحدُ الجانِبينِ من الاحتمالين المذكورين، وَدَلَّ ذلك على أَنَّ الحديثَ محفوظٌ؛ فارْتَقى مِن درَجَةِ التوقف إلى درجة القبول". ( نزهة النظر ، ت الرحيلي (ص: 130،129)
ابن حجر کے شاگرد بقاعی نے بھی حسن لغیرہ کی تعریف کی ہے، لکھتے ہیں:

"الحسنَ لغيرهِ هو مالهُ سندانِ فأكثرُ، كلُ ضعيفٍ متماسكٍ فهوَ موصوفٌ بالضعفِ قبلَ معرفةِ ما يعضدهُ مطلقاً، وبعد ذَلِكَ باعتبارِ كل سَندٍ على انفرادهِ، وبالحسنِ باعتبارِ المجموعِ". (النكت الوفية بما في شرح الألفية (1/ 76)
رضی الدین ابن الحنبلی (ت971ھ) حسن لغیرہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:

"وَأما الْحسن لغيره فَهُوَ الْوَاحِد الَّذِي يرويهِ من يكون سيء الْحِفْظ وَلَو مختلطا لم يتَمَيَّز مَا حدث بِهِ قبل الِاخْتِلَاط أَو يكون مَسْتُورا أَو مُرْسلا لحديثه أَو مدلسا فِي رِوَايَته من غير معرفَة الْمَحْذُوف فيهمَا فيتابع أيا كَانَ مِنْهُم من هُوَ مثله أَو فَوْقه فِي الدرجَة من السَّنَد". (قفو الأثر في صفوة علوم الأثر (ص: 50)
امام صنعانی (ت1182ھ) لکھتے ہیں:

"الذي يحتاج إلى شاهد وتابع هو الحسن لغيره وهذا هو الذي أراده الترمذي وحملوا عليه عبارة الترمذي ... فإن الحسن للغير لا يلاحظ فيه خفة ضبط رواته بل يقبل مع حصول ضعف الراوي أو غلطه." ( توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (1/ 155)
ان سب تعریفات وعبارات میں یہ بات مشترک ہے کہ ضعیف اسانید کو تعدد طرق کی بنا پر حسن یا حسن لغیرہ کہا گیا ہے۔

وه رواة جنہیں حسن لغیرہ کے معنی میں ’حسن الحدیث ‘ کہا گیا۔

امام ابن ابی حاتم (ت 327ھ) نے جرح و تعدیل(1/ 6) کے مقدمہ میں راویوں کی چار اقسام بیان کی ہیں، جن میں پہلی دو بذاتہ قابل احتجاج راویوں کی ہیں، چوتھی قسم کذاب وغیرہ راویوں کی ہے۔ تیسری قسم کے راویوں کی تعریف میں انہوں نے درج ذیل عبارت رقم فرمائی ہے:
(الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطأ والسهو والغلط ) اور پھر ان کی روایت کے حکم کے متعلق دو باتیں فرمائی ہیں،( يكتب حديثه)، اور (ولا یحتج به).
اسی بات کو انہوں نے مقدمہ میں ہی ایک اورجگہ پر مزید کھول کر بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:

"ووجدت الألفاظ في الجرح والتعديل على مراتب شتى، وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية، وإذا قيل شيخ فهو بالمنزلة الثالثة يكتب حديثه وينظر فيه إلا أنه دون الثانية، وإذا قيل صالح الحديث فإنه يكتب حديثه للاعتبار، واذا أجابوا في الرجل بلين الحديث فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه اعتبارا، وإذا قالوا ليس بقوي فهو بمنزلة الأولى في كتبة حديثه إلا أنه دونه، وإذا قالوا ضعيف الحديث فهو دون الثاني لا يطرح حديثه بل يعتبر به، وإذا قالوا متروك الحديث أو ذاهب الحديث أو كذاب فهو ساقط الحديث لا يكتب حديثه وهي المنزلة الرابعه". (الجرح والتعديل (2/ 37)
یہاں انہوں نے تیسرے مرتبہ میں، شیخ ، صالح الحدیث، لین الحدیث، ضعیف الحدیث وغیرہ الفاظ کی صراحت کے ساتھ اس درجے کے راویوں کو قابل اعتبار کہا ہے، اور ان کی روایات کو لکھنے کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہ متابعات وشواہد کی بنا پر تقویت حاصل کرسکتے ہیں۔
ہاں البتہ چوتھے مرتبہ میں ضعف شدید والے راوی متروک، ذاہب و ساقط کی حدیث کو لکھنے سے بھی منع کردیا ہے، کیونکہ ایسا ضعف تقویت کے قابل ہی نہیں۔
امام سخاوی (ت902ھ) نے بھی شرح الفیہ میں مراتب رواۃ بیان کرتے ہوئے، ان کی روایات کے متعلق فرمایا ہے:

"والحكم في المراتب الأربع الأول أنه لا يحتج بواحد من أهلها، ولا يستشهد به، ولا يعتبر به (وكل من ذكر من بعد) لفظ: لا يساوي (شيئا) ، وهو ما عدا الأربع (بحديثه اعتبر) أي: يخرج حديثه للاعتبار ; لإشعار هذه الصيغ بصلاحية المتصف بها لذلك، وعدم منافاتها لها". (فتح المغيث (2/ 129)
پہلے چار مراتب کی روایات کو انہوں نے قابل اعتبار بھی نہیں سمجھا، البتہ بقیہ کو قابل اعتبار بتلایا ہے، یہاں انہوں نے ضعیف، ضعفوہ، لیس بذاک، لیس بالمتین، لیس بالقوی، لیس بالحافظ، مجہول، سیء الحفظ وغیرہ کثیر الفاظ جرح کو ذکر کیا ہے، یعنی ان سب رواۃ کی روایات ضعف کے سبب قابل احتجاج تو نہیں، البتہ قابل اعتبار ہیں، یعنی متابعات وشواہد کی بنا پر یہ احتجاج کے درجہ میں آسکتی ہیں۔
سخاوی ایک جگہ پر فرماتے ہیں:
"يعتبر به ; أي: في المتابعات والشواهد". (فتح المغیث(2/ 119)
ابن الصلاح فرماتے ہیں:

"ثم اعلم أنه قد يدخل في باب المتابعة والاستشهاد رواية من لا يحتج بحديثه وحده، بل يكون معدودا في الضعفاء، وفي كتابي البخاري ومسلم جماعة من الضعفاء ذكراهم في المتابعات والشواهد، وليس كل ضعيف يصلح لذلك، ولهذا يقول الدارقطني وغيره في الضعفاء: " فلان يعتبر به وفلان لا يعتبر به". (علوم الحديث لہ (ص: 84)
ابن سید الناس (ت734ھ) شرح ترمذی میں مختلف رواۃ کے متعلق کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وأما الثاني فينبغي أن يكون حديثه -إذا سلم من العلل والشذوذ والتفرد- من باب الحسن، إذا لم يعدم شاهدًا أو متابعًا لدخوله تحت كنف الستر والسلامة من الجرح، والمعرفة بعينه برواية من روى عنه". (النفح الشذي(2/ 465)
یعنی وہ اس راوی کی حدیث کو متابعت یا شواہد کی بنا پر’حسن درجے‘ میں شمار کر رہے ہیں۔ ساتھ انہوں نے علل و شذوذ کی نفی والی شرط کو بھی بیان کردیا ہے۔
امام ذہبی(ت748ھ) میزان میں ذکر کردہ رواۃ کی ایک قسم کو یوں بیان کرتے ہیں:

"ثم على المحدثين الضعفاء من قبل حفظم، فلهم غلط وأوهام، ولم يترك حديثهم، بل يقبل ما رووه في الشواهد والاعتبار بهم لا في الأصول". (ميزان الاعتدال (1/ 3)
ذہبی کی بات اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔
رواۃ کے متعلق کچھ اصولی باتوں کے بعد بعض راویوں سے متعلق کچھ عبارات ذکر کی جاتی ہیں:
امام ابو حاتم (ت277ھ) أبو إسرائیل إسماعیل الملائی کے متعلق فرماتے ہیں:

"أبو إسرائيل الملائي حسن الحديث جيد اللقاء ، له أغاليط ، لا يحتج بحديثه ، ويكتب حديثه، وهو سيئ الحفظ". (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (2 / 166)
الحكم بن عطية کے متعلق ابو حاتم فرماتے ہیں:
"يكتب حديثه ليس بمنكر الحديث . وكان أبو داود يذكره بجميل . حدثنا أبو الوليد عنه . قلت : يحتج به ؟ قال : لا، من ألف شيخ لا يحتج بواحد ، ليس هو بالمتقن". (الجرح والتعديل (3 / 125)
أبو حريز عبد الله بن الحسين كے متعلق ابو حاتم فرماتے ہیں:
"هو حسن الحديث ، ليس بمنكر الحديث ، يكتب حديثه".
(الجرح والتعديل (5 / 34)

مزید کچھ رواۃ جن کے متعلق امام ابو حاتم نے ’حسن لغیرہ‘ کا درجہ رکھنے والے رواۃ جیسے احکام صادر فرمائے ہیں:
فضيل بن مرزوق الأغر الكوفي

"قال أبو حاتم:هو صدوق صالح الحديث ، يهم كثيرا ، يكتب حديثه ، قلت : يحتج به ؟ قال: لا." (الجرح والتعديل (7 / 75)
كثير بن زيد المدني
قال ابن أبي حاتم : "سئل أبي عن كثير بن زيد فقال : صالح ليس بالقوي يكتب حديثه."
(الجرح والتعديل (7 / 150)

مروان بن شجاع الجزري
قال ابن أبي حاتم: "سألت أبي عن مروان بن شجاع فقال: صالح ليس بذاك القوي، في بعض ما يروي مناكير، يكتب حديثه." (الجرح والتعديل(8 / 273)
عبد الرحمن بن ثروان الكوفي
قال ابن أبي حاتم: "سألت أبي عن أبي قيس الأودي ، فقال : ليس بقوي ، هو قليل الحديث ، وليس بحافظ، قيل له: كيف حديثه؟ قال : صالح ، هو لين الحديث". (الجرح والتعديل (5 / 218)
خصيف بن عبد الرحمن الجزري
قال ابن أبي حاتم: سمعت أبي يقول: خصيف صالح، يخلط - وتكلم في سوء حفظه." (الجرح والتعديل (3 / 403)
أبو صالح الكوفي
قال ابن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أبو صالح باذان صالح الحديث ، يكتب حديثه ولا يحتج به. (الجرح والتعديل (2 / 431)
امام ابن عدی (ت365ھ) کے کچھ رواۃ کے متعلق تبصرے ملاحظہ فرمائیں:
حماد بن الجعد البصري کے متعلق فرماتے ہیں:

"هو حسن الحديث ، ومع ضعفه يكتب حديثه".(الكامل في الضعفاء: (3 / 18)
عثمان بن سعد التميمي البصري
"ولعثمان بن سعد غير ما ذكرت من الحديث ، وهو حسن الحديث ، ومع ضعفه يكتب حديثه". (الكامل في الضعفاء: (6 / 287)
عمر بن حبيب العدوي
"وهو حسن الحديث ، ومع ذلك يكتب حديثه مع ضعفه". (الكامل في الضعفاء: (6 / 76)
يزيد بن عطاء الواسطي
"ويزيد بن عطاء مع لينه هو حسن الحديث ، وعنده غرائب ، ومع لينه يكتب حديثه".
(الكامل في الضعفاء: (9 / 159)

كچھ مزید عبارتیں:
سعيد بن بشير الأزدي کو سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے، لیکن امام بزار (ت292ھ) کی عبارت ملاحظہ کریں:

"سعيد بن بشير عندنا صالح ليس به بأس حسن الحديث".
(إكمال تهذيب الكمال: (5 / 264)

حبان بن علی العنزی کے متعلق امام ذہبی کا حکم ملاحظہ کریں:
"فقيه صالح لين الحديث." (الكاشف (2 / 232)
مصعب بن ماهان المروزي
"صالح، لين الحديث." (لسان الميزان: (9 / 424)
أبو معشر السندي کو اختلاط و سوء حفظ کی بنیاد پر ضعیف کیا گیا، لیکن ابو نعیم الفضل بن دکین کی عبارت ملاحظہ کریں:
"قيل له: هو ثقة؟ قال: صالح لين الحديث محله الصدق". (تهذيب الكمال: (29 / 322)
أبو معشر کے متعلق دیگر ائمہ کی عبارات:
قال ابن عدي : "حدث عنه الثقات ومع ضعفه يكتب حديثه". (تهذيب التهذيب: (4 / 214)
قال أحمد : "صدوق لا يقيم الإسناد" ، وقال ابن معين : "ليس بالقوي" ، وقال ابن عدي: "يكتب حديثه مع ضعفه". (الكاشف (4 / 387)

إبراهيم بن إسماعيل الأشهلي كے متعلق یحی بن معین (ت233ھ) اور ابن عدی وغیرہ کی رائے:
قال ابن معين : ليس بشيء . وقال مرة يكتب حديثه ، ولا يحتج به.(تهذيب التهذيب: (1 / 58)
وقال ابن عدي : هو صالح في باب الرواية كما حكي عن يحيى بن معين ، ويكتب حديثه مع ضعفه.(تهذيب التهذيب: (1 / 58)
حدثنا عبد الرحمن ، أخبرنا يعقوب بن إسحاق الهروي فيما كتب إلي ، نا عثمان بن سعيد الدارمي قال : سألت يحيى بن معين قلت : إبراهيم بن إسماعيل بن أبي حبيبة ؟ فقال : صالح .(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (2 / 83) وقال عثمان بن سعيد الدارمي ، عن يحيى بن معين : صالح يكتب حديثه ، ولا يحتج به.(تهذيب الكمال: (2 / 42)

يحيى بن راشد المازني کے متعلق امام دارقطنی(ت385ھ) فرماتے ہیں:
"صويلح يعتبر به" .(تهذيب التهذيب: (4 / 353)، اور سنن الدارقطنی(برقم(1607) میں اسے متابعات میں ذکر بھی کیا ہے ۔حالانکہ ابن حجر وذہبی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام ترمذی نے ایک روایت کو ابو بکر بن عیاش اور امام وکیع کے طریق سے بیان کیا ہے، ابن سید الناس ترمذی کے اس منہج کے متعلق لکھتے ہیں:

"أورد الترمذي حديث الباب من طريق أبي بكر بن عياش، عن الأعمش، عن أبي إسحاق ثم أتبعه بحديث وكيع، عن سفيان، عن أبي إسحاق، وكلاهما عنده عن هنّاد، عنهما.وفائدة هذه المتابعة تقوية حديث أبي بكر بن عياش لسلامة وكيع مما طعن به على أبي بكر بن عياش." (النفح الشذي(3/ 27)
یہاں دو میں سے ایک راوی یعنی امام وکیع تو بذات خود حجت ہیں ، لیکن اس اقتباس سے ہمارا استدلال ایک ضعیف راوی کا دوسرے کی متابعت سے تقویت حاصل کرنا ہے۔
علامہ مغلطای(ت762ھ) ایک ہی راوی کی احادیث کی کبھی تحسین ، کبھی تصحیح اور کبھی تضعیف کے متعلق امام ترمذی کے لیے یہ توجیہ بیان کرتے ہیں کہ احکام کا یہ اختلاف روایات کے متابعات و شواہد کے عدم ووجود کی بنا پر ہوسکتا ہے۔ ( دیکھیں: شرح ابن ماجۃ لہ (ص: 782)
حسین بن محمد لاعی مغربی (ت1119ھ) شرح بلوغ المرام میں ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

"وأما حديث مظاهر فهو وإن كان مظاهر ممن لا يحتج به، ولكنه قد يعضد بغيره فيقوى ويحتج به. ..وقال ابن عدي: روى عنه جماعة من الثقات، وهو مع ضعفه يكتب حديثه. فيعتضد به وإن لم يعتمد عليه وحده." (البدر التمام شرح بلوغ المرام (8/ 234)
آخری بات ایک اور راوی عطیۃ العوفی کے متعلق ہے۔
مختلف ادوار کے ان محدثین سے پیش کردہ یہ اقتباسات اس بات پر بالکل واضح ہیں کہ ضعیف رواۃ یا ان کی احادیث ہر حال میں ضعیف نہیں رہتیں، بلکہ متابعات وشواہد کی بنا پر قبول و احتجاج کے درجہ تک پہنچی جاتی ہیں، وھذا ہو الحسن لغیرہ.
اچھا محدثین کے ہاں ضعیف اور جرح کے درجات بیان کرتے ہوئے، قابل اعتبار اور ناقابل اعتبار کی تفریق بھی توجہ طلب ہے۔ ضعیف لیکن قابل اعتبار کے متعلق امام العلل ابن المدینی(ت234ھ) کی خاص تصنیف کا حاکم(ت405ھ) وغیرہ نے ذکر بھی کیا ہے، فرماتے ہیں:

"ذكر النوع الحادي والخمسين من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين، فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح، ولم يسقطوا قد ذكرت فيما تقدم من ذكر مصنفات علي بن المديني، رحمه الله كتابا مترجما بهذه الصفة غير أني لم أر الكتاب قط، ولم أقف عليه، وهذا علم حسن، فإن في رواة الأخبار جماعة بهذه الصفة". (معرفة علوم الحديث (ص: 254)

تعدد طرق کی بنا پر تحسین حدیث کے متعلق چند اقوال

امام ابن خزیمہ(ت311ھ) ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"ابن لهيعة ليس ممن أخرج حديثه في هذا الكتاب إذا تفرد برواية، وإنما أخرجت هذا الخبر؛ لأن جابر بن إسماعيل معه في الإسناد". (صحيح ابن خزيمة (1/ 75)( 146)
جابر بن إسماعیل الحضرمی راوی حافظ ابن حجر کے مطابق ’مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث‘ ہے۔
گویا دونوں انفرادی طور پر قابل حجت نہیں، لیکن دونوں کو ملاکر ابن خزیمہ حدیث کو اپنی ’صحیح‘ میں لے آئے ہیں۔
امام بیہقی جمع بین الصلاتین کے متعلق متعدد احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"أبو قتادة العدوي أدرك عمر رضي الله عنه، فإن كان شهده كتب فهو موصول، وإلا فهو إذا انضم إلى الأول صار قويا، وقد روي فيه حديث موصول عن النبي صلى الله عليه وسلم في إسناده من لا يحتج به". (السنن الكبرى (3/ 240)( 5560)
گویا ضعیف اور مرسل کو ملاکر ’ قابل تقویت‘ بلکہ ’ قوی‘ قرار دیا ہے۔
ایک اور اسناد میں راوی کی تضعیف بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"إلا أن شواهده تقويه"(السنن الکبری(6/ 361)( 12243)
ایک اور جگہ مختلف احادیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"ورواية أبي هريرة، وأبي سعيد في إسنادهما من لا يحتج به، ولكنها إذا انضمت إلى رواية أبي قتادة أخذت بعض القوة. "(معرفة السنن والآثار (3/ 438)
ابن عبد البر(ت463ھ) ایک راوی الحکم بن عبد الملک کی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

"والحكم هذا ضعيف عنده مناكير لا يحتج به ولكن فيما تقدم ما يعضد هذا." (التمهيد (23/ 410)
امام نووی ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :

"قَالُوا: وَإِنْ كَانَتْ أَسَانِيدُ مُفْرَدَاتِهَا ضَعِيفَةً فَمَجْمُوعُهَا يُقَوِّي بَعْضُهُ بَعْضًا وَيَصِيرُ الْحَدِيثُ حَسَنًا وَيُحْتَجُّ بِهِ". (المجموع شرح المهذب (7/ 197)
حدیث لا ضرر ولا ضرار کو نووی نے اربعین میں ذکر کیا، اور فرمایا: "وله طرق يقوي بعضها بعضاً".
ابن دقیق (ت702ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

"وقال الشيخ أبو عمرو بن صلاح رحمه الله: أسند الدارقطني هذا الحديث من وجوه مجموعها يقوي الحديث ويحسنه وقد نقله جماهير أهل العلم واحتجوا به ،فعن أبي داود قال: الفقه يدور على خمسة أحاديث وعد هذا الحديث منها. قال الشيخ: فعد أبي داود له من الخمسة وقوله فيه: يشعر بكونه عنده غير ضعيف."
(انظر:شرح الأربعين النووية لابن دقيق العيد (ص: 106،108)
حافظ عراقى ورقہ بن نوفل کے متعلق ترمذی کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد، اس کے شواہد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فهذا مع حديث عائشة مع مرسل عروة يقوي بعضها بعضا، وهي تدل على إسلام ورقة وهو الصواب إن شاء الله تعالى". (طرح التثريب في شرح التقريب (1/ 122)
حافظ ابن حجر ایک راوی کے متعلق لکھتے ہیں:

"لا يعرف حاله مع ذلك، ولكن يقوى الحديث بشواهده". مزید لکھتے ہیں:"وأسانيدها يقوي بعضها بعضا "(الأمالي المطلقة (ص: 46)، ( ص:159)
ایک جگہ لکھتے ہیں:

"وَأخرج أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ من طَرِيق إِيَاس بن الْحَارِث بن معيقيب عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كَانَ خَاتم النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من حَدِيد ملويا عَلَيْهِ فضَّة الحَدِيث، وَله شَاهد من مُرْسل مكمول فِي طَبَقَات ابْن سعد وَآخر من مُرْسل إِبْرَاهِيم الْحَنَفِيّ عِنْده وثالث من رِوَايَة سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بن الْعَاصِ وَهَذِه طرق يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا". (الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع (ص: 114)
اس کے علاوہ فتح الباری اور دیگر تصنیفات میں ان کے اس منہج کی بہ کثرت مثالیں موجود ہیں، جو کہ الگ سے ایک مقالہ کی متقاضی ہیں۔
ابن حجر کے معاصر حنفی عالم دین بدر العینی (ت855ھ) شرح بخاری میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

"وَقَالَ بَعضهم هَذِه الزِّيَادَة رَوَاهَا أَبُو دَاوُد وَغَيره من حَدِيث عَائِشَة وَجَابِر رَضِي الله عَنْهُمَا وَغَيرهمَا بأسانيد ضَعِيفَة لَكِن يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا لما تقرر من أَن الضعْف إِذا كَانَ بِغَيْر فسق الرَّاوِي فَإِن الحَدِيث ينْتَقل إِلَى دَرَجَة الْحسن ويحتج بِهِ".(عمدة القاري (2/ 220)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

"قد شهد لمذهبنا عدَّة أَحَادِيث من الصَّحَابَة بطرق مُخْتَلفَة كَثِيرَة يُقَوي بَعْضهَا بَعْضًا، وَإِن كَانَ كل وَاحِد ضَعِيفا، لَكِن يحدث عِنْد الِاجْتِمَاع مَا لَا بِحَدَث عِنْد الِانْفِرَاد." (عمدة القاري (3/ 307)
مزید لکھتے ہیں :
"وَفِي الْجُمْلَة هَذِه الطّرق الْخَمْسَة يُقَوي بَعْضُها بَعْضًا". (عمدة القاري (21/ 87)
قسطلانی (ت923ھ) شرح بخاری میں لکھتے ہیں:

"وللحديث طرق أخرى يقوّي بعضها بعضًا". (إرشاد الساري (10/ 144)
اس کے علاوہ بھی ابن حجر و عینی وغیرہ کی پیروی میں انہوں نے کئی احادیث کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
مزید ملا علی قاری، صنعانی، المناوی، الشوکانی، شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمن مبارکپوری، عبید اللہ رحمانی وغیرہ تمام شروحات حدیث میں بہ کثرت حسن لغیرہ سے احتجاج کیا گیا ہے۔
ان میں بعض جگہوں پر اختلاف کی گنجائش ہے، جیساکہ حدیث کی تصحیح و تحسین میں عموما اختلاف ہوجاتا ہے، لیکن حسن لغیرہ کی حجیت کے منہج کے اثبات کے لیے یہ عبارتیں بالکل واضح ہیں۔

احکام ومسائل میں حسن لغیرہ احادیث

فقہ اور احکام و مسائل سے متعلق کتب سے چند احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے، جو ہمارے نزدیک حسن لغیرہ کے درجہ میں ہی قابل احتجاج ہیں، جو حسن لغیرہ کا انکار کرتے ہیں، ہمارے نزدیک وہ ان مسائل میں اس سے کم تر دلائل کی طرف جانے کےلیے مجبور ہوجائیں گے۔
(1)حدیث: النساء شقائق الرجال.
یہ حدیث حضرت عائشہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
حدیث عائشہ کی ایک سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے، ایک دوسری سند میں ابن لہیعۃ ضعیف ہے۔
حدیث انس کی سند میں محمد بن کثیر الصنعانی ضعیف ہے۔
امام احمد سے اس حدیث کی تضعیف بھی منقول ہے، اور یہ بھی منقول ہے کہ:
"وإليه أذهب".( فتح الباری لابن رجب(1/342)، جامع علوم الإمام احمد(14/15) کہ میرا موقف اس حدیث کے مطابق ہی ہے۔
امام احمد کے منہج کے حوالے سے گفتگو اوپر گزر چکی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متابعات وشواہد ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "
فالحديث حسن في الجملة". (موافقة الخبر(2/ 28)
گویا متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔

(2)حديث:مفتاح الصلاة الطهور
یہ حدیث حضرات علی و جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےاور یہ بالاتفاق تمام علما کے نزدیک حجت ہے۔
لیکن اس کی اسانید میں ضعف ہے۔ (تحفۃ الأحوذی(1/35) ظاہر ہے یہ حسن لغیرہ کے درجہ میں ہوگی۔ واللہ اعلم۔

(3)حديث: لاتتبع النظرة النظرة
یہ حدیث حضرات علی و بریدۃ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
ان صحابہ سے اس کے کئی ایک طرق ہیں، لیکن کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔
اس کے باوجود ترمذی نے اس كی تحسین کی ہے، ابن حبان نے صحیح میں نقل کیا، حاکم نے صحیح میں ذکر کرکے، اس کی تصحیح کی، اور ذہبی نے موافقت کی۔
ہماری نظر میں اس کی تحسین یا تصحیح اس کے تعدد طرق کی بنا پر ہی ہے، ورنہ اس کی ہر ایک سند میں ضعف بالکل واضح ہے ۔
اس حدیث کے متابعات وشواہد کے متعلق تفصیلی کلام کے لیے انیس الساری (9/6055)(4239) ملاحظہ کی جاسکتی ہے، اس کتاب میں بھی حافظ ابن حجر کے سکوت کو ذکر کرکے اسے حسن قرار دیا گیا ہے۔ شیخ البانی نے بھی متعدد کتابوں میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

(4)حديث: لا رمل على النساء
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث کی دو اسانید ملی ہیں، ایک میں لیث بن أبی سلیم(مصنف ابن أبي شيبة (3/ 150) (12951)، اور دوسری میں شریک القاضی ہیں،(السنن الكبرى للبيهقي (5/ 137) (9287 ) اور یہ دونوں سوء حفظ کی بنا پر ضعیف ہیں، لیکن متابعات میں ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حدیث قابل حجت ہے، اور اس مسئلہ میں کہ عورتوں پر رمل وغیرہ نہیں ائمہ کا اجماع ہے، جیساکہ ابن المنذر وغیرہ نے ذکر کیاہے۔ بلکہ امام شافعی نے اس مسئلہ میں اسی حدیث کو بطور حجت کے ذکر کیا ہے۔((الأم للشافعي (2/ 192)
جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ امام شافعی کے حسن لغیرہ کو حجت ماننے کی ایک اور دلیل ہے۔

(5)حديث: تذوق الطعام في الصيام
اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جواز کا اثر مروی ہے۔
اس اثر کی دو اسانید ہیں، ایک میں شریک القاضی سیء الحفظ ہے، دوسری میں جابر الجعفی ہے، جسے بعض لوگوں نے متروک کہا ہے، لیکن بعض ائمہ نے اسے ضعیف کہا ہے، حافظ ابن حجر اس حوالے سے متردد ہیں تقریب میں آخری رائے پر اعتماد کیا ہے ، جبکہ بعض دیگر جگہوں پر اسے متروک لکھا ہے۔ ابن عباس کے اس اثر کو امام بخاری نے صحیح میں تعلیقا ذکر کیا ہے، جبکہ ابن تیمیہ نے امام احمد کے حوالے سے اسے معرض استدلال میں ذکر کیا ہے۔( شرح العمدة - كتاب الصيام (1/ 480)
ہمارے نزدیک اس کی یہی توجیہ ہے کہ یہ حسن لغیرہ کے درجہ میں قابل احتجاج ہے ۔ واللہ أعلم۔
ان احاديث كو پیش کرکے ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ حسن لغیرہ احادیث شرعی احکام و مسائل میں دیگر احادیث کی طرح ہی اہم ہیں، جبکہ بعض نادان حسن لغیرہ ماننے کو باطل ماننے سے تشبیہ دیتے ہیں، گویا باطل کے رد کا تقاضا ہے کہ ساتھ حق کا بھی انکار کردیا جائے۔ حسن لغیرہ کا اتنے شدت سے انکار کیوں ہونا شروع ہوا؟ یہ الگ موضوع ہے، لیکن بادی النظر میں یہی سمجھ آتی ہے کہ مخالف کو دلائل سے عاری کرنے کی سوچ یہاں تک لے آئی ہے۔

عقیدہ سے متعلق حسن لغیرہ احادیث

یہاں ہم عقیدہ کے متعلق کچھ احادیث کو ذکر کریں گے، کہ جن سے عقیدہ کے باب میں احتجاج کیا گیا ہے، اور وہ حسن لغیرہ کے درجہ میں آتی ہیں۔
حديث: إثبات النفس لله
قرآن کریم کی ایک آیت ہے: کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ.
اس میں اللہ تعالی نے اپنے لیے ’نفس‘ کا اثبات کیا ہے، جہمیہ وغیرہ اس قسم کی صفات کے منکر ہیں، امام ابن خزیمہ نے اس صفت کے اثبات کے لیے قرآن کریم کی آیات کے ساتھ ساتھ، کئی ایک صحیح احادیث پیش کیں، جن میں سے کئی صحیحین میں ہیں، پھر آخر میں ایک حدیث یوں بیان کی:

حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي، قال: حدثنا خالد يعني ابن الحارث، عن محمد بن عجلان، وحدثنا محمد بن العلاء أبو كريب، قال: حدثنا أبو خالد، عن ابن عجلان، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لما خلق الله الخلق كتب بيده على نفسه أن رحمتي تغلب غضبي»(التوحيد لابن خزيمة (1/ 19)
ابن عجلان مختلف فيه راوی ہے، حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:
"صدوق، إلا أنه اختلطت عليه أحاديث أبي هريرة." (التقریب)
مدلسین کے طبقہ ثالثہ میں اس کا ذکر ہے، اور یہاں روایت بھی عن کے ساتھ ہے۔
ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جو استدلال کرنا تھا، وہ دیگر احادیث سے بھی ممکن تھا، لیکن اس کے باوجود اس روایت کو یہاں لے کر آنا، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ائمہ کرام متابعات و شواہد میں ضعف خفیف کو قبول کرلیتے تھے۔

حدیث: خلق اللہ آدم علی صورتہ
یہ مشہور حدیث ہے، اور اس کےمعنی کی تعیین میں بھی تفصیلی بحث ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ حدیث کی کتب میں صحیح اسانید کے ساتھ ہے۔
ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں اس حدیث کو محمد بن عجلان عن سعید المقبری عن أبی ہریرۃ کے طریق سے ذکر کیا ہے:

قال حدثنا الربيع بن سليمان المرادي، قال: ثنا شعيب يعني ابن الليث، قال: ثنا الليث، عن محمد بن عجلان، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة ، رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " لا يقولن أحدكم لأحد: قبح الله وجهك، ووجها أشبه وجهك، فإن الله خلق آدم على صورته ".
(التوحيد لابن خزيمة (1/ 81)
اس کے بعد انہوں نے اسی حدیث کی ایک اور متابعت بھی نقل کی ہے، اور اسی طریق سے یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔
حسن لغیرہ حجت نہیں ہوتی، اور صحیح کی موجودگی میں حسن لغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوالات واعتراضات امام الائمہ ابن خزیمہ وغیرہ پر بھی اٹھتے ہیں۔
بلکہ یہ حدیث ابن عجلان کے طریق سے اپنے دیگر صحیح و ضعیف متابعات وشواہد کے ساتھ السنۃ لعبد اللہ بن احمد اور الابانۃ لابن بطۃ، اور شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ للالکائی، الصفات للدارقطنی اور الاسماء والصفات للبیہقی وغیرہ کتب عقائد میں بھی ہے۔

حديث: الاعتقاد بالنجوم
عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أخوف ما أخاف على أمتي في آخر زمانها: النجوم، وتكذيب القدر، وحيف السلطان "
یہی حدیث حضرت انس و أبو الدرداء اور أبو محجن و جابر بن سمرة رضي الله عنهم کئی صحابہ سے ہم معنی مروی ہے۔
اور کوئی ایک بھی سند ضعف سے سالم نہیں۔
اس کے باوجود ابن أبی عاصم نے اسے السنۃ(1/ 142)(324) میں، ابو عمرو الدانی نے السنن الواردۃ فی الفتن(3/ 619) میں، اور بیہقی نے القضاء والقدر(ص: 285) میں ذکر کیا ہے۔
مناوی نے اس کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔(فیض القدیر(1/204)، شیخ البانی نے بھی کثرت طرق کی بنا پر اس کی تصحیح کی ہے۔(الصحیحۃ(برقم(1127)
فتح المجید شرح کتاب التوحید (ص: 318)میں اسے علم نجوم کی مذمت میں ذکر کیا گیا ہے، اور اس کی تحسین نقل کی گئی ہے۔
اس سے قبل ابن الوزیر نے اس حدیث کو اس کے شواہد سمیت العواصم والقواصم(6/295) میں قدریہ کی مذمت میں نقل کیا ہے۔
ہمارے علم کی حد تک کسی بھی ناقد یا محدث نے اس حدیث کو رد نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔
نوٹ: جابر بن سمرۃ والی حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن القاسم الاسدی ہے، جس پر شدید قسم کی جرح موجود ہے، ، البتہ بزار نے اس حدیث کو نقل کرنے کےبعد فرمایا ہے:
’’ ومحمد بن القاسم لين الحديث، وقد احتمل حديثه أهل العلم ورووا عنه.‘‘ (مسند البزار(10/ 200)
اس بنا پر یہ حدیث یہاں نقل کردی گئی ہے ۔

حدیث: المقام المحمود : الشفاعۃ
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله: {عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا} وسئل عنها قال: «هي الشفاعة»: " هذا حديث حسن. (سنن الترمذي(5/ 303)( 3137)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث عقائد کی کتب السنۃ لابن أبی عاصم(2/ 364)، التوحید لابن خزیمۃ (2/ 725)،الشریعۃ للآجری (4/ 1610)اور شرح اصول الاعتقاد للالکائی (6/ 1185)میں بھی ہے۔
حالانکہ اس کی سند میں داود بن یزید ضعیف،او راس کا باپ مقبول حیث یتابع وإلا فلین الحدیث ہے۔
امام ترمذی نے اس کی تحسین کی، کیونکہ اس کے کئی ایک شواہد موجود ہیں۔
امام ترمذی اور دیگر ائمہ عقیدہ کا اس کے دیگر شواہد پر اکتفا کرنے کی بجائے، اس حدیث کی تخریج کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک حسن لغیرہ حجت تھی۔

حدیث: سکت عن أشیاء من غیر نسیان
عن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن الله فرض فرائض، فلا تضيعوها، وحد حدودا فلا تعتدوها، وحرم أشياء، فلا تنتهكوها، وسكت عن أشياء رحمة لكم غير نسيان، فلا تبحثوا عنها.
یہ حدیث کئی ایک کتب حدیث میں ہے۔ ابن بطۃ نے اسے الإبانۃ میں ذکر کیا ہے، اور نووی نے اربعین میں اسلام کے بنیادی اصولوں میں اسے درج کیا ہے۔
حالانکہ اس کی سند منقطع ہے، کیونکہ مکحول کا ابو ثعلبہ سے سماع ثابت نہیں۔
نووی نے اسے سنن الدارقطنی کے حوالے سے ذکر کرکے، حسن قرار دیا ہے، اور اس کا حسن ہونا شواہد کی بنا پر ہی ہے، ابن رجب اس میں انقطاع کا ذکر کرنے کےبعد فرماتے ہیں:

"وقد حسن الشيخ رحمه الله هذا الحديث، وكذلك حسن قبله الحافظ أبو بكر بن السمعاني في " أماليه ". وقد روي معنى هذا الحديث مرفوعا من وجوه أخر." (جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط (2/ 150)
دیگر بعض لوگوں نے بھی نووی کی تحسین کو تعدد طرق پر محمول کیا ہے۔

اعتراضات اور ان کے جوابات

اعتراض:
حسن لغیرہ کا منہج جن کی عقل میں نہیں آسکا، ان لوگوں کی طرف سے بہت زور و شور سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ حسن لغیرہ کی کوئی منضبط تعریف نہیں ہے، تو ہم قائلین حسن لغیرہ کی بات کو کیسے مانیں؟ وغیرہ۔
ہم یہاں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے امام ذہبی کی ایک نصیحت نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں، حسن حدیث کی تعریف میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"لا تَطمَعْ بأنَّ للحسَنِ قاعدةً تندرجُ كلُّ الأحاديثِ الحِسانِ فيها، فأَنَا على إِياسٍ من ذلك! فَكَمْ مِن حديثٍ تردَّدَ فيه الحُفَّاظُ: هل هو حسَن؟ أو ضعيف؟ أو صحيحٌ؟ بل الحافظُ الواحدُ يتغيَّرُ اجتهادُه فی الحدیث الواحد... ".(الموقظة (ص: 28)
اور یہ حافظ ذہبی وہ ہیں، جنہوں نے درجنوں احادیث و رواۃ کی تحسین کی ہے، کیونکہ یہ ائمہ محدثین دو جمع دو چار ذہنیت والے اصول حدیث سے اعلی و ارفع تھے۔

والذی ینکر تحسين الحديث وتقويته بانضام الضعيف إلى الضعيف، كأنه يضم ضعف علمه بمنهج المحدثين وسوءفهمه لكلامهم إلى ضعف عقله و قلة رشده، فيجعل نفسه -الضعيف جدا -مقام الحجة، والله المستعان وعليه التكلان، وهو يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم.

اعتراض:
امام ابن معین کی ایک عبارت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره.
فريق ثانی کا یہ دعوی ہے کہ امام ابن معین کا یہ قول حسن لغیرہ کی عدم حجیت پر دلیل ہے۔
پہلے یہ عبارت سیاق و سباق کے ساتھ ملاحظہ کرلیجیے:

"قد روى شعبة أيضا في القطع في ربع دينار فصاعدا حديث الزهري لم يروه غيره وقد خالفه غيره ولم يرفعه أبو سفيان الذي يروي عن جابر وقيل له فقال ليته يصحح نفسه فكيف يصحح غيره." (من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال (ص: 44)
ہمارے علم کے مطابق یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے، مثلا:
1۔ ابن معین کی یہ بات ایک حدیث کی تعلیل میں منقول ہے، وہ حدیث جس کی سند میں اختلاف ہے، اور یہ بات ہم شروع سے کہہ چکے ہیں کہ شاذ ومنکر وجہ کے راوی ثقہ بھی ہوں، تو قابل حجت نہیں، ضعیف تو بالاولی نہیں ہوں گے۔
2۔ اس پیرے میں پیش کردہ عبارتیں بے ربط محسوس ہورہی ہیں، مثلا قیل لہ فقال... یہاں قیل اور اس کے بعد قال کا آپس میں کیا ربط ہے؟ اور لیتہ یصحح.. والے جملے میں ابن معین کا یہ تبصرہ کس کے متعلق ہے؟
شاید یہ عبارت نامکمل ہے، محقق کتاب نے بھی سقط و تصحیف کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ابن معین کی اس عبارت کو کہیں اور سے تلاش کیا جائے، تو شاید اس کا عقدہ کھل سکتا ہے۔
3۔ میں نے اس عبارت پر کافی غور کیا، سمجھ نہیں آرہی، کہ اس میں کس ضعیف نے کس ضعیف کی متابعت کی، یا کم از کم کس ضعیف کے متعلق یہ جملہ بولا گیا ہے کہ وہ تو خود قابل حجت نہیں، تو دوسرے کو کیا فائدہ دے گا؟
یہ حدیث امام احمد کی العلل ومعرفۃ الرجال ۔ روایۃ ابنہ(1/194) میں سفیان ثوری کے حوالے سے مذکور ہے، اسی طرح علل الدار قطنی میں دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، اور تفصیل سے انہوں نے اس کی مختلف وجوہ پر کلام کیا ہے۔

اعتراض:
حسن لغیرہ کی تعریف کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے، انقطاع و ضعف کی مختلف اقسام کو ذکر کرکے احتمالات کی لائن لگادی جاتی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس قسم کے اعتراضات اور استحالے قائم کرنا یہ محدثین کا طریقہ نہیں ہے، مجرد احتمالات اور علم منطق کی رو سے اصول حدیث کو زیر بحث لایا جائے، تو صحیحین میں موجود اصح الاسانید بھی محل نظر ہوجائیں گی۔
ہاں جن احتمالات و وجوہات کو محدثین ذکر کریں، ان کو تحریر و تقریر کی زینت بنانا طالب حدیث کے شایان شان ہونا چاہیے۔

اعتراض:
حسن لغیرہ کے منکرین ایک شبہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ متابعات و شواہد یا اعتبار سے مراد، ضعیف جمع ضعیف کی متابعت نہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ضعیف ہے، جس کی ثقہ متابعت کرے۔
یہ توجیہ و اعتذار اس فریق کے منہجی اضطراب کی علامت ہے، کیونکہ جب ضعیف ہر حال میں ہی ضعیف رہتا ہے، تو پھر اس کی متابعت ثقہ کرے یا ضعیف، وہ قابل احتجاج کیونکر ہوگا؟
اسی وجہ سے اس فریق کے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ضعیف اور ثقہ متابعت کریں، تو اعتماد ثقہ پر ہے، ضعیف چنداں قابل التفات نہیں۔
بہر صورت یہ عذر پیش کیا جائے، یا وہ، دونوں ہی درست نہیں۔ محدثین کے ہاں دونوں طرح کی متابعت اور اعتبار کی مثالیں موجود ہیں، جو کہ اوپر پیش کی جاچکی ہیں۔
اور پھر محدثین نے جب اعتبار کی بات کی ہے، تو وہ ضعیف جدا وغیرہ لوگوں کی روایات اعتبار میں بھی لینے سے منع کیا ہے، حالانکہ جب اعتماد ثقہ پر ہی کرنا ہے، تو پھر ضعیف یا ضعیف جدا ایک برابر ہیں۔
محدثین کے ہاں یعتبر بہ ولا یعتبربہ والی تفریق کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حسن لغیرہ کے منکرین ، ائمہ محدثین کی تطبیقات و تاصیلات کو درست سمت میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔


[1] فریقین کی تحریریں ملاحظہ کرنے کے لیے محدث فورم کا درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:
http://forum.mohaddis.com/threads/38871/
یا پھر ’ أسماء الرجال، قواعد وتطبیقات‘ نامی مجموعہ کے مدیر حافظ ابو سفیان بن عباس میرمحمدی صاحب سے رابطہ کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top